Tag: مسلز

  • بڑھاپا لانے والی ایک اور وجہ

    یوں تو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمارے جسم کا ہر حصہ کمزور ہوتا جاتا ہے، تاہم حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ پہلے سے کمزور پٹھے بڑھاپے کے عمل کو تیز کردیتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق مشی گن یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق کے مطابق پٹھوں کی کمزور گرفت حیاتیاتی عمر کو تیزی سے بڑھاتی ہے جو بڑھاپے کے ایک بنیادی محرک ہے۔

    محققین کے مطابق یہ پہلی تحقیق ہے جو پٹھوں کی کمزوری اور حیاتیاتی عمر میں تیزی کے درمیان تعلق کے ابتدائی ثبوت فراہم کرتی ہے، جبکہ پٹھوں کی طاقت کو برقرار رکھ کر جہاں آپ کئی امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں وہیں کئی امراض سے بچاؤ عمر کو بڑھانے میں معاون بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں ماہرین نے دریافت کیا کہ گرفت کی طاقت، پٹھوں کی مجموعی طاقت کا ایک پیمانہ، اور اس طرح سے یہ حیاتیاتی عمر سے منسلک ہے۔ ماضی میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق ایسے افراد جن میں گرفت کی طاقت کمزور ہوتی ہے ان کی حیاتیاتی عمر زیادہ ہوتی ہے۔

    مشی گن میڈیسن کے محققین نے ڈی این اے میتھیلیشن کو اپناتے ہوئے 12 سو 74 ادھیڑ عمر اور بوڑھے بالغوں کی حیاتیاتی عمر اور گرفت کی طاقت کے درمیان تعلق کو ماڈل بنایا، یہ ایک ایسا عمل ہے جو سالماتی بائیو مارکر اور عمر بڑھنے کی رفتار کا تخمینہ فراہم کرتا ہے۔

    نتائج کے مطابق بوڑھے مرد اورخواتین دونوں نے ڈی این اے میتھیلیشن گھڑیوں میں کم گرفت کی طاقت اور حیاتیاتی عمر میں تیزی کے درمیان تعلق کو ظاہر کیا۔

    اس تحقیق کے اہم مصنف مارک پیٹرسن، پی ایچ ڈی، ایم ایس جو کہ مشی گن یونیورسٹی میں فزیکل میڈیسن اور بحالی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ پٹھوں کی طاقت لمبی عمر اور کمزوری بیماریوں کا پش خیمہ ہے لیکن، پہلی بار، ہمیں پٹھوں کی کمزوری اور حیاتیاتی عمر میں تیزی کے درمیان تعلق کے مضبوط ثبوت ملے ہیں۔

    اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر آپ عمر بھر اپنے پٹھوں کی طاقت کو برقرار رکھتے ہیں، تو آپ بڑھتی عمر سے متعلق بہت سی عام بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں کیونکہ پٹھوں کی کمزوری نئی سگریٹ نوشی کے مترادف ہے جو بڑھاپے کے عمل کو تیز کر دیتی ہے۔

    یہ تحقیق 10 برس کے مشاہدے پر مشتمل تھی جس میں گرفت کی کم طاقت نے ایک دہائی کے بعد تیز تر حیاتیاتی عمر بڑھنے کی پیش گوئی کی تھی۔

    ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ پٹھوں کو مضبوط بنانے کے لیے صحت مند غذائی عادات اپنانا اور باقاعدگی سے ورزش کرنا نہایت ضروری ہے جو مضبوط گرفت کے ساتھ مجموعی صحت کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرے گی۔

  • بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ مسلز بہتر بنانا بھی آسان

    بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ مسلز بہتر بنانا بھی آسان

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مردوں میں 30 سال کی عمر کے بعد مسلز کے حجم میں 3 سے 5 فیصد تک کمی آسکتی ہے جبکہ مسلز بنانے میں مددگار ہارمون ٹیسٹوسیٹرون کی سطح میں بھی 40 سال کی عمر کے بعد بتدریج کمی آتی ہے۔

    مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ آنے والی اس قدرتی تنزلی کی رفتار کو سست یا ریورس کیا جاسکتا ہے، اس کا حل ہے وزن اٹھانا یا ویٹ لفٹنگ، اکثر ایسا کرنا مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    ہارورڈ یونیورسٹی کے فزیکل تھراپسٹ شان پیڈیسنی نے بتایا کہ ویٹ ٹریننگ اپنے مسلز کے حجم کو برقرار رکھنے بلکہ بڑھانے کا بہترین طریقہ ہے، ورنہ دوسری صورت میں آپ عمر بڑھنے سے مسلز سے محروم ہوسکتے ہیں۔

    تاہم اسے کس طرح سے اپنایا جاسکتا ہے؟ اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کریں۔

    ٹرینر کی خدمات

    ایک اچھا ٹرینر آپ کے لیے ایک پروگرام تشکیل دے سکتا ہے اور آپ کو درست تکنیک بھی سکھا سکتا ہے۔

    فری ویٹ مددگار

    فری ویٹ جیسے ڈمبلز، کیٹل بیلز اور باربیلز سے ٹریننگ مسلز بنانے کے لیے اکثر مشینوں سے زیادہ بہتر ثابت ہوتے ہیں، اگر جسمانی توازن برقرار رکھنے میں مشکل کا سامنا ہو تو ایکسرسائز مشینیں بہتر ہیں۔

    ٹانگوں کے مسلز پر خصوصی توجہ

    ویسے تو اہم مسلز کے حجم کو کم ہونے سے روکنے کے لیے پورے جسم کی ورزش کی ضرورت ہوتی ہے مگر درمیانی عمر میں مردوں کو ٹانگوں کے مسلز پر خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔

    ماہرین کے مطابق ٹانگوں کے مسلز روزمرہ کی متعدد سرگرمیوں جیسے اٹھنے بیٹھنے اور سیڑھیاں چڑھنے کا حصہ بنتے ہیں تو ان کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

    اس حوالے سے اٹھک بیٹھک، ڈیڈ لفٹ وغیرہ ٹانگوں کے مسلز بنانے کے لیے بہترین ورزشیں ہیں۔

    ٹیمپو برقرار رکھنا

    لفٹنگ کو 7 سیکنڈ ٹیمپو میں مکمل کرنا چاہیئے، یعنی 3 سیکنڈ میں ویٹ لفٹ کرنا، ایک سیکنڈ رکنا اور 3 سیکنڈ نیچے کرنا۔

    اگر آپ سے کم از کم 8 بار وزن اوپر نیچے نہیں کیا جارہا تو پھر یہ عمل اپنی سہولت کے مطابق آرام سے مسلز کو تھکائے بغیر 8 بار مکمل کریں۔ مسلز اسی صورت میں مضبوط ہوتے ہیں جب آپ ان میں مزاحمت کا اضافہ کریں۔

    2 دن بھی کافی

    ہر ہفتے کم از کم 2 بار ویٹ ٹریننگ کرنا مثالی سمجھا جاسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہفتے میں 2 دن فل باڈی ٹریننگ سے مسلز کی مضبوطی میں نمایاں بہتری آسکتی ہے اور ورزش کو باقاعدہ بنانے سے 4 سے 6 ہفتوں میں نتائج کو محسوس کرسکتے ہیں۔

    آرام دیں

    مسلز کو ریکوری کے لیے ورزش کے مزید سیشنز میں کم از کم 48 گھنٹے کا وقفہ ضرور دیں۔

    یاد رکھیں

    ماہرین کے مطابق درمیانی عمر کے مردوں کو زیادہ مسلز کے حصول کے لیے بھاری وزن کی ورزشوں کو کم بار کرنا چاہیئے، مثال کے طور پر ہر ورزش کے 3 سیٹس کو 8 دفعہ دہرانا بہترین ہے، مگر آپ اپنی ضرورت کے مطابق اس میں کمی بیشی کرسکتے ہیں۔

