Tag: مسلمان سائنسدان

  • جاحظ: مسلمان مفکر اور ماہرِ‌ حیاتیات جو کتابوں‌ کا بوجھ برداشت نہ کرسکا

    جاحظ: مسلمان مفکر اور ماہرِ‌ حیاتیات جو کتابوں‌ کا بوجھ برداشت نہ کرسکا

    یہ عرب دنیا کے ایک فلسفی، مصنّف، محقق اور ماہرِ حیاتیات جاحظ کا تذکرہ ہے۔ محققین لکھتے ہیں کہ جاحظ ہی وہ مسلمان مفکر تھے جنھوں نے ڈارون سے ہزار برس قبل نظریۂ ارتقا پیش کیا۔ مطالعہ کا شوق اور علمی و تحقیقی کاموں کی لگن رکھنے والے جاحظ کی ناگہانی موت بھی کتابیں ہی بنی تھیں۔

    جاحظ کا پورا نام ابو عثمان عمرو بحرالکنانی البصری تھا۔ محققین کے مطابق وہ 776 عیسوی میں بصرہ میں پیدا ہوئے۔ غریب خاندان کے جاحظ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بدہیئت تھے۔ ان کے دیدے بڑے اور آنکھیں باہر کی جانب گویا ابلی ہوئی تھیں۔ بچّے اور اکثر بڑے بھی ان کو دیکھ کر مذاق اڑاتے تھے۔ اسی نسبت سے وہ جاحظ مشہور ہوئے جس کا عربی میں ایک معنی عجیب الخلقت ہے یا ایسا شخص جس کی آنکھیں باہر کو ابلی ہوئی معلوم ہوں۔ جاحظ کو بچپن میں دریا سے مچھلیاں پکڑ کر بیچنے کا کام کرنا پڑا اور انھوں نے گزر بسر میں مشکلات کا سامنا کیا۔

    جاحظ نے اپنی شکل و صورت اور غربت کو اپنے علمی ذوق و شوق کے سامنے ڈھیر ہونے پر مجبور کر دیا۔ چارلس ڈارون نے اپنے مشاہدات اور گہرے غور و فکر کے بعد نظریۂ ارتقا کو ٹھوس عقلی اور استدلالی بنیاد فراہم کی تھی جس پر آج تک تحقیق کا سلسلہ جاری ہے اور اس نظریۂ ارتقا کو بنیاد بنا کر سائنس داں زندگی کے بارے میں بہت کچھ جان رہے ہیں۔ لیکن جاحظ کئی صدیوں‌ پہلے یہ تصور پیش کر چکے تھے۔

    جاحظ نے اس دور کے رواج کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ فارغ اوقات میں مختلف علمی اور ادبی مجالس میں شرکت کرتے اور وہاں علماء اور اپنے وقت کی فاضل شخصیات کی تقاریر اور مباحثے سنا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب عباسی عہد میں معتزلہ فرقہ جڑ پکڑ رہا تھا اور ہر طرف مذہب ہر مباحث، فلسفہ اور سائنس کے موضوعات پر دھواں دھار تقریریں ہوا کرتی تھیں۔ جاحظ نے اسی دور میں‌ اپنے اندر علمی ذوق و شوق کو پنپتا ہوا پایا اور وہ کتب خانوں میں‌ وقت گزارنے لگے جس سے انھیں اپنے نظریات کو وضع کرنے میں مدد ملی۔ عباسی سلطنت کے اس عروج کے دور میں‌ خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کے بنوائے ہوئے کتب خانوں، اور علم و فنون کے لیے سازگار ماحول میں جاحظ نے بھی خود کو منوایا۔ نوجوان جاحظ نے مختلف و متنوع موضوعات پر ایک کے بعد ایک تصنیف پیش کی اور جلد ہی ان کی شہرت دور تک پھیل گئی۔ یہاں تک کہ عباسی خلیفہ مامون الرشید بھی ان کے قدردانوں میں شامل ہو گئے۔ بعد میں خلیفہ المتوکل نے انھیں اپنے بچوں کا استاد مقرر کیا۔

    جاحظ نے سائنس، جغرافیہ، فلسفہ، صرف و نحو اور علم البیان جیسے کئی موضوعات پر قلم اٹھایا۔ ان کی کتابوں کی تعداد دو سو کے قریب بتائی گئی ہے، تاہم یہ سبھی تصانیف محفوظ نہیں رہ سکیں۔ ہم تک ان کی چند ہی کتابیں پہنچی ہیں اور ان میں ایک ‘کتاب البخلاء’ (بخیلوں کی کتاب) بھی ہے جو نویں صدی کے عرب معاشرے کا زندہ مرقع ہے جس میں انھوں نے متعدد لوگوں کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کی ہیں۔

    اگر جاحظ کی سب سے مشہور تصنیف کی بات کی جائے تو یہ زمین پر ارتقا کے سلسلے میں ‘کتاب الحیوان’ ہے۔ یہ ایک قسم کا انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں جاحظ نے ساڑھے تین سو جانوروں کا احوال بیان کیا ہے۔ اسی کتاب میں جاحظ نے چند ایسے تصورات پیش کیے جو حیرت انگیز طور پر ڈارون کے نظریۂ ارتقا سے مشابہ ہیں۔

    شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی جاحظ کا ذکر کیا ہے۔ اپنے خطبات کے مجموعے ‘ری کنسٹرکشن آف ریلیجیئس تھاٹ ان اسلام’ (اسلامی مذہبی فکر کی تشکیلِ نو) میں وہ لکھتے ہیں کہ ‘یہ جاحظ تھا جس نے نقلِ مکانی اور ماحول کی وجہ سے جانوروں کی زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔’

    اس مسلمان مفکر کی موت کا سبب بھی یہی علمی شغف بنا۔ کہا جاتا ہے کہ سن رسیدہ جاحظ ایک روز کتابوں کی الماری سے کسی موضوع پر کوئی کتاب نکال رہے تھے کہ بھاری بھرکم الماری ان پر آ پڑی۔ بوڑھے جاحظ اس الماری کے نیچے دب کر ہلاک ہوگئے تھے۔

