Tag: مشتاق یوسفی

  • ہم لوگ کن چیزوں پر ہنستے ہیں؟

    ہم لوگ کن چیزوں پر ہنستے ہیں؟

    انسان کو حیوانِ ظریف کہا گیا ہے۔ لیکن یہ حیوانوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔

    اس لیے کہ دیکھا جائے تو انسان صرف واحد حیوان ہے جو مصیبت پڑنے سے پہلے مایوس ہوجاتا ہے۔ انسان واحد جاندار ہے، جسے خلّاقِ عالم نے اپنے حال پر رونے کے لیے غدودِ گریہ بخشے ہیں۔ کثرتِ استعمال سے یہ بڑھ جائیں تو حساس طنز نگار دنیا سے یوں خفا ہو جاتے ہیں جیسے اگلے وقتوں میں آقا نمک حرام لونڈیوں سے روٹھ جایا کرتے تھے۔ لغزشِ غیر پر انہیں ہنسی کے بجائے طیش آجاتا ہے۔ ذہین لوگوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو احمقوں کا وجود سرے سے برداشت ہی نہیں کر سکتی۔ لیکن، جیسا کہ مارکوئس دی سید نے کہا تھا، وہ بھول جاتے ہیں کہ سبھی انسان احمق ہوتے ہیں۔ موصوف نے تو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اگر تم واقعی کسی احمق کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے تو خود کو اپنے کمرے میں مقفّل کر لو اور آئینہ توڑ کر پھینک دو۔

    لیکن مزاح نگار کے لیے نصیحت، فصیحت اور فہمائش حرام ہیں۔ وہ اپنے اور تلخ حقائق کے درمیان ایک قد آدم دیوارِ قہقہ کھڑی کر لیتا ہے۔ وہ اپنا روئے خنداں، سورج مکھی پھول کی مانند، ہمیشہ سرچشمۂ نور کی جانب رکھتا ہے اور جب اس کا سورج ڈوب جاتا ہے تو اپنا رخ اس سمت کر لیتا ہے، جدھر سے وہ پھر طلوع ہوگا؛

    ہمہ آفتاب بینم، ہمہ آفتاب گویم
    نہ شبنم، نہ شب پر ستم کہ حدیث خواب گویم

    حسّ مزاح ہی اصل انسان کی چھٹی حس ہے۔ یہ ہو تو انسان ہر مقام سے آسان گزر جاتا ہے۔ یوں تو مزاح، مذہب اور الکحل ہر چیز میں با آسانی حل ہو جاتے ہیں، بالخصوص اردو ادب میں۔ لیکن مزاح کے اپنے تقاضے، اپنے ادب آداب ہیں۔ شرطِ اوّل یہ کہ برہمی، بیزاری اور کدورت دل میں راہ پائے۔ ورنہ بومرنگ پلٹ کر خود شکاری کا کام تمام کردیتا ہے۔ مزا تو جب ہے کہ آگ بھی لگے اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کہ’’یہ دھوآں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟‘‘ مزاح نگار اس وقت تک تبسم زیرِ لب کا سزاوار نہیں، جب تک اس نے دنیا اور اہلِ دنیا سے رج کے پیار نہ کیا ہو۔ ان سے، ان کی بے مہری و کم نگاہی سے۔ ان کی سَر خوشی و ہوشیاری سے۔ ان کی تر دامنی اور تقدس سے۔ ایک پیمبر کے دامن پر پڑنے والا ہاتھ گستاخ ضرور ہے، مگر مشتاق و آرزو مند بھی ہے۔ یہ زلیخا کا ہاتھ ہے۔ خواب کو چھو کردیکھنے والا ہاتھ۔

    صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی

    ایک صاحبِ طرز ادیب نے، جو سخن فہم ہونے کے علاوہ ہمارے طرف دار بھی ہیں (تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ سود خوار ہوتا…. کی حد تک) ایک رسالے میں دبی زبان سے شکوہ کیا کہ ہماری شوخیٔ تحریر مسائل حاضرہ کے عکس اور سیاسی سوز و گداز سے عاری ہے۔ اپنی صفائی میں ہم مختصرًا اتنا ہی عرض کریں گے کہ طعن و تشنیع سے اگر دوسروں کی اصلاح ہوجاتی تو بارود ایجاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