  • انسانی جسم کا نیا حصہ دریافت

    انسانی جسم کا نیا حصہ دریافت

    سائنس دانوں نے انسانی جسم کا ایک نیا حصہ دریافت کر لیا ہے، جس نے اکیسویں صدی میں لوگوں کو حیران کر دیا، یہ کارنامہ سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے انجام دیا ہے۔

    اس وقت جب کہ ناسا نے آج ہی اربوں میل دور کائناتی اسرار سے پردہ اٹھانے کے لیے 10 بلین ڈالرز لاگت کی ایک نئی خلائی دوربین لانچ کر دی ہے، ہم ابھی تک انسانی جسم کا مکمل پتا لگانے سے بہت دور ہیں، اور اس کا ایک بڑا ثبوت سائنس دانوں کی جانب سے یہ نئی دریافت ہے۔

    طبی جریدے اینلز آف اناٹومی کے مطابق طبی سائنس دانوں نے انسانی جلد کے نیچے ایک نیا حصہ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ نچلے جبڑے میں موجود مسلز کی ایک تہہ ہے جو چبانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، نیسلٹڈ ڈیپ نامی یہ مسل (پٹھا) جبڑوں کے مسلز کا حصہ ہے جو گالوں اور نچلے جبڑے کے عقب میں ہوتا ہے۔

    محققین کے مطابق 2017 تک یہ مانا جاتا تھا کہ انسانی جسم میں 78 اعضا ہیں مگر پھر میسینٹری (آنتوں کو معدے کے بیرونی حصے سے جوڑنے والی جھلی) کا اضافہ ہوا، جس کے بعد یہ تعداد 79 ہوگئی جب کہ 2018 اور 2019 میں بھی 2 نئے حصے دریافت کرنے کے دعوے سامنے آئے۔

    نئے دریافت شدہ مسل کو کوئی چیز چبانے کے دوران گالوں کے پیچھے انگلیاں رکھ کر محسوس بھی کیا جا سکتا ہے، اس سے قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ 2 تہوں پر مبنی مسل ہے، مگر کچھ ماہرین نے ایک تیسری اور زیادہ پراسرار تہہ کا خیال ظاہر کیا تھا۔

    سوئٹزرلینڈ کے یونیورسٹی سینٹر فار ڈینٹل میڈیسین باسل کے محققین نے بتایا کہ متضاد خیالات کو دیکھتے ہوئے ہم نے جبڑے کے اس مسل کی ساخت کی منظم جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا، اور اس طرح جبڑے کے مسل کی اس تیسری تہہ کو آخر کار دریافت کر لیا گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ masseter مسلز (عضلات) کی گہرائی میں موجود ایک تیسری تہہ واضح طور پر افعال کے باعث دیگر 2 تہوں سے الگ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی جسم کا یہ نیا مسل نچلے جبڑے کو مستحکم رکھنے میں کردار ادا کرتا ہے، تاہم اس حوالے سے مزید تحقیق بھی کی جائے گی۔

    ماہرین نے اس نئے حصے کا نام Musculus masseter pars coronidea کا نام تجویز کیا ہے۔

  • کمر میں ہونے والا درد کہیں کرونا وائرس کی علامت تو نہیں؟

    کمر میں ہونے والا درد کہیں کرونا وائرس کی علامت تو نہیں؟

    دنیا بھر کو اپنا نشانہ بنانے والا کرونا وائرس ایک بار پھر اپنے پنجے گاڑ رہا ہے، اب تک اس کی بے شمار علامات سامنے آچکی ہیں تاہم اب ماہرین نے اس کی ایک اور علامت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے بارے میں بہت کم افراد جانتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی ایک علامت مائلجیا بھی ہوسکتی ہے۔ مائلجیا جسم کے مسلز میں ہونے والے درد کو کہا جاتا ہے۔

