Tag: مشتاق احمد یوسفی کی تحریریں

  • یوسفی صاحب کی کتاب اور کراچی پر بم باری

    یوسفی صاحب کی کتاب اور کراچی پر بم باری

    مشتاق احمد یوسفی الفاظ کا مزاج پہچانتے ہیں اور ایسے زباں داں ہیں جن کی تحریر سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ہم مطالعے کی وسعت اور ان کی نثر کی داد دیے بغیر بھی نہیں رہ سکتے۔ انھیں اپنے عہد کا سب سے بڑا مزاح نگار کہا جاتا ہے اور آنے والے برسوں میں شاید ہی کسی کو یہ مقام کسی کو نصیب ہو سکے۔

    مشتاق احمد یوسفی کی تحریریں قاری سے غور و خوض اور تدبّر کا تقاضا بھی کرتی ہیں۔ ان کی عبارات سے لطف اٹھانے کے لیے کئی بار پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اردو طنز و مزاح میں‌ انھیں اپنے عہد کا سب سے بڑا مزاح نگار کہا جاتا ہے۔ اپنی کتاب سے متعلق ایک وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے 1971ء کی جنگ میں کراچی پر بمباری کا ذکر بھی کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    "ایک زمانے میں یہ دستور تھا کہ امرا و رؤسا عمارت تعمیر کراتے تو اس کی ’نیو‘ میں اپنی حیثیت اور مرتبے کے مطابق کوئی قیمتی چیز رکھ دیا کرتے تھے۔ ”

    "نواب واجد علی شاہ اپنی ایک منہ چڑھی بیگم، معشوق محل سے آزردہ ہوئے، تو اس کی حویلی ڈھا کر ایک نئی عمارت تعمیر کرائی۔ معشوق محل ذات کی ڈومنی تھی۔ اس نسبت سے اس کی تذلیل و تضحیک کے لیے نیو میں طبلہ سارنگی رکھوا دیے۔ میں نے اس کتاب کی بنیاد اپنی ذات پر رکھی ہے۔ جس سے ایک مدت سے آزردہ خاطر ہوں کہ ”پیشہ سمجھے تھے جسے ہو گئی وہ ذات اپنی۔“ کم و بیش 20 سال پرانی یادوں اور باتوں کی پہلی قسط 1972ء میں مکمل ہوگئی تھی۔”

    "یاد پڑتا ہے کہ اس کے دو باب دسمبر 1971ء میں موم بتی کی روشنی میں ان راتوں کو لکھے گئے، جب کراچی پر مسلسل بم باری ہو رہی تھی اور راکٹوں اور اک اک گنز کے گولوں نے آسمان پر آتشیں جال سا بن رکھا تھا۔ ہماری تاریخ کا ایک خونچکاں باب رقم ہو رہا تھا۔ ہجوم کار اور طبیعت کی بے لطفی نے تین سال تک نظرِ ثانی کی اجازت نہ دی۔ ستمبر 1975ء میں جب معدے سے خون آنے لگا اور ڈیڑھ مہینے تک نقل و حرکت بستر کے حدود اربعہ تک محدود ہوکر رہ گئی، تو بارے یک سُو ہو کر زندگی کی نعمتوں کا شمار و شکر ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مسوّدے پر نظرِ ثانی کا مرحلہ بھی لیٹے لیٹے طے ہوگیا۔ اپنی تحریر میں کاٹ چھانٹ کرنے اور حشو و زوائد نکالنے کا مسئلہ بڑھا ٹیڑھا ہوتا ہے۔ یہ تو ایسا ہی عمل ہے جیسے کوئی سرجن اپنا اپنڈکس آپ نکالنے کی کوشش کرے۔”

    (زرگزشت سے ماخوذ)

  • ”میں تو تابع دار ہوں…“

    ”میں تو تابع دار ہوں…“

    بڑا مبارک ہوتا ہے وہ دن جب کوئی نیا خانساماں گھر میں آئے اور اس سے بھی زیادہ مبارک وہ دن جب وہ چلا جائے! چونکہ ایسے مبارک دن سال میں کئی بار آتے ہیں اور تلخیٔ کام و دہن کی آزمائش کر کے گزر جاتے ہیں۔ اس لیے اطمینان کاسانس لینا، بقول شاعر صرف دو ہی موقعوں پر نصیب ہوتا ہے…

    اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد

    عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بدذائقہ کھانا پکانے کا ہنر صرف تعلیم یافتہ بیگمات کو آتا ہے لیکن ہم اعداد و شمار سے ثابت کر سکتے ہیں کہ پیشہ ور خانساماں اس فن میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہنسنا اور کھانا آتا ہے۔ اسی وجہ سے پچھلے سو برس سے یہ فن کوئی ترقی نہیں کر سکے۔

    کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں آنکلا اور آتے ہی ہمارا نام اور پیشہ پوچھا۔ پھر سابق خانساماؤں کے پتے دریافت کیے۔ نیز یہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی دفعہ باہر مدعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز سے ہمارے اعصاب اور اخلاق پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی کہ اگر آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑ پر جائیں گے تو پہلے ”عوضی مالک“ پیش کرنا پڑے گا۔

    کافی رد و کدّ کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کر رہے ہیں جو ہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اور کام کے اوقات کا سوال آیا تو ہم نے کہا کہ اصولاً ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں۔ خود بیگم صاحبہ صبح پانچ بجے سے رات کے دس بجے تک گھر کے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔ کہنے لگے، ”صاحب! ان کی بات چھوڑیئے۔ وہ گھرکی مالک ہیں۔ میں تو نوکر ہوں!“ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ برتن نہیں مانجھوں گا۔ جھاڑو نہیں دوں گا۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔ میز نہیں لگاؤں گا۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاؤں گا۔

    ہم نے گھبرا کر پوچھا، ”پھر کیا کرو گے؟“

    ”یہ تو آپ بتائیے۔ کام آپ کو لینا ہے۔ میں تو تابع دار ہوں۔“

  • وہ اِک مردِ مسلماں تھا!

