Tag: مشتاق احمد یوسفی

  • "دس بار مسکرائیے!”

    "دس بار مسکرائیے!”

    مشتاق احمد یوسفی کو اردو کا صاحبِ طرز مزاح نگار اور تخلیقی نثر نگار کہا جاتا ہے۔

    عام طور پر مزاح‌ نگار کوئی انوکھی بات اور نرالی منطق پیش کرتے ہوئے، دل چسپ اور عجیب صورتِ حال کی منظر کشی کے ساتھ مضحکہ خیز کرداروں کی مدد سے اپنے قاری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن مشتاق احمد یوسفی نے الگ ہی راہ نکالی اور عہد ساز ٹھہرے۔ ان کا مزاح فلسفیانہ رنگ لیے ہوئے ہے اور وہ گہری اور چبھتی ہوئی بات اس طرح کرتے ہیں‌ کہ پڑھنے والا قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

    یہاں‌ ہم مشتاق احمد یوسفی کے دس تیکھے جملے آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ٭ لفظوں کی جنگ میں فتح کسی بھی فریق کی ہو، شہید ہمیشہ سچّائی ہوتی ہے۔

    ٭ دشمنوں کے حسبِ عداوت تین در جے ہیں: دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار۔

    ٭ محبّت اندھی ہوتی ہے، چناں چہ عورت کے لیے خوب صورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہوتا ہے۔

    ٭ بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکی داری میں ذرا فرق نہیں، سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔

    ٭ آدمی ایک بار پروفیسر ہو جائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھ داری کی باتیں ہی کیوں نہ کر نے لگے۔

    ٭ مصائب تو مرد بھی جیسے تیسے برداشت کرلیتے ہیں، مگر عورتیں اس لحاظ سے قابلِ ستائش ہیں کہ انہیں مصا ئب کے علاوہ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

    ٭ مرض کا نام معلوم ہو جائے تو تکلیف تو دور نہیں ہوتی، الجھن دور ہوجاتی ہے۔

    ٭ انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔

    ٭ مرد عشق و عاشقی صرف ایک ہی مرتبہ کرتا ہے، دوسری مرتبہ عیاشی اور اس کے بعد نری بدمعاشی۔

    ٭ عورتیں ہمیشہ سچ بولتی ہیں، وہ ا یک دوسرے کی عمر ہمیشہ صحیح بتاتی ہیں۔

  • چائے اور چارپائی!

    چائے اور چارپائی!

    لوگ گھنٹوں چارپائی پر کسمساتے رہتے ہیں، مگر کوئی اٹھنے کا نام نہیں لیتا۔ اس لیے کہ ہر شخص اپنی جگہ بخوبی جانتا ہے کہ اگر وہ چلا گیا تو فوراً اس کی غیبت شروع ہو جائے گی۔

    چناں چہ پچھلے پہر تک مرد ایک دوسرے کی گردن میں ہاتھ ڈالے بحث کرتے ہیں اور عورتیں گال سے گال بھڑائے کچر کچر لڑتی رہتی ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ مرد پہلے بحث کرتے ہیں، پھر لڑتے ہیں۔ عورتیں پہلے لڑتی ہیں اور بعد میں بحث کرتی ہیں۔ مجھے ثانی الذّکر طریقہ زیادہ معقول نظر آتا ہے، اس لیے کہ اس میں آئندہ سمجھوتے اور میل ملاپ کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ ایک چارپائی پر بیک وقت کتنے آدمی بیٹھ سکتے ہیں تو گزارش ہے کہ چارپائی کی موجودگی میں ہم نے کسی کو کھڑا نہیں دیکھا۔

    لیکن اس نوع کے نظریاتی مسائل میں اعداد و شمار پر بے جا زور دینے سے بعض اوقات عجیب و غریب نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ آپ نے ضرور سنا ہو گا کہ جس وقت مسلمانوں نے اندلس فتح کیا تو وہاں کے بڑے گرجا میں چوٹی کے مسیحی علما و فقہا اس مسئلہ پر کمال سنجیدگی سے بحث کر رہے تھے کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔

    ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ تنگ سے تنگ چارپائی پر بھی لوگ ایک دوسرے کی طرف پاؤں کیے "اً اٍ” کی شکل میں سوتے رہتے ہیں۔ چنچل ناری کا چیتے جیسا اجیت بدن ہو یا کسی عمر رسیدہ کی کمان جیسی خمیدہ کمر۔ یہ اپنے آپ کو ہر قالب کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔ اور نہ صرف یہ کہ اس میں بڑی وسعت ہے بلکہ اتنی لچک بھی ہے کہ آپ جس آسن چاہیں بیٹھ اور لیٹ جائیں۔

    بڑی بات یہ ہے کہ بیٹھنے اور لیٹنے کی درمیانی صورتیں ہمارے ہاں صدیوں سے رائج ہیں ان کے لیے یہ خاص طور پر موزوں ہے۔ یورپین فرنیچر سے مجھے کوئی چڑ نہیں، لیکن اس کو کیا کیجے کہ ایشیائی مزاج نیم درازی کے جن زاویوں اور آسائشوں کا عادی ہو چکا ہے، وہ اس میں میسر نہیں آتیں۔

    مثال کے طور پر صوفے پر ہم اکڑوں نہیں بیٹھ سکتے۔ کوچ پر دسترخوان نہیں بچھا سکتے۔ اسٹول پر قیلولہ نہیں کر سکتے۔ اور کرسی پر، بقول اخلاق احمد، اردو میں نہیں بیٹھ سکتے۔ ایشیا نے دنیا کو دو نعمتوں سے روشناس کیا۔ چائے اور چارپائی! اور ان میں یہ خاصیت مشترک ہے کہ دونوں سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔

    (مشتاق احمد یوسفی کے قلم کی شوخی)

  • ہل اسٹیشن…

    ہل اسٹیشن…

    ان دنوں مرزا کے اعصاب پر ہل اسٹیشن بری طرح سوار تھا، لیکن ہمارا حال ان سے بھی زیادہ خستہ تھا۔ اس لیے کہ ہم پر مرزا اپنے متاثرہ اعصاب اور ہل اسٹیشن سمیت سوار تھے۔ جان ضیق میں تھی۔ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اسی کا ذکر، اسی کا ورد۔

    ہُوا یہ کہ وہ سرکاری خرچ پر دو دن کے لیے کوئٹہ ہو آئے تھے اور اب اس پر مچلے تھے کہ ہم بلا تنخواہ رخصت پر ان کے ساتھ دو مہینے وہاں گزار آئیں جیسا کہ گرمیوں میں شرفا و عمائدینِ کراچی کا دستور ہے۔ ہم نے کہا سچ پوچھو تو ہم اسی لیے وہاں نہیں جانا چاہتے کہ جن لوگوں کے سائے سے ہم کراچی میں سال بھر بچتے پھرتے ہیں وہ سب مئی جون میں وہاں جمع ہو جاتے ہیں۔

    بولے ٹھیک کہتے ہو، مگر بندہ خدا اپنی صحت تو دیکھو۔ تمہیں اپنے بال بچوں پر ترس نہیں آتا؟ کب تک حکیم ڈاکٹروں کا پیٹ پالتے رہو گے؟ وہاں پہنچتے ہی بغیر دوا کے چاق و چوبند ہو جاؤ گے۔ پانی میں دوا کی تاثیر ہے اور (مسکراتے ہوئے) کسی کسی دن مزہ بھی ویسا ہی۔ یوں بھی جو وقت پہاڑ پر گزرے، عمر سے منہا نہیں کیا جاتا۔ مکھی مچھر کا نام نہیں۔ کیچڑ ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ اس لیے کہ پانی کی سخت قلت ہے۔ لوگوں کی تن درستی کا حال تمہیں کیا بتاؤں، جسے دیکھو گالوں سے گلابی رنگ ٹپکا پڑ رہا ہے۔

    ابھی پچھلے سال وہاں ایک وزیر نے اسپتال کا افتتاح کیا تو تین دن پہلے ایک مریض کو کراچی سے بلوانا پڑا اور اس کی نگرانی پر چار بڑے ڈاکٹر تعینات کیے گئے کہ کہیں وہ رسمِ افتتاح سے پہلے ہی صحت یاب نہ ہو جائے۔

