Tag: مسلمان حکمران

  • عظیم حکم راں، بہترین منتظم اور مصلح شیر شاہ سوری کی برسی

    عظیم حکم راں، بہترین منتظم اور مصلح شیر شاہ سوری کی برسی

    شیر شاہ سوری کو برصغیر کی اسلامی تاریخ کا ایک عظیم حکم راں، سپہ سالار، بہترین منتظم اور مصلح کہا جاتا ہے۔ تاریخ داں ان کے طرزِ حکم رانی، عدل و انصاف، رعایا کی فلاح و بہبود انتظامات اور ریاست میں‌ ترقی و خوش حالی کے لیے اقدامات کو مثالی قرار دیتے ہیں۔ شیر شاہ سوری 22 مئی 1545ء کو وفات پاگئے تھے۔

    شیر شاہ سوری نے اپنی جدوجہد سے ہندوستان میں اپنی سلطنت قائم کی تھی۔ شمالی ہندوستان پر انھوں نے صرف پانچ سال حکومت کی، لیکن تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ مؤرخین کے مطابق ان کا حسنِ انتظام بعد کے فرماں رواؤں کے لیے مثال بنا اور انھوں نے بھی ملک گیری کے لیے شیر شاہ سوری کے طرزِ حکم رانی سے استفادہ کیا۔

    شیر شاہ سوری کی تاریخِ پیدائش میں اختلاف ہے، لیکن مؤرخین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ وہ 1486ء میں حصار(موجودہ بھارتی ریاست ہریانہ) میں پیدا ہوئے۔
    ان کا اصل نام فرید خان تھا جو حسن خان کی پہلی نرینہ اولاد تھے۔ ان کے بزرگ سلطان بہلول لودھی کے زمانے میں ہندوستان آئے تھے، جنھوں نے دربار میں‌ جگہ پائی اور جاگیریں حاصل کیں۔

    شیر شاہ کے والد نے بھی اپنے بزرگوں کی طرح درباروں اور امرائے سلطنت کی خدمت اور ملازمتیں کرکے بڑی بڑی جاگیریں اپنے نام کیں۔ شیر شاہ کسی طرح ایک افغان حکم راں کا قرب حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے اسی حکم راں کو شیر کے حملے سے بچایا تھا اور اس درندے کو ایک ہی وار میں‌ ڈھیر کردیا تھا جس پر انھیں شیر خان کا خطاب عطا کیا گیا جو ان کی شناخت بن گیا۔ بعد میں جاگیریں اور بڑے بڑے علاقوں کا انتظام چلانے کے بعد اپنے ساتھیوں کی مدد سے مخالفین کو شکست دے کر سلطنت قائم کرنے میں کام یاب ہوگئے۔

    گرینڈ ٹرنک روڈ المعروف جی ٹی روڈ شیر شاہ سوری کا ہی کارنامہ ہے۔ آگرہ سے برہان پور، آگرہ سے جودھ پور اور چتور تک اور لاہور سے ملتان تک سڑک اور ان راستوں پر سرائے کی تعمیر بھی اسی حکم راں کی یادگار ہیں۔ مؤرخین کے مطابق ان مقامات پر ٹھنڈے اور گرم پانی کے انتظامات کیے گئے تھے جب کہ سرائے میں گھوڑوں کے کھانے پینے کا بھی انتظام کیا گیا تھا، مسافروں کے مال و اسباب کی حفاظت کے لیے چوکیدار مقرر کیا گیا تھا۔ شیر شاہ سوری نے سڑکوں کے کنارے درخت بھی لگوائے تھے تاکہ مسافر اس کی چھاؤں میں آرام کر سکیں۔

    شیر شاہ سوری ایک جنگ کے دوران بارود پھٹنے سے زندگی سے محروم ہوگئے۔ وہ 60 سال کے تھے جب یہ حادثہ پیش آیا جس میں ان کے ساتھ کئی سپاہی بھی ہلاک ہوئے۔ شیر شاہ سوری کا مقبرہ بھارت کے شہر سہسرام میں‌ ہے۔

  • سلاطینِ دہلی کی قانون سازی اور فتاویٰ کی تیّاری میں دل چسپی

    سلاطینِ دہلی کی قانون سازی اور فتاویٰ کی تیّاری میں دل چسپی

    جب ہندوستان میں مسلمان حکم رانوں نے دہلی کو اپنا پایہ تخت بنایا اور یہاں ان کی سلطنت قائم ہوئی تو یہاں نظم و نسق، انتظامی امور اور فوجی و معاشی قوّت کے حوالے سے فیصلے کرنے کی ضرورت پیش آئی اور فرما راؤں نے اس پر توجہ دیتے ہوئے یہاں عوام کے لیے عدلیہ اور قانون کا بہتر نظام پیش کرنے کے لیے اقدامات کیے۔