    اس تکلیف میں ہڈیوں اور مسلز کے نرم ٹشوز میں شدید درد اور کھنچاؤ ہوتا ہے جس کی وجہ سے پورے جسم خاص طور پر کمر اور جوڑوں میں درد ہوتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں کرونا وائرس کے 14 فیصد سے زائد مریضوں نے مائلجیا اور جوڑوں کے درد کی شکایت کی۔

    ماہرین کے مطابق کرونا وائرس کا شکار افراد دیگر علامات کی وجہ سے تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں جس کے باعث یہ علامت نظر انداز ہوجاتی ہے، حالانکہ یہ علامت گلے کی سوزش اور سر درد سے بھی زیادہ عام دیکھی جارہی ہے۔

    یاد رہے کہ کرونا وائرس کی عمومی علامات بخار، خشک کھانسی، گلے میں سوزش، سینے میں درد اور سانس لینے میں مشکل پیش آنا ہے۔

    ماہرین کے مطابق کوویڈ 19 کی کم پائی جانے والی علامات میں معدے کا درد، آنکھوں میں انفیکشن، اور دماغی دھند چھا جانا یعنی واضح طور پر کسی چیز کو نہ سمجھ پانا بھی شامل ہے۔

  • ہاتھی کی سونڈ میں کیا ہے؟

    ہاتھی کی سونڈ میں کیا ہے؟

    دنیا کا ہر جاندار اپنے اندر کوئی نہ کوئی ایسی جسمانی انفرادیت رکھتا ہے جو ایک طرف تو اسے دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتی ہے تو دوسری طرف اسے مختلف خطرات سے بھی بچاتی ہے۔

    ہاتھی کی انفرادیت اس کی لمبی سونڈ ہے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہاتھی کی یہ ناک اپنے اندر کیا کیا خصوصیات رکھتی ہے؟ آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

    بظاہر یہ ہاتھی کی ناک ہے لیکن اگر آپ لیبارٹری میں کسی سونڈ کو کاٹ کر دیکھیں تو یہ ناک سے زیادہ انسانی زبان سے مشابہہ نظر آئے گی۔

    دراصل ہاتھی کی سونڈ، کسی دوسرے جانور کی زبان اور ہشت پا یعنی آکٹوپس کے بازو نہایت منفرد اعضا ہیں جنہیں ہائیڈرو اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ مکمل طور پر مسلز سے بنے ہوئے ہیں تاہم سونڈ میں یہ مسلز بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق ہاتھی کی سونڈ میں 40 ہزار مسلز ہوتے ہیں جبکہ پورے انسانی جسم میں صرف 650 مسلز ہوتے ہیں۔

    ان مسلز کو حرکت کرنے کے لیے ہڈیوں اور جوڑوں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ورزش کرتے ہوئے جب ہمارے مسلز حرکت کرتے ہیں تو یہ ہڈی اور جوڑ کی مدد سے اوپر اٹھتے ہیں۔

    لیکن ہاتھی کی سونڈ میں کوئی ہڈی یا جوڑ موجود نہیں ہوتا چنانچہ یہ مسلز خود ہی مکمل طور پر حرکت کرتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ہاتھی کی سونڈ نہایت لچکدار اور ہر سمت میں حرکت کرنے کے قابل ہوتی ہے۔

    سونڈ کے یہ مسلز نہایت طاقتور بھی ہوتے ہیں۔ ہاتھی اپنی سونڈ سے بھاری بھرکم اشیا بھی اٹھا سکتا ہے اور ایک معمولی سا چپس بھی بغیر توڑے اٹھا لیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھی کی سونڈ کی ساخت زبان جیسی ہوتی ہے جبکہ یہ ہاتھ کی طرح کام کرتی ہے تاہم پھر بھی یہ ناک ہی ہے اور نہایت غیر معمولی ناک ہے۔