    ہم نے کہا آب و ہوا اپنی جگہ مرہم دوا کے بغیر اپنے تئیں نارمل محسوس نہیں کرتے۔ بولے، اس کی فکر نہ کرو۔ کوئٹہ میں آنکھ بند کر کے کسی بھی بازار میں نکل جاؤ، ہر تیسری دکان دواؤں کی ملے گی اور ہر دوسری دکان تنوری روٹیوں کی۔

    پوچھا اور پہلی دکان….؟ بولے، اس میں ان دکانوں کے لیے سائن بورڈ تیار کیے جاتے ہیں۔ ہم نے کہا، لیکن کراچی کی طرح وہاں قدم قدم پر ڈاکٹر کہاں؟ آج کل تو بغیر ڈاکٹر کی مدد کے آدمی مر بھی نہیں سکتا۔ کہنے لگے چھوڑو بھی! فرضی بیماریوں کے لیے تو یونانی دوائیں تیر بہ ہدف ہوتی ہیں۔

    ہمارے بے جا شکوک اور غلط فہمیوں کا اس مدلل طریقے سے ازالہ کرنے کے بعد انہوں نے اپنا وکیلوں کا سا لب و لہجہ چھوڑا اور بڑی گرم جوشی سے ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر، ’’ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں‘‘ والے انداز میں کہا، ’’بھئی! اب تمہارا شمار بھی حیثیت داروں میں ہونے لگا، جبھی تو بنک کو پانچ ہزار قرض دینے میں ذرا پس و پیش نہ ہوا۔ واللہ! میں حسد نہیں کرتا۔ خدا جلد تمہاری حیثیت میں اتنی ترقی دے کہ پچاس ہزار تک مقروض ہو سکو۔ میں اپنی جگہ صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ اب تمہیں اپنے مساوی آمدنی والوں کی طرح گرمیاں گزارنے ہل اسٹیشن جانا چاہیے۔ یہ نہیں تو کم از کم چُھٹی لے کر گھر ہی بیٹھ جایا کرو۔ تمہارا یوں کھلے عام سڑکوں پر پھرنا کسی طرح مناسب نہیں۔

    میری سنو 1956 کی بات ہے، گرمیوں میں کچھ یہی دن تھے۔ میری بڑی بچّی اسکول سے لوٹی تو بہت روہانسی تھی۔ کریدنے پر پتہ چلا کہ اس کی ایک سہیلی جو وادیِ سوات جار ہی تھی، طعنہ دیا کہ کیا تم لوگ نادار ہو، جو سال بھر اپنے ہی گھر میں رہتے ہو۔ صاحب! وہ دن ہے اور آج کا دن، میں تو ہر سال مئی جون میں چھٹی لے کر مع اہل و عیال ’’انڈر گراؤنڈ ‘‘ ہو جاتا ہوں۔

    پھر انہوں نے کراچی کے اور بھی بہت سے ‘زمین دوز’ شرفا کے نام بتائے جو انہی کی طرح سال کے سال اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرتے ہیں۔

    اپنا یہ وار کارگر ہوتا دیکھا تو ’’ناک آؤٹ‘‘ ضرب لگائی۔ فرمایا، ’’تم جو ادھر دس سال سے رخصت پر نہیں گئے تو لوگوں کو خیال ہو چلا ہے کہ تم اس ڈر کے مارے نہیں کھسکتے کہ دفتر والوں کو کہیں یہ پتہ نہ چل جائے کہ تمہارے بغیر بھی بخوبی کام چل سکتا ہے۔‘‘

    (نام وَر ادیب اور طنز و مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون سے اقتباس)

  • موٹر سائیکل والا….

    موٹر سائیکل والا….

    ایک آدھ دفعہ خیال آیا کہ بسوں میں دھکے کھانے اور اسٹرپ ٹیز کروانے سے تو بہتر ہے کہ آدمی موٹر سائیکل خرید لے۔ موٹر سائیکل رکشا کا خیال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے کہ تین پہیوں پر خود کشی کا یہ سہل اور شرطیہ طریقہ ابھی رائج نہیں ہوا تھا۔

    اس زمانے میں عام آدمی کو خود کشی کے لیے طرح طرح کی صعوبتیں اُٹھانا اور کھکھیڑ اُٹھانی پڑتیں تھیں۔ گھروں کا یہ نقشہ تھا کہ ایک ایک کمرے میں دس دس اس طرح ٹھنسے ہوتے کہ ایک دوسرے کی آنتوں کی قراقر تک سُن سکتے تھے۔ ایسے میں اتنا تخلیہ کہاں نصیب کہ آدمی پھانسی کا پھندا کڑے میں باندھ کر تنہا سکون سے لٹک جائے۔

