Tag: مشتاق احمد یوسفی

  • کچھ نے کہا چہرہ تِرا…

    کچھ نے کہا چہرہ تِرا…

    کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ہم نے اپنی دائیں ہتھیلی کا پسینا پونچھ کر ہاتھ مصافحہ کے لیے تیار کیا۔ سامنے کرسی پر ایک نہایت بارعب انگریز نظر آیا۔ سر بیضوی اور ویسا ہی صاف اور چکنا، جس پر پنکھے کا عکس اتنا صاف تھا کہ اس کے بلیڈ گنے جا سکتے تھے۔

    آج کل کے پنکھوں کی طرح اس پنکھے کا وسطی حصّہ نیچے سے چپٹا نہ تھا، بلکہ اس میں ایک گاؤ دم چونچ نکلی ہوئی تھی، جس کا مصرف بظاہر یہ نظر آیا کہ پنکھا سر پر گرے تو کھوپڑی پاش پاش نہ ہو، بلکہ اس میں ایک صاف گاؤ دم سوراخ ہو جائے۔ بعد میں اکثر خیال آیا کہ سر پر اگر بال ہوتے تو اس کی وجاہت و دبدبہ میں یقیناً فرق آجاتا۔ میز کے نیچے ایک ادھڑا ادھڑا ”کیِمل“ رنگ کا قالین بچھا تھا۔ رنگ میں واقعی اس قدر مشابہت تھی کہ معلوم ہوتا تھا کوئی خارش زدہ اونٹ اپنی کھال فرش راہ کیے پڑا ہے۔ بھرے بھرے چہرے پر سیاہ فریم کی عینک۔ کچھ پڑھنا یا پاس کی چیز دیکھنی ہو تو ماتھے پر چڑھا کر اس کے نیچے سے دیکھتا تھا۔ دور کی چیز دیکھنی ہو تو ناک کی پھننگ پر رکھ کر اس کے اوپر سے دیکھتا تھا۔ البتہ آنکھ بند کر کے کچھ دیر سوچتا ہو تو ٹھیک سے عینک لگا لیتا تھا۔ بعد میں دیکھا کہ دھوپ کی عینک بھی ناک کی نوک پر ٹکائے اس کے اوپر سے دھوپ کا معائنہ کرتا ہوا بینک آتا جاتا ہے۔ آنکھیں ہلکی نیلی جو یقیناً کبھی روشن روشن رہی ہوں گی۔ ناک ستواں ترشی ترشائی۔ نچلا ہونٹ تحکمانہ انداز سے ذرا آگے کو نکلا ہوا۔ سگریٹ کے دھوئیں سے ارغوانی، بائیں ابرو بے ایمان دکان دار کی ترازو کی طرح مستقلاً اوپر چڑھی ہوئی۔ گرج دار آواز۔ جسم مائل بہ فربہی، رنگ وہی جو انگریزوں کا ہوتا ہے۔

    آپ نے شاید دیکھا ہوگا کہ چینیوں کا چہرہ عمر سے بے نیاز ہوتا ہے۔ اور انگریزوں کا جذبات سے عاری، بلکہ بعض اوقات تو چہرے سے بھی عاری ہوتا ہے۔ لیکن یہ بالکل مختلف چہرہ تھا۔ ایک عجیب تمکنت اور دبدبہ تھا اس چہرے پر۔ کمرے میں فرنیچر برائے نام۔ نہ آرائش کی کوئی چیز۔ سارا کمرا اس کے چہرے سے ہی بھرا بھرا نظر آتا تھا۔ یہ مقابل ہو تو اور کوئی چیز۔ اس کا اپنا جسم بھی۔ نظر نہیں آتا تھا۔

    اس کا سراپا ہے یہ مصرع…چہرہ ہی چہرہ پاؤں سے سر تک

    ہم نے تیار شدہ ہاتھ مصافحہ کو بڑھایا، تو اس نے اپنا ہاتھ پتلون کی جیب میں ڈال لیا۔ کچھ دیر بعد ”کریون اے“ کا ”کارک ٹپڈ“ سگریٹ ڈبّے سے نکال کر الٹی طرف سے ہونٹوں میں دبایا۔ وہ بہت برے موڈ میں تھا۔ کانپتے ہوئے ہاتھ سے چائے کی پیالی اٹھائی اور دوسرے کانپتے ہوئے ہاتھ سے زیادہ کانپتے ہاتھ کو تھاما۔ کپ کی ڈگڈگی سی بجنے لگی اور چائے چھلک کر ہماری درخواست کو رنگین کر گئی۔ اب ایک دیا سلائی کو اپنے بہتر ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ کے اس پر ڈبیا رگڑنے لگا۔ لیکن وہ کسی طرح جل کر نہیں دیتی تھی۔ خواہ مخواہ کا تکلّف تھا، ورنہ چاہتا تو اسے اپنے بلڈپریشر پر رگڑ کے بہ آسانی جلا سکتا تھا۔

    (مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی ایک شگفتہ تحریر سے اقتباس)

  • ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی

    ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی

    یہ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی سے اردو زبان کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب میں جو نام مقبول ہوئے، مشتاق احمد یوسفی ان میں سے ایک تھے۔ انھیں اردو زبان کا سب سے بڑا اور نہایت مقبول ادیب کہا گیا اور عہد ساز مزاح نگار تسلیم کیا گیا۔ آج مشتاق احمد یوسفی کی برسی منائی جا رہی ہے۔

    مشتاق یوسفی کے دستاویزات کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش چار اگست سنہ 1923 ہے۔ وہ انڈیا کی ریاست راجھستان کے شہر ٹونک میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ آگرہ یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی تعلیم مکمل کرنے والے یوسفی صاحب نے ملازمت کے لیے شعبۂ مالیات کا انتخاب کیا اور بینکار کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے ریٹائر ہوئے۔