    کسی بھی جانور کی سونگھنے کی صلاحیت اس کے خلیوں میں موجود اولفیکٹری ریسیپٹرز نامی نیورونز پر منحصر ہوتی ہے اور ہاتھی میں اس کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہاتھی کی سونڈ میں تقریباً 2 ہزار ریسیپٹرز موجود ہوتے ہیں، اتنی بڑی تعداد کسی اور جاندار میں موجود نہیں۔ ریسیپٹرز کی سب سے زیادہ تعداد (ہاتھی سے کم) بلڈ ہاؤنڈ میں ہوتی ہے جو کہ 800 ہے، انسانوں میں سونگھنے کے لیے صرف 636 ریسیپٹرز موجود ہوتے ہیں۔

    ہاتھی بموں کو بھی سونگھ سکتے ہیں۔ افریقی ملک انگولا میں ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ ہاتھی زیر زمین بچھی بارودی سرنگوں سے بچ کر چلتے تھے کیونکہ وہ اس میں موجود بارودی اجزا کو سونگھ لیتے تھے۔

    اسی طرح ہاتھی اپنی سونڈ کو آنکھوں کی طرح بھی استعمال کرتے ہیں، یہ اپنی سونڈ سے پانی اور غذا ڈھونڈنے، شکاریوں سے بچنے اور دوسرے ہاتھیوں کی آس پاس موجودگی کا تعین کرنے کا کام بھی لیتے ہیں۔

    گہرے پانی میں سے گزرتے ہوئے ہاتھی سونڈ سے اسنارکلنگ بھی کرتے ہیں تاکہ ڈوبنے سے محفوظ رہیں، جبکہ غسل کرتے ہوئے اس سے فوارے کا کام لیتے ہیں۔ ہاتھی ایک دفعہ میں سونڈ میں 10 لیٹر پانی بھر کر اسے فضا میں اچھال سکتے ہیں۔

    اپنی اس ہمہ جہت اور شاندار سونڈ سے ہاتھی خود بھی واقف ہیں، ان کے سامنے اگر آئینہ رکھ دیا جائے تو یہ زیادہ تر وقت اپنی سونڈ کا معائنہ کرتے ہی گزارتے ہیں۔

    کیا آپ اس سے قبل ہاتھی کی سونڈ کی ان خصوصیات سے واقف تھے؟

  • کیا انگلیاں چٹخانا نقصان دہ ہے؟

    کیا انگلیاں چٹخانا نقصان دہ ہے؟

    ہمارے ارد گرد بہت سے افراد انگلیاں چٹخانے کی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں اور ہوسکتا ہے آپ کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہو۔

    ایک عام خیال ہے کہ انگلیوں کو چٹخانا انگلیوں کے جوڑوں کے لیے نقصان دہ عمل ہے اور یہ آپ کے قریب موجود افراد کو بھی الجھن میں مبتلا کر سکتا ہے۔

    لیکن ماہرین نے اس عمل کو جوڑوں کے لیے بہترین ورزش قرار دیا ہے۔ دراصل جب ہم انگلیاں چٹخاتے ہیں تو اس سے آنے والی آواز عموماً جسم میں موجود مائع میں گیس بلبلوں کے پھٹنے کی ہوتی ہے۔

    اسی طرح ایک اور وجہ اکڑے ہوئے مسلز بھی ہوسکتے ہیں۔ انگلیاں چٹخاتے ہوئے یا گردن کو گھماتے ہوئے آنے والی آواز بعض اوقات اکڑے ہوئے اور تناؤ زدہ مسلز کی ہوتی ہے جو اس حرکت کے بعد آرام دہ حالت میں آجاتے ہیں۔

    تاہم اگر آپ کے اس جوڑ پر کوئی چوٹ یا زخم ہے تب بھی وہ جوڑ آواز پیدا کرسکتا ہے اور اس کے ساتھ اس حصے پر سوجن یا تکلیف بھی ہوسکتی ہے۔ ایسی صورت میں انگلیوں کو چٹخانے سے گریز کریں اور ڈاکٹر کو دکھائیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی انگلیوں کو چٹخانے میں کوئی حرج نہیں، اس سے دن بھر کام کرنے کے بعد تھکن زدہ مسلز پرسکون حالت میں آجاتے ہیں، تاہم اسے روزانہ کا معمول بنانے سے گریز کرنا چاہیئے۔