    علاوہ ازیں، کمرے میں ایک ہی کڑا ہوتا تھا جس میں پہلے ہی ایک پنکھا لٹکا ہوتا تھا۔ گرم کمرے کے مکین اس جگہ کسی اور کو لٹکنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ رہے پستول اور بندوق، تو اُن کے لائسنس کی شرط تھی۔ جو صرف امیروں، وڈیروں اور افسروں کو کو ملتے تھے۔

    چناں چہ خود کشی کرنے والے ریل کی پٹری پر دن بھر بھر لیٹے رہتے کہ ٹرین بیس بیس گھنٹے لیٹ ہوتی تھی۔ آخر غریب موت سے مایوس ہو کر کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوتے۔

    موٹر سائیکل میں بشارت کو سب سے بڑی قباحت یہ نظر آئی کہ موٹر سائیکل والا سڑک کے کسی بھی حصے پر موٹر سائیکل چلائے، محسوس یہی ہو گا کہ وہ غلط جا رہا ہے۔ ٹریفک کے حادثات کے اعداد و شمار پر ریسرچ کرنے کے بعد ہم بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے ہاں پیدل چلنے والے اور موٹر سائیکل چلانے والے کا نارمل مقام ٹرک اور منی بس کے نیچے ہے۔

    دوسری مصیبت یہ ہے کہ ہم نے آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو پانچ سال سے کراچی میں موٹر سائیکل چلا رہا ہو اور کسی حادثے میں ہڈی پسلی نہ تڑوا چکا ہو۔ مگر ٹھہریے۔ خوب یاد آیا۔ ایک شخص بے شک ایسا ملا جو سات سال سے کراچی میں بغیر ایکسیڈنٹ کے موٹر سائیکل چلا رہا تھا۔ مگر وہ صرف موت کے کنویں ( Well Of Death) میں چلاتا تھا۔

    تیسری قباحت اُنہیں یہ نظر آئی کہ مین ہول بناتے وقت کراچی میونسپل کارپوریشن دو باتوں کا ضرور لحاظ رکھتی ہے۔ اوّل یہ کہ وہ ہمیشہ کھلے رہیں تاکہ ڈھکنا دیکھ کر چوروں اور اُچکوں کو خواہ مخواہ یہ تجّس نہ ہو کہ نہ جانے اندر کیا ہے۔ دوم، دہانہ اتنا چوڑا ہو کہ موٹر سائیکل چلانے والا اس میں اندر تک بغیر کسی رکاوٹ کے چلا جائے۔ آسانی کے ساتھ۔ تیز رفتاری کے ساتھ۔ پیچھے بیٹھی سواری کے ساتھ۔

    (ممتاز ادیب اور نام وَر مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)

  • "کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی”

    "کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی”

    کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔

    اس سے ساکنانِ کوہِ مری کی دل آزاری نہیں، بلکہ عروسُ البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔

    کبھی کبھار شہرِ خوباں کا درجۂ حرارت جسم کے نارمل درجۂ حرارت یعنی 98.4 سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبانِ شہر لحاف اوڑھ کر ائرکنڈیشنر تیز کر دیتے ہیں۔ حسنِ تضاد کو کراچی کے محکمۂ موسمیات کی اصطلاح میں ’’کولڈ ویو‘‘ (سردی کی لہر) کہتے ہیں۔

    لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی سردی کی شدید خبریں پڑھتے ہیں تو ان سے بچاؤ کے لیے بالو کی بھنی مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں۔ ان کے بچّے بھی انہی پر پڑے ہیں۔ بادِ شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لیے اونی کنٹوپ پہن کر آئسکریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں۔

    کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔ نو وارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو اللہ جانے گرمی کیسی ہوتی ہو گی۔ بیس سال سرد و گرم جھیلنے کے بعد ہمیں اب معلوم ہوا کہ کراچی کے جاڑے اور گرمی میں تو اتنا واضح فرق ہے کہ بچّہ بھی بتا سکتا ہے۔ 90 ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہو تو یہ موسمِ گرما کی علامت ہے۔ اگر دسمبر میں ہو تو ظاہر ہے کہ جاڑا پڑ رہا ہے۔ البتہ جولائی میں 90 ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑے تو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔

    تین چار سال بعد دو تین دن کے لیے سردی کا موسم آجائے تو اہلِ کراچی اس کا الزام ’’کوئٹہ ونڈ‘‘ پر دھرتے ہیں اور کوئٹہ کی سردی کی شدّت کو کسی سیم تن ستر نما سوئٹر سے ناپتے ہیں۔

  • چنیوٹ کا اچار اور سرسوں چُننے والیاں

    چنیوٹ کا اچار اور سرسوں چُننے والیاں

    جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے اور میرا حافظہ بہت دور تک کام کرتا ہے۔ صرف قریب کی باتوں اور واقعات کو یاد رکھنے سے انکاری ہے۔ تو جہاں تک یاد پڑتا ہے ضمیر بھائی سے میرا تعارف 1951ء کے اواخر میں نہایت عزیز دوست میاں فضل حسن مرحوم کے توسل سے ہوا۔ فضل صاحب شعر و ادب، شکار اور موسیقی کے رسیا تھے۔ جامع الحیثیات شخصیت، کئی ہزار کتابوں اور ایک مل کے مالک تھے۔

    شاعروں اور ادیبوں کو اس طرح جمع کرتے تھے جیسے بچّے ڈاک کے استعمال شدہ ٹکٹ یا خارج المیعاد یعنی پرانے سکّے جمع کرتے ہیں۔ وہ ہر اتوار کو سات آٹھ شاعروں کو گھیر گھار کر گارڈن ایسٹ میں اپنے دولت کدے پر لاتے جہاں ایک بجے تک گپ اور لنچ کے بعد مشاعرے کا رنگ جمتا۔

    لنچ کا ذکر اس لیے بھی کرنا پڑا کہ من جملہ دیگر لذائذ کے دستر خوان پر چنیوٹ کا اچار بھی ہوتا تھا جس میں مجھ سے فرق ناشناس کو بس اتنا ہی فرق معلوم ہوتا تھا کہ زیادہ کھٹا ہوتا ہے اور سرسوں کے تیل میں اٹھایا جاتا ہے جس کی بُو مجھے اچھی نہیں لگتی۔

    فضل صاحب کہتے تھے جس کیری پہ چنیوٹ کا طوطا بیٹھ جائے وہ بڑی جلدی پکتی اور گدر ہوتی ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ طوطا اگر انڈسٹری پہ بیٹھ جائے تو وہ بھی خوب پھل دیتی ہے۔ ہمارے ناپسندیدہ تیل کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس میں الہڑ مٹیاروں کے ہاتھوں کی مست مہک آتی ہے جو سنہرے کھیتوں میں سرسوں چنتی ہیں!

    ہمیں آج بھی اس تیل کا اچار کھانا پڑا تو یہ سمجھ کے کھاتے ہیں گویا سنہرے کھیتوں میں مذکورہ بالا ہاتھوں سے مصافحہ کر رہے ہیں۔

    (نام ور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر "ضمیر واحد متبسم” سے اقتباس)

  • فیل ہونے کے فوائد!

    فیل ہونے کے فوائد!

    "بشارت کہتے ہیں کہ بی اے کا امتحان دینے کے بعد یہ فکر لاحق ہوئی کہ اگر فیل ہو گئے تو کیا ہو گا۔ وظیفہ پڑھا تو بحمدِللہ یہ فکر تو بالکل رفع ہو گئی، لیکن اس سے بھی بڑی ایک اور تشویش لاحق ہو گئی۔ یعنیٰ اگر خدانخواستہ پاس ہو گئے تو؟”

    "نوکری ملنی محال۔ یار دوست سب تتر بتر ہو جائیں گے۔ والد ہاتھ کھینچ لیں گے۔ بے کاری، بے روز گاری، بے زری، بے شغلی۔ زندگی عذاب بن جائے گی۔