  • ابن النفیس: مسلمان ماہرِ طب جس نے دورانِ خون کا نظریہ پیش کیا

    ابن النفیس: مسلمان ماہرِ طب جس نے دورانِ خون کا نظریہ پیش کیا

    عالمِ اسلام میں کئی نام اپنے علمی و تحقیقی کاموں‌ کی بدولت ممتاز ہوئے اور آج جدید سائنس اور غیرمسلم بھی ان کے کارناموں‌ کا اعتراف کرتے ہیں۔ انسانی جسم میں دورانِ خون کا جدید نظریہ ولیم ہاروے سے منسوب کیا جاتا ہے، لیکن صدیوں پہلے ابن النفیس نے اس پر اپنی تحقیق کے بعد اپنا نظریہ پیش کیا تھا۔

    انسانی جسم میں خون کی گردش کا نظریہ پیش کرنے والے ابن النفیس کا نام مسلمانوں‌ کے اُس سنہرے دور کی یاد بھی تازہ کر دیتا ہے جس میں علمیت کا اعلیٰ‌ معیار قائم ہوا اور ایجاد و دریافت کے ساتھ فلسفہ و فنون لطیفہ میں‌ بے مثال کام ہوا۔

    محققین کے مطابق ابن النفیس کا انتقال 17 دسمبر 1288ء کو ہوا تھا۔ آج دنیائے طبّ کے اس عالم فاضل کا یومِ وفات ہے۔ تاہم یہ وہ شخصیت ہیں جن کی علمیت اور کام سے یہ دنیا پچھلی صدی میں‌ واقف ہوئی ہے۔ وہ دمشق میں سنہ 1210ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ابن النفیس کو اپنے دور کا ماہر طبیب اور ایک محقّق ہی نہیں اصولِ فقہ، منطق اور صرف و نحو کا ماہر بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ دمشق میں‌ بیمارستانِ نوری میں طبّ کی تعلیم حاصل کرنے والے ابن النفیس بعد میں قاہرہ چلے گئے جو اس دور میں عملی اور نظری طبّ کے اعلیٰ مرکز کے طور پر مشہور تھا۔ وہاں اس وقت طبّ و جراحی کے کئی ماہر اور حیاتیات کے مضمون میں عالم فاضل شخصیات موجود تھیں جن سے استفادہ کرنے والوں‌ میں ابن النفیس بھی شامل ہیں۔

    ابن النفیس کی طبّ میں‌ دل چسپی اور ان کی غور و فکر کی عادت نے انھیں مسلسل تحقیق اور تجربات پر آمادہ کیا اور ایک وقت آیا جب انھیں “رئیس الاطباء “ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔ بعد میں وہ بیمارستانِ ناصری سے منسلک ہوئے اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ وہاں طبّ کی تعلیم بھی دیتے رہے۔ ابن النفیس نے اپنے علم اور تجربات کو کتابی شکل میں بھی محفوظ کیا۔ ان کی سب سے بڑی تصنیف “الشامل فی الطبّ” ہے جو بدقسمتی سے مکمل نہیں ہو سکی، لیکن اس کا ایک ضخیم مخطوطہ دمشق میں محفوظ ہے۔ مسلمان ماہرِ طبّ ابن النفیس نے امراضِ چشم پر بھی تحقیق کی اور ایک تصنیف یادگار چھوڑی۔ کہتے ہیں کہ اس کا نسخہ بھی یورپ میں محفوظ ہے۔

    مسلمان ماہرِ طبّ ابن النفیس کا چرچا پچھلی صدی میں اس وقت ہوا، جب ایک نوجوان عرب طبیب امین اسعد خیر اللہ نے اپنی تحقیق میں یہ انکشاف کیا کہ ابن النفیس نے اپنی شرح “تشریحِ ابن سینا” میں ابنِ سینا اور جالینوس سے اختلاف کیا تھا۔ اس کے ساتھ انھوں نے دورانِ خون سے متعلق چند اہم انکشاف بھی کیے تھے۔ مصنّف نے اپنے مقالے میں لکھا کہ خون کی گردش کا جو طبّی نظریہ صدیوں پہلے انھوں نے دیا تھا، اسی کو بنیاد بنا کر بعد میں مغربی سائنس دانوں نے مزید تحقیق کی، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انھوں نے ابن النفیس کا نام نہیں‌ لیا۔ دنیا کو اس مسلمان ماہرِ طبّ کے نظریۂ دورانِ خون کا علم اس لیے بھی نہیں ہو سکا کہ ان کی اس شرح کے تراجم اُس دور میں نہیں‌ ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نظریے کی تفصیل لاطینی میں ترجمہ کی گئی تھی، لیکن یہ بہت ناقص ترجمہ تھا اور اسی لیے یہ ماہرین کی نظروں میں نہیں آ سکا تھا۔

    طبیب و محقق ابن النفیس کی تصانیف میں غیر طبّی موضوعات پر کتب بھی شامل ہیں جن میں سے ایک الرسالہ الکاملیہ فی السیرہ النبویہ اور فاضل بن ناطق بھی شامل ہے۔ ایک جگہ ان کا حلیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن النفیس طویل القامت اور دبلے پتلے تھے، لیکن صاحبِ مروّت اور علم و فن کی قدر دان مشہور تھے۔ انھوں نے شادی شدہ نہیں کی تھی اور اپنا گھر، ذاتی کتب خانہ اور اپنی جمع پونجی بھی طبّی تحقیق کے لیے دے دی تھی۔ ابن النفیس کا انتقال قاہرہ میں ہوا۔

  • علم و تحقیق کی دنیا اور مسلمان

    علم و تحقیق کی دنیا اور مسلمان

    یہ ان چند مسلمان سائنس دانوں اور ان کے علمی و تحقیقی کاموں کا تذکرہ ہے جن کے علم اور ایجادات سے آج تک دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے اور عالمِ اسلام کی ان ناقابلِ فراموش شخصیات کو مغرب اور یورپ بھی عزّت اور احترام سے یاد کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ آج عالمِ اسلام علم و فنون اور سائنس کے میدان کے ایسے شہ سواروں سے محروم نظر آتا ہے، لیکن چند صدیوں پہلے تک مسلمانوں نے اپنا عروج دیکھا اور کئی لازوال کام کیے اور بے مثال کارنامے انجام دیے ہیں۔

