Tag: مسلم خواتین

  • بھارت: جھوٹا الزام لگا کر مسلم خواتین کو بے آبرو کردیا گیا

    بھارت: جھوٹا الزام لگا کر مسلم خواتین کو بے آبرو کردیا گیا

    بھارت میں خواتین پر مظالم کی داستان کوئی نئی بات نہیں، خاص طور پر مسلمان خواتین کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے، تازہ واقعے میں مسلم خاندان پر جھوٹا الزام عائد کرکے ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے گئے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق موضع لوکریا میں مسلم خواتین کو انتہاء پسند ہندوؤں کی جانب سے بے لباس کر کے مارنے پیٹنے، پریڈ کرانے اور ویڈیو بنانے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ جبکہ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق ایک دلت خاتون کے لاپتہ ہونے کے بعد مسلمان لڑکے پر اس کو بھگانے میں شامل ہونیکا الزام عائد کیا گیا ہے، جس کے رد عمل کے طور پر افسوسناک واقعہ رونما ہوا۔

    رپورٹس کے مطابق بھارت میں نیبوانورنگیا تھانہ حلقہ کے موضع لوکریا کے دلت طبقہ کے باشندوں نے منصوبہ بند طریقہ سے لاٹھی ڈنڈوں سے لیس ہوکر علی حسن کے گھر پر حملہ کر کے گھر کے اندر سے تین خواتین کو نکال کر انہیں بے لباس کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔

    مشتعل ہجوم کی جانب سے خواتین کو جلانے کی ناکام کوشش بھی کی گئی، گرا م پردھان راجو سنگھ نے اس بات کی تصدیق کی کہ گاؤں میں 3 مسلم عورتوں کوبے آبروکر کے ماراپیٹا اور گھمایا گیا۔

    ان عورتوں نے تقریباً 4 سو میٹر بھاگ کر موضع نوگاواں میں پہنچ کر اپنی جان بچائی۔ واردات کے وقت میں گاؤں سے باہر گیا ہوا تھا واپس ا ٓنے کے بعد مجھے اس بات کا علم ہوا۔

    حساس اسٹوری پر کام کرنے والے لاپتا بھارتی صحافی کی لاش سیپٹک ٹینک سے مل گئی

    تاہم ایس ایچ او تھانہ نیبوا نورنگیا ہرش وردھن کا کہنا ہے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ ہمارے تھانہ حلقہ میں نہیں ہوا۔

  • آزادی اور تحریکِ پاکستان کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردینے والی خواتین

    آزادی اور تحریکِ پاکستان کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردینے والی خواتین

    تحریکِ پاکستان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ مسلمان خواتین نے بھی ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا اور قربانیاں دیں جن کے تذکرے کے بغیر جدوجہِدِ آزادی کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔

    ان میں مسلم اکابرین اور زعما کے گھرانوں کی خواتین اور ہندوستان کے کونے کونے میں بسنے والی عام عورتیں شامل ہیں جنھوں نے جلسے جلوس، احتجاجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور آزادی کی تحریک کے لیے گرفتاریاں دیں اور اپنے جان و مال کا نذرانہ پیش کیا۔

    ہندوستان کی تاریخ کی عظیم تحریک جس کے اختتام پر ہم نے پاکستان حاصل کیا، محترمہ فاطمہ جناح، امجدی بانو بیگم، سلمیٰ تصدق حسین، بی اماں، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم گیتی آراء، بیگم جہاں آرا شاہنواز اور بے شمار خواتین کی لازوال جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر ہے۔

    ان خواتین کا لازوال کردار، عظمت و حوصلہ اور مسلمانوں کے لیےعلیحدہ ریاست حاصل کرنے کا جذبہ مردوں سے کسی طور کم نہ تھا، بلکہ ان میں سے اکثر ایسی خواتین تھیں جنھوں نے تحریکی ذمہ داریاں اور کام انجام دینے کے ساتھ اپنی گھریلو ذمہ داریاں بھی پوری کیں اور اپنے قول و عمل سے آزادی کے سفر اور تحریکِ پاکستان میں ایک نئی روح پھونک دی۔

    یہاں ہم تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی چند خواتین کا مختصر تعارف پیش کررہے ہیں۔