    مشتاق احمد یوسفی کئی کتابوں کے مصنّف ہیں جن میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، آبِ گم بہت مقبول ہیں جب کہ وفات سے قبل ان کی آخری کتاب شام شعرِ یاراں کے نام سے شایع ہوئی تھی۔ ان کی کوئی تصنیف ربع صدی بعد سامنے آئی تھی اور یوسفی صاحب کے مداحوں کا یہ طویل انتظار مایوسی پر تمام ہوا۔ اس عرصہ میں اگرچہ یوسفی صاحب کو جو پذیرائی اور قارئین میں مقبولیت نصیب ہوئی وہ بہت کم لوگوں کے حصّے میں آتی ہے اور اسی کے زیرِ‌اثر ان سے توقعات بہت تھیں۔ مداحوں کو یوسفی صاحب کے طنز و مزاح، ان کی زبان اور تحریر کا چکسا لگ چکا تھا چنانچہ وہ نئی تصنیف کا بڑی بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ یہ سب ان کی پچھلی کتابوں‌ کے گدگداتے جملے اور منفرد لب و لہجہ میں‌ طنز و مزاح کی وجہ سے تھا، مگر نئی کتاب محض تقریروں کا مجموعہ تھی جس میں انہی کے مضامین کے ڈھیروں اقتباس موجود تھے۔ لیکن وہ ایک عظیم مزاح نگار تھے اور کہا جاتا ہے کہ یہ مزاح کا عہدِ یوسفی ہے۔

    مشتاق احمد یوسفی پی سی ایس کا امتحان پاس کر کے 1950ء تک ہندوستان میں ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز رہے تھے۔ لیکن پھر ان کا خاندان پاکستان ہجرت کر گیا اور یہاں یوسفی صاحب نے بینک کی ملازمت کو ذریعۂ معاش بنایا۔

    مشتاق احمد یوسفی کا ادبی سفر 1955 میں اس وقت شروع ہوا جب ان کی ایک تحریر صنفِ لاغر” کے نام سے لاہور سے شایع ہونے والے رسالے’’سویرا‘‘ کی زینت بنی۔ بعد میں مختلف رسائل میں ان کے مضامین کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 1961 میں مختلف انشائیوں اور مضامین کو بہم کر کے ان کا پہلا مجموعہ ’’چراغ تلے‘‘ کے نام سے قارئین تک پہنچا۔ ان کے کل پانچ مجموعہ ہائے مضامین شائع ہوئے جن میں ’’چراغ تلے‘‘ کے بعد ’’خاکم بدہن‘‘ 1970 میں، ’’زرگزشت‘‘اگلے سال، ’’آبِ گُم‘‘1989 اور آخری کتاب ’’شامِ شعرِ یاراں‘‘شامل ہے۔

    مشتاق احمد یوسفی نے انشائیے، خاکے، آپ بیتی اور پیروڈیاں لکھی ہیں‌ جن میں زبان کی چاشنی کے ساتھ وہ پُرلطف طنز و مزاح پڑھنے کو ملتا ہے کہ ادب کا ہر قاری مشتاق احمد یوسفی کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کی تخلیقات میں ان کی زندگی کے مختلف ادوار کا دل چسپ بیان اور شخصیات کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو ان کے قریب رہے۔

    اردو کے اس ممتاز مزاح نگار کی تحریروں پر نظر ڈالیں‌ تو ظرافت نگاری کے ساتھ انھوں‌ نے سیاست اور سماج میں پیدا ہونے والی کج روی، کم زوریوں اور عیوب پر چوٹ کی ہے۔ لیکن ان کا انداز ہمدردانہ ہے اور اس سے مقصود اصلاح ہے جب کہ یہ تحریریں ان سچائیوں کو بھی اجاگر کرتی ہیں‌ جن سے ہمارا معاشرہ براہِ راست متأثر ہورہا ہے۔ یوسفی صاحب نے اپنی تخلیقی صلاحیت سے کام لے کر کئی رنگا رنگ موضوعات کو اپنے دلکش اور شوخ انداز میں اس طرح بیان کیا کہ قارئین آج بھی ان کے طرزِ‌ تحریر کے سحر میں گرفتار ہیں۔

    یوسفی صاحب 20 جون 2018ء کو انتقال کرگئے تھے۔

  • افزائشِ حسن کا طریقہ!

    افزائشِ حسن کا طریقہ!

    جو عورتیں دواؤں سے پرہیز کرتی ہیں، وہ صرف ورزش سے خود کو ’’سلم‘‘ رکھ سکتی ہیں۔

    ’’سلمنگ‘‘ کے موضوع پر عورتوں کی رہبری کے لیے بے شمار باتصویر کتابیں ملتی ہیں جن کے مضامین عورتیں پڑھتی ہیں اور تصویروں سے مرد جی بہلاتے ہیں۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ مرد کاٹھ کے پتلے کی مانند ہے، لیکن عورت موم کی طرح نرم ہے۔ چنانچہ مرد کو ہر سانچے میں ڈھال سکتی ہے۔ پھر اس کے اپنے گوشت پوست میں قدرت نے وہ لوچ رکھا ہے کہ

    سمٹے تو دلِ عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے

    چنانچہ ہرعضوِ بدن کے لیے ایک علاحدہ ورزش ہوتی ہے۔ مثلاً دہری ٹھوڑی کو اکہری کرنے کی ورزش، 51 انچ کو 15 انچ بنانے کی کسرت۔ ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر غذا ہضم کرنے کی ترکیب۔ شرعی عیوب کا ہپناٹزم سے علاج وغیرہ۔

    توند کے لیے ماہرین کا خیال ہے کہ سیاست داں کے ضمیر کی مانند ہے۔ اس کی لچک کو ذہن نشین کرانے کی غرض سے وہ اکثر اسے مولوی اسماعیل میرٹھی کے ’وقت ‘سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے متعلق وہ کہہ گئے ہیں