    اندلس کے عظیم مسلمان سائنس دان ابنِ رشد نے سورج کی سطح کے دھبوں (Sunspots) کو شناخت کیا تھا جو اس دور میں‌ کسی جدید آلے اور قابلِ بھروسا ٹیکنالوجی سے تہی ہونے کے باوجود ایک بڑا کارنامہ تھا۔ عمر خیام کی بات کی جائے تو انھوں نے شمسی کیلنڈر مرتب کیا تھا۔خلیفہ مامون الرشید کے زمانے میں زمین کے محیط کی پیمائش عمل میں آئی جن کے نتائج کی درستی آج بھی حیران کن ہے۔ سورج اور چاند کی گردش، سورج گرہن، علم المیقات (ٹائم کیپنگ) اور بہت سے سیاروں کے بارے میں غیر معمولی سائنسی معلومات دنیا کو البیرونی جیسے نامور مسلم سائنس دان کی بدولت حاصل ہوئیں۔ علم ہئیت اور فلکیات اور ستارہ شناسی کے ضمن میں اندلس کے مسلمان سائنس دانوں میں اگرچہ علی بن خلاق اندلسی اور مظفرالدّین طوسی کی خدمات بڑی اہمیت رکھتی ہیں، مگر ان سے بھی بہت پہلے تیسری صدی ہجری میں قرطبہ کے عظیم سائنس دان عباس بن فرناس نے اپنے گھر میں جو کمرہ تیار کر رکھا تھا، یہ دورِ جدید میں سیارہ گارہ (پلینٹیریم) کی بنیاد بنا۔ اس میں ستارے، بادل اور بجلی کی گرج چمک جیسے مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ بعد ازاں البیرونی اور ازرقیل وغیرہ نے قطبین کے آلات کو وضع کیا اور اس شعبہ کو ترقی دی۔

    قبلہ کے تعین اور چاند اور سورج گرہن کو قبل از وقت دریافت کرنے، حتیٰ کہ چاند کی گردش کا مکمل حساب معلوم کرنے کا نظام بھی البطانی ابن یونس اور ازرقیل جیسے مسلم سائنس دانوں نے وضع کیا تھا۔ اس سلسلے میں ان کے مرتب کردہ جدول موجود ہیں۔ الخوارزمی کا نام لیں تو وہ حساب، الجبرا اور جیومیٹری کے میدان میں اپنی گراں قدر خدمات کی وجہ سے آج بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ان کی کتاب (الجبر و المقابلہ) سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں بنیادی نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی اور اسی سے مغرب میں الجبرا متعارف ہوا۔ اس میں لوگوں کی روزمرہ ضروریات اور معاملات کا حل جیسے میراث، وصیت، تقسیم، تجارت، خرید و فروخت، کرنسی کا تبادلہ، کرایہ وغیرہ کو خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔

    طبیعیات اور حرکیات میں‌ ابن سینا، الکندی، نصیرالدین طوسی اور ملا صدرا کی خدمات ابتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد میں اس میدان میں محمد بن زکریا، البیرونی اور ابوالبرکات البغدادی کا نام لیا جاتا ہے جنھوں نے اس شعبۂ علم کو مزید ترقی دی۔ ابن الہیثم نے زمان و مکاں، کششِ ثقل، وزن، پیمائش وغیرہ کے شعبے میں خوب کام کیا۔

  • یاقوتُ الحموی: مشہور مسلمان جغرافیہ داں

    یاقوتُ الحموی: مشہور مسلمان جغرافیہ داں

    دنیا جب ہمارے اہلِ‌ علم اور ان کے کار ہائے نمایاں‌ کا تذکرہ کرتی ہے تو ہم اس پر فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ ہم نے علم اور عمل کو ترک کردیا ہے اور آج جستجو و سعیٔ مقدور سے دور ہوچکے ہیں۔ یاقوتُ الحموی ایک ایسا ہی نام ہے جن کو عالمِ اسلام کی ایک قابل و باصلاحیت شخصیت تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ ایک مؤرخ اور ماہرِ جغرافیہ تھے۔ آج یاقوت الحموی کی برسی ہے۔

    اس مؤرخ اور ماہرِ‌ جغرافیہ کی مشہور کتاب معجمُ البلدان ہے جس کا بشمول اردو کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔ جغرافیہ داں یاقوتُ الحموی کی علمی و سائنسی موضوعات پر دیگر کتب بھی نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔

    اگرچہ اس مسلمان جغرافیہ کے خاندان اور حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں تاہم محققین نے ان کا سنہ وفات 20 اگست 1229ء بتایا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں ان کی پیدائش کا سنہ موجود نہیں‌ ہے یا اس پر اختلاف ہے۔ محققین کے مطابق ان کا اصل اور مکمل نام “شہابُ الدّین ابو عبد اللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی الرّومی البغدادی” تھا۔ خیال ہے کہ وہ ایک غلام تھے جن کو روم سے قیدی بنا کر بغداد لایا گیا تھا۔ یہاں انھیں ایک تاجر “عسکرُ الحموی” نے خرید لیا اور اسی نسبت سے یاقوتُ الحموی پکارے گئے۔ ان کے مالک نے انھیں اس غرض سے تعلیم دلوائی کہ وہ ان کے مالِ تجارت اور نفع نقصان کا حساب کتاب کرسکیں۔یاقوت نے اس دور کے نظامِ تعلیم کے مطابق صرف و نحو اور لغت کے دوسرے قاعدے بھی سیکھے اور جب وہ اپنے آقا کے ساتھ تجارت کی غرض سے کہیں‌ جاتے تو اس علاقہ اور شہر کے بارے میں جاننے کی سعی کرتے، اس کے جغرافیہ، تاریخ اور تمدن کو سمجھتے اور یہ شوق اور دل چسپی ان کے لیے مفید ثابت ہوئی۔ انھیں ایک روز آقا نے آزاد کر دیا جس کے بعد یاقوت نے علمی میدان کو وسیلۂ روزگار بنایا۔ کچھ عرصہ بعد وہ اپنے سابق آقا کے پاس لوٹ آئے اور تجارتی اسفار میں بطور نگران ان کی معاونت کرنے لگے۔اس دوران یاقوت الحموی نے کئی منفرد جغرافیائی معلومات اکٹھی کیں، پھر وہ حلب چلے گئے اور وہاں سے خوارزم پہنچے اور وہیں‌ قیام کیا۔ بعد میں دوبارہ حلب آئے اور وہیں وفات پائی۔