    لوگ کیوں، کب اور کیسے ہنستے ہیں، جس دن ان سوالوں کا صحیح صحیح جواب معلوم ہوجائے گا، انسان ہنسنا چھوڑ دے گا۔ رہا یہ سوال کہ کس پر ہنستے ہیں؟ تو اس کا انحصار حکومت کی تاب و رواداری پر ہے۔ انگریز صرف ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔۔۔ پنچ کے لطیفے، موسم، عورت، تجریدی آرٹ۔ اس کے برعکس، ہم لوگ ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو اب ہماری سمجھ میں آگئی ہیں۔ مثلاً انگریز، عشقیہ شاعری، روپیہ کمانے کی ترکیبیں، بنیادی جمہوریت۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق یوسفی کے قلم سے)

  • "مسکرائیے!”

    "مسکرائیے!”

    مشتاق احمد یوسفی نے واقعات یا سانحات کو اپنے مزاح کی بنیاد نہیں بنایا بلکہ عام حالات، رویّوں اور معمول کی گفتگو پر شیریں اور شگفتہ تبصرے کیے ہیں۔

    شستگی، ان کے مزاح کا خاص جوہر ہے۔ مزاحیہ ادب کے ایک دور کو ہم اگر کسی نام سے منسوب کرسکتے ہیں تو وہ یوسفی صاحب ہی کا نام ہے۔

    مزاح لکھنے والے کو عام طور پر دو مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ ایک تو تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرنا آسان نہیں‌ ہوتا اور دوسرا کسی کو اُس کی خامیوں کی طرف اس طرح متوجہ کرنا کہ دل شکنی نہ ہو۔ مشتاق یوسفی نے ان دونوں مشکلات کا حل یہ نکالا کہ اپنے طنز میں محبّت اور خیر خواہی کا رنگ شامل کرلیا اور کسی کی تحقیر نہیں کی۔

    بقول ضمیر جعفری ”یوسفی کی جس ادا پر میں خاص فریفتہ ہوں، وہ اُس کی اتھاہ محبت ہے۔ یوسفی اپنے کھیت میں نفرت، کدورت یا دشمنی کا بیج بوتا ہی نہیں۔“

    یہاں ہم اردو کے اس ممتاز مزاح نگار کی تحریروں سے یہ ‘شکر پارے’ آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "محبت اندھی ہوتی ہے، چنانچہ عورت کے لیے خوب صورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہوتا ہے۔”

    "آدمی ایک بار پروفیسر ہوجائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھداری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے۔”

    "مرض کا نام معلوم ہوجائے تو تکلیف تو دور نہیں ہوتی، الجھن دور ہوجاتی ہے۔”

    "انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔”

    "خون، مشک، عشق اور ناجائز دولت کی طرح عمر بھی چھپائے نہیں چھپتی۔”

  • مشتاق احمد یوسفی: کچھ باتیں، کچھ یادیں

    مشتاق احمد یوسفی: کچھ باتیں، کچھ یادیں

    مشتاق احمد یوسفی اپنی زبان دانی کے لیے مشہور تھے۔ وہ لفظوں کے ہیر پھیر سے ایسا مزاح پیدا کرتے ہیں جس کی گرفت کے لیے قاری کو خاصا ہشیار رہنا پڑتا ہے۔ اپنے عہد کے ایک ممتاز ادیب اور شاعر شمس الرحمٰن فاروقی نے ان کے بارے میں‌ لکھا:

    ’’مشتاق احمد یوسفی ہمارے دور کے سب سے بڑے طنز و مزاح نگار ہیں۔ ان کے مزاح میں شعر و ادب کا علم کچھ اس طرح پیوست ہے، اردو زبان کی وسعتوں پر انھیں اس قدر قابو ہے کہ اس کے باعث انھیں پڑھنے اور ان کے فن کا پورا لطف حاصل کرنے کے لیے ہمارا بالغ نظر اور وسیع مطالعہ کا حامل ہونا ضروری ہے۔ پرانی باتوں، خاص کر زمانۂ گزشتہ کے اشعار اور عبارات کو پر لطف تحریف کے ساتھ پیش کرنا یوسفی کا خاص انداز ہے۔ قاری کی نظر اگر ان پرانے حوالوں پر ہو تو وہ یوسفی کی مزاحیہ تحریف کو سمجھ سکتا ہے اور پھر وہ ان کی پہنچ اور ندرتِ خیال کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘

    مشتاق احمد یوسفی ایک ایسے مزاح نگار ہیں جن کی تحریریں قاری سے غور و خوض اور فہم و تدبّر کا تقاضا کرتی ہیں۔ ان کی عبارات سے لطف اٹھانے کے لیے انہیں کئی بار پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اردو طنز و مزاح میں‌ مشتاق احمد یوسفی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھیں اس عہد کا سب سے بڑا مزاح نگار کہا جاتا ہے۔ آج مشتاق یوسفی کی برسی پر ان کی طنز و مزاح پر مبنی تحریروں سے اقتباس ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    1955ء میں مشتاق یوسفی نے ’’صنفِ لاغر‘‘ عنوان سے مضمون لکھا تھا جو مشہور رسالے ’’سویرا‘‘ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا اور ان کی شہرت اور مقبولیت بھی پاک و ہند تک محدود نہ رہی بلکہ جہاں‌ جہاں‌ اردو زبان پڑھنے اور سمجھنے والے بستے ہیں، وہاں وہاں مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری کا لطف لیا گیا۔ 1961ء میں ان کی پہلی تصنیف ’’چراغ تلے‘‘ شائع ہوئی تھی جسے ہر خاص و عام میں سراہا گیا۔ دوسری کتاب ’’خاکم بدہن‘‘ 1970ء میں اور تیسری ’’زرگزشت‘‘ 1976ء میں منظرِ عام پر آئی اور مقبول ہوئی جب کہ ’’آبِ گم‘‘ 1989ء میں آنے والا ان کے مضامین کا مجموعہ تھا اور پانچویں کتاب کا نام ’’شامِ شعر یاراں‘‘ تھی جو 2014ء میں شایع ہوئی۔

    ان کے رشحاتِ خامہ طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ اپنے اندر گہرائی، گیرائی، اصلاح اور فلسفہ جذب کیے ہوئے ہیں۔ ذہانت و لیاقت اور وسعتِ مطالعہ کے ساتھ لسانی بازی گری کے ذریعے مشتاق یوسفی نے طنز و مزاح نگاری کو بامِ معراج پر پہنچایا ہے اور اس پر اردو ادب ہمیشہ گراں بار رہے گا۔ اپنے طنز سے بھرپور نشتروں کے ذریعے وہ سماج میں پائی جانے والی برائیوں کی جس طرح جراحی کرتے ہیں، وہ بے مثال اور لاجواب ہے۔

    وہ ایک بینکار تھے اور موصوف کو اپنے والد کی وفات پر صرف تین دن کی چھٹیاں ملی تھیں، اس پر ستم ظریفی یہ کہ تین چھٹیوں کی تنخواہ بھی ان کی ماہانہ تنخواہ سے منہا کر دی گئی تھی۔ وہ اپنے مزاحیہ انداز میں زرگزشت میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    ’’ہمیں یاد ہے جون کا مہینہ فری امپورٹ کا زمانہ تھا۔ کام بے اندازہ آدمی کم۔ ہم چار آدمیوں کے برابر کام اور آٹھ آدمیوں کے برابر غلطیاں بڑی تن دہی سے کر رہے تھے۔ ایک منحوس صبح خبر آئی کہ ٹنڈو آدم میں اخبار پڑھتے پڑھتے ابّا جان پر دل کا دورہ پڑا، اور زمیں نے اپنی امانت واپس لے لی۔ حیدر آباد میں ان کی تدفین کے سلسلہ میں تین دن کی رخصت اتفاقیہ لینے کی پاداش میں یعسوب الحسن غوری نے ہماری تنخواہ کاٹ لی۔ جو کچھ عرصہ بعد انڈرسن نے اس وارننگ پر واپس دلوا دی کہ ’’ آئندہ اس واقعہ کو نہیں دہرایا جائے گا۔‘‘

