Tag: مسلمان صوفیا

  • نہ مرغا امّاں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا

    نہ مرغا امّاں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا

    میں نے اپنے بابا جی کو بہت ہی فخرسے بتایا کہ میرے پاس دو گاڑیاں ہیں اور بہت اچھا بینک بیلنس ہے، میرے بچے اچھے انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں، عزت شہرت سب کچھ ہے، دنیا کی ہر آسائش ہمیں میسر ہے اس کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی ہے۔

    میری یہ بات سننی تھی کہ انھوں نے جواب میں مجھے کہا کہ یہ کرم اس لیے ہوا کے تُو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں۔ میں نے جب اس بات کی وضاحت چاہی۔ بابا نے کہا:

    اشفاق احمد، میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے س خصوصی محبت تھی۔ اماں اپنی بک (مٹھی) بھر کے مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں اور ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ میں پیٹ بھر کے مستیوں میں لگ جاتا۔ میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے بنا محنت کیے اس کو اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔

    ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا، حسبِ معمول اماں آئی اور دانوں کی بک بھری کہ مرغے کو رزق دے، اماں نے جیسے ہی مٹھی آگے کی مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی۔

    اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا تو دانے پورے صحن میں بکھر گئے۔ اماں ہاتھ سہلاتی اندر چلی گئی اور ککڑ (مرغا) جو ایک جگہ کھڑا ہو کر آرام سے پیٹ بھرا کرتا تھا اب وہ پورے صحن میں بھاگتا پھر رہا تھا۔ کبھی دائیں جاتا کبھی بائیں کبھی شمال کبھی جنوب۔ سارا دن مرغا بھاگ بھاگ کے دانے چگتا رہا۔ تھک بھی گیا اور اس کا پیٹ بھی نہیں بھرا۔

    بابا دین مُحمد نے کچھ توقف کے بعد پوچھا بتاؤ مرغے کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ میں نے فٹ سے جواب دیا نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا، بابا بولا بالکل ٹھیک۔ یاد رکھنا اگر اللہ کے بندوں کو حسد، گمان، تکبر، تجسس، غیبت اور احساسِ برتری کی ٹھونگیں مارو گے تو اللہ تمھارا رزق مشکل کر دے گا اور اس اصیل ککڑ کی طرح مارے مارے پھرو گے۔

    تُو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑیں، رب نے تیرا رزق آسان کر دیا۔ بابا عجیب سی ترنگ میں بولا:

    پیسہ، عزت، شہرت، آسودگی حاصل کرنے اور دکھوں سے نجات کا آسان راستہ سن لے۔ اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والا، ان کی تعریف کرنے والا ان سے مسکرا کے بات کرنے والا اور دوسروں کو معاف کرنے والا کبھی مفلس نہیں رہتا۔ آزما کر دیکھ لو۔

    (اردو کے مشہور و معروف ادیب اور ڈراما نویس اشفاق احمد کا تحریر کردہ سبق آموز پارہ)

  • "ست پڑا پہاڑ” کے دامن میں آباد "اچل پور” کی کہانی

    "ست پڑا پہاڑ” کے دامن میں آباد "اچل پور” کی کہانی

    شہر اچل پور، جو صوبہ مہا راشٹر کے علاقے ودربھ میں ضم ہوگیا، کبھی سلطنتِ برار کا پایہ تخت ہوا کرتا تھا۔

    "ست پڑا پہاڑ” کے دامن میں بسا یہ شہر ماضی میں شاعروں، ادیبوں، صوفیوں اور فن کاروں کی آماج گاہ رہا ہے۔

    دہلی سے حیدر آباد دکن جانے والے قدیم اور واحد راستے میں واقع اس بستی سے بڑے بڑے بادشاہوں، سورماؤں، سپاہ سالاروں اور بزرگوں کے ساتھ ساتھ اس دور میں چوروں، ڈاکوؤں اور ٹھگوں کا گزر بھی ہوا ہے۔

    گمان غالب ہے کہ برار میں اسلام کی آمد شاہ دولھا رحمٰن غازی ؒ کے معرکۂ جہاد (392ھ بمطابق 1002) سے ہوئی، اچل پور میں عظیم الشّان تاریخی مدرسوں کا قیام عمل میں آیا، اور یہاں مزارات بنے۔ ہندو دیو مالائی داستانوں کی کتابوں میں اس کا نام اچل پور ہی ملتا ہے۔ مختلف ادوار میں اسے اڑس پور، ایلچا پور اور ایلچ پور بھی کہا جاتا رہا ہے۔

    اچل پور کی ادبی تاریخ بھی اپنے اندر بلا کی آب و تاب رکھتی ہے۔ مراٹھی زبان کی پہلی نثر بعنوان ’لیلا چرتر‘ یہیں لکھی گئی۔ جہاں تک اردو شعر و ادب کا سوال ہے یہ شہر ہمیشہ ہی علم و فن کا گہوارہ رہا ہے۔

    ایک وقت تھا جب یہاں پر ملک بھر سے طالب علم اور تشنگانِ ادب اپنی پیاس بجھانے آتے تھے۔ یہاں سیکڑوں کی تعداد میں ادیب و شاعر پیدا ہوتے رہے ہیں جن میں ودربھ کا پہلا اردو نثر نگار حاجی امام الدّین عرف حاجی محمد عبداللہ اور پہلا صاحب دیوان ہندو شاعر انبا پرشاد طرب اسی شہر کی ہواؤں کے پروردہ تھے۔

    (حیدر بیابانی کے مضمون سے خوشہ چینی)