    انگریزی اخبار فقط wanted کے اشتہارات کی خاطر خریدنا پڑے گا۔ پھر ہر کڈھب اسامی کے سانچے میں اپنی کوالیفیکیشنز کو اس طرح ڈھال کر درخواست دینی ہو گی گویا ہم اس عالمِ رنگ وبُو میں صرف اس ملازمت کے لیے مبعوث ہوئے ہیں۔

    اک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنا ہو گا۔ روزانہ دفتر بہ دفتر ذلّت اٹھانا پڑے گی۔ تا وقتے کہ ایک ہی دفتر میں اس کا مستقل بندوبست نہ ہو جائے۔ ہر چند کہ فیل ہونے کا قوی امکان تھا، لیکن پاس ہونے کا خدشہ بھی لگا ہوا تھا۔”

    "کبھی کبھی وہ ڈر ڈر کے مگر سچ مچ تمنّا کرتے کہ فیل ہی ہو جائیں تو بہتر ہے۔ کم از کم ایک سال اور بے فکری سے کٹ جائے گا۔ فیل ہونے ہر تو بقول مرزا، صرف ایک دن آدمی کی بے عزتی خراب ہوتی ہے۔ اس کے بعد چین ہی چین۔

    بس یہی ہو گا نا کہ جیسے عید پر لوگ ملنے آتے ہیں، اسی طرح اس دن خاندان کا ہر بزرگ باری باری برسوں کا جمع شدہ غبار نکالنے آئے گا اور فیل ہونے اور خاندان کی ناک کٹوانے کی ایک مختلف وجہ بتائے گا۔ اس زمانے میں نوجوانوں کا کوئی کام، کوئی فعل ایسا نہیں ہوتا تھا جس کی جھپیٹ میں آ کر خاندان کی ناک نہ کٹ جائے۔”

    (نام وَر ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی شوخئِ قلم)

  • گھوڑے کی چاکری

    گھوڑے کی چاکری

    مرزا وحیدُ الزّمان بیگ جس کے نام کے آگے یا پیچھے کوچوان لکھتے ہوئے کلیجہ خون ہوتا ہے، اپنا ہر جملہ "قصور معاف!” سے شروع کرتا تھا۔

    ملازمت کے انٹرویو کے دوران اس نے دعویٰ کیا کہ میں موٹر ڈرائیونگ بھی بہت اچھی جانتا ہوں۔ بشارت نے جل کر حقارت سے کہا، تو پھر تم تانگہ کیوں چلانا چاہتے ہو؟ دُعا کے انداز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہنے لگا، پاک پروردگار آپ کو کار دے گا تو کار بھی چلا لیں گے۔

    بشارت نے اسے یہ سوچ کر ملازم رکھا تھا کہ چلو مسکین آدمی ہے۔ قابو میں رہے گا۔

    مرزا عبدُالودود بیگ نے ٹِپ دیا تھا کہ ذہانت پر ریجھ کر کبھی کسی کو ملازم نہیں رکھنا چاہیے۔ ملازم جتنا غبی ہو گا اتنا ہی زیادہ تابع دار اور خدمتی ہو گا، لیکن اس نے کچھ دن تو بڑی تابع داری دکھائی، پھر یہ حال ہو گیا کہ اسکول سے کبھی ایک گھنٹا لیٹ آ رہا ہے، کبھی دن میں تین تین گھنٹے غائب۔

    ایک دفعہ اسے ایک ضروری انوائس لے کر پاکستان ٹوبیکو کمپنی بھیجا۔ چار گھنٹے بعد لوٹا۔ بچے اسکول کے پھاٹک پر بھوکے پیاسے کھڑے رہے۔ بشارت نے ڈانٹا۔ اپنی پیٹی کی طرف جسے راچھ اوزار کی پیٹی بتاتا اور تانگے میں ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا، اشارہ کر کے کہنے لگا، قصور معاف، وقوعہ ہو گیا۔

    میونسپل کارپوریشن کی بغل والی سڑک پر گھوڑا سکندری (ٹھوکر) کھا کے گر پڑا۔ ایک تنگ ٹوٹ گیا تھا۔ نعل بھی جھانجھن کی طرح بجنے لگی۔ انھیں ٹھیک کر رہا تھا۔ قصور معاف، نعل کی ایک بھی میخ ڈھیلی ہو تو ایک میل دور سے فقط ٹاپ سن کر بتا سکتا ہوں کہ کون سا سُم ہے۔