    وقت میں تنگی فراخی دونوں ہیں جیسے ربڑ
    کھینچنے سے کھنچتی ہے، چھوڑے سے جاتی ہے سکڑ

    حق تو یہ ہے کہ جدید سائنس نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ دماغ کے علاوہ جسم کا ہر حصہ حسبِ منشا گھٹایا اور بڑھایا جاسکتا ہے۔

    یہی حال عورتوں کے رسالوں کا ہے۔ ان کے (رسالوں کے) تین ٹکڑے کیے جاسکتے ہیں۔ اوّل: آزادیٔ اطفال اور شوہر کی تربیت و نگہداشت۔ دوّم: کھانا پکانے کی ترکیبیں۔ سوّم کھانا نہ کھانے کی ترکیبیں۔ ان مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ تشخیص سب کی ایک ہی ہے۔ بس نسخے مختلف ہیں۔ پرہیز بہر صورت یکساں!

    اس امر پر سب متفق ہیں کہ افزائشِ حسن کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ایسی غذا کھائی جائے جس سے خونِ صالح نہ پیدا ہو اور جو جزوِ بدن نہ ہو سکے۔ ہماری رائے میں کسی پڑھی لکھی عورت کے لیے اس سے سخت اور کون سی سزا ہو سکتی ہے کہ اسے چالیس دن تک اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھلایا جائے۔ دبلے ہونے کا اس سے بہتر اور زود اثر طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

    رسالوں کے اس حصّے میں تاریخی ناولوں کا چٹخارہ اور یونانی طب کی چاشنی ہوتی ہے، اس لیے نہایت شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ چند عنوانات اور ٹوٹکے بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں۔

    زلیخا حضرت یوسف کے پیچھے دوڑنے کی وجہ سے دوبارہ جوان ہوئی! قلو پطرہ کے نازک اندام ہونے کا راز یہ ہے کہ وہ نہار منہ مصری تربوز کا پانی اور رعیت کا خون پیتی تھی۔ ملکہ الزبتھ اس لیے دبلی تھی کہ میری آف اسکاٹ نے اس کا موم کا پتلا بنا رکھا تھا جس میں وہ چاندنی رات میں سوئیاں چبھویا کرتی تھی۔ کیتھرین، ملکۂ روس کے’سلم‘ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ رات کو روغنِ قاز مل کر سوتی تھی۔ ملکہ نور جہاں بیگن پر جان دیتی تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ بیگن کے سر پر بھی تاج ہوتا ہے، بلکہ اس میں کوئی پروٹین نہیں ہوتی۔ ملکہ ممتاز محل اور تاج محل کی خوب صورتی کا راز ایک ہی ہے۔ سفید رنگ! ایکٹریس آڈرے ہیپ برن اس لیے موٹی نہیں ہوتی کہ وہ ناشتے میں نشاستے سے پرہیزکرتی ہے اور پھیکی چائے پیتی ہے جس سے چربی پگھلتی ہے۔

    چائے کی پتی سے گھٹ سکتا ہے عورت کا شکم

    دبلے آدمی کینہ پرور، سازشی اور دغا باز ہوتے ہیں۔ یہ ہماری نہیں بلکہ جولیس سیزر کی رائے ہے جس نے ایک مریل سے درباری کی ہاتھوں قتل ہو کر اپنے قول کو سچا کر دکھایا۔ گو کہ ہمارے موزے کا سائز صرف گیارہ اور بنیان کا چونتیس ہے لیکن ہمیں بھی اس نظریہ سے اتفاق ہے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ موٹی عورتیں فطرتاً ملن سار، ہنس مکھ اور صلح پسند ہوتی ہیں۔ وہ نہ خود لڑتی ہیں اور نہ مرد ان کے نام پر تلوار اٹھاتے ہیں۔ ممکن ہے کوئی صاحب اس کا یہ جواز پیش کریں کہ چوں کہ ایسی گج گامنی کی نقل و حرکت بغیر جرِ ثقیل کے ممکن نہیں لہٰذا وہ نہ ڈٹ کر لڑ سکتی ہے اور نہ میدان چھوڑ کر بھاگ سکتی ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ آج تک کسی موٹی عورت کی وجہ سے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔

    خدا نخواستہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم حسن میں ہارس پاور کے متلاشی ہیں اور اکھاڑے کی رونق کو چھپر کھٹ کی زینت بنانے کی سفارش کر رہے ہیں۔

    ایسی ہی چوڑی چکلی خاتون کا لطیفہ ہے کہ انہوں نے بس ڈرائیور سے بڑی لجاجت سے کہا، ’’بھیا! ذرا مجھے بس سے اتر وا دے۔‘‘ ڈرائیور نے مڑ کر دیکھا تو اس کا چہرہ فرشتوں کی طرح تمتما اٹھا۔ ان فرشتوں کی طرح جنہوں نے بارِ خلافت اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر خود ہی بولیں، ’’میری عادت ہے کہ دروازے سے الٹی اترتی ہوں مگر تمہارا الٹی کھوپڑی کا کنڈکٹر سمجھتا ہے کہ چڑھ رہی ہوں اور ہر دفعہ زبردستی اندر دھکیل دیتا ہے۔ تین اسٹاپ نکل گئے۔‘‘

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون صنفِ لاغر سے اقتباسات)

  • ’گاندھی جی‘ کا مجسمہ اور ”ایلفی“

    دارالخلافہ اسلام آباد ابھی پاکستان کے نقشہ پر نہیں ابھرا تھا اور کراچی ہی ’دارالخون خرابا‘ تھا۔