    مادرِ ملت محترمہ فاطمہ علی جناح
    تحریکِ پاکستان میں اگر خواتین کے نمایاں اور فعال کردار کی بات کی جائے تو جہاں اپنے بھائی اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی طرح مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح نے خود ایک سیاسی مدبّر اور قائد کی حیثیت سے صفِ اوّل میں مرد راہ نماؤں کے ساتھ نظر آئیں، وہیں ان کا ایک بڑا کارنامہ ہندوستان میں خواتین میں آزادی کا شعور بیدار کرنا اور بڑی تعداد کو مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھا کرنا تھا۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی بے لوث اور انتھک جدوجہد ایک مثال ہے جس نے انھیں برصغیر کی تاریخ میں ممتاز کیا۔

    محترمہ فاطمہ علی جناح پیشے کے اعتبار سے دندان ساز تھیں جو برصغیر کے طول و عرض میں خواتین میں علیحدہ مسلم ریاست سے متعلق شعور بیدار کرنے اور مسلمانوں کو منظّم و متحرک کرنے کے لیے دن رات میدان عمل میں رہیں۔ تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی خدمات ایک سنہرا اور روشن باب ہیں۔

    بی امّاں
    اس عظیم خاتون کا نام ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا جنھوں نے اپنے عزیز از جان بیٹوں کو اسلام کا پرچم سربلند رکھنے اور آزادی کی خاطر گردن کٹوا لینے کا درس دیا اور خود بھی جدوجہدِ‌ آزادی کے حوالے سے میدانِ‌ عمل میں متحرک اور فعال رہیں۔ بی امّاں نے گھر گھر جاکر عورتوں میں سیاسی شعور اور انگریزوں سے آزادی کی جوت جگائی اور انھیں‌ اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے آگاہ و خبردار کیا۔

    بی امّاں کا اصل نام آبادی بانو تھا۔ وہ عظیم سیاسی راہ نما مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کی والدہ تھیں جنھیں دنیا جوہر برادران کے نام سے جانتی ہے۔ مسلمانوں کی امارت اور خلافت کے یہ متوالے جیل کی قید اور صعوبتیں جھیلتے تو بی امّاں کی تلقین اور ان کا حکم یاد کرتے کہ بیٹا خلافت کے لیے جان دے دینا اور آزادی کا خواب دیکھنا مت ترک کرنا، چاہے گردن ہی تن سے جدا کیوں نہ کردی جائے۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ناقابل فراموش کردار ادا کرنے والی بی امّاں تعلیم یافتہ نہ تھیں لیکن ایک آزاد مملکت کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے جلسے جلوس سے لے کر چند کانفرنسوں کی صدارت بھی بخوبی کی۔ انھوں نے خواتین میں جذبہ حرّیت بیدار کرتے ہوئے انھیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے نمایاں کام کیا۔

    بیگم رعنا لیاقت علی خان
    بیگم رعنا لیاقت علی خان معاشیات کے مضمون میں ڈگری یافتہ تھیں اور انھوں نے تحریکِ پاکستان جناح کمیٹی میں بطور اقتصادی مشیر خدمات سرانجام دیں۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی رفیق حیات تھیں۔

    انھوں نے قرار دادِ پاکستان کے مسودے کی تیاری کے دوران چند کلیدی نکات بتائے تھے۔ انھیں تحریکِ پاکستان کی کارکن اور سندھ کی پہلی خاتون گورنر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    بیگم جہاں آرا شاہنواز
    آزادی کی جدوجہد کا ایک نمایاں کردار بیگم جہاں آرا شاہنواز ہیں۔ آپ مسلمانوں کی نمائند ہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا نام تجویز کرنے والے عظیم سیاسی راہ نما سر میاں محمد شفیع کی صاحبزادی تھیں۔ بیگم جہاں آرا شاہنواز کو اس جماعت کی پہلی خاتون رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور انھوں نے تینوں گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔

    بیگم زری سرفراز
    بیگم زری سرفراز نہ صرف تحریک پاکستان کی ایک سرگرم کارکن تھیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں‌ خواتین کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے بھی کوشاں رہیں اور اس حوالے سے بہت کام کیا۔ بیگم زری سرفراز 1940ء کے تاریخ ساز جلسے میں شریک ہوئی تھیں۔ انھوں نے مردان میں مسلم لیگ خواتین کی داغ بیل ڈالی جب کہ 1945ء میں برصغیر کی مسلم لیگی خواتین کی کانفرنس منعقد کروانے کا سہرا بھی آپ ہی کے سَر ہے۔ انھوں نے 1947ء میں سول نافرمانی اور وائسرائے کے پشاور کے دورے کے موقع پر احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی تھی۔

  • مسلمان عورتیں گلاب بانٹنے لگیں

    مسلمان عورتیں گلاب بانٹنے لگیں

    لندن: غیر مسلموں کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی کے لیے برطانیہ میں مسلم خواتین گلاب بانٹنے نکل پڑیں۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا کے پُر امن ترین مذہب اسلام سے خوف زدہ انگلش معاشرے کو یہ بتانے کے لیے کہ اسلام ایک پُر امن مذہب ہے، مسلم عورتیں گلاب بانٹنے لگیں۔

    دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی نفرت کا جواب دینے کے لیے لندن میں مسلم کمیونٹی نے منفرد راستہ اختیار کیا، اسلاموفوبیا کا جواب دینے کے لیے ٹریفلگر اسکوائر پر برطانوی مسلمانوں نے ’روز فار پیس‘ مہم کے تحت لوگوں میں گلاب تقسیم کیے ۔

    لندن میں مقیم مسلمانوں نے لوگوں کو اسلام سے متعلق آگہی بھی فراہم کی، عوام نے مسلمانوں کے اس اقدام کو سراہا اور نفرتیں ختم کرنے کے لیے اسے بڑی کوشش قرار دیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  پیرس میں اسلاموفوبیا کے خلاف لاکھوں افراد کا احتجاج

    خیال رہے کہ اسلام دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے، لندن دنیا کے بڑے اور متنوع ثقافتوں والے شہروں میں سے ایک ہے تاہم اس کے باوجود کبھی کبھی یہاں مسلمان ایسا محسوس کرتے ہیں کہ انھیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔

    مغربی میڈیا مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایک عرصے سے منفی پروپگینڈا کرتا آ رہا ہے، نائن الیون کے بعد اینٹی اسلام مہم میں بہت زیادہ شدت آ گئی تھی، جس کی وجہ سے برطانیہ جیسے ممالک میں اسلاموفوبیا نے جنم لیا۔

    تاہم برطانوی مسلمانوں نے بھی مایوس ہونا منظور نہیں کیا، مقامی مسلمان مرد اور عورتوں نے ’امن کے لیے گلاب‘ نامی مہم شروع کی اور ٹریفلگر اسکوائر پر راہگیروں میں گلاب تقسیم کیے۔ پھولوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا پیغام بھی منسلک کیا گیا جس پر حضور اکرم ﷺ کی حدیث کے ساتھ بائبل سے یکساں اقتباسات لکھے ہوئے تھے۔

  • فرانس میں‌ مسلم خواتین کے حجاب پر ایک اور قدغن

    فرانس میں‌ مسلم خواتین کے حجاب پر ایک اور قدغن

    پیرس : کھیلوں کی مصنوعات تیار کرنے والی معروف کمپنی نے فرانسیسی سیاست دانوں نے کی جانب سے تنقید کے بعد حجاب بنانے پر پابندی عائد کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فرانس سمیت یورپ کے کئی ممالک میں مسلمان خواتین کے چہرہ چھپانے پر پابندی عائد ہے لیکن اب فرانس میں مسلمان خواتین کے لیے حجاب تیار کرنے والی کمپنی ڈکاتھ لان نے حجاب کی تیاری پر پابندی لگا دی۔

    ڈکاتھ لان کا شمار دنیا کی بہترین کمپنیوں میں ہوتا ہے کہ جو کھیلوں کا سامان تیار کرتی ہے، مذکورہ کمپنی مسلمان خواتین کےلیے بھی ملبوسات کی تیاری کرتی ہے باالخصوص ڈیزائن حجاب کی لیکن کمپنی نے فرانس میں حجاب کی تیاری پر پابندی لگا دی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ کھیلوں کی ملبوسات تیار کرنے والی کمپنی کی ملبوسات و حجاب مراکش سمیت کئی عرب ممالک میں فروخت ہوتے ہیں۔