    بشارت نے حیرت سے پوچھا، تم خود نعل باندھ رہے تھے؟ بولا، اور نہیں تو۔ کہاوت ہے۔

    کھیتی، پانی، بینتی اور گھوڑے کا تنگ۔ اپنے ہاتھ سنواریے چاہے لاکھوں ہوں سنگ۔ گھوڑے کی چاکری تو خود ہی کرنی پڑتی ہے۔

    وہ ہر دفعہ نئی داستان اور نیا عذر تراشتا تھا۔ جھوٹے لپاٹی آدمی کی مصیبت یہ ہے کہ وہ سچ بھی بولے تو لوگ جھوٹ سمجھتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوا کہ اسی کی بات سچ نکلی۔ تاہم اس کی بات پر دل نہیں ٹھکتا تھا۔

    ایک دن بہت دیر سے آیا۔ بشارت نے آڑے ہاتھوں لیا تو کہنے لگا۔ "جنابِ عالی” میری بھی تو سنیے۔ میں ریس کلب کے اصطبل کے سامنے سے اچھا بھلا گزر رہا تھا کہ گھوڑا ایک دَم اَڑ گیا۔ چابک مارے تو بالکل الف ہو گیا۔ راہ گیر تماشا دیکھنے کھڑے ہو گئے۔

    اتنے میں اندر سے ایک بڈھا سلوتری نکل کے آیا۔ گھوڑے کو پہچان کے کہنے لگا، ” ارے ارے ! تُو اس شہزادے کو کائے کو مار ریا ہے۔ اس نے اچھے دن دیکھے ہیں۔ قسمت کی بدنصیبی کو صیّاد کیا کرے۔ یہ تو اصل میں دُرِشہوار (گھوڑی کا نام) کی بُو لیتا، یہاں آن کے مچلا ہے۔ جس ریس میں اس کی ٹانگ میں موچ آئی ہے، دُرِشہوار بھی اس کے ساتھ دوڑی تھی۔ دو اتوار پہلے، پھر اوّل نمبر پر آئی ہے۔ اخباروں میں فوٹو چھپے تھے۔بھاگوان نے مالک کو لکھ پتی کر دیا۔”

    پھر اس نے اس کے پرانے سائیس کو بلایا۔ ہم تینوں اسے تانگے سے کھول کے اندر لے جانے لگے۔ اسے سارے رستے معلوم تھے۔ سیدھا ہمیں اپنے تھان پہ لے گیا۔

    وہاں ایک بے ڈول کالا بھجنگ گھوڑا کھڑا پشتک (دولتی) مار رہا تھا۔ ذرا دور پہ، دوسری طرف دُرِشہوار کھڑی تھی۔ وہ اسے پہچان کے بے کل ہو گئی۔ کہاں تو یہ اتنا مچل رہا تھا اور کہاں یہ حال کہ بالکل چپکا، بے ست ہو گیا۔ گردن کے زخم کی مکھیاں تک نہیں اڑائیں، صاحب جی، اس کا گھاؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ سائیس نے اسے بہت پیار کیا۔

    کہنے لگا، بیٹا! اس سے تو بہتر تھا کہ تجھے اسی وقت انجکشن دے کے سلا دیتے۔ یہ دن تو نہ دیکھنے پڑتے۔ یہ تو تیرے مالک کو ترس آگیا۔

    پھر اس نے اس کے سامنے ریس کلب کا راتب رکھا۔ صاحب، ایسا چبینا تو انسان کو بھی نصیب نہیں۔ پر قسم لے لو جو اس نے چکھا ہو۔ بس سَر جھکائے کھڑا رہا۔ سائیس نے کہا، اسے تو بخار ہے۔ اس نے اس کا بقیہ ساز کھول دیا اور لپٹ کے رونے لگا۔

    (نام وَر ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)

  • زعفران اور ریزگاری….

    زعفران اور ریزگاری….

