Tag: مشتاق احمد یوسفی

  • "چپل پہن کر بینک جائیں اور….”

    "چپل پہن کر بینک جائیں اور….”

    جوتا ایسی چیز نہیں کہ زیور کی طرح مانگ تانگ کر پہن لیا جائے۔ اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا کہ چپل پہن کر بینک جائیں اور تین دن بعد تنخواہ ملے تو نیا جوتا خرید لیں۔

    پھر خیال آیا کہ اگر اینڈرسن پوچھ بیٹھا کہ آج انسپکشن ڈیپارٹمنٹ چپل پہنے کیوں پھر رہا ہے تو کیا جواب دیں گے۔
    ایک دفعہ ایک افسر بینک میں بغیر ٹائی کے آگیا تو اینڈرسن نے اس سے پوچھا کہ آج کیا بینک ہالی ڈے ہے جو یوں ننگ دھڑنگ پھر رہے ہو؟

    اسی طرح ایک کلرک کا تین دن کا بڑھا ہوا شیو دیکھ کر دوّنی پکڑاتے ہوئے کہنے لگا کہ اپنا کیمو فلاج منڈوا کر آؤ تاکہ چہرہ شناخت کر کے رجسٹر میں حاضری لگائی جاسکے۔

    ذہن پر زور ڈالا تو اس کا حل بھی نکل آیا۔ چپل پہن کر ایک پیر پر پٹی باندھ لیں گے۔

    کسی نے پوچھا تو کہہ دیں گے، چوٹ لگ گئی ہے اور یہ کچھ ایسا جھوٹ بھی نہیں۔ آخر اندرونی چوٹ تو آئی ہی تھی جس کے بارے میں حضرت نوحؔ ناروی سہلِ ممتنع میں فرما گئے ہیں:

    جگر کی چوٹ اوپر سے کہیں معلوم ہوتی ہے
    جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے

    ایک مونڈھے پر نیلے رنگ کا جھاڑن پڑا نظر آیا۔ اس میں سے ایک لمبی سی دَھجی پھاڑ کر پٹی باندھ لی۔ سہ پہر کو اینڈر سن کی نظر پڑی تو کہنے لگا کہ زخم پر کبھی رنگیں پٹی نہیں باندھنی چاہیے، پک جاتا ہے، خصوصاً برسات میں۔

    دوسرے دن صبح دونوں کام پر جانے کے لیے تیار ہونے لگے تو بیگم دوپٹا اوڑھتے ہوئے کہنے لگیں کہ تمہارے ان لاڈلوں نے ناک میں دَم کر رکھا ہے اور کچھ نہیں تو کم بخت آدھا دوپٹا ہی پھاڑ کر لے گئے۔

    ہم نے پٹی بجنسہٖ واپس کر دی اور جلدی جلدی ایک پھٹے پاجامے کے لٹھے کی سفید پٹی باندھ کر بینک چلے گئے۔
    گیارہ بجے کسی کام سے اینڈرسن نے طلب کیا۔ واپس آنے لگے تو عینک کو ناک کی پھننگ پر رکھ کر اس کے اوپر سے دیکھتے ہوئے فرمایا: Just a minute, Tamerlane، تمہارے زخم نے چوبیس گھنٹے میں کافی مسافت طے کی ہے، دائیں سے بائیں پیر میں منتقل ہو گیا ہے۔

    اب جو ہم نے نگاہ ڈالی تو دَھک سے رہ گئے۔ افراتفری میں آج دوسرے یعنی بائیں پیر پر پٹی باندھ کر آگئے تھے۔

    (معروف مزاح نگار مشتاق یوسفی کی کتاب زرگزشت سے انتخاب)

  • جانور کی دُم کا کچھ نہ کچھ مصرف ضرور ہوتا ہے!

    جانور کی دُم کا کچھ نہ کچھ مصرف ضرور ہوتا ہے!