    کراچی کا نقشہ ہی نہیں، تلفظ اور اِملا تک گنوارو سا تھا۔ زکام نہ ہو تب بھی لوگ کراچی کو ’کرانچی‘ ہی کہتے تھے۔

    چیف کورٹ کے سامنے ’گاندھی جی‘ کا ایک نہایت بھونڈا مجسمہ نصب تھا، جس کی کوئی چیز گاندھی جی سے مشابہت نہیں رکھتی تھی۔ سوائے لنگوٹی کی سلوٹوں کے۔ گوانیر جوڑے وکٹوریہ گاڑی میں بندر روڈ پر ہوا خوری کے لیے نکلتے اور نورانی شکل کے پیرانِ پارسی شام کو ایلفنسٹن اسٹریٹ کی دکانوں کے تھڑوں پر ٹھیکی لیتے۔ ایلفنسٹن اسٹریٹ پر کراچی والوں کو ابھی پیار نہیں آیا تھا اور وہ ”ایلفی“ نہیں کہلاتی تھی۔

    سارے شہر میں ایک بھی نیو سائن نہ تھا۔ اس زمانے میں خراب مال بیچنے کے لیے اتنی اشتہار بازی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ نیپئر روڈ پر طوائفوں کے کوٹھے، ڈان اخبار کا دفتر اور اونٹ گاڑیوں کا اڈّا تھا۔ یہاں دن میں اونٹ گاڑیوں کا اوّل الذکر حصّہ کلیلیں کرتا اور رات کو تماش بین۔ اہلِ کمال اس زمانے میں بھی آشفتہ حال پھرتے تھے۔ کچھ ہماری طرح تھے کہ محض آشفتہ حال تھے۔ شریف گھرانوں میں جہیز میں سنگر مشین، ٹین کا ٹرنک اور بہشتی زیور دیا جاتا تھا۔

    اردو غزل سے معشوق کو ہنوز شعر بدر نہیں کیا گیا تھا اور گیتوں اور کجریوں میں وہی ندیا، نِندیا اور نَندیا کا رونا تھا۔ میٹھانیوں اور اونچے گھرانوں کی بیگمات نے ابھی ساریاں خریدنے اور ہندوستانی فلمیں دیکھنے کے لیے بمبئی جانا نہیں چھوڑا تھا۔ ڈھاکا اور چٹاگانگ کے پٹ سن کے بڑے تاجر ”ویک اینڈ“ پر اپنی آرمینین داشتاؤں کی خیر خیریت لینے اور اپنی طبیعت اور امارت کا بار ہلکا کرنے کے لیے کلکتے کے ہوائی پھیرے لگاتے تھے۔

    کیا زمانہ تھا، کلکتے جانے کے لیے پاسپورٹ ہی نہیں، بہانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی۔ آم، کیلا اور شاعر ہندوستان سے اور لٹھا جاپان سے آتا تھا۔ بینکوں میں ابھی ایئرکنڈیشنر، میز پر فنانشل ٹائمز، ایرانی قالین، سیاہ مرسیڈیز کار، قلم چھوڑ ہڑتال، رشوت، آسٹن ریڈ کے سوٹ، مگرمچھ کی کھال کے بریف کیس اور اتنی ہی موٹی ذاتی کھال رکھنے کا رواج نہیں ہوا تھا۔ فقیر ابھی ہاتھ پھیلا پھیلا کر ایک پیسہ مانگتے اور مل جائے، تو سخی داتا کو کثرت اولاد کی ’بد دعا‘ دیتے تھے۔ اور یہ فقیر پُرتقصیر اپنی اوقات کو نہیں بھولا تھا۔ کنڈوں کی آنچ پر چکنی ہانڈی میں ڈوئی سے گھٹی ہوئی ارد کی بے دھلی دال چٹخارے لے لے کر کھاتا اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا تھا۔

    میں اپنے شہر (کراچی) کی برائی کرنے میں کوئی بڑائی محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میرا خیال ہے جو شخص کبھی اپنے شہر کی برائی نہیں کرتا وہ یا تو غیر ملکی جاسوس ہے یا میونسپلٹی کا بڑا افسر! یوں بھی موسم، معشوق اور حکومت کا گِلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی تفریحی مشغلہ رہا ہے… اس میں شک نہیں کہ ریڈیو کی گڑگڑاہٹ ہو یا دمہ، گنج ہو پاؤں کی موچ، ناف ٹلے یا نکسیر پھوٹے، ہمیں یہاں ہر چیز میں موسم کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ بلغمی مزاج والا سیٹھ ہو یا سودائی فن کار، ہر شخص اسی بُتِ ہزار شیوہ کا قتیل ہے۔ کوئی خرابی ایسی نہیں جس کا ذمہ دار آب و ہوا کو نہ ٹھہرایا جاتا ہو (حالانکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے موسم خراب لگتا ہے۔)

    (از قلم: مشتاق احمد یوسفی)

  • دسمبر 1971: جب کراچی پر بم باری ہو رہی تھی!

    دسمبر 1971: جب کراچی پر بم باری ہو رہی تھی!

