Tag: مسرور انور

  • سدا بہار فلمی گیت اور لازوال ملّی نغمات کے خالق مسرور انور کا تذکرہ

    سدا بہار فلمی گیت اور لازوال ملّی نغمات کے خالق مسرور انور کا تذکرہ

    مسرور انور کا نام پاکستان کے ان نغمہ نگاروں میں شامل ہے جن کے تحریر کردہ فلمی گیت ہی نہیں ملّی نغمات بھی لازوال ثابت ہوئے۔ آج مسرور انور کی برسی منائی جارہی ہے۔

    مسرور انور کا یہ فلمی نغمہ آج بھی سماعتوں میں‌ رس گھول رہا ہے، جس کے بول ہیں "یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی۔” اور اسی طرح‌ درجنوں فلمی نغمات مسرور انور کی تخلیق ہیں جو آج بھی دلوں‌ میں‌ گداز پیدا کرتے ہیں اور جذبات کا طوفان اٹھا دیتے ہیں‌۔ مسرور انور شاعر ہی نہیں‌ فلم نویس بھی تھے۔

    5 جنوری 1944 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر شملہ میں پیدا ہونے والے مسرور انور نے 1962 میں اپنی پہلی فلم بنجارن کے گیت لکھے۔ اس آغاز کے بعد انھیں‌ اصل شہرت وحید مراد کی فلم ہیرا اور پتھر کے گیتوں سے ملی جس کے بعد شاعر مسرور انور کے زیادہ تر نغمات گلوکار احمد رشدی اور سہیل رعنا کی آواز میں‌ سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران مسرور انور نے اپنے ملّی نغمات سے پوری قوم کا لہو گرما دیا۔ ان کا یہ نغمہ "اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں” مہدی حسن کی آواز میں‌ گونجا اور پاکستان کا مقبول ترین ملّی گیت "سوہنی دھرتی اللہ رکھے” ناقابلِ فراموش ثابت ہوا۔

    مسرور انور نے 1966 میں ریلیز ہونے والی فلم ارمان کے نغمات لکھ کر زبردست کام یابی سمیٹی تھی اور اس فلم کا ہر گیت سپر ہٹ تھا جن میں اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم… اور کوکو کورینا جیسے گیت شامل تھے۔ اس کے علاوہ ہاں اسی موڑ پر، اس جگہ بیٹھ کر، اور ایک نئے موڑ پر لے آئے ہیں حالات مجھے… نے بھی مقبولیت کی نئی بلندیوں کو چھوا۔ مسرور انور نے نثار بزمی جیسے موسیقار کے ساتھ بھی کام کیا اور ان کی جوڑی بہت مقبول ہوئی۔ فلم لاکھوں میں ایک کا گیت "چلو اچھا ہوا تم بھول گئے”، فلم صاعقہ کا "اک ستم اور میری جاں ابھی ہے،” اور فلم عندلیب کا یہ رومانوی گیت "کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے” کون بھول سکتا ہے۔ یہ گیت بھی مسرور انور کی یاد دلاتے رہیں گے۔

    مسرور انور نے شاعری، فلمی کہانیاں اور مکالمے تحریر کرنے کے علاوہ چند فلموں کے لیے ہدایات بھی دیں۔ ان کی ایک فلم سوغات کو پاکستانی فلم انڈسٹری کی کام یاب فلم کہا جاتا ہے۔ مسرور انور کو سات نگار ایوارڈز کے علاوہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی بھی دیا گیا تھا۔ معروف شاعر اور اسکرپٹ رائٹر مسرور انور یکم اپریل 1996 کو مختصر علالت کے بعد لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔

  • ملّی نغمہ سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد اور مسرور انور

    ملّی نغمہ سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد اور مسرور انور

    جشنِ آزادی کے موقع پر وطنِ عزیز پاکستان کے طول و عرض میں وطن کی سلامتی و استحکام کے لیے اور آزادی کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے دعا کی صورت یہ ملّی نغمہ گونج رہا ہے،’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد۔‘‘

    پاکستانیوں کے دل کی آواز بننے والا یہ نغمہ ہر سماعت میں‌ محفوظ ہے اور آج آزادی کے جشن اور یادگار دن پر جھوم جھوم کر سنا اور گایا جارہا ہے۔