    وہ اِک مردِ مسلماں تھا!

    26 جون 1950ء کو روزے کی حالت میں ابّا جان پر ٹنڈو آدم میں اچانک دل کا دورہ پڑا اور وہ بے ہوش ہوگئے۔

    کسی عطائی نے نہ جانے کیا سمجھ کر کونین کا انجکشن لگا دیا اور وہ آن کی آن میں سارے بکھیڑوں، بندھنوں سے آزاد ہوگئے۔ جے پور ریاست کے ’’مقامی‘‘ مسلمانوں میں وہ پہلے گریجویٹ تھے۔ جے پور میونسپلٹی کے چیئرمین، اسٹیٹ مسلم لیگ اور دیگر مسلم تعلیمی اور ثقافتی اداروں کے صدر اور اسمبلی کی حزبِ اختلاف کے لیڈر رہ چکے تھے۔ اسمبلی ہی میں سقوطِ حیدرآباد پر پاکستان کی حمایت میں تقریر کرنے پر انہیں ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ سادہ دل، بے ریا، پابندِ شرع، فقیر منش اور زبان کے کھرے تھے۔ دل کی بات زبان پر لانے میں انہیں ذرا بھی نہیں سوچنا پڑتا تھا۔

    موروثی جائیداد سے وہ اپنے چھوٹے بھائی کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے۔ راجستھان میں مسلمانوں کے دیرینہ و بے لوث خدمت گزار اور تحریکِ پاکستان کے سپاہی کی حیثیت سے سبھی انہیں جانتے پہچانتے تھے۔ انتقال کے بعد کسی اللہ کے بندے نے ان کی میّت ٹرک میں رکھ کر حیدرآباد پہنچا دی۔ غریبِ شہر کی لاش تین چار گھنٹے تک سڑک کے کنارے جون کی لُو میں اس انتظار میں بے گور و کفن پڑی رہی کہ اگر کوئی وارث ہے تو آئے اور مٹّی کے اس ڈھیر کو پہچان کر لے جائے۔ ان کے خدا نے ان کی بے کسی کی شرم رکھ لی۔

    دوسرے دن غروبِ آفتاب سے ذرا دیر پہلے سیدھے حیدرآباد کے پھلیلی قبرستان پہنچے تو کافی انتظار کے بعد قبر آدھی بند کی جا چکی تھی۔ ان کا چہرہ پرسکون تھا۔ زردی نے ماتھے پر سجدے کے نشان کو زیادہ واضح کردیا تھا۔ ایک جھلک دیکھی۔ پھر اس کے بعد کچھ نظرنہ آیا۔

    انتقال کے کچھ دن پہلے وہ چند گھنٹوں کے لیے کراچی آئے تو ٹاٹ کے ایک تیلے میں اپنا کھانا ساتھ لائے تھے کہ تنک حوصلہ بیٹے نے جو رزق تلاش کیا اس میں سود کی آمیزش تھی۔ زندگی میں جس نے ان کی کوئی خدمت نہ کی، اسے انہوں نے کندھا دینے کی سعادت سے بھی محروم رکھا۔ قبر پر نہ گلابوں کی چادر نہ چنبیلی کا ڈھیر۔ نہ گھر پر آہ و بکا کا شور۔ وہ تھے تو گھر اتنا بے سر و سامان نظر نہیں آتا تھا۔ ماں نے سَر پہ ہاتھ رکھا اور کلائی کو میلی چادر سے چھپا لیا۔

    اب اپنے خاندان، بے روزگار بھائی اور اس کے بیوی بچے، بہن اور اس کے کنبے، اور ان کے گرد گھومنے والے طفیلی سیارے۔ ان سب کی خورد و نوش کا انتظام، بلکہ کہنا تو یہ چاہیے کہ فاقہ کروانے کی اخلاقی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی تھی۔ ایک دن یونہی خیال آیا تو مشقی سوال کے طور پر ہم نے اپنی تنخواہ کو کنبے کے لواحقین اور لواحقین کے متوسلین پر تقسیم کیا تو مقسوم 23 روپے پونے چار آنے نکلا۔ کسی طرح یقین نہ آیا کہ ایک آدمی 23 روپے میں بسر اوقات کر سکتا ہے۔ حساب میں یقیناً کوئی غلطی ہوگی۔ گھڑی کی زنجیر کے کمپیوٹر پر چیک کرکے دیکھا تو وہی جواب آیا۔

    زندگی ہندسوں سے کہیں زیادہ لچک دار نکلی۔ انسان بڑا سخت جان ہے۔ ان اوصافِ حمیدہ اور خصائل ستودہ کی زیادہ تشریح و تشہیر یہاں اس لیے بھی غیر ضروری ہے کہ سارا اردو لٹریچر از دلّی دکنی تا ایں دم قناعت اور مفلسی کے فائدوں اور فضیلتوں سے بھرا پڑا ہے۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون ” موصوف” سے انتخاب)