Tag: مسعود رانا

  • پاکستان فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے گلوکار مسعود رانا کا تذکرہ

    پاکستان فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے گلوکار مسعود رانا کا تذکرہ

    پاکستان کی فلمی صنعت سے وابستہ ہوکر اپنی مدھر آواز کا جادو جگانے والے مسعود رانا 2005ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    اس عظیم گلوکار کا فنی سفر تین عشروں پر محیط ہے جس میں انھوں نے اردو اور پنجابی فلموں کے لیے گیت گائے۔ ایسے گیت جن کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور مسعود رانا کی آواز بھی سماعتوں میں محفوظ ہے۔

    گلوکار مسعود رانا 9 جون 1938ء کو سندھ کے شہر میرپورخاص میں پیدا ہوئے۔ ان کے فلمی کیریئر کا آغاز 1962ء میں بننے والی فلم انقلاب سے ہوا۔ انھوں نے بہت جلد اردو اور پنجابی کے نام وَر گلوکاروں کے درمیان اپنی پہچان بنا لی اور انڈسٹری میں ان کی مصروفیت بڑھتی چلی گئی۔

    مسعود رانا کو پاکستان فلم انڈسٹری کا مکمل اور ورسٹائل گلوکار کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اپنے وقت کے بڑے بڑے فلم ساز ضرور اپنی فلم کے لیے ان سے رابطہ کرتے تھے۔

    مسعود رانا نے اپنے فنی کیریئر میں 700 سے زائد گانے ریکارڈ کرائے اور ساتھی گلوکاروں کے ساتھ ان کے دو گانے بھی بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے بڑے اور نام ور گلوکاروں کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگایا اور اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ مسعود رانا نے چند پاکستانی فلموں میں اداکاری بھی کی۔

    ان کے مشہور اردو گانوں میں فلم آئینہ کا گانا ’تم ہی ہو محبوب میرے، میں کیوں نہ تم سے پیار کروں‘ فلم بدنام کا گانا ’کوئی ساتھ دے کہ نہ ساتھ دے یہ سفر اکیلے ہی کاٹ لے‘ فلم چاند اور چاندنی کا گانا ’تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے‘ اور دیگر مقبول گانے شامل ہیں۔

    انھوں‌ نے آئینہ، دھڑکن، مجاہد، نائلہ، کون کسی کا، بھیّا، سنگ دل، پاک دامن، احساس، دامن اور چنگاری، میرا ماہی، مرزا جٹ، دھی رانی اور کئی فلموں‌ کے لیے گیت گائے۔

    مسعود رانا کا شمار ان گلوکاروں‌ میں‌ ہوتا ہے جنھیں خاص طور پر ہائی پِچ کے گيت ريکارڈ کرانے کے لیے موزوں سمجھا جاتا تھا۔ رومانوی گیت ہی نہیں طربیہ دھنوں اور غمگین شاعری‌ کو اپنی دل گداز آواز دینے والے مسعود رانا کو ان کی اسی خوبی نے اپنے دور کے دیگر گلوکاروں میں‌ ممتاز کیا۔

  • عظیم گلوکار مسعود رانا کی برسی

    عظیم گلوکار مسعود رانا کی برسی

    مسعود رانا کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 25 برس بیت گئے۔ آج پاکستان کے اس معروف گلوکار کی برسی ہے۔ مسعود رانا 4 اکتوبر 1995 کو وفات پاگئے تھے۔

    پلے بیک سنگر کی حیثیت سے فلم ہمراہی کے گیتوں نے مسعود رانا کو شہرت کی بلندیوں‌ پر پہنچایا اور وہ فلم انڈسٹری میں‌ موسیقاروں اور فلم سازوں کی ترجیح بن گئے۔ فلم ڈاچی کے گیتوں نے بھی ان کی شہرت اور مقبولیت میں‌ اضافہ کیا۔ مسعود رانا کا شمار ان گلوکاروں‌ میں‌ ہوتا ہے جنھیں خاص طور پر ہائی پِچ کے گيت ريکارڈ کرانے کے لیے موزوں سمجھا جاتا تھا۔ رومانوی گیت ہی نہیں طربیہ دھنوں اور غمگین شاعری‌ کو اپنی دل گداز آواز دینے والے مسعود رانا ورسٹائل فن کار تھے اور ان کی اسی خوبی نے انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں میں‌ ممتاز کیا۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس عظیم گلوکار کا تعلق سندھ کے شہر میرپورخاص سے تھا جہاں انھوں‌ نے 9 جون 1938 کو آنکھ کھولی۔

    مسعود رانا کی آواز میں‌ فلم آئینہ کا نغمہ ’تم ہی ہو محبوب میرے، میں کیوں نہ تم سے پیار کروں‘ بہت مقبول ہوا اور آج بھی سماعتوں میں‌ رس گھول رہا ہے۔ فلم چاند اور چاندنی کا گیت ’تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے‘ ان کی پُرسوز آواز میں اب بھی سنا جاتا ہے اور یہ اپنے وقت کے مقبول ترین گیتوں میں‌ سے ایک تھا۔

    گلوکاری کی دنیا کے اس نام وَر اور فلم نگری کے باکمال پلے بیک سنگر نے اردو اور پنجابی فلموں کے لیے 550 سے زائد گيت گائے اور تین دہائیوں سے زائد عرصے تک شائقینِ موسیقی اور مداحوں کے لیے اپنی پُرسوز اور دل گداز آواز میں‌ گیت ریکارڈ کروائے۔ انھوں‌ نے آئینہ، دھڑکن، مجاہد، نائلہ، کون کسی کا، بھیّا، سنگ دل، پاک دامن، احساس، دامن اور چنگاری، میرا ماہی، مرزا جٹ، دھی رانی اور کئی فلموں‌ کے لیے گیت گائے۔