    کمپنی ترجمان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ ماہ سے فرانسیسی حکمرانوں اور سیاست دانوں کی جانب سے مسلمان خواتین کے حجاب اور برقعے شدید تنقید کا نشانہ بنارہے تھے اس لیے صرف فرانس میں حجاب کی تیاری پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ فرانسیسی سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ مکمل طور پر برقعے میں ملبوس مسلمان خواتین یورپ کے لیے خطرہ ہیں حجاب والی خواتین شدت پسند بھی ہوسکتی ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  فرانس میں مسلمانوں پر حلال ٹیکس نافذ کرنے پر غور

    یاد رہے کہ 2004 میں فرانسیسی پارلیمنٹ نے ریاست کے تمام اسکولوں میں چہرے کے نقاب سمیت تمام مذہبی شعائر پر پابندی لگا دی تھی، اور 2010 میں قانون کے ذریعے عوامی مقامات پر بھی چہرہ ڈھانپنے پر پابندی لگائی۔

  • اقوامِ متحدہ نے فرانس میں حجاب پر پابندی کو غیر قانونی قرار دے دیا

    اقوامِ متحدہ نے فرانس میں حجاب پر پابندی کو غیر قانونی قرار دے دیا

    نیویارک: اقوامِ متحدہ نے فرانس میں حجاب پر پابندی کو غیر قانونی قرار دے دیا، اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے کہا کہ فرانس میں حجاب پر پابندی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے فرانس میں حجاب پر پابندی کے معاملے پر کہا ہے کہ فرانس کا حجاب پر پابندی کا عمل انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

    [bs-quote quote=”اقوامِ متحدہ نے فرانسیسی حکومت کو 2 مسلمان خواتین کو ہرجانہ دینے کا بھی حکم جاری کیا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اقوامِ متحدہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ فرانس پابندی کا قانونی جواز پیش کرنے میں نا کام رہا ہے، انسانی حقوق کمیٹی نے کہا کہ فرانس قوانین پر نظرِ ثانی کرے۔

    اقوامِ متحدہ نے فرانسیسی حکومت کو 2 مسلمان خواتین کو ہرجانہ دینے کا بھی حکم جاری کیا۔

    انسانی حقوق کمیٹی کا کہنا تھا کہ فرانس کی مسلمان خواتین کے حجاب پر پابندی بلا جواز ہے، فرانس چھ مہینوں میں رپورٹ پیش کرے کہ اس نے حجاب کے معاملے پر کیا اقدام کیا۔


    یہ بھی پڑھیں:  فرانس میں مسلمانوں پر حلال ٹیکس نافذ کرنے پر غور


    فرانس اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کو قائل نہیں کر سکا کہ چہرہ ڈھانپنے پر پابندی ضروری اور سیکورٹی کے تناظر سے درست اقدام ہے۔

    [bs-quote quote=”فرانس نے 2010 میں قانون کے ذریعے عوامی مقامات پر بھی چہرہ ڈھانپنے پر پابندی لگائی” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    واضح رہے کہ 2004 میں فرانسیسی پارلیمنٹ نے ریاست کے تمام اسکولوں میں چہرے کے نقاب سمیت تمام مذہبی شعائر پر پابندی لگا دی تھی، اور 2010 میں قانون کے ذریعے عوامی مقامات پر بھی چہرہ ڈھانپنے پر پابندی لگائی۔

  • برقعہ انتہا پسندوں کے اسلام کا حصّہ ہے، برطانوی امام

    برقعہ انتہا پسندوں کے اسلام کا حصّہ ہے، برطانوی امام

    لندن : برطانیہ کی معروف جامعہ آکسفورڈ کے امام تاج ہرگئی نے کہا ہے کہ برقعے سے متعلق قرآن مجید میں کوئی قانون موجود نہیں ہے، یہ مذہبی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے اسلام کا حصّہ ہے جو خواتین کو قابو کرنے کا طریقہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی نامور یونیورسٹی آکسفورڈ کی اسلامی جماعت کے امام تاج ہرگئی نے مسلم خواتین کے برقعے سے متعلق متنازعہ بیان پر بورس جانسن کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سابق وزیر خارجہ کا بیان حقیقت پر مبنی تھا‘۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے امام تاج ہرگئی کا کہنا تھا کہ بورس جانسن کو برقعے سے متعلق بیان معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں اور ان کا بیان ناکافی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تاج ہرگئی کی جانب سے ’دی ٹائمز‘ کو ارسال کیے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ برقعے کے متعلق قرآن میں کوئی قانون نہیں ہے، بلکہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردوں کے اسلام کا ایک حصّہ ہے۔