    ہم پاکستان کے ممتاز اور نام ور آرٹسٹ گل جی کے گیارہ سال دیوار بیچ پڑوسی رہ چکے ہیں۔ انہیں بہت قریب سے پینٹ کرتے دیکھا ہے۔ وہ صرف رات کو اور وہ بھی بارہ بجے کے بعد پینٹ کرتے ہیں۔ کافی عرصے تک ہم یہی سمجھتے رہے کہ شاید انہیں رات میں بہتر دکھائی دیتا ہے لیکن جب سے خود ہم نے السر کی تکلیف کے سبب رات کو لکھنا پڑھنا شروع کیا ہم سائے کے بارے میں بدگمانی سے کام لینا چھوڑ دیا۔

    کیا تجھ کو خبر کون کہاں جھوم رہا ہے

    انہیں بھی گھوڑوں سے بے انتہا شغف ہے۔ ان کی تصویریں بنا کے لاکھوں کماتے ہیں۔ سنا ہے ایک دفعہ کسی نے (ہم نے نہیں) مذاق میں کہہ دیا کہ جتنے کی آپ ایک گھوڑے کی تصویر بیچتے ہیں اس میں تو تین زندہ گھوڑے باآسانی آسکتے ہیں۔ اتنا تو ہم نے بھی دیکھا کہ اس کے بعد وہ کینوس پر کم از کم تین گھوڑے بنانے لگے۔

    یہ بھی دیکھا کہ جتنے پیار، تفصیل وار موشماری اور انسپریشن سے وہ گھوڑے کی دُم بناتے ہیں اس کا سو واں حصہ بھی گھوڑے اور سوار پر صرف نہیں کرتے۔ صرف گھوڑے ہی کی نہیں سوار کی بھی ساری پرسنالٹی کھچ کر دُم میں آجاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے ایک ایک بال پر مالکانہ شفقت سے ہاتھ پھیر کے دُم بنائی ہے۔

    چناں چہ ہر دُم منفرد، البیلی اور انمول ہوتی ہے۔ دل کی بات پوچھیے تو وہ فقط دُم ہی بنانا چاہتے ہیں۔ باقی ماندہ گھوڑا انہیں فقط دُم کو اٹکانے کے لیے طوعاً وکرہاً بنانا پڑتا ہے۔ کبھی کسی وی آئی پی خاتون کی پورٹریٹ خاص توجہ سے بہت ہی خوب صورت بنانی مقصود ہوتی ہے تو اس کے بالوں کی پونی ٹیل بطور خاص ایسی بناتے تھے کہ کوئی گھوڑا دیکھ لے تو بے قرار ہوجائے۔

    بلبل فقط آواز ہے طاﺅس فقط دُم

    یوں بنانے کو تو انہوں نے البیلے اونٹ بھی بکثرت بنائے ہیں اور الٹے بانس بریلی بھیجے ہیں۔ یعنی درجنوں کے حساب سے عرب ممالک کو روغنی اونٹ ایکسپورٹ کیے ہیں۔ ان کے بعض اونٹ تو اتنے منہگے ہیں کہ صرف بینک، شیوخ، غیر ملکی سفارت کار اور مقامی اسمگلر ہی خرید سکتے ہیں۔

    یونائیٹڈ بینک نے ان سے جو نایاب اونٹ خریدے وہ اتنے بڑے نکلے کہ ان کے ٹانگنے کے لیے ہال کے بیچوں بیچ ایک دیوار علیحدہ سے بنوانی پڑی لیکن انہیں دیکھ کر شیوخ اتنے خوش ہوئے کہ بعض نے اصل یعنی بالکل انہی جیسے اونٹوں کی فرمائش کردی۔ اب بینک اس مخمصے میں پڑگیا کہ:

    ایسا کہاں سے لاﺅں کہ تجھ سا کہیں جسے

    جب ہم بینک سے متعلق و منسلک ہوئے تو ایک دن ہمت کرکے گل جی سے کہا کہ حضور اگر آپ آیندہ ایسے اونٹ بنائیں جو اس عالمِ آب و گل میں با آسانی دست یاب ہوجایا کریں تو بینک کو شیوخ کی فرمائش پوری کرنے میں آسانی رہے گی۔ نوکری کا سوال ہے۔

    بہرکیف گل جی کے اونٹ میں وہ گھوڑے والی بات پیدا نہ ہوسکی اور ہوتی بھی کیسے، کہاں گھوڑے کی تابہ زانو گھنیری چنور شاہی دُم، کہاں اونٹ کی پونچھڑی!

