Tag: مسلمان فاتحین

  • ‘عہد شکن’ اور قاتل جسے انگلستان کے عوام ‘شیر دل’ مانتے ہیں!

    ‘عہد شکن’ اور قاتل جسے انگلستان کے عوام ‘شیر دل’ مانتے ہیں!

    انیسویں صدی میں فرانس کے ایک کلیسا کی مرمت اور بحالی کے دوران ایک جگہ سے سیسے کا ڈبّہ کسی کے ہاتھ لگا جس میں نہایت بوسیدہ کپڑے کا ٹکڑا موجود تھا۔ اس ڈبّے پر لاطینی زبان میں درج عبارت کچھ یوں پڑھی گئی: ‘یہاں انگلستان کے عوام کے بادشاہ رچرڈ کا دل رکھا گیا ہے۔‘

    شہنشاہِ انگلستان، رچرڈ اوّل کو دنیا سے گئے ہزار سال ہونے کو آئے ہیں۔ اس نے 1157ء میں ‌آنکھ کھولی اور 6 اپریل 1199ء کو زندگی کی بازی ہار گیا۔

    اس نے کنگ رچرڈ اوّل کی حیثیت سے 1189ء میں اپنی بادشاہت کا اعلان کیا تھا اور وفات تک شہنشاہِ انگلستان رہا۔ وہ عیسائی عوام میں ‘شیر دل’ کے لقب سے مشہور تھا۔ اس نے صلیبی جنگوں میں‌ حصّہ لیا اور اپنے دور کے کئی مسلمان سپہ سالاروں اور ان کی افواج کا مقابلہ کیا۔

    مشہور ہے کہ وہ بہت دلیر اور اولوالعزم تھا۔ اس نے ہر محاذِ جنگ پر دلیری اور شجاعت کے جوہر دکھائے اور اکثر فتح یاب ہوا۔ مؤرخین کے مطابق کنگ رچرڈ نے خود کو اپنے عوام کی قیادت کا اہل ثابت کیا تھا۔ وہ مختلف ادوار میں انگلستان کے چھوٹے بڑے علاقوں کا منتظم رہ چکا تھا اور حکم رانی کا خاصا تجربہ ہوچکا تھا، لیکن بعض کے نزدیک وہ کسی بڑے جنگی معرکے کے لیے فوج کی قیادت کی اہلیت نہیں‌ رکھتا تھا۔

    کنگ رچرڈ اوّل صلیبی جنگ میں خطروں کی پروا کیے بغیر آگے بڑھتا رہا، اکثر محاذوں پر خوب دادِ شجاعت سمیٹی ، لیکن اپنا یروشلم کی فتح کا خواب پورا نہ کرسکا۔ اس نے عظیم مسلمان فاتح سلطان صلاح الدّین ایوبی کے لشکر کا بھی مقابلہ کیا تھا۔

    رچرڈ کی موت کے حوالے سے مشہور ہے کہ وہ وسطی فرانس میں ایک جنگ کے دوران زخمی ہو گیا تھا اور وہیں دَم توڑ دیا۔ بعض جگہ لکھا ہے کہ وہ صلیبی جنگ کے دوران مارا گیا تھا اور یہ ایک مذہب کے ماننے والوں کے نزدیک مقدّس جنگ تھی۔ اسی لیے شیر دل کو بہت عزّت اور احترام دیا گیا۔

    شہنشاہ کی موت کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اس کا دل محفوظ کر لیا جائے اور اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے۔ یوں شیر دل کا دل رُوئین (Rouen) کے ایک کلیسا میں محفوظ ہوا جسے انیسویں صدی میں وہاں سے نکال کر اس پر تحقیق کی گئی۔

    محققین کے مطابق اس زمانے میں‌ ادویّہ سازوں نے مخصوص مرہم تیّار کیا اور یوں شہنشاہ کے دل کو گلنے سڑنے سے ‘محفوظ’ بنانے کے بعد اسے نہایت خاص قسم کے کپڑے میں لپیٹ کر کلیسا میں رکھ دیا گیا۔ یہ کپڑا بھی سیسے (پارہ) اور خاص قسم کی جڑی بوٹیوں سے تیّار کیا گیا تھا۔

    انیسویں صدی میں جب اس ڈبّے کو کھولا گیا تو وہاں کپڑے کے نام پر بچنے والے تاروں کو ہٹانے پر اس میں سے صرف مٹیالا سفوف ہی نکل سکا جس پر تحقیق کے دوران جدید دور کے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ شہنشاہ اپنی موت کے وقت لگ بھگ 42 برس کا تھا۔

    رچرڈ اوّل اپنی بدعہدی کے لیے بھی مشہور ہے اور مسلمان اسے ظالم اور قاتل کے طور پر جانتے ہیں۔

  • پرتگال میں‌ پانچ سو سال بعد مسجد کی بنیاد رکھی گئی!

    پرتگال میں‌ پانچ سو سال بعد مسجد کی بنیاد رکھی گئی!

    تاریخ بتاتی ہے کہ پرتگال کا علاقہ مسلم اسپین کا حصہ تھا جسے فتح کرنے کا سہرا موسٰی بن نصیر کے سَر ہے۔

    مسلمانوں نے بڑی شان و شوکت سے اس خطے پر حکم رانی کی، لیکن بعد میں یہ علاقہ عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا اور بڑا ظلم ڈھایا گیا۔ مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور مساجد کو کلیسا میں تبدیل کر دیا گیا۔

    آج پرتگال میں مسلمان اقلیت میں‌ ہیں۔ یہ 1968 کی بات ہے جب وہاں ایک قانون سازی کے بعد مسلمانوں نے خود کو مستحکم کرنے اور اپنا وجود منوانے کی کوششیں شروع کیں۔

    اس زمانے میں 17 مسلمانوں نے مل کر وہاں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ بعد میں اسی تنظیم کے تحت مسلمانوں کی مدد کرنے اور ان کے لیے فلاحی و تعلیمی مراکز کھولنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہاں آباد مسلمانوں نے قرآن مجید کا مقامی زبان میں ترجمہ کروایا اور اس کی اشاعت ممکن بنائی۔

    29 مارچ 1985 کی ایک صبح، جمعے کے مبارک دن پرتگال میں ایک بڑی تقریب کے دوران مسجد کی بنیاد رکھی گئی جو پرتگال کی سرزمین پر پانچ صدی بعد مسلمانوں کی پہلی عبادت گاہ تھی۔