    بچپن کی بات ہے شاید اسی لیے اچھی طرح یاد ہے۔ پورے قصبہ چاکسو (خورد) میں تجارت وجارت تو بڑی بات ہے، کسی مسلمان کی پنساری تک کی دکان نہ تھی۔ سن 1933 میں چند مسلمانوں نے قرضِ حسنہ اور چندہ جمع کرکے سرمایہ فراہم کیا اور صولت یار خاں، ریٹائرڈ سب انسپکٹر پولیس کو مسلمانوں کے محلّے میں پرچون کی دکان کھلوا دی۔

    اس زمانے میں کوڑیاں بھی چلتی تھیں۔ دھیلے کا گھی اور چھدام کا بینگن خریدتے غریبوں کو ہم نے بھی دیکھا ہے۔ چھوٹے بینگن کا "جھونگا” اس کے علاوہ۔ صولت یار خاں کو منافع سے تو دل چسپی تھی، لیکن حساب کتاب کو مکروہ گردانتے تھے۔

    دکان میں ان کی مسند، تکیے، حقے اور ترازو کے سامنے آٹا، شکر، بیسن، نمک، مرچ، دالیں اور مسالے، الٹی ہوئی آستین کی طرح ادھ کھلی بوریوں میں بھرے رہتے تھے۔ جو چیز جتنی بکتی اس کی قیمت اسی بوری یا کنستر پر سارے دن پڑی رہتی تاکہ حساب میں آسانی ہو۔ شام کو ہر جنس کی بکری کو علیحدہ علیحدہ گنتے۔

    روکڑ کی میزان نہیں بیٹھتی تو اپنا دل نہیں جلاتے تھے۔ بہی کھاتوں میں ایک نئی مد "بھول چوک لینی دینی” کھول لی تھی۔ روزانہ کیش میں جو کمی واقع ہوتی وہ اسی کے متھے مارتے۔ ہوتے ہوتے اس مد میں کافی رقم چڑھ گئی جو تقریباً اصل سرمایہ کے برابر تھی۔

    شبِ برات کی صبح مرزا عبدالودود بیگ جن کی عمر اس وقت سات سال ہوگی، چھ پیسے کی زعفران لینے گئے۔

    زعفران کی پڑیا لے کر انہوں نے صولت یار خاں کو ایک کلدار روپیہ تھمایا۔ اتفاق سے زعفران کی ابھی بوہنی نہیں ہوئی تھی اور اس کے ڈبے پر کوئی ریزگاری نہیں تھی۔ صولت یار خاں نے بندھی بندھائی پڑیا مرزا کے ہاتھ سے چھین کر کہا۔ "ہشت! ہمارے پاس ریزگاری نہیں۔ گوبندا بنیے کی دکان سے سے خرید لے۔

    ” مرزا نے انگلی سے ریزگار کی ان ڈھیریوں کی طرف اشارہ کیا جو تقریباً ہر بوری اور کنستر پر پڑی تھیں۔ ارے صاحب وہ تو آپے سے باہر ہوگئے۔ دھمکی آمیز انداز سے "دو سیری” اٹھاتے ہوئے بولے۔

    "مرغی کے! دوسری ڈھیری میں سے ریزگاری نکال کے تجھے دے دوں تو شام کو حساب کون کرے گا! تیرا باپ۔!”

    (مشتاق احمد یوسفی کی کتاب زرگزشت سے اقتباس)

  • غلط دلائل سے صحیح بات منوانے کی کوشش

    غلط دلائل سے صحیح بات منوانے کی کوشش

    مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے، لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں۔ صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابلِ رشک ملکہ شاذ و نادر ہی مردوں کے حصے میں آتا ہے۔

    اب سگریٹ کو ہی لیجیے۔ ہمیں کسی کے سگریٹ نہ پینے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن مرزا سگریٹ چھوڑنے کا جو فلسفیانہ جواز ہر بار پیش کرتے ہیں، وہ عام آدمی کے دماغ میں بغیر آپریشن کے نہیں گھس سکتا۔

    مہینوں وہ یہ ذہن نشین کراتے رہے کہ سگریٹ پینے سے گھریلو مسائل پر سوچ بچار کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    اور جب ہم نے اپنے حالات اور ان کی حجت سے قائل ہو کر سگریٹ شروع کر دی اور اس کے عادی ہو گئے تو انھوں نے چھوڑ دی۔

    کہنے لگے، بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پر سگریٹ پی پی کر غور کیا کرتا تھا وہ در اصل پیدا ہی کثرتِ سگریٹ نوشی سے ہوئے تھے۔


    (ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی کتاب "چراغ تلے” سے انتخاب)