    دُم نہیں دُم کا ٹوٹا کہیے۔ مرزا کہتے ہیں کہ اس سے تو ڈھنگ سے شُتر پوشی بھی نہیں ہوسکتی۔ ہر جانور کی دُم کا کچھ نہ کچھ مصرف ضرور ہوتا ہے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ”آبِ گم“ سے اقتباس)

  • عظیم مزاح نگار مشاہیر کے شان دار خراجِ تحسین کے جلو میں رخصت ہو رہا ہے

    عظیم مزاح نگار مشاہیر کے شان دار خراجِ تحسین کے جلو میں رخصت ہو رہا ہے

    وہ بہت سہولت کے ساتھ سادہ جملوں میں آپ کو قہقہے لگانے پر مجبور کرنے کی پوری قوت رکھتا ہے۔ اکیلے میں جب آپ ان کا لکھا متن پڑھتے ہیں تو مسلسل ہنسنے کی وجہ سے دور سے دیکھنے والا آپ کو یقیناً پاگل سمجھے گا۔ یہ ذکر ہے اس عہدِ مزاح کا جو حیاتِ عارضی کی چمکیلی لیکن مسلسل پگھلتی برف پر پھسلتے پھسلتے اختتام کے نشان پر ٹھہر گیا ہے۔

    یہ ذکر ہے مشتاق احمد یوسفی کا، ذکر ہے آبِ گم کا، ذکر ہے خاکم بَدہن کا، اور زرگزشت کا اور چراغ تلے کا۔ یہ ذکر ہے مسلسل اور باقاعدہ فکر میں مبتلا کرنے والے مزاح کا، ان قہقہوں کا جو آپ کے حلق سے نکلتے ہیں اور اس رجحان ساز ادیب کے گرد خراجِ تحسین کا ہالہ بنا دیتے ہیں۔

    ابنِ انشا اور ظہیر فتح پوری سے ہم تک آتے آتے، کل تک ہم بجا طور پر کہا کرتے تھے کہ ’ہم عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔‘ یہ عہد اب ختم ہوچکا۔ وہ مرچکے لیکن ان کی لطیف نثر انھیں ہمارے قہقہوں میں زندہ رکھے گی۔ مجھے وہ اس لیے پسند ہیں کیوں کہ وہ اس عہد کے کم کوش اور کم مطالعہ قاری کو بے خوفی سے اپنی شگفتہ نثر میں بھاری الفاظ کا جام پلا دیتے تھے، یہ قاری سمجھتے تھے کہ ان کا ادیب کسی دوسرے پر طنز کر رہا ہے لیکن بھاری لفظ پر پھسلنے والے کو احساس بھی نہ ہوتا تھا کہ طمانچہ انھیں بھی پڑ چکا ہے۔

    94 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت سے ہونے والے اس عہد ساز ادیب نے سماج کے ہر شعبے کے افراد سے اپنی نثر کے ذریعے تعارف قائم کیا ہے، حتیٰ کہ ہمارا سیاسی شعبہ بھی جس سے وابستہ اکثر لوگ کتاب پڑھنے سے ایسے دور رہتے ہیں جیسے جہل علم سے دور رہتی ہے، ان کی نثر کا مداح ہے۔ دیکھتے ہیں کہ عہدِ یوسفی کو کس طرح خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

    صدر، وزیر اعظم و دیگر سیاسی شخصیات کا خراج تحسین


    ملک کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے انتقال پر صدر مملکت، نگراں وزیر اعظم اور ملک کی دیگر اہم سرکاری و سیاسی شخصیات کی جانب سے تعزیتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔

    صدر مملکت ممنون حسین نے رجحان ساز مزاح نگار کی دنیا سے رخصتی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی ادبی خدمات یاد رکھی جائیں گی، صدر کی جانب سے مرحوم کی مغفرت اور اخروی زندگی میں درجات کی بلندی کی دعا بھی کی گئی۔

    نگراں وزیر اعظم ناصر الملک کی جانب سے بھی مشتاق یوسفی کے انتقال پر گہرے رنج کا اظہار کیا گیا، دعاؤں کے ساتھ انھوں نے مرحوم کی ادبی خدمات کو بھی خراج تحسین پیش کیا، کہا اُن کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    دریں اثنا نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر حسن عسکری نے بہترین مزاح تخلیق کرنے والے ادیب کو خراجِ عقیدت پیش کیا، انھوں نے یوسفی کے غم زدہ خاندان سے اظہار ہم دردی کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے منفرد اسلوب سے مزاح نگاری کو نئی جہت دی۔ ان کا نہایت دکھ سے کہنا تھا کہ آج سے اُردو ادب میں مزاح نگاری کے خوب صورت عہد کا خاتمہ ہوگیا۔

    دوسری طرف کلیدی سیاسی شخصیات کی جانب سے بھی اُردو ادب کے اس روشن اور ہنستے ستارے کے انتقال پر تعزیتی پیغامات جاری کیے گئے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب کی صنف مزاح نگاری سیاسی شعبے کے افراد سے کتنی قربت کی حامل ہے۔

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ زبان و ادب کے لیے مشتاق احمد یوسفی کی خدمات اَن مول ہیں، انھوں نے یوسفی کے انتقال پر اظہار افسوس کیا اور اہل خانہ سے تعزیت کی۔ عمران خان کا بھی کہنا تھا کہ ان کی موت سے اردو مزاح نگاری کا عظیم عہد تمام ہوا۔

    پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بھی منفرد مزاح نگار کے انتقال پر اظہارِ افسوس پر مبنی پیغام جاری کیا گیا ہے، ان کے بیان میں مرحوم کو اُردو ادب کا درخشندہ ستارہ قرار دیا گیا۔ بلاول نے مرحوم کے غم زدہ خاندان سے تعزیت کی اور کہا کہ یوسفی کی ادبی خدمات گراں قدر ہیں۔

    لطف کی بات ہے کہ سیاسی شخصیات سے ہٹ کر ایک اہم عسکری شخصیت پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے بھی ٹوئٹر پر اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کرتے ہوئے یوسفی کے انتقال پر تعزیت کی ہے۔ آصف غفور نے لکھا کہ مشتاق احمد یوسفی مسکراتے ہوئے ہمیں چھوڑ کر جنت کے ابدی امن کی طرف چل دیے، اللہ ان پر رحم فرمائے۔

    آصف غفور نے ٹوئٹ کے ساتھ یوسفی کا ایک اقتباس بھی شیئر کیا ہے جو چراغ تلے سے لیا گیا ہے: ’انسان کو موت ہمیشہ قبل از وقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے۔‘

    فردوس عاشق اعوان نے بھی اظہار تعزیت کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ اُردو ادب کے اثاثے کے چلے جانے پر انھیں گہرے دکھ نے آلیا ہے۔

    امجد اسلام امجد، افتخار عارف اور صابر ظفر


    ملک کی ممتاز ادبی شخصیات کی جانب سے بھی صاحب اسلوب مزاح لکھنے والے ادیب مشتاق یوسفی کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ممتاز شاعروں میں سرِ فہرست شاعر، ڈراما نگار اور نغمہ نگار امجد اسلام امجد نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی شخصیت کے ایک اہم پہلو کو یاد کیا، کہا کہ مشتاق یوسفی محبت کرنے اور بانٹنے والی شخصیت تھے۔ معروف شاعر افتخار عارف نے بھی کہا کہ مزاح نگاری کے لیے یوسفی کی خدمات گراں قدر ہیں۔