    ایک زمانے میں یہ دستور تھا کہ امرا و رؤسا عمارت تعمیر کراتے تو اس کی ’نیو‘ میں اپنی حیثیت اور مرتبے کے مطابق کوئی قیمتی چیز رکھ دیا کرتے تھے۔

    نواب واجد علی شاہ اپنی ایک منہ چڑھی بیگم، معشوق محل سے آزردہ ہوئے، تو اس کی حویلی ڈھا کر ایک نئی عمارت تعمیر کرائی۔ معشوق محل ذات کی ڈومنی تھی۔ اس نسبت سے اس کی تذلیل و تضحیک کے لیے نیو میں طبلہ سارنگی رکھوا دیے۔ میں نے اس کتاب کی بنیاد اپنی ذات پر رکھی ہے۔ جس سے ایک مدت سے آزردہ خاطر ہوں کہ ”پیشہ سمجھے تھے جسے ہوگئی وہ ذات اپنی“ کم و بیش 20 سال پرانی یادوں اور باتوں کی پہلی قسط 1972ء میں مکمل ہوگئی تھی۔

    یاد پڑتا ہے کہ اس کے دو باب دسمبر 1971ء میں موم بتی کی روشنی میں ان راتوں کو لکھے گئے، جب کراچی پر مسلسل بم باری ہو رہی تھی اور راکٹوں اور اک اک گنز کے گولوں نے آسمان پر آتشیں جال سا بُن رکھا تھا۔ ہماری تاریخ کا ایک خونچکاں باب رقم ہو رہا تھا۔ ہجومِ کار اور طبیعت کی بے لطفی نے تین سال تک نظرِ ثانی کی اجازت نہ دی۔ ستمبر 1975ء میں جب معدے سے خون آنے لگا اور ڈیڑھ مہینے تک نقل و حرکت بستر کے حدود اربعہ تک محدود ہوکر رہ گئی، تو بارے یک سو ہو کر زندگی کی نعمتوں کا شمار و شکر ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

    مسوّدے پر نظرِ ثانی کا مرحلہ بھی لیٹے لیٹے طے ہو گیا۔ اپنی تحریر میں کاٹ چھانٹ کرنے اور حشو و زوائد نکالنے کا مسئلہ بڑھا ٹیڑھا ہوتا ہے۔ یہ تو ایسا ہی عمل ہے جیسے کوئی سرجن اپنا اپنڈکس آپ نکالنے کی کوشش کرے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ”زر گزشت“ سے ماخوذ)

  • آیا کرکٹ کھیل کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟

    آیا کرکٹ کھیل کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟

    ہم آج تک کرکٹ نہیں کھیلے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اس کی برائی کرنے کا حق نہیں۔

    اب اگر کسی شخص کو کتّے نے نہیں کاٹا، تو کیا اس بد نصیب کو کتّوں کی مذمت کرنے کا حق نہیں پہنچتا؟ ذرا غور کیجیے۔ افیم کی برائی صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو افیم نہیں کھاتے۔ افیم کھانے کے بعد ہم نے کسی کو افیم کی برائی کرتے نہیں دیکھا۔ برائی کرنا تو بڑی بات ہے ہم نے کچھ بھی تو کرتے نہیں دیکھا۔

    اب بھی بات صاف نہیں ہوئی تو ہم ایک اور مستند نظیر پیش کرتے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد کو گڑ سے سخت چڑ تھی۔ ان کا قول ہے کہ جس نے ایک مرتبہ گڑ چکھ لیا اس کو تمام عمر دوسری مٹھاس پسند نہیں آسکتی چوں کہ وہ خود شکر کی لطیف حلاوتوں کے عادی و مداح تھے، لہذا ثابت ہوا کہ وہ بھی ساری عمر گڑ کھائے بغیر گڑکی برائی کرتے رہے۔

    یوں تو آج کل ہر وہ بات جس میں ہارنے کا امکان زیادہ ہو کھیل سمجھی جاتی ہے۔ تاہم کھیل اور کام میں جو بیّن فرق ہماری سمجھ میں آیا یہ ہے کہ کھیل کا مقصد خالصتاً تفریح ہے۔ دیکھا جائے تو کھیل کام کی ضد ہے جہاں اس میں گمبھیرتا آئی اور یہ کام بنا۔ یہی وجہ ہے کہ پولو انسان کے لئے کھیل ہے اور گھوڑے کے لئے کام۔ ضد کی اور بات ہے ورنہ خود مرزا بھی اس بنیادی فرق سے بے خبر نہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن وہ ٹنڈوالہ یار سے معاوضہ پر مشاعرہ ’’پڑھ‘‘ کے لوٹے تو ہم سے کہنے لگے،’’فی زمانہ ہم تو شاعری کو جب تک وہ کسی کا ذریعہ معاش نہ ہو، نری عیاشی بلکہ بدمعاشی سمجھتے ہیں۔‘‘

    اب یہ تنقیح قائم کی جاسکتی ہے کہ آیا کرکٹ کھیل کے اس معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کرکٹ دراصل انگریزوں کا کھیل ہے اور کچھ انہی کے بلغمی مزاج سے لگا کھاتا ہے۔ ان کی قومی خصلت ہے کہ وہ تفریح کے معاملے میں انتہائی جذباتی ہو جاتے ہیں اور معاملات محبت میں پرلے درجے کے کاروباری۔ اسی خوش گوار تضاد کا نتیجہ ہے کہ ان کا فلسفہ حد درجہ سطحی ہے اور مزاح نہایت گہرا۔

    کرکٹ سے ہماری دل بستگی ایک پرانا واقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تأسف کا اظہار کرنا اپنی ناواقفیتِ عامّہ کا ثبوت دینا ہے۔ 1857 کی رستخیز کے بعد بلکہ اس سے کچھ پہلے ہمارے پرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہو چلا تھا۔ چنانچہ سرسیّد احمد خاں نے بھی انگریزی تعلیم و تمدن کے ساتھ ساتھ کرکٹ کو اپنانے کی کوشش کی۔ روایت ہے کہ جب علی گڑھ کالج کے لڑکے میچ کھیلتے ہوتے تو سرسید میدان کے کنارے جا نماز بچھا کر بیٹھ جاتے۔ لڑکوں کا کھیل دیکھتے اور رو رو کر دعا مانگتے،’’الٰہی میری بچّوں کی لاج تیرے ہاتھ ہے۔‘‘

    جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے، کرکٹ انگریزوں کے لیے مشغلہ نہیں مشن ہے۔ لیکن اگر آپ نے کبھی کرکٹ کی ٹیموں کو مئی جون کی بھری دوپہر میں ناعاقبت اندیشانہ جرأت کے ساتھ موسم کو چیلنج کرتے دیکھا ہے تو ہماری طرح آپ بھی اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ ہمارے ہاں کرکٹ مشغلہ ہے نہ مشن، اچھی خاصی تعزیری مشقت ہے، جس میں کام سے زیادہ عرق ریزی کرنا پڑتی ہے۔ اب اگر کوئی سر پھرا منہ مانگی اجرت دے کر بھی اپنے مزدوروں سے ایسے موسمی حالات میں یوں کام کرائے تو پہلے ہی دن اس کا چالان ہو جائے۔ مگر کرکٹ میں چونکہ عام طور سے معاوضہ لینے کا دستور نہیں، اس لئے چالان کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاتھوں جس طرح ہلکا پھلکا کھیل ترقی کر کے کام میں تبدیل ہو گیا وہ اس کے موجدین کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔ غالب نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال سے متاثر ہوکر کہا تھا کہ ہم مغل بچّے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔

    اور اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل کے معاملے میں ہمارا رویہ بالغوں جیسا نہیں، بالکل بچّوں کا سا ہے۔ اس لحاظ سے کہ صرف بچّے ہی کھیل میں اتنی سنجیدگی برتتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچہ سیانا ہوتا ہے کھیل کے ضمن میں اس کا رویہ غیرسنجیدہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔

    کرکٹ کے رسیا ہم جیسے نا آشنائے فن کو لاجواب کرنے کے لئے اکثر کہتے ہیں، ’’میاں! تم کرکٹ کی باریکیوں کو کیا جانو؟ کرکٹ اب کھیل نہیں رہا، سائنس بن گیا ہے سائنس!‘‘

    عجیب اتفاق ہے۔ تاش کے دھتیا بھی رمی کے متعلق نہایت فخر سے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سولہ آنے سائنٹفک کھیل ہے۔ بکنے والے بَکا کریں، لیکن ہمیں رمی کے سائنٹیفک ہونے میں مطلق شبہ نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ روپیہ ہارنے کا اس سے زیادہ سائنٹیفک طریقہ ہنوز دریافت نہیں ہوا۔ پس ثابت ہوا کہ کرکٹ اور رمی قطعی سائنٹیفک ہیں اور اسی بنا پر کھیل نہیں کہلائے جاسکتے۔ بات یہ ہے کہ جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا کھیل کھیل نہیں رہتا کام بن جاتا ہے۔

    محض کرکٹ ہی پر منحصر نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں رجحان عام ہے کہ تعلیم نہایت آسان اور تفریح روز بروز مشکل ہوتی جاتی ہے (مثلاً بی اے کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، مگر برج سیکھنے کے لئے عقل درکار ہے) ریڈیو، ٹیلی ویژن، سنیما اور با تصویر کتابوں نے اب تعلیم کو بالکل آسان اور عام کر دیا ہے لیکن کھیل دن بدن گراں اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا بعض غبی لڑکے کھیل سے جی چرا کر تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دینے لگے ہیں۔ اس سے جو سبق آموز نتائج رونما ہوئے وہ سیاست دانوں کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون سے اقتباسات)

  • وہ اِک مردِ مسلماں تھا!

    وہ اِک مردِ مسلماں تھا!

    26 جون 1950ء کو روزے کی حالت میں ابّا جان پر ٹنڈو آدم میں اچانک دل کا دورہ پڑا اور وہ بے ہوش ہوگئے۔

    کسی عطائی نے نہ جانے کیا سمجھ کر کونین کا انجکشن لگا دیا اور وہ آن کی آن میں سارے بکھیڑوں، بندھنوں سے آزاد ہوگئے۔ جے پور ریاست کے ’’مقامی‘‘ مسلمانوں میں وہ پہلے گریجویٹ تھے۔ جے پور میونسپلٹی کے چیئرمین، اسٹیٹ مسلم لیگ اور دیگر مسلم تعلیمی اور ثقافتی اداروں کے صدر اور اسمبلی کی حزبِ اختلاف کے لیڈر رہ چکے تھے۔ اسمبلی ہی میں سقوطِ حیدرآباد پر پاکستان کی حمایت میں تقریر کرنے پر انہیں ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ سادہ دل، بے ریا، پابندِ شرع، فقیر منش اور زبان کے کھرے تھے۔ دل کی بات زبان پر لانے میں انہیں ذرا بھی نہیں سوچنا پڑتا تھا۔

    موروثی جائیداد سے وہ اپنے چھوٹے بھائی کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے۔ راجستھان میں مسلمانوں کے دیرینہ و بے لوث خدمت گزار اور تحریکِ پاکستان کے سپاہی کی حیثیت سے سبھی انہیں جانتے پہچانتے تھے۔ انتقال کے بعد کسی اللہ کے بندے نے ان کی میّت ٹرک میں رکھ کر حیدرآباد پہنچا دی۔ غریبِ شہر کی لاش تین چار گھنٹے تک سڑک کے کنارے جون کی لُو میں اس انتظار میں بے گور و کفن پڑی رہی کہ اگر کوئی وارث ہے تو آئے اور مٹّی کے اس ڈھیر کو پہچان کر لے جائے۔ ان کے خدا نے ان کی بے کسی کی شرم رکھ لی۔

    دوسرے دن غروبِ آفتاب سے ذرا دیر پہلے سیدھے حیدرآباد کے پھلیلی قبرستان پہنچے تو کافی انتظار کے بعد قبر آدھی بند کی جا چکی تھی۔ ان کا چہرہ پرسکون تھا۔ زردی نے ماتھے پر سجدے کے نشان کو زیادہ واضح کردیا تھا۔ ایک جھلک دیکھی۔ پھر اس کے بعد کچھ نظرنہ آیا۔