    کسی پیشے میں جب کوئی نو وارد ہوتا ہے تو اسے کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہاں کے ماحول میں ڈھلنے اور اپنی ذہانت اور قابلیت کا ثبوت دینے تک ہر طرح کے طعن و تشنیع سے دوچار ہونا پڑ تا ہے۔ موصوف کو بھی بینک کی ملازمت اختیار کرنے پر ان پریشانیوں کا شکار ہونا پڑا جن کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    ’’ہم ریوڑ میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ ہر ایک سینگ مارتا تھا۔ ’’کی جس سے بات اس نے ہدایت ضرور کی‘‘ یوں تو سارے جہان کی کھڑکیاں ہمارے ہی آنگن میں کھلتی تھیں لیکن یعسوب الحسن غوری کا انگوٹھا ہمارے ٹینٹوے پر ہی رہتا تھا۔ روز روز کے طعن و تشنیع سے ہمارا کلیجہ چھلنی ہو گیا تھا بلکہ چھلنی میں چھید بھی ہو گئے تھے جن میں سے اب موٹے موٹے طعنے پھسل کر نکلنے لگے تھے۔ منجملہ دیگر الزامات کے ہم پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ ہمارے دستخط گستاخانہ حد تک لمبے تھے۔‘‘

    اسی طرح ایک مضمون میں‌ خودکشی کرنے والوں کی بابت یوں شگفتہ نگاری کی ہے:
    اس زمانے میں عام آدمی کو خود کشی کے لیے طرح طرح کی صعوبتیں اُٹھانا اور کھکھیڑ اُٹھانی پڑتیں تھیں۔ گھروں کا یہ نقشہ تھا کہ ایک ایک کمرے میں دس دس اس طرح ٹُھنسے ہوتے کہ ایک دوسرے کی آنتوں کی قراقر تک سُن سکتے تھے۔ ایسے میں اتنا تخلیہ کہاں نصیب کہ آدمی پھانسی کا پھندا کڑے میں باندھ کر تنہا سکون سے لٹک جائے۔ علاوہ ازیں، کمرے میں ایک ہی کڑا ہوتا تھا جس میں پہلے ہی ایک پنکھا لٹکا ہوتا تھا۔ گرم کمرے کے مکین اس جگہ کسی اور کو لٹکنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ رہے پستول اور بندوق تو اُن کے لائسنس کی شرط تھی جو صرف امیروں، وڈیروں اور افسروں کو ملتے تھے۔ چناچہ خود کشی کرنے والے ریل کی پٹری پر دن بھر لیٹے رہتے کہ ٹرین بیس بیس گھنٹے لیٹ ہوتی تھی۔ آخر غریب موت سے مایوس ہو کر کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوتے۔

  • کرکٹ سے دل بستگی کا ایک پرانا واقعہ

    کرکٹ سے دل بستگی کا ایک پرانا واقعہ

    یوں تو آج کل ہر وہ بات جس میں ہارنے کا امکان زیادہ ہو کھیل سمجھی جاتی ہے۔ تاہم کھیل اور کام میں جو بین فرق ہماری سمجھ میں آیا، یہ ہے کہ کھیل کا مقصد خالصتاً تفریح ہے۔ دیکھا جائے تو کھیل کام کی ضد ہے جہاں اس میں گمبھیرتا آئی اور یہ کام بنا۔ یہی وجہ ہے کہ پولو انسان کے لیے کھیل ہے اور گھوڑے کے لیے کام۔

    ضد کی اور بات ہے ورنہ خود مرزا بھی اس بنیادی فرق سے بے خبرنہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن وہ ٹنڈو اللہ یار سے معاوضہ پر مشاعرہ “پڑھ‘‘ کے لوٹے تو ہم سے کہنے لگے، ’‘فی زمانہ ہم تو شاعری کو جب تک وہ کسی کا ذریعۂ معاش نہ ہو، نری عیاشی بلکہ بد معاشی سمجھتے ہیں۔‘‘ اب یہ تنقیح قائم کی جا سکتی ہے کہ آیا کرکٹ کھیل کے اس معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کرکٹ دراصل انگریزوں کا کھیل ہے اور کچھ انہی کے بلغمی مزاج سے لگّا کھاتا ہے۔

    ان کی قومی خصلت ہے کہ وہ تفریح کے معاملے میں انتہائی جذباتی ہوجاتے ہیں اور معاملاتِ محبت میں پرلے درجے کے کاروباری۔ اسی خوش گوار تضاد کا نتیجہ ہے کہ ان کا فلسفہ حد درجہ سطحی ہے اور مزاح نہایت گہرا۔