    یاقوت الحموی کو جغرافیہ اور حساب کتاب سے خصوصی شغف تھا۔ انھوں نے جغرافیہ کے عنوان پر ایک معجم ترتیب دی جس کے مقدمے میں دیگر فنون کے علاوہ فنِ جغرافیہ پر انھوں نے خصوصی باب رقم کیے ہیں۔ یاقوت الحموی نے دور دراز کے اسفار کے دوران جن مختلف مقامات پر قیام کیا اور جو شہر اور قصبات دیکھے، وہاں‌ کے لوگوں کی مدد سے ان کی تفصیل لکھی اور اپنی جغرافیہ کی مہارت سے معلومات کو اس کے ساتھ درج کرکے کتابی شکل میں معجمُ البلدان میں محفوظ کردیا۔ اس مشہور کتاب میں انھوں‌ نے دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ زمین کے بارے میں بھی سائنسی تصورات کو بیان کیا ہے۔

  • البیرونی، قرآنی آیات اور جغرافیۂ عالم

    البیرونی، قرآنی آیات اور جغرافیۂ عالم

    قدرت نے البیرونی کو علومِ قطعیہ میں تحقیق و تدقیق ہی کے لیے پیدا کیا تھا۔

    ریاضی اور ریاضیاتی علوم کے میدان میں اس کی فکری و تجربی کاوشیں بے پناہ ہیں۔ ہیئت، علمِ پیمائشِ ارض (جیوڈیسی)، علمِ معدنیات، نباتیات، علمُ الانسان، غرض کوئی شعبۂ علم ایسا نہیں جس سے اسے دل چسپی نہ رہی ہو اور جس سے متعلق اس نے کچھ نہ کچھ نہ لکھا ہو۔

    اس کی فلسفیانہ بصیرت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس بصیرت کو جلا ملی تھی مذہب سے، اور اسی کے سہارے اس نے چند اہم مسائل پر غور و فکر کیا تھا۔ ریاضیاتی علوم کا وجدانی اور استخراجی طرزِ تحقیق اور طبیعی اور نیچرل سائنس کا تجربی اور استقرائی طرزِ استدلال ہمیں البیرونی کی تحقیقات اور نگارشات میں موضوع کے اعتبار سے جہاں جس کی ضرورت ہوئی، برابر ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زمانۂ حال میں جدید اصولِ تحقیق کو برتنے والے عالم البیرونی کو اپنے سے بہت قریب پاتے ہیں۔

    ایک اور اہم بات جس کی طرف لوگوں کی نظر کم جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ البیرونی کا نقطۂ نظر اس مسئلہ کے بارے میں کہ زمین متحرک ہے یا سورج، عالمانہ اور حکیمانہ تھا۔ ایک متبحر عالم علمی معاملوں میں اپنی رائے میں محتاط ہوتا ہے، جو بات ثابت نہیں ہو سکتی وہ نہ تو اس کا اقرار کرتا ہے اور نہ انکار۔ یہی رویہ البیرونی کا اس مسئلہ سے متعلق تھا کہ زمین متحرک ہے یا سورج۔ کتابُ الہند میں بھی اس نے اس کا ذکر کیا ہے۔ اور استیعاب میں بھی جہاں اس نے اصطرلاب زورقی کے متعلق لکھا ہے۔ استیعاب میں وہ لکھتا ہے:

    "ابو سعید سنجری نے ایک بڑا اصطرلاب بنایا تھا جس کا عمل مجھ کو بہت پسند آیا اور میں نے ابو سعید کی بہت تعریف کی، کیونکہ جن اصولوں پر اس نے اس کو قرار دیا تھا وہ کرۂ ارض کو متحرک تسلیم کرتے ہیں۔ میں اپنی جان کی قسم کھاتا ہوں کہ یہ عقدہ ایسی شبہ کی حالت میں ہے کہ اس کا حل کرنا نہایت دشوار اور اس کا رد کرنا نہایت مشکل ہے۔ مہندسین اور علمائے ہیئت اس عقدہ کے رد میں بہت پریشان ہوں گے۔”

    اگر اہل یورپ حرکتِ زمینی سے متعلق البیرونی کے خیالات سے واقف ہوتے تو شاید وہ بطلیموس کے مؤقف کو حرفِ آخر نہ تصور کرتے اور کوپرنیکس سے بہت پہلے یہ ثابت ہو جاتا کہ آسمان نہیں بلکہ زمین متحرک ہے۔ ایک فلسفی کے طرزِ فکر پر غور و فکر کر کے اس نے اس مسئلہ سے متعلق شک کا دروازہ کھول دیا تھا اور اس عقیدہ کی بنیاد کھوکھلی کر دی تھی جس پر صدیوں سے ماہرینِ علم ہیئت کا ایمان تھا۔

    البیرونی نہ تو مسلم فلاسفہ کے طرز کا فلسفی تھا اور نہ متکلمین کے طرز کا۔ پھر بھی ہم اسے فلسفی کہہ سکتے ہیں کیونکہ کائنات کے وجود اور مابعد الطبیعی امور پر اس نے فلسفیانہ بحثیں کی ہیں۔ ابنِ سینا سے اس کا جو سوال و جواب ہوا تھا اس سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ وہ مشائی فلسفے کی روایت کا قائل نہ تھا، عالَم کو قدیم نہیں مانتا تھا اور جزو لاتیجزی کے نظریے کے ماننے والوں پر ارسطو کا جو اعتراض تھا اسے غلط تصور کرتا تھا۔

