Tag: مشاعرہ

  • 25 روپے کا ٹکٹ، ٹیوشن فیس اور وہ کم بخت!

    25 روپے کا ٹکٹ، ٹیوشن فیس اور وہ کم بخت!

    صوبۂ پنجاب میں سیلاب کے بعد لاہور کے طلبا نے مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں اس وقت کے نام ور شعرا نے شرکت کی۔

    اس مشاعرے کی تمام آمدن متأثرینِ سیلاب پر خرچ کی جانی تھی۔ یعنی یہ مشاعرہ جذبۂ خدمت کے تحت منعقد کیا گیا تھا۔ طلبا اس سلسلے میں خاصے پُرجوش تھے۔

    مشاعرے کی صدارت کے لیے حفیظ جالندھری کا نام لیا گیا جو قومی ترانے کے خالق بھی تھے۔ اس زمانے میں جمع جوڑ کے بعد اتفاقِ رائے سے طے پایا کہ مشاعرہ گاہ میں داخلے کا ٹکٹ 25 روپے کے عوض‌ جاری کیا جائے گا۔

    یہ بھی طے پایا کہ شرکت کے متمنی عام لوگوں‌ کے ساتھ شعرا کو بھی ٹکٹ خریدنا ہو گا۔ غرض یہ کہ سبھی کو اس کارِ خیر میں شامل رکھنا مقصود تھا۔ صدرِ مشاعرہ بھی اس میں شامل تھے۔

    طلبا حفیظ جالندھری کو مشاعرے کی دعوت دینے پہنچے اور تفصیل بتائی۔ وہ بہت خوش ہوئے اور ان کے جذبے کی داد دی۔ پھر پوچھا، شعرا کے نام بتائیں۔ اس پر طلبا نے فہرست ان کے سامنے رکھ دی۔

    حفیظ جالندھری نے اس فہرست پر نظر ڈالی اور مسکرانے لگے۔ فہرست میں شورش کاشمیری کا نام بھی شامل تھا۔
    حفیظ جالندھری نے ان طالبِ علموں کی طرف دیکھا اور بولے۔

    کیا وقت آگیا ہے، کم بخت (شورش) کو دو روپے ماہوار پر ٹیوشن پڑھایا تھا، اب 25 روپے کا ٹکٹ خرید کر سننا پڑے گا۔

  • میونسپل اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی پارسائی

    میونسپل اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی پارسائی

    منیر الٰہ آبادی بڑے شریف اور ہنس مکھ انسان تھے۔ میونسپل اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے اور ہمیشہ شیروانی اور ٹوپی میں نظر آتے تھے۔ اچھے شاعر تھے۔ ایک بار بمبئی میں چھوٹا سونا پور کے علاقے میں مشاعرہ تھا جس کی وہ صدارت کر رہے تھے۔ اتفاق سے بمبئی کے مشہور شاعر آوارہ سلطان پوری عین اس وقت پہنچے جب منیر صاحب اپنی غزل سنا رہے تھے.

    انھوں نے شعر پڑھا۔
    تقدس تری بزم کا توبہ توبہ
    یہیں تو مری پارسائی گئی ہے

    آوارہ سلطان پوری نے داد دیتے ہوئے مکرر فرمائش کی اور کہا

    واہ استاد پھر سنائیے: تقدس تری بزم کا اللہ اللہ

    منیر صاحب نے مصرع سنا تو فوراً سمجھ گئے اور ان کی اس دل نشیں انداز سے کی گئی اصلاح کو قبول کرتے ہوئے یوں شعر سنایا۔

    تقدس تری بزم کا اللہ اللہ
    یہیں تو مری پارسائی گئی ہے
    راوی: سلمان غازی

  • غزل سنانے پر شعرا میں‌ تکرار، مشاعرہ درہم برہم!

    غزل سنانے پر شعرا میں‌ تکرار، مشاعرہ درہم برہم!

    ایک دن شام کو اپنے کوارٹر کی دیوار پر ایک قلمی پوسٹر چسپاں دیکھا جس میں بزمِ بہارِ ادب کے ماہانہ مشاعرے کا زیرِ صدارت حضرت بہار کوٹی، ان کے مکان پر منعقد ہونے کا اعلان تھا۔

    کسی مشاعرے میں شریک ہوئے مدت ہوچکی تھی۔ یہ مشاعرہ میرے گھر کے قریب منعقد ہورہا تھا۔ عزم مصمم کیا کہ کل رات کو اس میں ضرور شریک ہوں گا۔

    چناں چہ دوسرے دن رات کو میں اس مشاعرے میں پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ بہار صاحب کا برآمدہ اور صحن شعرا اور سامعین سے بھرا ہوا ہے۔ جان پہچان نہ ہونے کی وجہ سے مجھے جوتوں کے قریب جگہ ملی۔ میں وہیں بیٹھ گیا اور اپنی حالت زار پر افسوس ہوا کہ اس طرح بھی مشاعروں میں شریک ہونا مقدر تھا۔

    دس بجے شب کو یہ مشاعرہ شروع ہوا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ عنبر چغتائی اس مشاعرے کو اناؤنس کررہے تھے۔ عام طور پر مشاعروں کا اصول یہ ہے کہ اناؤنسر یا تو ابتدا میں غزل پڑھ لیتا ہے، یا پھر زیادہ سے زیادہ وسط میں۔ عنبر چغتائی نے اس مشاعرے میں غلطی یہ کی کہ وہ دوسروں سے غزلیں پڑھواتے رہے۔ خود غزل نہیں پڑھی۔

    جب دو چار شاعر باقی رہ گئے تو اس پر جمیل بدایونی مرحوم کا اچانک ناریل چٹخ گیا اور انہوں نے نہایت خشمگیں آواز میں عنبر چغتائی کو للکارا۔

    عنبر! تمہارا یہ رویہ غلط ہے کہ تم نے اب تک مشاعرے خود غزل نہیں پڑھی اور دوسروں سے غزلیں پڑھواتے جارہے ہو۔ یہاں تک کہ اساتذہ اب غزلیں پڑھ رہے ہیں۔ کیا تم اپنے آپ کو اس شہر کے اساتذہ سے بھی بلند تصّور کرتے ہو، حالاں کہ ابھی تمہارا شمار مبتدیوں میں ہے۔ اگر حوصلہ ہے تو آؤ اور یہیں زانو سے زانو ملاکر کوئی طرح مقرر کرکے غزل کہو۔ ابھی معلوم ہوجائے گا کہ کتنے پانی میں ہو۔

    عنبر نے یہ غیر متوقع جملہ سنا۔ ان کی آواز ویسے بھی منحنی ہے۔ جمیل کے اس غیر متوقع جملے نے گھگیا دیا۔ ہر طرف سے موافقت اور مخالفت کی آوازیں بلند ہوئیں۔ وہ شور تھا کہ کان پڑی آواز سننے میں نہ آتی تھی۔

    بہار صاحب کبھی جمیل بدایونی کو سمجھاتے، کبھی عنبر چغتائی کو روکتے، مگر بات بڑھتی جارہی تھی۔ یہ محفل مشاعرہ نہایت بدمزگی سے درہم برہم ہوئی۔
    (نوٹ: یہ واقعہ معروف ادیب اعجاز الحق قدوسی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب سے لیا گیا ہے)