    تاج ہرگئی کا مزید کہنا تھا کہ برقعے کے معاملے میں پر انتہا پسند مذہبی طبقے نے بیمار سوچ کے مسلمانوں ترغیب دلائی کے خدا چاہتا ہے کہ خواتین اپنے چہرے کو چھپائیں، جبکہ حقیقت میں مذکورہ طبقے نے ’خواتین کو قابو کرنے کے لیے ایسا حربہ اپنایا تھا‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق تاج ہرگئی کا کہنا تھا کہ بہت سی جوان خواتین نے مردوں کی جبری سرپرستی کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات کو اپنا حق سمجھ لیا ہے کہ چہرے کو چھپانا ان کا انسانی حق ہے۔


    بورس جانسن کا عوام میں شہرت کے باعث پبلک ٹرائل کیا جارہا ہے، جیکب موگ


    یاد رہے کہ ایک روز قبل برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کے رہنما جیکب ریس موگ نے سابق وزیر خارجہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بورس جانسن کا پبلک ٹرائل کیا جارہا ہے اور مذکورہ ٹرائل کا مقصد جانسن کو مستقبل کا لیڈر بننے سے روکنا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برٹش پارلیمنٹ اور کنزرویٹو پارٹی کے رکن نے وزیر اعظم تھریسا مے پر الزام عائد کیا کہ ’تھریسا مے مسلم خواتین پر طنز کی آڑ میں بورس جانسن سے ذاتی دشمنی نکال رہی ہیں‘۔


    بورس جانسن کو مذہب کی تضحیک کرنے کا حق حاصل ہے، مسٹر بین


    واضح رہے کہ  گذشتہ روز معروف مزاحیہ اداکار روون اٹکنسن (مسٹر بین) نے بورس جانسن کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جانسن کا بیان ایک اچھا لطیفہ ہے‘ اور انہیں مذہب کی تضحیک کرنے کا حق حاصل ہے جس پر انہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے اپنے کالم میں کہا تھا کہ مسلمان خواتین برقعہ پہن کر ’لیٹر بُکس‘ اور بینک چوروں کی طرح لگتی ہیں۔ جس کے بعد بورس جانسن کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بورس جونسن اپنے بیان پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انھوں نے معافی مانگنے سے بھی انکار کردیا ہے۔

  • مسلم خواتین کی توہین پر معافی نہیں، پارٹی سے نکالا جائے، لارڈ شیخ کا مطالبہ

    مسلم خواتین کی توہین پر معافی نہیں، پارٹی سے نکالا جائے، لارڈ شیخ کا مطالبہ

    لندن : کنزرویٹو پارٹی مسلم فورم کے بانی لارڈ شیخ نے کہا ہے کہ مسلم خواتین کے حوالے سے نازیبہ الفاظ استعمال کرنے پر صرف معافی کافی نہیں،  بلکہ بورس جانسن کو ترجمانی سے ہٹاکر پارٹی سے نکال دینا چاہیئے۔

    تفصیلات کے مطابق کنزرویٹو پارٹی مسلم فورم کے بانی لارڈ شیخ نے وزیر اعظم تھریسا مے سے مطالبہ کیا ہے کہ سابق وزیر خارجہ بورس جانسن کی جانب سے مسلمان خواتین کی توہین کرنے پر صرف معافی مانگنا کافی نہیں ہے بلکہ انہیں پارٹی سے نکال دینا چاہیئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ لارڈ شیخ کی جانب سے برطانوی وزیر اعظم سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بورس جانسن کو پارٹی کی ترجمانی سے ہٹا دینا چاہیے۔

