Tag: مسلمان

  • برطانوی مسلمانوں کی جانب سے بے گھر افراد میں کھانا تقسیم

    برطانوی مسلمانوں کی جانب سے بے گھر افراد میں کھانا تقسیم

    لندن: برطانوی مسلمانوں نے اپنے خلاف تمام تر تعصب اور نفرت انگیز واقعات کے باوجود کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے لندن کے بے گھر افراد میں کھانا تقسیم کیا۔

    مشرقی لندن کی مسجد سے شروع کی جانے والی اس مہم کے تحت 10 ٹن کھانا بے گھر افراد میں تقسیم کیا گیا جو زیادہ تر عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ مہم میں 7 ہزار سے زائد افراد نے رضا کارانہ خدمات انجام دیں۔

    uk-5

    uk-4

    اس مہم کے لیے مالی تعاون مختلف مسلمان کاروباری افراد، اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں نے فراہم کیا۔ 10 ٹن کی ان غذائی اشیا میں چاول، پاستہ، سیریل اور دیگر ڈبہ بند اشیا شامل تھیں۔

    مہم میں مسلمانوں کے ساتھ دیگر مذاہب کے افراد نے بھی شرکت کی۔ انہوں نے اسے مذہبی ہم آہنگی کا ایک بہترین مظاہرہ قرار دیا۔

    uk-3

    uk-2

    واضح رہے کہ برطانیہ کے ترقی یافتہ ملک ہونے کے باوجود صرف دارالحکومت لندن میں ساڑھے 3 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہونے کے سبب سڑکوں پر رات گزارتے ہیں۔

  • لندن: مسلمان خاتون کا حجاب اتارنے اور سڑک پر گھسیٹنے کی کوشش

    لندن: مسلمان خاتون کا حجاب اتارنے اور سڑک پر گھسیٹنے کی کوشش

    لندن: برطانوی دارالحکومت لندن میں اسلام سے نفرت پرستی کا ایک اور واقعہ پیش آگیا جس میں ایک باحجاب خاتون کو ان کے حجاب سے سڑک پر گھسیٹا گیا۔

    میٹرو پولیٹن پولیس کا کہنا ہے کہ 2 سفید فام نوجوانوں نے اس راہ گیر مسلمان خاتون کو دیکھ کر یہ نفرت پرستانہ اور تعصبانہ اقدام اٹھایا۔

    عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ان سفید فام لڑکوں نے خاتون کا اسکارف کھینچ کر اتارنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں خاتون زمین پر گر گئی اور گھسٹتی چلی گئی۔

    مزید پڑھیں: خواتین حجاب کھینچے جانے پر کیا کریں

    قریب ہی واقع ایک ترکی ریستوان کے بیرے کا کہنا ہے کہ انہوں نے ریستوران سے باہر رکھی کرسیوں پر خاتون کو بہت بری حالت میں پایا۔ وہ اس کے قریب یہ سوچ کر گئے کہ شاید یہ ریستوران میں آنے والی خاتون ہے، مگر وہ رو رہی تھی اور بری طرح کانپ رہی تھی۔ ’اس نے بتایا کہ اس پر حملہ کیا گیا ہے‘۔

    واقعہ کے بعد موقع پر موجود افراد نے خاتون کی مدد کی اور انہیں مذکورہ ریستوران کے اندر پہنچایا۔

    ریستوران مالک کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس سے پہلے اس جگہ پر کبھی ایسا ناخوشگوار واقعہ نہیں دیکھا۔

    مزید پڑھیں: یورپ میں مقیم مسلمانوں کو نفرت انگیز رویوں سے کیسے بچایا جائے؟

    واضح رہے کہ برطانیہ، امریکا اور مختلف یورپی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پرستی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ برطانوی ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ اس نسلی شدت پرستی کا نشانہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر اقلیتی گروہ جیسے یہودی، مہاجرین اور ہم جنس پرست افراد بھی بن رہے ہیں۔

    لندن کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ نفرت پرستی کے ان واقعات کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات پر عمل کر ہے ہیں۔