    کرکٹ سے ہماری دل بستگی ایک پرانا واقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تأسف کا اظہار کرنا اپنی نا واقفیتِ عامّہ کا ثبوت دینا ہے۔ 1857ء کی رست خیز کے بعد بلکہ اس سے کچھ پہلے ہمارے پرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہو چلا تھا۔ جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے، کرکٹ انگریزوں کے لیے مشغلہ نہیں مشن ہے۔ لیکن اگر آپ نے کبھی کرکٹ کی ٹیموں کو مئی جون کی بھری دوپہر میں ناعاقبت اندیشانہ جرأت کے ساتھ موسم کو چیلنج کرتے دیکھا ہے تو ہماری طرح آپ بھی اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ ہمارے ہاں کرکٹ مشغلہ ہے نہ مشن، اچھی خاصی تعزیری مشقت ہے، جس میں کام سے زیادہ عرق ریزی کرنا پڑتی ہے۔

    اب اگر کوئی سر پھرا منہ مانگی اجرت دے کر بھی اپنے مزدوروں سے ایسے موسمی حالات میں یوں کام کرائے تو پہلے ہی دن اس کا چالان ہو جائے۔ مگر کرکٹ میں چونکہ عام طور سے معاوضہ لینے کا دستور نہیں، اس لیے چالان کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاتھوں جس طرح ہلکا پھلکا کھیل ترقی کر کے کام میں تبدیل ہو گیا وہ اس کے موجدین کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔

    غالبؔ نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال سے متاثر ہو کر کہا تھا کہ ہم مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔ اور اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل کے معاملے میں ہمارا رویہ بالغوں جیسا نہیں، بالکل بچّوں کا سا ہے۔ اس لحاظ سے کہ صرف بچے ہی کھیل میں اتنی سنجیدگی برتتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچّہ سیانا ہوتا ہے کھیل کے ضمن میں اس کا رویہ غیر سنجیدہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔ کرکٹ کے رسیا ہم جیسے ناآشنائے فن کو لاجواب کرنے کے لیے اکثر کہتے ہیں، ’’میاں! تم کرکٹ کی باریکیوں کو کیا جانو؟ کرکٹ اب کھیل نہیں رہا، سائنس بن گیا ہے سائنس!‘‘ عجیب اتفاق ہے۔ تاش کے دھتی بھی رمی کے متعلق نہایت فخر سے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سولہ آنے سائنٹیفک کھیل ہے۔ بَکنے والے بَکا کریں، لیکن ہمیں رمی کے سائنٹیفک ہونے میں مطلق شبہ نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ روپیہ ہارنے کا اس سے زیادہ سائنٹیفک طریقہ ہنوز دریافت نہیں ہوا۔ پس ثابت ہوا کہ کرکٹ اور رمی قطعی سائنٹیفک ہیں اور اسی بنا پر کھیل نہیں کہلائے جاسکتے۔

    بات یہ ہے کہ جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا کھیل کھیل نہیں رہتا کام بن جاتا ہے۔ ایک دفعہ کرکٹ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ہم نے مرزا سے کہا کہ کھیلوں میں وہی کھیل افضل ہے جس میں دماغ پر کم سے کم زور پڑے۔

    فرمایا، ’’بجا! آپ کی طبعِ نازک کے لیے نہایت موزوں رہے گا۔ کس واسطے کہ جوئے کی قانونی تعریف یہی ہے کہ اسے کھیلنے کے لیے عقل قطعی استعمال نہ کرنی پڑے۔‘‘ محض کرکٹ ہی پر منحصر نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں رجحان عام ہے کہ تعلیم نہایت آسان اور تفریح روز بروز مشکل ہوتی جاتی ہے (مثلاً بی اے کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، مگر برج سیکھنے کے لیے عقل درکار ہے) ریڈیو، ٹیلی ویژن، سنیما اور با تصویر کتابوں نے اب تعلیم کو بالکل آسان اور عام کر دیا ہے لیکن کھیل دن بدن گراں اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا بعض غبی لڑکے کھیل سے جی چرا کر تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دینے لگے ہیں۔

    اس سے جو سبق آموز نتائج رونما ہوئے وہ سیاست دانوں کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔

    کسی اعتدال پسند دانا کا قول ہے، ’’کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کام اچھا۔‘‘ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں اس زرّیں اصول سے سراسر اختلاف ہے تو اس کو یہ معنیٰ نہ پہنائے جائیں کہ خدانخواستہ ہم شام و سحر، آٹھوں پہر کام کرنے کے حق میں ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہم اپنا شمار ان نارمل افراد میں کرتے ہیں جن کو کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کھیل ہی اچھا لگتا ہے اور جب کھل کے باتیں ہو رہی ہیں تو یہ عرض کرنے کی اجازت دیجیے کہ فی الواقع کام ہی کے وقت کھیل کا صحیح لطف آتا ہے۔ لہٰذا کرکٹ کی مخالفت سے یہ استنباط نہ کیجیے کہ ہم تفریح کے خلاف بپھرے ہوئے بوڑھوں (ANGROLD MEN) کا کوئی متحدہ محاذ بنانے چلے ہیں۔