    کراچی سے تعلق رکھنے والے منفرد اور ملک بھر میں مقبول شاعر اور مقبول ترین نغمہ نگار صابر ظفر نے یوسفی کے انتقال پر کہا ہے کہ وہ اس عہد کے مقبول ترین مزاح نگار تھے اور رہیں گے، بہ حیثیتِ انسان وہ بہت شفیق اور مہربان طبیعت کے مالک تھے۔ صابر ظفر نے بھی مرحوم کی شخصی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بعد آنے والے لکھاریوں کی بے حد حوصلہ افزائی کرتے تھے، عبید اللہ علیم، افتخار عارف اور نصیر ترابی کو سامنے لانے میں ان کی نوازشوں کا بڑا دخل رہا۔ معروف شاعر نے انھیں ایک شجرِ سایہ دار قرار دیا جس کا خلا پورا ہونا ممکن نہیں لگتا۔

    قارئین اور مداحوں کا خراجِ تحسین


    سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی پاکستان کے عظیم مزاح نگار کی موت پر انھیں ان کی خدمات کے صلے میں زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا، ٹوئٹ کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔

    ممتاز مزاح نگار کو ان کے قارئین نے اردو ادب کا لے جنڈ قرار دیا، مداحوں کی جانب سے تسلسل کے ساتھ جوش و خروش سے مرحوم کے لکھے ہوئے مشہور مضامین میں سے اقتباسات شیئر کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    مشتاق یوسفی سے آخری دنوں میں ملاقات کرنے والی شخصیات نے بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یادگار تصاویر شیئر کیں، اور ان کے حوالے سے اہم باتیں بتائیں۔ ایک میڈیا شخصیت نے بتایا کہ 94 سال کی عمر میں بھی مرحوم کی یادداشت نہایت اچھی تھی، وہ ذہنی طور پر کچھ پریشان تھے کیوں کہ بہت کم زور ہوگئے تھے اور خوراک نہیں لے پا رہے تھے۔

  • عہد ساز تخلیق کار مشتاق احمد یوسفی انتقال کر گئے

    عہد ساز تخلیق کار مشتاق احمد یوسفی انتقال کر گئے

    کراچی: اردو کے عہد ساز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی انتقال کر گئے، ان کی عمر 96 سال تھی اور وہ طویل عرصے سے علیل تھے۔

    تفصیلات کے مطابق اردو زبان کا فخر، ممتاز قلم کار مشتاق احمد یوسفی جہان فانی سے کوچ کر گئے، ان کا شمار اردو کے عظیم ترین مزاح نگاروں میں ہوتا تھا۔ یوسفی صاحب کے مداحوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

    مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر 1921 کو  راجھستان کے ضلع ٹونک، ہندوستان میں پیدا ہوئے، انھوں نے ابتدائی تعلیم راجپوتانہ سے حاصل کی۔

    فلسفے میں ایم اے آگرہ یونیورسٹی سے کیا، ایل ایل بی کا مرحلہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے طے ہوا، تقسیم ہند کے بعد کراچی آگئے، بینکاری کا پیشہ اختیار کیا اور اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچے.

    مزاح‌ نگاری میں وہ اپنی مثال آپ تھے. ان کی پانچ کتابیں منظر عام پر آئیں، 1961 میں‌ چراغ تلے، 1969 خاکم بدہن، 1976 میں‌ زرگزشت، 1990 میں‌ آبِ گم، 2014ء شامِ شعرِ یاراں منظر عام پر آئیں، ان کی ہر کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی.

    مشتاق احمد یوسفی کو 1999 میں ستارۂ امتیاز اور ہلال امتیاز کے تمغوں سے نوازا گیا، انھیں‌ ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری بھی عطا ہوئی۔


    اردو کا ایک اور محسن رخصت ہوا، ممتاز مترجم اور ادیب محمد عمر میمن انتقال کر گئے


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