  • امریکہ، مساجد کو دھمکی آمیز خطوط کا سلسلہ جاری

    امریکہ، مساجد کو دھمکی آمیز خطوط کا سلسلہ جاری

    کیلیفورنیا : کونسل برائے امریکن اسلامک ریلیشنز کا کہنا ہے کہ لاس اینجلس کی تین مساجد کو دھمکی آمیز خط موصول ہوئے ہیں تنظیم نے مساجد کے باہر پولیس کی نفری بڑھانے کا مطالبہ کیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ایجینسی کے مطابق کونسل برائے امریکن ریلیشنز نے لاس اینجلس کی تین مساجد کو لکھے گئے دھمکی آمیز خطوط ملنے پر انتظامیہ سے سیکیورٹی کا مطالبہ کردیا ہے۔

    letter-post

    یہ خطوط گزشتہ ہفتے اسلامک سینٹر آف لانگ بیچ، اسلامک سینٹر آف کلیرمونٹ اور ایور گرین اسلامک سینٹر سینٹ جوز میں بھیجے گئے۔

    مساجد کو موصول دھمکی آمیز خطوط ہاتھ سے تحریر کیے گئے ہیں جن میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف کی گئی ہے اور مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی دی گئی ہے۔

     اسی سے متعلق : ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد نفرت انگیز واقعات میں زبردست اضافہ

    کونسل نے بتایا ہے کہ خط میں ڈونلڈ ٹرمپ کو نیا پولیس والا ظاہر کیا گیا ہے جو امریکا کو مسلمانوں سے صاف کردے گا اور مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔

    سین جوز پولیس ڈپارٹمنٹ کے ترجمان سارجنٹ اینرک گارشیا نے کہا کہ پولیس نے تحقیقات شروع کردی ہیں اور اس معاملے کو نفرت پر مبنی عمل قرار دیا گیا ہے۔

    ترجمان نے مزید کہا کہ امریکہ مذہبی رواداری پر یقین رکھتا ہے جہاں ہر شہری کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔

    واضح رہے کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے نفرت آمیز اور متنازعہ بیانات کے باعث شہرت رکھتے ہیں جن کے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی اقلیتیوں بالخصوص مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

  • یورپ میں مقیم مسلمانوں کو نفرت انگیز رویوں سے کیسے بچایا جائے؟

    یورپ میں مقیم مسلمانوں کو نفرت انگیز رویوں سے کیسے بچایا جائے؟

    دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک منفی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے جس کے مطابق مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھا جارہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں یورپ میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی جس کے بعد دنیا نے عام مسلمانوں اور شدت پسندوں کو ایک صف میں کھڑا کردیا۔

    ان حملوں کے بعد یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوگیا اور وہاں برسوں سے رہنے والے مسلمانوں کو اپنے آس پاس کے افراد کی جانب سے نفرت انگیز یا تضحیک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بعض واقعات میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

    تاہم اب بھی ایسے افراد موجود ہیں جو تمام مسلمانوں کو اس سے منسلک کرنا غلط سمجھتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ شدت پسندی کو مذہب سے جوڑنا غلط ہے اور چند لوگوں کے مفادات کی خاطر کیے جانے والے قتل و غارت کی ذمہ داری پوری دنیا میں آباد مسلمانوں پر ڈالنا دانش مندانہ اقدام نہیں۔

    یورپ میں جہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات میں اضافہ ہوا وہیں ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے جب غیر مسلم افراد ہی مسلمانوں کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوئے اور انہیں اپنے لوگوں کے نفرت آمیز رویوں سے بچایا۔

    مزید پڑھیں: پوپ فرانسس کی مسلمان خواتین کے حجاب کی حمایت

    ایسا ہی ایک قدم پیرس سے تعلق رکھنے والی آرٹسٹ میرل نے اٹھایا اور اس نے لوگوں کے لیے ایک رہنما کتابچہ تیار کیا کہ اگر وہ کسی شخص کو کسی مسلمان خاتون کو ہراساں کرتے دیکھیں تو انہیں کیا کرنا چاہیئے۔

    اس رہنما کتابچے کی تیاری کا خیال انہیں اپنے آس پاس بڑھتے اسلامو فوبیا کو دیکھ کر آیا۔ وہ کہتی ہیں، ’یورپ میں حملوں کے بعد میں نے دیکھا کہ بسوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں مسلمان خواتین کا سفر کرنا محال ہوگیا۔ انہیں مسافروں کی گھورتی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا۔ بعض مسافر ان سے بحث بھی کرتے اور انہیں برا بھلا کہتے‘۔