    انتقال کے کچھ دن پہلے وہ چند گھنٹوں کے لیے کراچی آئے تو ٹاٹ کے ایک تیلے میں اپنا کھانا ساتھ لائے تھے کہ تنک حوصلہ بیٹے نے جو رزق تلاش کیا اس میں سود کی آمیزش تھی۔ زندگی میں جس نے ان کی کوئی خدمت نہ کی، اسے انہوں نے کندھا دینے کی سعادت سے بھی محروم رکھا۔ قبر پر نہ گلابوں کی چادر نہ چنبیلی کا ڈھیر۔ نہ گھر پر آہ و بکا کا شور۔ وہ تھے تو گھر اتنا بے سر و سامان نظر نہیں آتا تھا۔ ماں نے سَر پہ ہاتھ رکھا اور کلائی کو میلی چادر سے چھپا لیا۔

    اب اپنے خاندان، بے روزگار بھائی اور اس کے بیوی بچے، بہن اور اس کے کنبے، اور ان کے گرد گھومنے والے طفیلی سیارے۔ ان سب کی خورد و نوش کا انتظام، بلکہ کہنا تو یہ چاہیے کہ فاقہ کروانے کی اخلاقی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی تھی۔ ایک دن یونہی خیال آیا تو مشقی سوال کے طور پر ہم نے اپنی تنخواہ کو کنبے کے لواحقین اور لواحقین کے متوسلین پر تقسیم کیا تو مقسوم 23 روپے پونے چار آنے نکلا۔ کسی طرح یقین نہ آیا کہ ایک آدمی 23 روپے میں بسر اوقات کر سکتا ہے۔ حساب میں یقیناً کوئی غلطی ہوگی۔ گھڑی کی زنجیر کے کمپیوٹر پر چیک کرکے دیکھا تو وہی جواب آیا۔

    زندگی ہندسوں سے کہیں زیادہ لچک دار نکلی۔ انسان بڑا سخت جان ہے۔ ان اوصافِ حمیدہ اور خصائل ستودہ کی زیادہ تشریح و تشہیر یہاں اس لیے بھی غیر ضروری ہے کہ سارا اردو لٹریچر از دلّی دکنی تا ایں دم قناعت اور مفلسی کے فائدوں اور فضیلتوں سے بھرا پڑا ہے۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون ” موصوف” سے انتخاب)

  • نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں؟

    نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں؟

    لکھنؤ اور کانپور اردو کے گڑھ تھے۔ بے شمار اردو اخبار نکلتے تھے۔

    خیر، آپ تو مان کے نہیں دیتے۔ مگر صاحب ہماری زبان سند تھی۔ اب یہ حال ہے کہ مجھے تو سارے شہر میں ایک بھی اردو سائن بورڈ نظر نہیں آیا۔ لکھنؤ میں بھی نہیں۔ میں نے یہ بات جس سے کہی وہ آہ بھر کے یا منھ پھیر کے خاموش ہو گیا۔ شامتِ اعمال، یہی بات ایک محفل میں دہرا دی تو ایک صاحب بپھر گئے۔ غالباً ظہیر نام ہے۔ میونسپلٹی کے ممبر ہیں۔ وکالت کرتے ہیں۔ نجانے کب سے بھرے بیٹھے تھے۔

    کہنے لگے، "للہ، ہندوستانی مسلمانوں پر رحم کیجیے۔ ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیجیے۔ پاکستان سے جو بھی آتا ہے، ہوائی جہاز سے اترتے ہی اپنا فارن ایکسچینج اچھالتا، یہی رونا روتا آتا ہے۔ جسے دیکھو، آنکھوں میں آنسو بھرے شہر آشوب پڑھتا چلا آ رہا ہے۔ ارے صاحب، ہم نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں؟ بس جو کوئی بھی آتا ہے، پہلے تو ہر چیز کا موازنہ پچاس برس پہلے کے ہندوستان سے کرتا ہے۔ جب یہ کر چکتا ہے تو آج کے ہندوستان کا موازنہ آج کے پاکستان سے کرتا ہے۔ دونوں مقابلوں میں چابک دوسرے گھوڑے کے مارتا ہے، جتواتا ہے اپنے ہی گھوڑے کو۔” وہ بولتے رہے، میں مہمان تھا، کیا کہتا، وگرنہ وہی (سندھی) مثل ہوتی کہ گئی تھی سینگوں کے لیے، کان بھی کٹوا آئی۔

    لیکن ایک حقیقت کا اعتراف نہ کرنا بد دیانتی ہو گی۔ ہندوستانی مسلمان کتنا ہی نادار اور پریشان روزگار کیوں نہ ہو، وہ مخلص، با وقار، غیور اور پُر اعتماد ہے۔ نشور واحدی سے لمبی لمبی ملاقاتیں رہیں۔ سراپا محبت، سراپا خلوص، سراپا نقاہت۔ ان کے ہاں شاعروں اور ادیبوں کا جماؤ رہتا ہے۔ دانشور بھی آتے ہیں۔ مگر دانشور ہیں، دانا نہیں۔ سب یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ اردو بہت سخت جان ہے۔ دانشوروں کو اردو کا مستقبل غیر تاریک دکھلائی پڑتا ہے۔ بڑے بڑے مشاعرے ہوتے ہیں۔ سنا ہے ایک مشاعرے میں تو تیس ہزار سے زیادہ سامعیں تھے۔ صاحب مجھے آپ کی رائے سے اتفاق نہیں کہ جو شعر بیک وقت پانچ ہزار آدمیوں کی سمجھ میں آ جائے وہ شعر نہیں ہو سکتا۔ کچھ اور شے ہے۔ بے شمار سالانہ سمپوزیم اور کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ سنا ہے کئی اردو ادیبوں کو پدم شری اور پدم بھوشن کے خطاب مل چکے ہیں۔ میں نے کئیوں سے پدم اور بھوشن کے معنی پوچھے تو جواب میں انہوں نے وہ رقم بتائی جو خطاب کے ساتھ ملتی ہے۔ آج بھی فلمی گیتوں، ذو معنی ڈائیلاگ، قوالی اور آپس کی مار پیٹ کی زبان اردو ہے۔ سنسکرت الفاظ پر بہت زور ہے۔ مگر آپ عام آدمی کو سنسکرت میں گالی نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے مخاطب کا پنڈت اور ودوان ہونا ضروری ہے۔ صاحب، بقول شخصے، گالی، گنتی، سرگوشی اور گندا لطیفہ تو اپنی مادری زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اردو والے کافی پُر امید ہیں۔ ثقیل ہندی الفاظ بولتے وقت اندرا گاندھی کی زبان لڑکھڑاتی ہے تو اردو والوں کی کچھ آس بندھتی ہے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)

