Tag: مشاہیر ادب

  • نام ور ادیب، مؤرخ اور مترجم سیّد ہاشمی فریدآبادی کی برسی

    نام ور ادیب، مؤرخ اور مترجم سیّد ہاشمی فریدآبادی کی برسی

    علم و ادب، تاریخ و تذکرہ نویسی کے حوالے سے مستند اور جامع معلومات اپنے دل کش طرزِ تحریر میں اکٹھا کرکے اردو زبان کو تیس سے زائد یادگار کتب دینے والے سیّد ہاشمی فرید آبادی کا آج یومِ وفات ہے۔ وہ 19 جولائی 1964ء کو دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    وہ اردو زبان کے نام ور ادیب، مترجم، شاعر اور مؤرخ کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔
    سیّد ہاشمی فرید آبادی 30 جنوری، 1890ء کو پیدا ہوئے۔ متحدہ ہندوستان میں‌ فرید آباد ان کا وطن تھا۔ ان کا اصل نام سیّد میر ہاشم علی حسنی تھا اور عرفیت سیّد ہاشمی۔

    ابتدائی تعلیم فرید آباد سے مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ سے بی اے کیا۔ بعد میں‌ دارُالتّرجمہ، جامعہ عثمانیہ، دکن میں ملازمت اختیار کی اور تاریخ کی بے شمار کتابوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔ وہ ایک عرصہ تک انجمن ترقّیِ اردو پاکستان میں بابائے اردو مولوی عبد الحق کے ساتھ کام کرتے رہے۔ ان کی علمی یادگاروں میں ماآثر لاہور، تاریخِ یونان قدیم، پنجاہ سالہ تاریخِ انجمنِ ترقّیِ اردو، غازیانِ تہذیب، تاریخِ ہند، تاریخ مسلمانانِ پاکستان و بھارت اور مشاہیرِ یونان و رومہ قابلِ ذکر ہیں۔

    پاکستان آنے کے بعد سیّد ہاشمی لاہور میں‌ تصنیف و تالیف میں‌ مشغول رہے اور وہیں زندگی کا سفر تمام کیا۔ لاہور میں‌ ان کا مرقد ماڈل ٹاؤں میں ہے۔

  • نادر روزگار شخصیت محمد نجمُ الغنی خاں نجمی کی برسی

    نادر روزگار شخصیت محمد نجمُ الغنی خاں نجمی کی برسی

    آج محمد نجمُ الغنی خاں رام پوری کا یومِ‌ وفات ہے۔ اس نادرِ‌ روزگار شخصیت نے یکم جولائی 1941ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ وہ برصغیر پاک و ہند کے نام وَر محقّق، مؤرخ، مصنّف اور شاعر تھے جنھوں نے شان دار علمی و ادبی سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔

    محمد نجم الغنی خاں ایک علمی و ادبی شخصیت ہی نہیں بلکہ ماہرِ طبِ یونانی اور حاذق حکیم بھی تھے اور اسی لیے انھیں مولوی حکیم محمد نجم الغنی خاں بھی کہا اور لکھا جاتا ہے جب کہ نجمی ان کا تخلّص تھا۔

    مولوی نجم الغنی خاں 8 اکتوبر 1859ء کو ریاست رام پور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے دور کے سربر آوردہ علما میں سے ایک تھے۔ والد کا خاندان عربی، فارسی، فقہ، تصوّف اور منطق کے علوم میں شہرت رکھتا تھا۔ دادا مقامی عدالت میں مفتی کے منصب پر فائز تھے جب کہ پر دادا بھی منشی اور فارسی کے مشہور انشا پرداز تھے۔ یوں انھیں شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا جس نے انھیں بھی پڑھنے اور لکھنے لکھانے کی طرف راغب کیا۔

    والد نے رام پور سے نکل کر ریاست اودے پور میں سکونت اختیار کی تو یہیں نجم الغنی خاں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا بھی آغاز ہوا۔ 23 برس کے ہوئے تو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے رام پور چلے آئے اور مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا۔ 1886ء میں فاضل درس نظامی میں اوّل درجہ میں‌ سند پائی۔ نجم الغنی خاں نے رام پور اور اودے پور میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ان میں میونسپلٹی، یونانی شفا خانے کے نگراں، لائبریرین، رکاب دار، اسکول میں مدرس جیسی ملازمتیں شامل ہیں اور پھر ریاست حیدرآباد(دکن) بھی گئے جہاں علمی و ادبی کام کیا۔

    محمد نجم الغنی خاں نجمی نے اخبارُ الصّنادید، تاریخِ راجگانِ ہند موسوم بہ وقائع راجستھان، تاریخِ اودھ سمیت تاریخ کے موضوع پر متعدد کتب اور علمِ عروض پر بحرُ الفصاحت نامی کتاب تحریر کی جو اس موضوع پر اہم ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔

    تاریخ سے انھیں خاص دل چسپی تھی۔ رام پور اور راجپوتانہ کے علاوہ اودھ اور حیدر آباد دکن کی بھی تاریخیں لکھیں۔ نجم الغنی خاں کی ضخیم کتب اور مختصر رسالوں اور علمی و تاریخی مضامین کی تعداد 30 سے زائد ہے۔ ان کا کلام دیوانِ نجمی کے نام محفوظ ہے۔

    علمی و ادبی کتب کے علاوہ انھوں نے حکمت اور طبابت کے پیشے کو بھی اہمیت دی اور اس حوالے سے اپنی معلومات، تجربات اور مشاہدات کو کتابی شکل میں یکجا کرنا ضروری سمجھا جس سے بعد میں اس پیشے کو اپنانے والوں نے استفادہ کیا۔ ان کتابوں میں خواصُ الادوّیہ، خزانۃُ الادوّیہ شامل ہیں۔

    ان کی دیگر علمی و تاریخی کتب میں تذکرۃُ السّلوک (تصوف)، معیارُ الافکار (منطق، فارسی)، میزانُ الافکار (منطق، فارسی)، نہج الادب (صرف و نحو، قواعدِ فارسی)، ( بحر الفصاحت کا انتخاب) شرح سراجی (علم فرائض)، مختصر تاریخِ دکن شامل ہیں۔