    وہ کہتی ہیں کہ اس ساری صورتحال سے کم از کم چند غیر مسلم افراد ایسے ضرور تھے جو الجھن کا شکار ہوتے اور وہ اس مسلمان کی مدد کرنا چاہتے لیکن وہ خود کو بے بس پاتے۔

    انہوں نے سوچا کہ وہ ان چند اچھے افراد کو شعور دے سکیں کہ ایسی صورتحال میں انہیں کیا کرنا چاہیئے۔ یہی سوچ ان کے اس رہنما کتابچے کی تخلیق کا سبب بنی۔

    اس کتابچے میں انہوں نے 4 طریقے بتائے۔

    :ابتدائی قدم

    سب سے پہلے اگر آپ کسی مسلمان خاتون کو دیکھیں اور اس کے آس پاس کوئی ایسا شخص دیکھیں جو غلط ارادے سے اس کی طرف بڑھ رہا ہو، وہ اسے ہراساں کرنا چاہتا ہو، تو آپ اس خاتون کے ساتھ بیٹھ جائیں اور ان سے گفتگو شروع کردیں۔

    :گفتگو کا موضوع

    گفتگو کا موضوع مذہبی نہ ہو۔ یہ کوئی بھی عام سا موضوع ہوسکتا ہے جیسے موسم، فلم یا سیاسی حالات پر گفتگو۔

    :لاتعلقی ظاہر کریں

    اپنے آپ کو لاتعلق ظاہر کریں۔ نہ ہی اس خاتون کو یہ احساس ہونے دیں کہ آپ نے اس کے لیے کوئی خطرہ محسوس کیا ہے۔ نہ ہی ممکنہ حملہ آور کو احساس ہونے دیں کہ آپ نے اسے دیکھ لیا ہے اور اس کے عزائم سے واقف ہوگئے ہیں۔

    :بحفاظت پہنچنے میں مدد دیں

    گفتگو کو جاری رکھیں یہاں تک حملہ آور وہاں سے چلا جائے۔ اس کے بعد مسلمان خاتون کو بحفاظت وہاں تک پہنچنے میں مدد دیں جہاں وہ جانا چاہتی ہیں۔

    islamophobia-2

    میرل دو مزید چیزوں کی وضاحت کرتی ہیں، ’ایسی صورتحال میں لازمی طور پر 2 کام کریں۔ پہلا ممکنہ حملہ آور کو بالکل نظر انداز کریں۔ اس سے کسی بھی قسم کی گفتگو یا آئی کانٹیکٹ نہ رکھیں‘۔ ’دوسرا ممکنہ حملے کا نشانہ بننے والی خاتون کی خواہش کا احترام کریں۔ اگر وہ چاہتی ہے کہ آپ چلے جائیں تو حملہ آور کے وہاں سے جانے کے بعد آپ بھی وہ جگہ چھوڑ دیں۔ اگر وہ چاہتی ہے کہ آپ اس کے ساتھ رہیں تو سفر کے اختتام تک اس کے ساتھ رہیں‘۔

    میرل کا کہنا ہے، ’اگر آج آپ کسی اجنبی مسلمان کی مدد کریں گی اور اسے مشکل سے بچائیں گی، تو کبھی کسی دوسرے مقام پر کوئی اور اجنبی مسلمان آپ کے کسی پیارے کو بھی کسی مشکل سے بچا سکتا ہے‘۔

  • اتحاد بین المسلمین کی مظہر ۔ مسجد عبد الرحمٰن

    اتحاد بین المسلمین کی مظہر ۔ مسجد عبد الرحمٰن

    محرام الحرام کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان میں موجود کچھ شرپسند اذہان عوام کے درمیان ایسے اعتراضات کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں جن سے آپس میں رنجشیں پیدا ہوں اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ نہ ملے لیکن ایسے عناصر نہ پہلے کبھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں اور نہ آئندہ کبھی ہوسکیں گے۔ کراچی میں ایک ایسی مسجد بھی ہے جو اتحاد بین المسلمین کا روشن مظہر ہے اور دین و ملت میں رخنہ ڈالنے والے عناصر کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔

    کراچی کی شاہراہ فیصل سے اگر آپ طارق روڈ جانے کے لیے شاہراہ قائدین کا راستہ لیں تو شاہراہ قائدین برج کہلانے والے اس پل کے نیچے ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئے گی۔ مسجد کی موجودگی تو کوئی غیرمعمولی بات نہیں، ملک بھر میں آپ کو ہر گاؤں دیہات، قصبہ اور شہر میں ہر طرح کی چھوٹی بڑی مساجد نظر آئیں گی، لیکن اس مسجد کی خاص بات اس کے باہر لگا ہوا وہ بورڈ تھا جو ہر آتے جاتے شخص کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتا ہے۔

    اس بورڈ پر لکھی عبارت نہایت حیرت انگیز ہے، ’یہ مسجد تمام مسالک کے مسلمانوں کے لیے ہے‘، اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ، نہ صرف مسجد قائم ہے بلکہ آباد بھی ہے۔

    جب ملک بھر میں فرقہ وارانہ تعصب عروج پر ہو اور آپ کے کانوں میں اپنے سے مختلف فرقہ کے مسلمانوں کے لیے ’کافر‘ کا نعرہ گونجتا ہو تو ایسے میں یہ مسجد، کم از کم میرے لیے بہت انوکھی تھی۔ عصر حاضر کے معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی اپنی کتاب ’آب گم‘ میں لکھتے ہیں، ’مسلمانوں نے کسی کے ہندو، عیسائی یا بدھ مت کا پیروکار ہونے پر کبھی تعرض نہیں کیا۔ البتہ اپنے فقہ اور فرقے سے باہر ہر دوسرے مسلم فرقے سے تعلق رکھنے والے کا سر پھاڑنے اور کفر کا فتویٰ لگانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں‘۔

    تو ایسے میں وہ کون مرد مومن تھا جس نے مسجد بنوا کر اس قدر کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا کہ اسے ہر فرقے کے لوگوں کے لیے عام کردیا؟

    پہلی بار جب میں اس مسجد، مسجد عبد الرحمٰن میں گئی، تو چونکہ وہ کسی نماز کا وقت نہیں تھا، لہٰذا مسجد خالی تھی۔ مسجد کے سامنے ہی پولیس چوکی بنی ہوئی ہے۔ چوکی میں موجود اہلکاروں نے جب ہمیں کیمرے کے ساتھ مسجد میں جھانکتے دیکھا تو ان میں سے ایک اہلکار قریب آگیا۔

    رسمی تعارف اور آمد کے مقصد کے بعد انہوں نے بتایا کہ مسجد میں پانچوں وقت باجماعت نماز ہوتی ہے۔ وہ خود بھی اس وقت نماز مغرب کی تیاری کے لیے جارہے تھے اور ان کا یہیں نماز پڑھنے کا ارادہ تھا۔

    جب ہم نے ان سے مزید سوالات کیے تو پتہ چلا کہ اس مسجد کو دراصل کچھ پولیس اہلکاروں نے اپنی سہولت کے لیے بنایا تھا۔ جس بھلے شخص نے یہ مسجد بنوا کر اس کے باہر یہ حیرت انگیز بورڈ لگایا، پولیس ڈپارٹمنٹ میں وہ ایس ایچ او گوگا کے نام سے مشہور ہے۔

    اب ہماری تلاش ایس ایچ او گوگا کے لیے تھی جو بے شمار فون کالز کے بعد بالآخر ختم ہوئی۔

    جب میری ایس ایچ او گوگا سے بات ہوئی تو میرا پہلا سوال یہی تھا، کہ وہ کیا وجہ تھی کہ انہوں نے یہ قدم اٹھایا جو فرقہ وارانہ شدت پسندی کے اس ماحول میں شاید ان کی جان جانے کا سبب بھی بن سکتا تھا؟

    ایس ایچ او گوگا

    ایس ایچ او گوگا جن کا اصل نام محمد زکیب ہے، نے بتایا، ’جب ہم نے یہ مسجد بنائی تو پہلے دن ایک مسلک کے لوگ ہمارے پاس آئے۔ انہوں نے کہا ہمارے مولانا اس مسجد میں نماز کی امامت کریں گے۔ میں نے کہا سو بسم اللہ کیوں نہیں۔ اگلے دن ایک اور فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص یہی مطالبہ لے کر آگیا، تب مجھے خیال آیا کہ یہ تو خوامخواہ ایک مسئلہ کھڑا ہوگیا‘۔

