Tag: مسلمان طبیب

  • آلاتِ جراحی کے موجد ابوالقاسم الزہراوی کا تذکرہ

    آلاتِ جراحی کے موجد ابوالقاسم الزہراوی کا تذکرہ

    عالمِ اسلام کبھی علم و دانش کا قدر دان، فنونِ لطیفہ کا دلدادہ تھا جس میں‌ قابل، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت لوگ فلسفہ اور ادب کے شائق، سائنس اور اس باب میں اختراع اور ایجادات کے لیے مشہور تھے۔ حکم راں علوم و فنون اور صنعت و حرفت کی سرپرستی کرتے تھے۔ اسی دور کے الزہراوی کی علمِ جراحت میں عظمت اور کمال کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔

    مؤرخین نے ساتویں صدی سے 13 ویں صدی تک کے دور کو اسلام کا روشن ترین زمانہ بتایا ہے اور اسی عہد میں ابوالقاسم خلف بن عباس الزہراوی نے بھی کئی آلاتِ‌ جراحی ایجاد کیے تھے۔ ابوالقاسم نے فکر اور تجربے کی کسوٹی پر اپنے وسیع مطالعہ سے نتائج اخذ کیے اور اس وقت جب ہر قسم کی بیماریوں کا علاج ادویات سے کیا جاتا تھا، انھوں نے بیماریوں کی دو اقسام بتائیں جن کے مطابق بعض بیماریوں کا علاج دوا ہے جب کہ بعض کا علاج سرجری سے ہونا چاہیے۔ انھوں نے دانتوں کے امراض کے علاج کے لیے کئی آلات اور سرجری کے اوزار تیار کیے اور ان کی تفصیل بھی لکھی جن سے بعد میں دنیا نے فائدہ اٹھایا۔

    الزہراوی کا سنہ پیدائش 936 عیسوی اور ان کی وفات کا سال 1013 بتایا جاتا ہے۔ ان کا تعلق اندلس سے تھا جسے اسلام کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی تاریخ میں بڑا مقام اور اہمیت حاصل رہی ہے۔

    اس مسلمان سائنس داں کو قرطبہ کے شمال مغرب میں امویوں بسائے گئے شہر الزہراء سے نسبت رکھنے کے سبب الزہراوی کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے وقت کے معتبر طبیب، ماہر جراح اور ممتاز مصنّف تھے جن کی ایجادات کا دنیا آج بھی اعتراف کرتی ہے۔

    محققین کے مطابق وہ عبد الرّحمن سوم الناصر کے طبیبِ خاص تھے اور بعد میں ان کے بیٹے الحکم دوم المستنصر کے طبیبِ خاص مقرر ہوئے۔ الزہراوی کی زندگی کے حقائق اور تفصیلات بہت کم معلوم ہوئے ہیں، لیکن ان کی اہم تصانیف میں ان کی کتاب “الزہراوی” ہے جب کہ سب سے بڑی تصنیف “التصریف لمن عجز عن التالیف” کے نام سے مشہور ہے اور اس کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

    الزہراوی ایک ماہر جراح ہی نہیں تجربہ کار طبیب بھی تھے۔ ان کی کتاب میں آنکھوں کے امراض، کان، حلق، دانت، مسوڑھے، تولید اور ہڈیوں سے متعلق معلومات موجود ہیں۔ زہراوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے طبیب تھے جنھوں نے “ہیموفیلیا” نہ صرف دریافت کیا بلکہ اس پر تفصیل سے بات بھی کی ہے۔

    زہراوی کو بالخصوص یورپ میں بہت شہرت حاصل ہوئی اور ان کی کتب کا بہت سی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن سے دنیا بھر میں‌ جراحت سے وابستہ افراد استفادہ کرتے ہیں۔ ان کے ایجاد کردہ آلات جراحی جدید شکلوں میں‌ آج بھی استعمال ہوتے ہیں۔

    قرطبہ میں جس گلی میں الزہراوی رہتے تھے، آج وہ انہی سے موسوم ہے اور اس پر تختی پر لکھا ہے: "یہ وہ گھر ہے جہاں الزہراوی رہتا تھا۔”