    ارسطو پر اس کا یہ اعتراض بھی تھا کہ آخر وہ کس دلیل سے اس عالم کے وجود سے انکار کرتا ہے جو اس عالم سے جدا ہے جب کہ اس عالم کے امکان کی بہت سی دلیلیں ہیں اور اس کے خلاف جو دلیلیں ہیں انہیں رد کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے وجود کی دلیلیں اس کے عدم کی دلیلوں پر فوقیت رکھتی ہیں۔ تاریخ، جغرافیہ اور ہیئت پر البیرونی کی جو تصنیفات ہیں ان میں بھی سائنسی اور تاریخی مباحث کے ساتھ فلسفۂ علم کائنات اور مابعد الطبیعات پر اس کے خیالات مل جاتے ہیں۔ کتابُ الہند میں جہاں اس نے ہندوؤں کے عقائد و افکار بیان کیے ہیں وہیں اکثر ہمیں ان عقائد و افکار پر تبصرہ کے ساتھ اس کے اپنے مابعد الطبیعی اور فلسفیانہ تصورات اور تشریحات بھی ملتی ہیں۔

    آثارِ باقیہ میں زمانۂ تاریخِ انسانی کے ادوار اور قوانینِ قدرت میں یک رنگی اور استحکام سے متعلق اس کی جو بحثیں ہیں ان سے اس کی ژرف نگاہی اور علمی تعمق کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے، اسی کے ساتھ "جہاں وہ قوانینِ قدرت کی مضبوطی کا پورے طور پر معتقد ہے وہاں عالمِ فطرت کی رنگا رنگ کیفیتوں اور پیچیدہ و لا ینحل حالتوں کا خیال بھی اس کے دماغ میں موجود رہتا ہے اور وہ بخوبی جانتا ہے کہ موجودات میں بسا اوقات ایسی طبیعیی کیفیتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں جو بادیُ النّظر میں ممکنات سے خارج معلوم ہوتی ہیں اور جن کے اسباب و علل کے معلوم کرنے سے اکثر انسانی عقل عاجز رہ جاتی ہے۔”

    البیرونی مسلمان تھا، اور اس کی بعض تصنیفات میں قرآنی آیات بطور شاہدِ حق اور دلیلِ قطعی کے مباحثِ متعلقہ کے ساتھ اس طرح پرو دی گئی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات انہی مواقع کے لیے نازل کی گئی تھیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس کا قرآن اور دیگر علوم نقلی کا مطالعہ گہرا تھا اور قرآن فہمی میں بھی وہ کسی سے کم نہ تھا۔

    البیرونی ان مدعیانِ علم و حکمت میں سے نہ تھا جنہیں مذہب کو عقلِ انسانی کا پابند رکھنے پر اصرار تھا۔ وہ عقلِ انسانی کی حدود سے خوب واقف تھا، تاریخِ اسلام میں جب عقل و مذہب کا معرکہ شروع ہوا تھا تو مسائلِ الٰہی کے سلسلے میں کیسی کیسی موشگافیاں ہوئی تھیں اور یہ سب اس کی نظر میں تھیں لیکن وہ خود اپنی خداداد ذہانت سے کام لے کر اس نتیجہ پر پہونچا تھا کہ مذہبِ الٰہی عقل کا مخالف نہیں ہوسکتا البتہ وہ اس کا قائل نہ تھا کہ عقل انسانی ہمیشہ صراطِ مستقیم پر رہتی ہے۔ اس کا عقیدہ یہ تھا کہ عقلِ انسانی کو امورِ الٰہی کے تابع رہنا چاہیے اور اگر کبھی ایسی نشانیاں نظر آئیں جو ہماری فہم و ادراک کے مطابق نہ ہوں تو ان نشانیوں کا انکار نہ کرنا چاہیے۔ اسی لیے وہ الرّازی جیسے فلاسفہ کی انتہا پسندانہ روشن خیالی اور بے روک تعقل پسندی کا مخالف ہے۔ اسی طرح وہ ان لوگوں کا بھی مخالف ہے جو محض جہالت، تعصب اور تنگ نظری کی بنا پر کوئی نہ کوئی مذہبی پہلو نکال کر سائنس اور فلسفہ کی مخالفت کرتے ہیں۔

    البیرونی مؤرخ بھی تھا۔ وہ ایک ایسا مؤرخ تھا جو تہذیبوں اور ان کے تاسیسات کا مطالعہ کرتا تھا، اور اس سلسلے میں اس کا منہاجِ تحقیق زمانۂ حال کے اصولِ تحقیق سے کسی طرح کمتر نہیں کہا جا سکتا۔ وہ اپنے زمانے کی فنِ تاریخ نگاری کا مقلد نہ تھا، وہ مجتہد تھا۔ اختراعی و تخلیقی صلاحیت کے وافر ذخیرے کے ساتھ اس کا مطالعہ غیر معمولی طور پر وسیع اور گہرا تھا۔ ایک ایسے عہد میں جب کتابیں بڑی تعداد میں چھپتی نہ تھیں، علمی جرائد کا وجود نہ تھا اور جو معلومات دستیاب تھیں انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں بڑی دشواریاں تھیں ہمیں جب البیرونی جیسا متبحر عالم ملتا ہے جو مختلف علوم میں مجتہدانہ نظر اور منہاجاتِ تحقیق میں منفرد فکر کا حامل تھا تو ہم سوچنے لگتے ہیں کہ شاید عظیم شخصیت کا نظریہ صحیح ہو، یعنی یہ کہ ہر عہد میں ایک ایسی استثنائی شخصیت ضرور ہوتی ہے جو اپنی غیر معمولی ذہانت اور مضبوط قوّتِ ارادی سے حالات کا رخ موڑ دیتی ہے اور اپنے عہد پر اپنی شخصیت کا دوامی نقش چھوڑ جاتی ہے۔ علمی دنیا میں بھی ایسی شخصیتوں کی مثالیں ملتی ہیں اور اس لحاظ سے البیرونی بلا شبہ نابغۂ روزگار تھا۔

    ہمارا یہ نابغۂ روزگار کئی زبانیں جانتا تھا، مثلاً سنعدی اور خوارزمی (جو فارسی کی دو صورتیں تھیں) عربی، عبرانی، سریانی اور سنسکرت۔

    (کتاب: البیرونی اور جغرافیۂ عالم، از قلم مولانا ابوالکلام آزاد)