    ایس ایچ او گوگا کے مطابق انہوں نے ’مولوی بٹھانے‘ کی فرمائش لے کر آنے والے تمام افراد کو شکریہ کے ساتھ واپس لوٹا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے ’یہ مسجد تمام مسالک کے مسلمانوں کے لیے ہے‘والا بورڈ لٹکایا اور ایک معتدل خیالات رکھنے والے مولانا کو یہاں کا امام مقرر کردیا۔

    انہوں نے کہا، ’نیک نیتی سے قائم کی جانے والی اس مسجد کو اللہ نے اتنی برکت دی کہ آج بغیر کسی تنازعہ کے پانچوں وقت یہاں باجماعت نماز ہوتی ہے‘۔

    سنہ 2012 میں یہ مسجد قائم کرنے والے ایس ایچ او گوگا اس وقت محکمہ 15 کے انچارج تھے۔ وہ اپنی جیب سے مسجد کے امام کو 2500 روپے ماہانہ تنخواہ دیا کرتے تھے۔ ڈیڑھ سال بعد انہیں ایس ایچ او سچل تعینات کردیا گیا اور ان کی جگہ ایک اورایس ایچ او ہمایوں نے سنبھال لی۔

    ایس ایچ او گوگا کا کہنا تھا کہ وہاں سے جانے سے قبل انہوں نے ایس ایچ او ہمایوں کو مسجد کے انتظامات اورامام کی تنخواہ کی ذمہ داری بھی سونپی جو انہوں نے بخوشی قبول کی۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کے اس بورڈ یا کسی مسلکی اختلاف کی وجہ سے یہ مسجد کبھی کسی تنازعہ کا شکار نہیں بنی۔ ’کم از کم میں نے اپنی آنکھوں سے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا‘۔

    سنہ 2013 میں انہیں ایک سانحہ سے گزرنا پڑا۔ 20 مئی 2013 کو دو سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے وال ایک مسلح تصادم کے دوران ان کی کمر میں گولی لگ گئی۔ انہیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا جہاں سرکاری خرچ پر ان کا بہترین علاج کیا گیا، لیکن علاج کارگر نہ ہوسکا اور انہیں اپنے دونوں پاؤں کھونے پڑے، ’بس جو اللہ کو منظور‘۔ انہوں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔

    واکنگ اسٹک کے سہارے چلتے ہوئے گوگا اب بھی محکمہ پولیس سے منسلک ہیں اورہیڈ کوارٹر ایسٹ میں دفتری امور کی انجام دہی کر رہے ہیں۔

    نمازیوں سے آباد یہ مسجد اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام میں فرقوں کا تصور نہ ہونے کے باوجود ان کی موجودگی ایک حقیقت تو ہے، لیکن یہ کوئی ایسی وجہ نہیں جس پر دوسرے مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے، اس اسلام سے جس نے ہمیشہ عالمی انسانیت کا درس دیا۔ بقول ایس ایچ او گوگا، ’یہ مسجد ’تمام مسلمانوں‘ کے لیے بنائی گئی ہے‘۔

  • عید کی خوشیوں کو دوبالا کرتے بالی ووڈ کے 7 گانے

    عید کی خوشیوں کو دوبالا کرتے بالی ووڈ کے 7 گانے

    مسلمانوں کا تہوار عید الفطر دنیا بھر میں نہایت ذوق و شوق سے منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمان رہتے ہیں وہ نہ صرف خود یہ تہوار مناتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ غیر مسلموں کو بھی اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں۔

    بھارتی فلم انڈسٹری بالی ووڈ بھی ہندو اور مسلمان تہذیب و روایات کو پیش کرتی ہے۔ نہ صرف ہندو اور سکھ تہواروں کو فلموں میں دکھایا جاتا ہے بلکہ مسلمان تہواروں کو بھی مناتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔

    چونکہ عید کا موقع ہے تو ہم نے آپ کے لیے بالی ووڈ کے کچھ ایسے ہی گانوں کا انتخاب کیا ہے جو آپ کی عید کی خوشیوں کو دوبالا کردیں گے۔

    واللہ رے واللہ

    فلم ’تیس مار خان‘ کا گانا ’واللہ رے واللہ‘ اکشے کمار، کترینہ کیف پر فلمایا گیا ہے جبکہ سلمان خان بھی اس میں بطور مہمان اداکار جلوہ گر ہوئے ہیں۔