    ہم بذاتِ خود سو فی صد تفریح کے حق میں ہیں، خواہ وہ تفریح برائے تعلیم ہو، خواہ تعلیم براہِ تفریح! ہم تو محض یہ امر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر چہ قدیم طریقِ تعلیم سے جدید طرزِ تفریح ہزار درجے بہتر ہے؛ مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔

    (مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ‘چراغ تلے’ سے ایک شگفتہ پارہ)

  • گاہک اور دکان دار

    گاہک اور دکان دار

    کوئی شخص ایسا نظر آجائے جو حلیے اور چال ڈھال سے ذرا بھی گاہک معلوم ہو تو لکڑ منڈی کے دکان دار اس پر ٹوٹ پڑتے۔ بیشتر گاہک گرد و نواح کے دیہاتی ہوتے جو زندگی میں پہلی اور آخری بار لکڑی خریدنے کانپور آتے تھے۔ ان بیچاروں کا لکڑی سے دو ہی مرتبہ سابقہ پڑتا تھا۔ ایک اپنا گھر بناتے وقت دوسرے اپنا کریا کرم کرواتے سمے۔

    قیام پاکستان سے پہلے جن پڑھنے والوں نے دلّی یا لاہور کے ریلوے اسٹیشن کا نقشہ دیکھا ہے وہ اس چھینا جھپٹی کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ 1945 میں ہم نے دیکھا کہ دلّی سے لاہور آنے والی ٹرین کے رکتے ہی جیسے ہی مسافر نے اپنے جسم کا کوئی حصہ دروازے یا کھڑکی سے باہر نکالا، قلی نے اسی کو مضبوطی سے پکڑ کے سالم مسافر کو اپنی ہتھیلی پر رکھا اور ہوا میں ادھر اٹھا لیا اور اٹھا کر پلیٹ فارم پر کسی صراحی یا حقے کی چلم پر بٹھا دیا لیکن جو مسافر دوسرے مسافروں کے دھکے سے خودبخود ڈبّے سے باہر نکل پڑے، ان کا حشر ویسا ہی ہوا جیسا اردو کی کسی نئی نویلی کتاب کا نقادوں کے ہاتھ ہوتا ہے۔ جو چیز جتنی بھی جس کے ہاتھ لگی، سَر پر رکھ کر ہوا ہو گیا، دوسرے مرحلے میں مسافر پر ہوٹلوں کے دلال اور ایجنٹ ٹوٹ پڑتے۔ سفید ڈرل کا کوٹ پتلون، سفید قمیض، سفید رومال، سفید کینوس کے جوتے، سفید موزے، سفید دانت۔ اس کے باوجود محمد حسین آزاد کے الفاظ میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔ ان کی ہر چیز سفید اور اجلی ہوتی، سوائے چہرے کے۔ ہنستے تو معلوم ہوتا توا ہنس رہا ہے۔

    یہ مسافر پر اس طرح گرتے جیسے انگلستان میں رگبی کی گیند اور ایک دوسرے پر کھلاڑی گرتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو کا مقصد خود کچھ حاصل کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو حاصل کرنے سے باز رکھنا ہوتا تھا۔

    مسلمان دلال ترکی ٹوپی سے پہچانے جاتے۔ وہ دلّی اور یوپی سے آنے والے مسلمان مسافروں کو ٹونٹی دار لوٹے، مستورات، کثرتِ اطفال اور قیمے والے پراٹھے کے بھبکے سے فوراً پہچان لیتے اور ’’برادرانِ اسلام السلام علیکم‘‘ کہہ کر لپٹ جاتے۔