    اس ملّی نغمے کے خالق پاکستان کے نام وَر شاعر مسرور انور ہیں جنھوں نے فلمی گیت بھی لکھے اور اپنے وطن پاکستان کے لیے بھی ایسے نغمات تخلیق کیے جن کی مقبولیت آج ہی نہیں آنے والے وقتوں میں بھی برقرار رہے گی۔

    مسرور انور 1962ء سے 1990ء تک پاکستانی فلمی صنعت کے لیے گیت نگاری کرتے رہے اور ممتاز ترین نغمہ نگاروں میں شامل ہوئے۔ انھوں نے 1970ء کے اوائل میں جو ملّی نغمات لکھے انھیں بے حد مقبولیت ملی اور سوہنی دھرتی اللہ رکھے کے علاوہ سرفروشی اور وقت پڑنے پر جذبہ شہادت سے مغلوب ہوکر میدانِ جنگ میں اترنے والے قوم کے دلیر شیر جوانوں سے اس نغمے کے ذریعے مخاطب ہوئے اور کہا، اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں، قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں….!

    مسرور انور کا یہ ملّی نغمہ وطن کی مٹی گواہ رہنا بھی سبھی کی سماعتوں میں تازہ ہے۔ انھوں نے وطن کی خوب صورتی اور آزادی پر نثار ہوتے ہوئے یہ نغمہ بھی قوم کے لیے پیش کیا جو آج پھر ہمارے لبوں پر رقصاں ہے، جگ جگ جیے میرا پیارا وطن، لب پہ دعا ہے دل میں لگن۔

    سوہنی دھرتی اللہ رکھے وہ نغمہ تھا جو شہناز بیگم کی آواز میں پاکستان کی ثقافتی پہچان بن گیا۔

  • سدا بہار فلمی گیتوں اور قومی نغمات کے خالق مسرور انور کی برسی

    سدا بہار فلمی گیتوں اور قومی نغمات کے خالق مسرور انور کی برسی

    پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف شاعر مسرور انور یکم اپریل 1996ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ فلمی گیتوں کے علاوہ مسرور انور کئی لازوال اور یادگار قومی نغمات کے بھی خالق ہیں۔

    مسرور انور کا اصل نام انور علی تھا۔ 6 جنوری 1944ء کو شملہ میں پیدا ہونے والے انور علی نے قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کی اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ یہاں سے میٹرک کے بعد انھوں نے پی آئی اے میں ملازمت اختیار کرلی، لیکن ادبی رجحان اور شاعری کا شوق انھیں ریڈیو پاکستان لے آیا جہاں اسٹاف آرٹسٹ کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔

    ریڈیو پاکستان پر معروف اداکار اور صداکار ابراہیم نفیس کے توسط سے انھیں فلم ساز اور ہدایت کار اقبال شہزاد سے ملاقات کا موقع ملا جنھوں نے مسرور انور کو فلم بنجارن کے نغمات لکھنے کی پیش کش کی۔ یہ فلم کام یاب رہی اور مسرور انور کا فلمی شاعر کی حیثیت سے سفر شروع ہوا، بعد میں انھوں نے فلم شرارت اور بدنام کے گیت لکھے۔ فلم انڈسٹری میں‌ ان سے ہیرا اور پتھر، ارمان، احسان اور دوراہا جیسی فلموں کے نغمات لکھوائے گئے جنھوں نے مسرور انور کو بھی شہرت دی۔ ان کام یابیوں کے بعد وہ لاہور منتقل ہوگئے جہاں نثار بزمی کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں ان کے لکھے ہوئے گیتوں نے سرحد پار بھی مقبولیت حاصل کی۔

    مسرور انور نے شاعری کے ساتھ متعدد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کیے اور چند فلموں کی ہدایات بھی دیں۔ ایسی ہی فلم سوغات ہے جو پاکستان کی شاہ کار فلموں میں شمار ہوتی ہے۔

    سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد تجھے، اپنی جاں نذر کروں، وطن کی مٹّی گواہ رہنا، جگ جگ جیے مرا پیارا وطن اور ہم سب لہریں، کنارا پاکستان مسرور انور ہی کے تخلیق کردہ قومی نغمات ہیں۔ انھیں سات نگار ایوارڈز ملے جب کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