  • "ہماری تنخواہ سے ملکی معیشت کی تباہی”

    "ہماری تنخواہ سے ملکی معیشت کی تباہی”

    بیگم نے ہمیں ایک دن یہ اطلاع دی کہ ہماری تنخواہ 13 تاریخ تک کے لیے بالکل کافی ہوتی ہے تو ہمیں پوپ گریگری پر بڑا غصہ آیا جس نے عیسوی کیلنڈر کی ترتیب و اصلاح کرتے وقت یہ تباہ کن فیصلہ کیا تھا کہ کوئی مہینہ 28 دن سے کم کا نہ ہوگا۔

    ظالم کو اصلاح ہی کرنی تھی تو ٹھیک سے کرتا۔ خیر، گرم گرم گرہستی چوٹ تھی۔ ہم نے دوسرے ہی دن اینڈرسن کی اسٹینو گرافر کو ایک درخواست ڈکٹیٹ کروائی جس میں احتجاج کیا کہ جس تنخواہ کا بینک کے چیئرمین مسٹر ایم۔ اے۔ اصفہانی نے وعدہ کر کے ہم سے سول سروس سے استعفیٰ دلوایا تھا، اس کے نصف پر ہمیں ٹرخا دیا گیا۔ لہٰذا چارسو روپے کا فوری اضافہ کیا جائے اور بقایا جات ادا کیے جائیں۔

    اس لُتری نے غالباً اس کی پیشگی اطلاع اسے دے دی۔ جبھی تو درخواست ٹائپ ہونے سے پہلے ہی اس نے ہمیں طلب کرلیا۔ کہنے لگا بینک کا حال تو اورینٹ ایئرویز سے بھی بدتر ہے۔ شیئر کی قیمت کا کریش ہو چکا ہے۔ خسارہ ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک فراڈ بھی ہو گیا ہے۔

    بینک فراڈ دراصل اعداد و شمار کی شاعری ہے۔ صبح کیش پوزیشن دیکھ کر گلے میں پھندا سا پڑ جاتا ہے۔ میں خود آج کل ضرورت مند صنعت کاروں اور تاجروں کو اوور ڈرافٹ کے بجائے قیمتی مشورے دے رہا ہوں۔ بینک موجودہ اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ میں تمہاری تنخواہ کی طرف سے بہت فکر مند رہتا ہوں۔ مگر تم عیال دار آدمی ہو۔ گھٹاتے ہوئے ڈرتا ہوں۔

    تنخواہ میں مزید تخفیف کی بشارت کے علاوہ اس نے معاشیات پر لمبا سا لیکچر بھی دیا جس کے دوران رف پیڈ پر ڈائگرام بنا کر ہمیں ذہن نشین کرایا کہ اگر قومی پیداوار میں اضافہ ہو اور تنخواہیں اور اجرتیں بڑھتی ہی چلی جائیں تو ملک کی معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔ انگلینڈ اسی طرح برباد ہو رہا ہے۔

    ہم اس کے کمرے سے نکلے تو ہر چند ہماری تنخواہ وہی تھی جو کمرے میں داخل ہونے سے پیشتر تھی، لیکن اس خیال ہی سے ایک عجیب طرح کی سرخوشی اور طمانیت محسوس ہوئی کہ ہماری ترقی سے ساری معیشت تباہ ہوسکتی ہے۔

    (ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر موصوف سے انتخاب)

  • بِچھڑا اور پَچھڑا ہوا طبقہ!

    بِچھڑا اور پَچھڑا ہوا طبقہ!

    ’’کسی ملک کی معیشت کے استحکام، پھیلاؤ اور توانائی کا اندازہ اس سے نہیں لگایا جا سکتا کہ اس کے امیر کتنے امیر ہیں، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ غریب کتنے غریب ہیں۔

    کسی معاشرے کے مہذب اور فلاح یافتہ ہونے کو پرکھنے کی محک اور کسوٹی یہ ہے کہ وہ اپنے کم زور، پیچھے رہ جانے والے، دکھی اور خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتا ہے۔

    ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب تک ہماری قوم کا یہ بچھڑا اور پچھڑا ہوا طبقہ آگے نہیں بڑھتا، ہمارا معاشرہ آنکھوں پر بے حسی کے کھوپے چڑھائے خود ساختہ اندھیرے میں بھٹکتا اور دوسروں کو بھٹکاتا پھرے گا۔

    ایک افریقی مثل ہے کہ جنگل میں ہاتھیوں کے جھنڈ کی رفتار کا تعین سب سے تیز دوڑنے والا ہاتھی نہیں کرتا، بلکہ سب سے سست قدم اور لدھڑ ہاتھی کرتا ہے!‘‘

    (اردو عظیم مزاح نگار اور ادیب مشتاق احمد یوسفی کی فکر سے ایک پارہ)