    عرضیاں

    فلم ’دہلی 6‘ کا گانا ’عرضیاں‘ میں عید کے تہوار کو دکھایا گیا ہے جس میں لوگ ایک دوسرے سے عید مل رہے ہیں اور چاروں جانب عید کی خوشیاں ہیں۔ گانے کی موسیقی اے آر رحمٰن کی جانب سے دی گئی ہے جبکہ اسے ابھیشک بچن پر فلمایا گیا ہے۔ اسے سن کر آپ بھی خود کو پرانی دلی کے اسی ماحول کا حصہ محسوس کریں گے جس نے اردو شعر و ادب کو پروان چڑھایا۔

    یوں شبنمی

    سونم اور رنبیر کپور کی پہلی فلم ’سانوریا‘ میں شامل گانا ’یوں شبنمی‘ میں یہ دونوں اداکار سب کو عید کی خوشیوں کی مبارکباد دیتے نظر آرہے ہیں۔

    مبارک عید مبارک

    سن 2002 میں آنے والی فلم ’تم کو نہ بھول پائیں گے‘ کے گانے ’مبارک عید مبارک‘ میں سلمان خان دل سے سب کو عید کی مبارکباد دیتے نظر آرہے ہیں۔ فلم میں سلمان خان کے ساتھ دیا مرزا اور سشمیتا سین بھی شامل تھیں۔

    چاند سامنے ہے

    یہ گانا فلم ’یہ محبت ہے‘ میں شامل ہے جو 2002 میں آئی۔ گانا راہول بٹ پر فلمایا گیا جبکہ فلم میں ارباز خان نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔

    چاند نظر آگیا

    فلم ’ہیرو ہندوستانی‘ 1998 میں آئی جس میں ارشد وارثی اور نمرتا شرودکر نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اس میں شامل گانا ’چاند نظر آگیا‘ چاند رات کی رونقیں یاد دلاتا ہے۔

    عید کا دن

    گانا ’عید کا دن‘ 1982 میں آنے والی فلم ’دیدار یار‘ میں شامل ہے۔ گانے میں قمر بدایونی کا مشہور مصرعہ ’رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے‘ بھی شامل ہے۔ فلم میں جیتندر، ریکھا اور رشی کپور نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

  • ریو اولمپکس میں کامیابی حاصل کرنے والی مسلمان خواتین

    ریو اولمپکس میں کامیابی حاصل کرنے والی مسلمان خواتین

    ریو ڈی جنیرو: ریو اولمپکس 2016 میں جہاں کئی ریکارڈز بنے وہاں خواتین نے بھی بے شمار ریکارڈز قائم کیے۔ رواں برس اولمپکس میں 14 مسلمان خواتین ایسی ہیں جنہوں نے میڈلز جیت کر اپنے ملک کا نام روشن کیا۔

    :زازیرا زپرکل، قازقستان

    5

    قازقستان کی 22 سالہ زازیرا نے 69 کے جی مقابلوں میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔

    :کیمیا علی زادہ، ایران

    9

    اولمپکس میں میڈل جیتنے والی ایران کی پہلی خاتون کھلاڑی کیمیا علی زادہ نے تائی کوانڈو کے مقابلہ میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ وہ کہتی ہیں کہ میری کامیابی ایرانی خواتین کے حوصلے کو مہمیز کرے گی اور امید ہے کہ اگلے اولمپکس میں ہم گولڈ میڈل جیتیں گے۔

    :دلیلہ محمد، امریکا

    1

    امریکن ایتھلیٹ دلیلہ محمد نے ریو 2016 میں 400 میٹر کی ریس میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔

    :ابتہاج محمد، امریکا

    7

    امریکن کھلاڑی 30 سالہ ابتہاج محمد نے شمشیر زنی کے مقابلہ میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ جیتنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکن دستہ میں ایک اقلیتی کھلاڑی کی حیثیت سے شریک ہونے کے باعث بہت پرجوش تھیں۔ ان کی یہ کامیابی دیگر مسلمان نوجوانوں کو بھی اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کی طرف مائل کرے گی۔

    :سارہ احمد، مصر

    8

    مصر کی ویٹ لفٹر سارہ احمد نے ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ وہ مصر کی جانب سے میڈل جیتنے والی پہلی کھلاڑی اور عرب ممالک کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے ویٹ لفٹنگ میں کوئی اولمپک تمغہ جیتا ہے۔