    1206ء میں جب دہلی سلطنت قائم ہوئی تو اس وقت یہ بات بھی اہم تھی کہ سلاطین خود ایک ایسی مذہبی اقلیت تھے، جن کے چاروں طرف بھاری اکثریت دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی تھی۔ اس صورت حال میں انھوں نے جہاں اس بات کی کوشش کی کہ اکثریتی طبقے کے عوام کو ہر طرح کی آزادی اور خوش حالی دے کرکے ان کا اعتماد اور تعاون حاصل کریں، وہیں حکومتی کارکردگی کے لیے قوانین بھی تیار کرائے، اور اس سلسلے میں کتابیں تصنیف کرائیں۔ چناں چہ مختلف ادوار میں حکم رانوں کے حکم پر عالم فاضل شخصیات کی سرپرستی میں قانون اور فتاویٰ کی کتابیں لکھی گئیں۔

    عام قارئین اور بالخصوص تاریخ کے طلبہ کے لیے یہ بات دل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ قانون کے میدان میں اس زمانے میں سلاطین اور حکم رانوں نے کیا انتظامات کیے۔ ان کی نگرانی و سرپرستی میں کس طرح کی قانونی کتابیں اور فتاویٰ کے مجموعے تیار کیے گئے۔

    خوش آئند پہلو یہ ہے کہ ایسی متعدد کتابیں آج یا تو مطبوعہ شکل میں یا مخطوطات کے طور پر دست یاب ہیں، اور ان کا مطا لعہ کیا جاسکتا ہے۔ سلاطینِ دہلی نے قانون کے میدان میں جو متنوع خدمات انجام دیں ان میں قانونی کتابوں کی تصنیف و تالیف اور فتاویٰ بہت اہم ہیں، جن میں سے چند اہم ترین اور قابلِ ذکر کتب کے نام یہ ہیں۔

    فتاویٰ تاتار خانیہ:
    یہ فیروز شاہ تغلق کے دور کی قانونی کتاب ہے، جسے ایک ذی علم امیر تاتار خان کی سرپرستی میں مرتب کیا گیا۔ تاہم اس بارے میں مختلف شخصیات کے نام بھی لیے جاتے ہیں۔ اس کتاب کے نام سے متعلق بھی مختلف آرا ہیں، ایک رائے یہ ہے کہ اس کا نام ’زاد السفر‘ یا ’زاد المسافر‘ تھا، جسے بعد میں امیر تاتار خان سے منسوب کر دیا گیا تھا۔

    اس کتاب کے امتیازی اوصاف میں سے یہ ہے کہ اس میں قوانین کے ساتھ ان کے مآخذ (قرآن و حدیث) نقل کرنے کا التزام نہیں کیا گیا ہے، البتہ مختلف فیہ قوانین میں متعلقہ تمام رایوں کو جمع کر دینے کا التزام ہے۔ فتاویٰ تاتار خانیہ کا یہ بھی ایک نمایاں وصف ہے کہ اِس میں اُس وقت کے نئے پیش آمدہ مسائل سے متعلق بھی قوانین بیان کیے گئے ہیں۔

    فوائدِ فیروز شاہی:
    یہ کتاب فیروز شاہ تغلق کے دور میں شرف محمد عطائی نے مرتب کی تھی۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاقیات وغیرہ، عہد فیروز شاہی کے سماجی، معاشی، معاشرتی حالات و واقعات، مسائل و معاملات اور علوم و فنون کی بڑی اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس وقت عوام و خواص کی زبان فارسی تھی لہٰذا اس کتاب کو فارسی زبان ہی میں مرتب کیا گیا تاکہ سب کے لیے استفادہ آسان ہو۔ فوائدِ فیروز شاہی اس اعتبار سے امتیازی وصف کا حامل ہے کہ اس میں مسلم وغیر مسلم تعلقات وغیرہ سے متعلق بکثرت مسائل مذکور ہیں۔

    الفتاویٰ الغیاثیہ:
    قانون کی یہ کتاب ہندوستانی مسائل کے پس منظر میں عہدِ سلطنت میں مرتب کردہ غالباً پہلی کتاب ہے جسے اس وقت کے معروف ماہرِ قانون ’داؤد بن یوسف الخطیب‘ نے فقہ حنفی کے مطابق عربی زبان میں مرتب کیا تھا اور اپنے عہد کے حکم راں ’غیاث الدین بلبن‘ سے منسوب کرتے ہوئے اس کا نام ’الفتاویٰ الغیاثیہ‘ رکھا۔