    خیال رہے کہ سابق برطانوی وزیر خارجہ نے بیان دیا تھا کہ ڈنمارک کی جانب سے سڑکوں پر برقعہ یا نقاب اوڑھنے پر جرمانے عائد کرنا غلط ہے تاہم برقعہ اوڑھنے والی خواتین لیٹر بکس کی طرح نظر آتی ہیں اور ان کا موازنا بینک لوٹنے والوں اور باغی نوجوانوں سے کیا جاسکتا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے سیکریٹری ثقافت جیریمی رائٹ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ’مسلم خواتین کے برقعے پر بات چیت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے‘ لیکن ہم شراب نوشی کی جگہ پر اپنے دوستوں سے گفتگو نہیں کررہے، ہم عوامی شخصیات ہیں ہمیں بیانات دینے میں بہت محتاط رہنا ہوگا۔

    کنزرویٹو پارٹی کے چیئرمین برنڈن لیوس نے برطانوی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سابق وزیر خارجہ کو مذکورہ مسئلے پر بحث کرنے کا پورا حق ہے، لیکن جو زبان انہوں نے استعمال کی ہے اس پر بورس جانسن کو معافی مانگنی چاہیئے‘۔

    سابق وزیر خارجہ کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے لیبر رکن پارلیمنٹ ڈیوڈ لیمی نے بورس جانسن کو ’پونڈ شاپ ڈونلڈ ٹرمپ‘ قرار دیا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ وہ سیاسی فوائد کے لیے اسلامو فوبیا کے شعلے بھڑکا رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ ڈنمارک نے گزشتہ ہفتہ فرانس، جرمنی، آسٹریا اور بیلجیم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوامی مقامات پر برقعہ پہننے پر پابندی عائد کردی ہے۔

  • مسلم خواتین برقعہ پہن کر لیٹر بکس کی طرح نظر آتی ہیں، بورس جانسن کی ہرزہ سرائی

    مسلم خواتین برقعہ پہن کر لیٹر بکس کی طرح نظر آتی ہیں، بورس جانسن کی ہرزہ سرائی

    لندن: سابق برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے کہا کہ عوامی مقامات پر برقعہ پہننے پر پابندی غلط ہے تاہم مسلم خواتین برقعہ پہن کر لیٹر بکس کی طرح نظر آتی ہیں۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق سابق وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ڈنمارک کی جانب سے سڑکوں پر برقعہ یا نقاب اوڑھنے پر جرمانے عائد کرنا غلط ہے تاہم برقعہ اوڑھنے والی خواتین لیٹر بکس کی طرح نظر آتی ہیں اور ان کا موازنا بینک لوٹنے والوں اور باغی نوجوانوں سے کیا جاسکتا ہے۔

    لیبر رکن پارلیمنٹ ڈیوڈ لیمی نے بورس جانسن کو ’پونڈ شاپ ڈونلڈ ٹرمپ‘ قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ سیاسی فوائد کے لیے اسلامو فوبیا کے شعلے بھڑکا رہے ہیں۔

    بورس جانسن نے اپنے آرٹیکل میں کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ ان سے گفتگو کرتے وقت خواتین اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیں، اسکول اور کالجز کو بھی اس وقت ایسا ہی کرنا چاہئے جب کوئی طالبہ بینک ڈاکو کی طرح نظر آرہی ہو۔

    واضح رہے کہ ڈنمارک نے گزشتہ ہفتہ فرانس، جرمنی، آسٹریا اور بیلجیم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوامی مقامات پر برقعہ پہننے پر پابندی عائد کردی ہے۔

    بارشولم شہر کے ایک شاپنگ سینٹر میں برقعہ پہن کر آنے والی ایک مسلم خاتون پر پہلے ہی 120 پونڈ جرمانہ عائد کیا جاچکا ہے۔

    دوسری جانب ڈنمارک میں برقعہ پہننے پر پابندی کے خلاف خواتین مظاہرین کا کہنا تھا کہ اسلام کے خلاف نفرت اور بنیاد پرستی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے جبکہ پردہ عین عورت کا حسن اور تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، مظاہرین خواتین نے ریلی میں نقاب پہن رکھے تھے۔