    :ہادیہ وہبہ، مصر

    10

    مصر کی ایک اور خاتون کھلاڑی 23 سالہ ہادیہ وہبہ ہیں جنہوں نے 57 کے جی کے مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتا۔

    :مجلندا کلمندی، کوسوو

    2

    مجلندا کلمندی جوڈو مقابلوں میں فتح حاصل کر کے اپنے ملک کی پہلی گولڈ میڈل جیتنے والی کھلاڑی بن گئیں۔

    :ماریہ سٹیڈنک، آذر بائیجان

    4

    آذر بائیجان سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ ماریہ نے فری اسٹائل 48 کے جی کے مقابلہ میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔

    :پاٹیمٹ ابکرووا، آذر بائیجان

    11

    آذر بائیجان کی 21 سالہ پاٹیمٹ ابکرووا نے وومینز تائی کوانڈو میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔

    :نور تاتار، ترکی

    14

    ترکی کی 24 سالہ نور تاتار نے تائی کوانڈو کے مقابلوں میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔

    :عالیہ مصطفینہ، روس

    3

    جمناسٹک کے مقابلوں کی کھلاڑی 21 سالہ مصطفینہ نے ریو اولمپکس میں برانز، سلور اور گولڈ کے تمغہ حاصل کیے۔

    :انس بوبکر، تیونس

    12

    تیونس کی کھلاڑی انس نے شمشیر زنی کے مقابلوں میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ اپنی فتح کو انہوں نے تمام عرب خواتین کے نام کردیا۔

    :مروا امری، تیونس

    13

    تیونس کی ایک اور کھلاڑی مروا عمری نے ریسلنگ کےمقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتا۔

    :سری وہیونی اگستنی، انڈونیشیا

    6

    انڈونیشیا کی 22 سالہ اگستنی نے ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔

  • مسلمان طالب علموں کو خواتین ٹیچرز سے ہاتھ ملانے کی دی گئی رعایت ختم کرنے کا اعلان

    مسلمان طالب علموں کو خواتین ٹیچرز سے ہاتھ ملانے کی دی گئی رعایت ختم کرنے کا اعلان

    جنیویا: سوئس علاقائی حکام نے بدھ کے روز قانون نافذ کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ کسی بھی مذہبی عقیدے کے مطابق طالب علم کا استاد سے ہاتھ ملانے کے انکار کو کوئی عذر موجود نہیں ہے جبکہ سوئزرلینڈ کے شمال میں‌واقع ایک اسکول انتظامیہ نے خاتون ٹیچر سے ہاتھ ملانے کے قانون کی مخالفت میں جنس مخالف کو چھونے کے حوالے سے مسلمان لڑکوں کو چھوٹ دے دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی سوئس کے تعلیمی حکام نے اساتذہ کے ہاتھ ملانے سے انکار کرنے پر طلباء کے والدین پر (پانچ ہزارڈالر،4500 یوروز) جرمانے کا لگانے کا فیصلہ کرتے ہوئے باقاعدہ قانون نافذ کردیا ہے۔

    اپنے بیان میں انتظامیہ نے کہا ہے کہ ’’ کسی بھی استاد کو طالب علم سے ہاتھ ملانے کا پورا اختیار ہے‘‘۔

    T1

    یہ فیصلہ  گزشتہ دنوں اس وقت کیا گیا کہ جب دو بھائیوں جن کی عمر 14 اور 15 سال تھی، انہوں نے خاتون ٹیچر سے ہاتھ ملانے سے انکار کرتے ہوئے اسکول انتظامیہ کے سامنے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ ان کے مذہبی عقیدے کے خلاف ہے‘‘۔

    انہوں نے دلیل دی کہ ’’اسلام میں نامحرم جنس مخالف کوچھونے کی اجازت نہیں مگر محرم فیملی ممبر کے حوالے سے رعایت دی گئی ہے۔

    دوسری جانب سوئزر لینڈ کے شمالی علاقے میں واقع ایک اسکول انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ خواتین اساتذہ  طالب علموں کے ساتھ امتیازی سلوک رکھیں اور ہاتھ نہ ملانے کے حوالے سے کسی پر زور نہ دیا جائے۔