    فتاویٰ قراخانی:
    عہدِ سلطنت کی مرتب کردہ یہ قانونی کتاب خلجی خاندان کے حکم راں جلال الدین فیروز شاہ خلجی کے دور کی یادگار ہے۔ اس کتاب کے مصنف یعقوب مظفر کرامی یا کرمانی ہیں۔ مصنّف نے اپنی یہ کتاب فارسی زبان میں فقہ حنفی کے مطابق تصنیف کی ہے۔

    اس دور کی دیگر کتابوں میں مطالبُ المؤمنین (بدر بن تاج لاہوری)، فقہ مخدومی (مخدوم علی مہائمی)، طرفۃ الفقہا (رکن الدین ملتانی)، تیسیر الاحکام (قاضی شہاب الدین دولت آبادی)، عدۃ الناسک فی المناسک (عمر بن اسحاق غزنوی)، کتاب الفرائض (رضی الدین حسن بن محمد صغانی)، نصابُ الاحتساب (قاضی ضیاء الدین مستانی)، الفائق و اصولِ فقہ (صفی الدین محمد بن عبد الرحیم الشافعی) وغیرہ شامل ہیں۔

    (استفادہ بحوالہ: ہندوستانی عہدِ وسطیٰ کا قانونی منظرنامہ)

  • آمنہ جسے افریقا کے لوک ادب میں مرد کے روپ میں‌ پیش کیا گیا

    آمنہ جسے افریقا کے لوک ادب میں مرد کے روپ میں‌ پیش کیا گیا

    مغربی افریقا کے قدیم تجارتی راستے اور مصروف گزر گاہیں آج مختلف ممالک کے درمیان سرحدوں میں‌ بٹ چکی ہیں جن میں سے ایک نائجیریا ہے جو قدیم تہذیب اور روایات کا امین ہے۔ اس خطّے کی تہذیب اور تاریخ و ثقافت متنوع اور ہمہ رنگ ہے جہاں آٹھویں صدی میں اسلام کی بہار آئی اور مسلمانوں‌ کی حکومت قائم ہوئی۔

    اسی سرزمین پر لگ بھگ پانچ صدی‌ قبل ایک لڑکی نے جنم لیا تھا جس کا نام تاریخ کے اوراق میں‌ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔ اس کا ذکر افریقا کی لوک داستانوں اور شاعری میں‌ کیا گیا اور آج بھی خاص طور پر نائجیریا میں‌ اسے عزم و ہمّت، بہادری اور جواں مردی کی مثال اور طاقت کی علامت مانا جاتا ہے۔

    اس لڑکی کا نام آمنہ تھا جس نے 1533 میں اس وقت کے ایک مال دار اور امیر کبیر گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ اس کی جائے پیدائش زازاؤ نامی وہ علاقہ ہے جو اب نائجیریا میں‌ شامل ہے۔ آمنہ کے والد اور ان کا خاندان دھاتوں‌ اور نمک کے کاروبار سے وابستہ تھا۔ یہ خاندان "الھوسا” کہلاتا تھا اور زازاؤ پر آمنہ کے والد کی امارت بھی قائم تھی۔ ان کے انتقال کے بعد ان کا بیٹا اور آمنہ کا بھائی کرامہ تخت نشیں ہوا جب کہ آمنہ نے ایک الگ ہی راستہ چنا۔

    اس نے فوج کا حصّہ بننا پسند کیا۔ دراصل سپاہ گری اس کا شوق تھا۔ وہ شروع ہی سے بہادر اور نڈر تھی۔ اس نے اپنے شوق اور لگن کے سبب روایتی ہتھیار چلانے اور سامانِ حرب کا استعمال سیکھا۔ حکم راں خاندان کی اس لڑکی نے میدان میں طاقت آزمانے کو اہمیت دی اور ثابت کیا کہ وہ کسی بھی محاذ پر بے جگری سے دشمن کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ یوں اسے اپنی فوج میں اہم مقام حاصل ہوا۔

    1576 میں آمنہ کے بھائی کی موت کے بعد رعایا نے اسے اپنی ملکہ منتخب کرلیا۔ آمنہ کو اس سرزمین کی پہلی خاتون حکم راں کہا جاتا ہے جس نے ملکہ بننے کے چند ماہ بعد فوجی مہمات شروع کیں اور متعدد لڑائیوں میں آگے رہی۔

    نائجیریا کی اس ملکہ کو افسانوی شہرت ملی اور لوک داستانوں میں اسے ایک مرد کی صورت پیش کیا گیا ہے جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیتا ہے۔

    آمنہ کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ہر محاذِ جنگ سے واپسی پر شادی کرتی اور چند ہفتوں بعد وہ رشتہ ختم کردیتی تھی۔