  • دورانِ خون کا نظریہ پیش کرنے والے مسلمان ماہرِ طبّ ابن النفیس کا تذکرہ

    دورانِ خون کا نظریہ پیش کرنے والے مسلمان ماہرِ طبّ ابن النفیس کا تذکرہ

    انسانی جسم میں خون کی گردش کا نظریہ پیش کرنے والے ابن النفیس کا نام مسلمانوں‌ کے اُس سنہرے دور کی یاد بھی تازہ کر دیتا ہے جس میں علمیت کا اعلیٰ‌ معیار قائم ہوا اور مختلف سائنسی علوم اور ایجاد و دریافت کے ساتھ فلسفہ و منطق، موسیقی اور شعر و ادب میں‌ خوب اور بے مثال کام ہوا۔

    آج ابن النفیس کا یومِ وفات منایا جارہا ہے جن کے مقام و مرتبے اور علمیت سے دنیا پچھلی صدی میں‌ واقف ہوئی۔ مؤرخین نے ان کا سنِ پیدائش 1210ء اور وطن دمشق بتایا ہے۔ ابن النفیس اپنے وقت ماہر طبیب اور ایک محقّق ہی نہیں اصولِ فقہ، منطق اور صرف و نحو کے بھی ماہر تھے۔ انھوں‌ نے دمشق میں‌ بیمارستانِ نوری میں طبّ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اور بعد میں قاہرہ چلے گئے جو عملی اور نظری طبّ کے اعلیٰ مرکز کے طور پر اس زمانے میں‌ شہرت رکھتا تھا اور وہاں طبّ و جراحی کے ماہر اور اپنے دور کے عالم فاضل نسلِ نو کی تعلیم و راہ نمائی کے لیے موجود تھے۔

    ابن النفیس کی طبّ میں‌ دل چسپی اور ان کی غور و فکر کی عادت نے انھیں مسلسل تحقیق اور تجربات پر آمادہ کیا اور ایک وقت آیا جب انھیں “رئیس الاطباء “ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔ بعد میں وہ بیمارستانِ ناصری سے منسلک ہوئے اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ وہاں طبّ کی تعلیم بھی دیتے رہے۔

    انھوں نے اپنے علم اور تجربات کو کتابی شکل میں بھی محفوظ کیا۔ ان کی سب سے بڑی تصنیف “الشامل فی الطبّ” ہے جو بدقسمتی سے مکمل نہیں ہو سکی، لیکن اس کا مخطوطہ دمشق میں محفوظ ہے جو بہت ضخیم ہے۔ اس مسلمان ماہرِ طبّ نے امراضِ چشم کے حوالے سے بھی ایک تصنیف یادگار چھوڑی جس کا نسخہ یورپ میں محفوظ ہے۔

    اس عظیم مسلمان ماہرِ طبّ کی عظمت پچھلی صدی میں اس وقت ظاہر ہوئی، جب ایک نوجوان عرب طبیب امین اسعد خیر اللہ نے اپنی تحقیق میں یہ انکشاف کیا کہ ابن النفیس نے اپنی شرح “تشریحِ ابن سینا” میں ابنِ سینا اور جالینوس سے اختلاف کرتے ہوئے دورانِ خون سے متعلق اہم انکشاف کیے تھے۔ اسی مقالے میں اس طبیب نے لکھا کہ خون کی گردش کا جو طبّی نظریہ صدیوں پہلے انھوں نے دیا تھا، اسی کو بنیاد بنا کر بعد میں مغربی سائنس دانوں نے مزید تحقیق کی تھی، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ابن النفیس کا نام اس حوالے سے نہیں‌ لیا گیا۔ مغرب کو مسلمان ماہرِ طبّ کے اس نظریے کا علم اس لیے بھی نہیں ہو سکا کہ ان کی اس شرح کے تراجم اس زمانے میں نہیں‌ ہوسکے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نظریے کی تفصیل لاطینی میں ترجمہ کی گئی تھی، لیکن یہ بہت ناقص ترجمہ تھا اور اسی لیے اس کا چرچا نہیں ہوسکا تھا۔

    ابن النفیس کی تصانیف میں غیر طبّی موضوعات پر کتب بھی شامل ہیں جن میں سے ایک الرسالہ الکاملیہ فی السیرہ النبویہ اور فاضل بن ناطق بھی ہے۔

    ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ طویل القامت اور دبلے تھے، لیکن صاحبِ مروت اور علم و فن کی قدر دان بھی، وہ شادی شدہ نہیں تھے، چنانچہ اپنا گھر، مال اور تمام کتب شفا خانے اور طبّی تحقیق کے لیے وقف کردی تھیں۔ انھوں نے قاہرہ میں 17 دسمبر 1288ء کو وفات پائی۔

  • اندلس کے ابنِ زُہر کا تذکرہ جنھیں طبیبِ کامل کہا جاتا ہے

    اندلس کے ابنِ زُہر کا تذکرہ جنھیں طبیبِ کامل کہا جاتا ہے

    لگ بھگ ہزار سال پہلے جہاں برِاعظم یورپ نے مسلمانوں کی دلیری، شجاعت کی داستانیں سنی تھیں، وہیں اندلس میں خلافت و اسلامی امارت کا پرچم بلند ہوتے بھی دیکھا تھا جس نے علم و فنون کی سرپرستی کی اور اس کے زیرِ سایہ صنعت و حرفت کے میدان میں مثالی ترقّی اور دریافت و ایجاد کے میدان میں عظیم اور ناقابلِ فراموش کارنامے انجام دیے گئے۔

    اسی دور کا اندلس جہاں ہمیں شان و شوکت، رعب و دبدبے اور سلطنت کے عروج و زوال کی ہوش رُبا داستان سناتا ہے، وہاں اس زمانے کے مسلمان سائنس دانوں کے کار ہائے نمایاں بھی ہمارے سامنے رکھتا ہے جس سے بعد میں یورپ کی دیگر اقوام نے بھرپور استفادہ کیا۔

    ابنِ زُہر (زُھر) اندلس کے اُس خاندان کے فرد تھے جس نے مختلف ادوار میں علم و ادب، مذہب اور طب میں نام و مرتبہ پایا۔