    ابوالقاسم الزہراوی نے اپنا لڑکپن اور جوانی جس ماحول میں گزاری اور جس شہر کے وہ باسی تھے، وہاں علم و فن کو اس زمانے میں‌ بڑی اہمیت دی جاتی تھی اور تعلیم کے لیے کئی جامعات اور بہترین اساتذہ موجود تھے۔ وہ قرطبہ کے شاہی شفا خانے سے منسلک رہتے ہوئے تحقیق میں مگن رہے اور وہ وقت آیا جب اہلِ یورپ نے سرجری میں اس مسلمان سائنس داں کی تحقیق اور طبی ایجادات سے فائدہ اٹھایا۔ سرجری پر ان کی پہلی مفصل کتاب التصریف تھی جو تین بڑے حصوں میں منقسم ہے۔ یورپ میں اس کتاب کی مقبولیت انیسویں صدی کے آخر تک بھی باقی تھی۔

  • اندلس کے ابنِ زُہر کا تذکرہ جنھیں طبیبِ کامل کہا جاتا ہے

    اندلس کے ابنِ زُہر کا تذکرہ جنھیں طبیبِ کامل کہا جاتا ہے

    لگ بھگ ہزار سال پہلے جہاں برِاعظم یورپ نے مسلمانوں کی دلیری، شجاعت کی داستانیں سنی تھیں، وہیں اندلس میں خلافت و اسلامی امارت کا پرچم بلند ہوتے بھی دیکھا تھا جس نے علم و فنون کی سرپرستی کی اور اس کے زیرِ سایہ صنعت و حرفت کے میدان میں مثالی ترقّی اور دریافت و ایجاد کے میدان میں عظیم اور ناقابلِ فراموش کارنامے انجام دیے گئے۔

    اسی دور کا اندلس جہاں ہمیں شان و شوکت، رعب و دبدبے اور سلطنت کے عروج و زوال کی ہوش رُبا داستان سناتا ہے، وہاں اس زمانے کے مسلمان سائنس دانوں کے کار ہائے نمایاں بھی ہمارے سامنے رکھتا ہے جس سے بعد میں یورپ کی دیگر اقوام نے بھرپور استفادہ کیا۔

    ابنِ زُہر (زُھر) اندلس کے اُس خاندان کے فرد تھے جس نے مختلف ادوار میں علم و ادب، مذہب اور طب میں نام و مرتبہ پایا۔

    ابنِ زُہر جیّد و مستند عالم اور حاذق طبیب تھے۔ مسلم اور غیر مسلم یورپی مؤرخین نے انھیں فنِ طبابت کے علاوہ الہٰییات، فقہ کا زبردست عالم اور ادبیات کا ماہر بتایا ہے۔ تاہم ان کی دنیا بھر میں وجہِ شہرت علمِ طب ہے جس کے لیے ان کے بزرگ اور خاندان کے دیگر لوگ بھی مشہور تھے۔

    زُہر کا مکمل خاندانی نام "ابنِ زُہر بن ابو مروان عبد الملک بن ابی الاعلیٰ زُہر تھا۔ ان کی ولادت اشبیلیہ میں 1091ء میں ہوئی۔ ابنِ زُہر کو مستشرقین Avenzoar کے نام سے جانتے ہیں۔

    ابنِ زُہر نے تجربات و تحقیق سے متعدد امراض کا علاج دریافت کیا اور کئی کتابیں تصنیف کیں جن میں امراض اور ادویّہ کی تفصیل محفوظ ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے سانس کی نالی کی جراحی کی اور غذائی عمل سے متعلق تجربات کیے۔ انھوں نے حلق اور غذا کی نالی سے مصنوعی غذائیت کا تجربہ کیا۔ انھوں نے اپنے ان تجربات اور دریافتوں کے سبب بہت عزّت اور شہرت پائی۔

    ابنِ زُہر نے نظام انہضام و امراضِ معدہ کے علاوہ جسم کے مختلف اعضا کی کیفیت و حالت اور طبّی شکایات و پیچیدگیوں پر تحقیق کرتے ہوئے اپنے مشاہدات اور تجربات کو بیان کیا ہے۔ امراض و علاج سے متعلق اس مسلمان سائنس داں اور ماہر طبیب کی دریافتوں اور انکشافات کے بارے میں تفصیل ان کی کتب سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

    ان کی مشہور طبّی تصانیف کتاب التیسیر فی المداوات و التدبیر، کتاب الاقتصاد فی الاصلاح النّفس والاجساد ہیں۔ ان کتب کا ترجمہ دُنیا کی متعدد زبانوں میں ہو چکا ہے۔ ابنِ زُہر کا سنِ وفات 1161ء بتایا جاتا ہے۔