  • امریکہ میں مسلم خواتین پرتشدد،حجاب اتارنے کی کوشش

    امریکہ میں مسلم خواتین پرتشدد،حجاب اتارنے کی کوشش

    نیویارک: امریکہ میں 2 مسلمان خواتین پر راہ چلتے حملہ کرکے ان کے حجاب اتارنے کی کوشش کی گئی اور ان پر تشدد بھی کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست نیویارک کے علاقے بروکلن میں دو مسلم خواتین اپنے 11 اور 15 ماہ کے بچوں کو ’پرام‘ میں لے کر چہل قدمی کررہی تھیں کہ ایک عورت نے ان پر پیچھے سے حملہ کردیا۔

    حملہ آور خاتون نے دونوں مسلم خواتین کو زد و کوب کیا اور مبینہ طور پر ان کے حجاب اتارنے کی بھی کوشش کی جبکہ اس دوران وہ مسلمانوں کے حوالے سے نازیبا جملے بھی ادا کرتی رہی۔

    خاتون نے ایک پرام کو زمین پر گرادیا اور دوسرے کو ٹھوکریں ماریں جبکہ اندر چھوٹے بچے موجود تھے،عدالتی دستاویز کے مطابق مسلم خواتین اور بچوں کو زیادہ چوٹیں نہیں آئیں۔

    مزید پڑھیں: نیویارک :امام مسجداور ان کے نائب کا قاتل گرفتار

    نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ واقعے کے فوراً بعد حملہ کرنے والی خاتون کو گرفتار کرلیا گیا جس کی شناخت 32 سالہ ایمرجیتا ژیلیلی کے نام سے ہوئی۔

    عدالتی دستاویز کے مطابق حملہ آور مسلم خواتین پر تشدد کے دوران یہ کہتی رہی کہ ’امریکا سے نکل جاؤ،یہ تمہارا ملک نہیں‘۔

    واضح رہے کہ پولیس نے اسے نفرت انگیز واقعہ قرار دیا اور حملہ آور خاتون پر تشدد،ہراساں کرنے اور بچوں کی زندگی خطرے میں ڈالنے کے الزامات عائد کردیے گئے۔

  • پیرس میں ریسٹورنٹ کامسلم خواتین کو کھانا دینے سے انکار

    پیرس میں ریسٹورنٹ کامسلم خواتین کو کھانا دینے سے انکار

    پیرس: فرانس کے دارالحکومت پیرس کے مضافات میں ایک ریسٹورنٹ کے مالک نے دو مسلمان خواتین کو کھانے دینے سے انکار کر دیا.

    تفصیلات کےمطابق سوشل میڈیا پر اس واقعے کی ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد سے فرانسیسی عوام نے شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے مظاہروں کی کال دی ہے.

    سوشل میڈیا پر بہت زیادہ نشر ہونے والی اس ویڈیو میں ایک آدمی حجاب پہنے ہوئے دو خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’دہشت گرد مسلمان ہیں اور تمام مسلمان دہشت گرد ہیں۔‘یہ واقعے ہفتے کی شب فرانس کے ایک ریسٹورنٹ میں ہوا.

    اتوار کو ریسٹورنٹ کے باہر لوگوں نے مظاہرے کیے جس کے بعد مالک نے تمام افراد سے معافی مانگی.

    *فرانس میں برقینی پر عائد پابندی ختم

    انہوں نے کہا کہ فرانس کے ساحلوں پر برقینی کے بارے میں جاری کشدگی کے باعث وہ ’آپے سے باہر ہو گئے‘ تھے اور گذشتہ سال نومبر میں پیرس میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں اُن کا ایک دوست بھی ہلاک ہوا تھا.

    مالک کے انکار کے جواب میں ایک خاتون نے کہا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ کوئی نسلی تعصب کا شکار شخص ہمیں کھانے فراہم کرے۔‘

    جس پر مالک نے کہا کہ ’نسلی تعصب رکھنے والے انسانوں کو قتل نہیں کرتے،میں نہیں چاہتا کہ تم جیسے لوگ میرے ہوٹل میں آئیں۔‘
    پولیس نے کہا ہے کہ وہ ریسٹورنٹ میں گئے ہیں لیکن انہوں نے شکایت درج ہونے کے بارے میں کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے.

    واضح رہے کہ چند روز قبل فرانس کی اعلیٰ عدالت نے ملک کے ساحلوں پر برقینی پہنے پر عائد پابندی کومعطل کیا تھا.