    T2

    یہ فیصلہ شمال مغرب کے کینٹن یا مقامی حکام کی شراکت کے بغیر تھرویلی میں آزادانہ طور پر بنایا گیا ہے، اس کے بعد سوئزلینڈ میں احتجاج متحرک ہوگیا ہے۔

    حکام نے بتایا ہے کہ یہ قانون گزشتہ سال موسم خزاں میں لاگو کیا گیا تھا جو شاید جلد ختم کر دیا جائے گا۔

    تاہم سوئزرلینڈ میں طالب علم کا خاتون ٹیچر سے ہاتھ ملانے کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔

    واضح رہے سوئزر لینڈ کی آٹھ لاکھ آبادی میں سے تین لاکھ پچاس ہزار مسلمانوں گھرانوں پر مشتمل ہیں، مسلم گھرانوں نے مکمل چہرے کے نقاب پر پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں کیخلاف پھر ہرزہ سرائی

    ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں کیخلاف پھر ہرزہ سرائی

    واشنگٹن: امریکی صدارتی دوڈ میں شامل ہونے کے خواہش مند ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بارپھرمسلمانوں کے خلاف زہراگلتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان انتہا پسندوں کوروکنا ان کی اولین ترجیح ہے۔

    امریکی صدارت کے خواہشمندڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی مہم میں مسلم دشمن بیانات بدستورجاری ہیں،ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ نے خارجہ پالیسی سے متعلق تقریرمیں ایک بار پھر مسلمانوں تنقید کا ہدف بنا ڈالا۔

    ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکا کی صدارت سنبھالنے کے بعد ان کا پہلا ہدف اسلامی شدت پسندی روکنا ہوگا،صدراوباما داعش کوشکست دینے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

    ٹرمپ نے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ امریکا جن ملکوں کا دفاع کرتا ہے انہیں قیمت ادا کرنا ہوگی، اگرایسا نہیں ہوتا تو وہ ممالک اپنا دفاع خود کریں۔

  • مجھے صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے، نصیر الدین شاہ

    مجھے صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے، نصیر الدین شاہ

    بالی ووڈ اداکار نصیر الدین شاہ کے پاکستان کے حق میں دیئے جانے والے بیانات کے بعد اُن پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ہونے والی شدید تنقید کی گئی۔

    بالی ووڈ اداکار کا کہنا تھا "میرا نام نصیر الدین شاہ ہے اور میرا خیال ہے کہ مجھے صرف اسی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے، مجھے یہ کہتے ہوئے شدید تکلیف ہورہی ہے کہ مجھے آج سے پہلے تک اپنی شناخت معلوم نہیں تھی”۔

    نصیر الدین شاہ کا کہنا تھا "میرے خاندان کی 4 نسلیں ہندوستان میں رہائش پذیر ہیں، مجھے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے اور میں کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دوں گا کہ وہ میری حب الوطنی پر سوال اٹھائے۔”

    اداکار نے سوال کیا کہ اگر پاکستان کی اچھی چیزوں کی تعریف کی جائے تو اس میں "ہندوستان مخالف” کیا بات ہے. "اگر میں کہوں کہ عمران خان عظیم ہیں تو کیا اس سے سنیل گواسکر کم درجے کے کرکٹر ہوجائیں گے؟”

    سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی ہندوستان میں تقریب رونمائی کے موقع پر انتہاپسند ہندو جماعت شیو سینا کے احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے نصیر الدین شاہ نے کہا "نفرت پھیلانے والے آج ہندوستان میں کھل کر کھیل رہے ہیں”۔

    واضح رہے کہ نصیر الدین شاہ نے بھی دیگر کالم نگاروں اور دانشوروں کے ہمراہ ممبئی میں خورشید قصوری کی کتابِ رونمائی کی تقریب میں شرکت کی تھی۔

    اس موقع پر نصیر الدین شاہ کا کہنا تھا” میں کئی مرتبہ پاکستان گیا لیکن کسی پرفارمنس میں اس طرح سے رکاوٹ نہیں ڈالی گئی، نہ پریشان کیا گیا اور نہ ہی کبھی کوئی دھمکی دی گئی، حتیٰ کہ مجھے کبھی بھی اپنے ساتھ سیکیورٹی نہیں لے جانی پڑی۔

    نصیرالدین شاہ کے ان بیانات کے بعد انھیں ٹوئٹر پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