    ابنِ زُہر جیّد و مستند عالم اور حاذق طبیب تھے۔ مسلم اور غیر مسلم یورپی مؤرخین نے انھیں فنِ طبابت کے علاوہ الہٰییات، فقہ کا زبردست عالم اور ادبیات کا ماہر بتایا ہے۔ تاہم ان کی دنیا بھر میں وجہِ شہرت علمِ طب ہے جس کے لیے ان کے بزرگ اور خاندان کے دیگر لوگ بھی مشہور تھے۔

    زُہر کا مکمل خاندانی نام "ابنِ زُہر بن ابو مروان عبد الملک بن ابی الاعلیٰ زُہر تھا۔ ان کی ولادت اشبیلیہ میں 1091ء میں ہوئی۔ ابنِ زُہر کو مستشرقین Avenzoar کے نام سے جانتے ہیں۔

    ابنِ زُہر نے تجربات و تحقیق سے متعدد امراض کا علاج دریافت کیا اور کئی کتابیں تصنیف کیں جن میں امراض اور ادویّہ کی تفصیل محفوظ ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے سانس کی نالی کی جراحی کی اور غذائی عمل سے متعلق تجربات کیے۔ انھوں نے حلق اور غذا کی نالی سے مصنوعی غذائیت کا تجربہ کیا۔ انھوں نے اپنے ان تجربات اور دریافتوں کے سبب بہت عزّت اور شہرت پائی۔

    ابنِ زُہر نے نظام انہضام و امراضِ معدہ کے علاوہ جسم کے مختلف اعضا کی کیفیت و حالت اور طبّی شکایات و پیچیدگیوں پر تحقیق کرتے ہوئے اپنے مشاہدات اور تجربات کو بیان کیا ہے۔ امراض و علاج سے متعلق اس مسلمان سائنس داں اور ماہر طبیب کی دریافتوں اور انکشافات کے بارے میں تفصیل ان کی کتب سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

    ان کی مشہور طبّی تصانیف کتاب التیسیر فی المداوات و التدبیر، کتاب الاقتصاد فی الاصلاح النّفس والاجساد ہیں۔ ان کتب کا ترجمہ دُنیا کی متعدد زبانوں میں ہو چکا ہے۔ ابنِ زُہر کا سنِ وفات 1161ء بتایا جاتا ہے۔

  • سِسلی، جہاں سے عربی کتب کا علم لاطینی زبان میں یورپ تک پہنچا

    سِسلی، جہاں سے عربی کتب کا علم لاطینی زبان میں یورپ تک پہنچا

    سسلی وہ جزیرہ اور ایسا تاریخی مقام ہے جہاں سے اسلامی علوم یورپ تک پہنچے۔ یہ جزیرہ 130 سال تک مسلمانوں کی حکومت میں‌ شامل رہا اور 1091ء میں نارمن قوم نے اسے فتح کرلیا۔

    اس جزیرے کے باسی یونانی، عربی، لاطینی تینوں زبانیں بولتے تھے۔ اس دور میں‌ بعض علما، خاص طور پر یہودی، ان زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ جب جزیرے پر عیسائیوں حکومت قائم ہوگئی تو انھوں نے عربی سے تراجم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ مسلمانوں کے علم اور ان کی ریاضت کو زبانوں‌ پر اپنے عبور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منتقل کرتے چلے گئے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ شاہ راجر اوّل سے لے کر شاہ فریڈرک ثانی تک اور چند شاہانِ وقت نے علما کی سرپرستی کی اور اس کام پر انھیں‌ سراہتے ہوئے بے دریغ رقم خرچ کی۔ انھوں نے بلاتفریقِ مذہب سلسلی کے ایک شہر میں قابل علما کو دعوت دے کر بلایا اور ان سے ترجمہ کا کام لیا۔

    گویا حکم رانوں نے مترجمین کی جماعت تیّار کرلی جس نے عربی اور یونانی سے کتابوں کو لاطینی میں منتقل کیا۔ موضوع کے اعتبار سے زیادہ تر کتب ہیئت اور ریاضی کی تھیں۔

    سسلی میں تیرھویں صدی عیسوی میں طبّی کتب کا ترجمہ بھی ہوا۔ مائیکل اسکاٹ نے ارسطو کی علمُ الحیوانات کی کتاب کا عربی اور عبرانی سے ابوسینا کے حاشیے کے ساتھ 1233ء میں ترجمہ کیا۔

    ترجمہ کا کام شمالی اٹلی میں بھی ہوا۔ عربی سے لاطینی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو کر یورپ پہنچنے والی کئی کتب ایسی ہیں جن کا آج کوئی نشان نہیں‌ ملتا۔ اکثر کے مترجم نامعلوم ہیں۔

    الغرض سیکڑوں کتابیں عربی زبان سے لاطینی میں منتقل ہوئیں اور یورپ نے ان سے استفادہ کیا۔ اس زمانے میں یورپ علم و فضل سے بیگانہ اور شرف و فخر سے محروم تھا، لیکن وہاں اس علم کی بدولت تہذیب و تمدن کا آغاز ہوا اور یورپ میں علمی موضوعات پر مباحث ہی نہیں بلکہ فکرو تدبّر کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے اسے اقوام میں ممتاز اور نمایاں کیا۔

    (تاریخِ یورپ سے چند پارے)

  • مشہور اطبا کی کتب کے عربی تراجم اور مسلم حکم راں

    مشہور اطبا کی کتب کے عربی تراجم اور مسلم حکم راں

    طب، علم الادویہ، علاج اور صحّت کے قدیم ترین مراکز میں جندی شاپور(ایران) اور اسکندریہ(مصر) کا نام تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے اور کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں ان مراکز کے علما، ماہر اور قابل طبیبوں اور ان کی کتب سے بھرپور استفادہ کیا اور مختلف ادوار میں خزینہ علم کا عربی زبان میں‌ ترجمہ ہوا۔

    قدیم دور میں ساسانیوں نے جندی شاپور کو طب و سائنس کا مرکز بنادیا۔ انھوں نے کیمیا و فلسفہ سمیت طب کی تعلیم و تربیت کا خوب اہتمام کیا۔ یہ چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی کی بات ہے جب کہ ایک دوسرا علمی مرکز مصر کا شہر اسکندریہ تھا۔ علمُ الادویہ میں اہلِ اسکندریہ ماہر اور قابل مانے جاتے تھے۔

    عباسی عہد شروع ہوا تو اس میں‌ علمی اور سائنسی کتب کے تراجم کی طرف توجہ دی گئی اور کہتے ہیں‌ کہ ابو جعفر المنصور کے دور میں اس وقت کے مختلف زبانوں‌ پر عبور رکھنے والی ماہر اور قابل شخصیات نے تراجم کیے جن میں ایک حنین ابن اسحاق تھے جنھوں نے بقراط اور جالینوس کی طب سے متعلق کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ وہ خود حکیم اور طبیب تھے، اور تاریخ بتاتی ہے کہ مذہب ان کا عیسائیت تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے حکیم جالینوس اور بقراط جیسے ماہر اور مشہور یونانی حکما کی کتب کو عربی میں‌ ڈھالا جو ایک بڑا اور اہم کام تھا۔

    فارسی، یونانی، سریانی اور عربی زبانوں کے ماہر اور اس زمانے کی قابل شخصیات نے منصور کے بعد ہارون الرشید اور مامون کے دور میں بھی عربی زبان میں کتب کے تراجم کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دور کے اہم لکھاری اور مترجمین میں حنین ابن اسحاق، قسطا بن لوقا، عیسی بن یحییٰ، عبدالرحمن بن علی اور ثابت بن قرہ و دیگر کے نام لیے جاتے ہیں جنھیں خلیفہ کی جانب سے مشاہرہ اور انعام دیے جاتے تھے اور ان کی بڑی تکریم کی جاتی تھی۔ بغداد میں‌ دارالترجمہ اور کتب خانے کا قیام عمل میں‌ لایا گیا اور اس کے تحت خوب علمی اور ادبی کام ہوا۔

    تراجم کا یہ کام مامون کے بعد بھی جاری رہا اور علاج معالجے اور صحت سے متعلق کئی اہم کتب کا ترجمہ عربی میں کیا گیا اور ڈیڑھ سوسال تک یہ سلسلہ جاری رہا جس نے اسلامی دنیا کو طب و صحت سے متعلق علم سے مالا مال کیا اور مسلمان اطبا نے ان سے راہ نمائی اور استفادہ کرنے کے ساتھ اپنے طبی تجربات، مشاہدات میں‌ غور و فکر کرتے ہوئے اس شعبے میں اپنی مہارت اور استعداد میں‌ اضافہ کیا۔

    (دنیائے طب، یونانی تعلیمی مراکز اور تاریخ کے صفحات سے استفادہ)

  • فارابی اور پہرے دار

    فارابی اور پہرے دار

    اس لڑکے نے شروع عمر ہی سے نہایت غربت اور تنگ دستی دیکھی۔ بھوک اور افلاس کا مارا ہوا یہ بچّہ بڑا ہوا تو اس میں علم کی پیاس اور جاننے، سیکھنے کی جستجو پیدا ہوئی اور آگے چل کر وہ علم و فنون میں یکتا اور گوہر آب دار ثابت ہوا۔

    یہ تذکرہ ہے ابو نصر فارابی کا جن کا پورا نام محمد بن ترخان ابو نصر تھا اور بعض مؤرخین نے ابو نصر محمد بن اوزیغ بن طرخان بھی لکھا ہے۔ ترکستان کے علاقے فاراب میں 872 عیسوی کو پیدا ہونے والے فارابی 950 عیسوی میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    ہم نے کئی نام ور اور ممتاز شخصیات کے بارے میں پڑھا ہے کہ انھوں نے غربت اور تنگ دستی کے ساتھ حصولِ علم کے لیے طرح طرح کی مصیبتیں اُٹھائیں۔ فارابی بھی انہی میں‌ سے ایک ہیں۔ تاریخ میں‌ ان سے متعلق ایک واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔

    نوعمر فارابی ایک رات اپنی درسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھے کہ چراغ کا تیل ختم ہو گیا اور وہ چراغ بجھ گیا۔ گھر میں تیل نہ تھا اور ان کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ وہ تیل خریدتے، وہ مایوس ہوگئے اور نہایت مضطرب ہوکر گھر سے باہر نکل آئے۔

    اچانک فارابی کی نظر علاقے میں گشت کرتے ہوئے ایک پہرے دار پر پڑی جو ایک لالٹین لے کر ذرا فاصلے پر کھڑا ہوا تھا۔ فارابی پر پڑھنے کی گویا دھن سوار تھی، لپک کر پہرے دار تک پہنچے اور سارا ماجرا سنا کر گزارش کی کہ وہ تھوڑی دیر وہیں رک جائے تاکہ وہ اپنا سبق یاد کر سکیں۔

    پہرے دار نے ان کی بات مان لی، مگر چند روز بعد پھر یہی ہوا۔ تب انھوں نے پہرے دار سے رکنے کو کہا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔

    فارابی نے اس سے کہا کہ وہ اسے اپنے پیچھے پیچھے چلنے کی اجازت دے تاکہ اُس کی لالٹین کی روشنی میں وہ مطالعہ جاری رکھ سکے۔ پہرے دار نے یہ بات مان لی اور اکثر ایسا ہونے لگا۔ پہرے دار فارابی کی علمی لگن اور جستجو سے بہت متاثر ہوا اور اسے ایک نئی لالٹین لا کر دے دی۔

    یہ فارابی علم و فنون کا وہ چراغ بن کر جلا جس کی روشنی سے لاکھوں لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور صدیوں‌ بعد بھی یہ چراغِ علم و فن اسی طرح روشن ہے۔ فارابی ارسطو اور افلاطون سے بے حد متاثر تھے۔ انھوں نے ارسطو کی متعدد کتابوں کی شرح لکھی ہیں۔

    فارابی فلسفی اور حکیم کی حیثیت سے مشہور ہوئے اور نجوم اور موسیقی کے علوم کے ماہر جانے گئے۔ ان کی کئی تصانیف مشہور ہیں۔