    مسلمان مسافروں کے ساتھ صرف مسلمان دلال ہی دھینگا مشتی کرسکتے تھے۔ جس دلال کا ہاتھ مسافر کے کپڑوں کے مضبوط ترین حصے پر پڑتا وہی اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے آتا۔ جن کا ہاتھ لباس کے کمزور یا بوسیدہ حصوں پر پڑتا، وہ بعد میں ان کو بطور دستی رومال استعمال کرتے۔ نیم ملبوس مسافر قدم قدم پر اپنی ستر کشائی کرواتا۔ اسٹیشن کے باہر قدم رکھتا تو لاتعداد پہلوان جنہوں نے اکھاڑے کو ناکافی محسوس کرکے تانگہ چلانے کا پیشہ اختیار کرلیا تھا خود کو اس پر چھوڑ دیتے۔ اگر مسافر کے تن پر کوئی چیتھڑا اتفاقاً بچ رہا تو اسے بھی نوچ کر تانگے کی پچھلی سیٹ پر رام چندر جی کی کھڑاؤں کی طرح سجا دیتے۔ اگر کسی کے چوڑی دار کے کمر بند کا سرا تانگے والے کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ غریب گرہ پر ہاتھ رکھے اسی میں بندھا چلا آتا۔

    (’’آبِ گم‘‘ از مشتاق احمد یوسفی سے اقتباس)

  • چائے اور چارپائی!

    چائے اور چارپائی!

    لوگ گھنٹوں چارپائی پر کسمساتے رہتے ہیں، مگر کوئی اٹھنے کا نام نہیں لیتا۔ اس لیے کہ ہر شخص اپنی جگہ بخوبی جانتا ہے کہ اگر وہ چلا گیا تو فوراً اس کی غیبت شروع ہو جائے گی۔

    چناں چہ پچھلے پہر تک مرد ایک دوسرے کی گردن میں ہاتھ ڈالے بحث کرتے ہیں اور عورتیں گال سے گال بھڑائے کچر کچر لڑتی رہتی ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ مرد پہلے بحث کرتے ہیں، پھر لڑتے ہیں۔ عورتیں پہلے لڑتی ہیں اور بعد میں بحث کرتی ہیں۔ مجھے ثانی الذّکر طریقہ زیادہ معقول نظر آتا ہے، اس لیے کہ اس میں آئندہ سمجھوتے اور میل ملاپ کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ ایک چارپائی پر بیک وقت کتنے آدمی بیٹھ سکتے ہیں تو گزارش ہے کہ چارپائی کی موجودگی میں ہم نے کسی کو کھڑا نہیں دیکھا۔

    لیکن اس نوع کے نظریاتی مسائل میں اعداد و شمار پر بے جا زور دینے سے بعض اوقات عجیب و غریب نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ آپ نے ضرور سنا ہو گا کہ جس وقت مسلمانوں نے اندلس فتح کیا تو وہاں کے بڑے گرجا میں چوٹی کے مسیحی علما و فقہا اس مسئلہ پر کمال سنجیدگی سے بحث کر رہے تھے کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔

    ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ تنگ سے تنگ چارپائی پر بھی لوگ ایک دوسرے کی طرف پاؤں کیے "اً اٍ” کی شکل میں سوتے رہتے ہیں۔ چنچل ناری کا چیتے جیسا اجیت بدن ہو یا کسی عمر رسیدہ کی کمان جیسی خمیدہ کمر۔ یہ اپنے آپ کو ہر قالب کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔ اور نہ صرف یہ کہ اس میں بڑی وسعت ہے بلکہ اتنی لچک بھی ہے کہ آپ جس آسن چاہیں بیٹھ اور لیٹ جائیں۔

    بڑی بات یہ ہے کہ بیٹھنے اور لیٹنے کی درمیانی صورتیں ہمارے ہاں صدیوں سے رائج ہیں ان کے لیے یہ خاص طور پر موزوں ہے۔ یورپین فرنیچر سے مجھے کوئی چڑ نہیں، لیکن اس کو کیا کیجے کہ ایشیائی مزاج نیم درازی کے جن زاویوں اور آسائشوں کا عادی ہو چکا ہے، وہ اس میں میسر نہیں آتیں۔

    مثال کے طور پر صوفے پر ہم اکڑوں نہیں بیٹھ سکتے۔ کوچ پر دسترخوان نہیں بچھا سکتے۔ اسٹول پر قیلولہ نہیں کر سکتے۔ اور کرسی پر، بقول اخلاق احمد، اردو میں نہیں بیٹھ سکتے۔ ایشیا نے دنیا کو دو نعمتوں سے روشناس کیا۔ چائے اور چارپائی! اور ان میں یہ خاصیت مشترک ہے کہ دونوں سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔

    (مشتاق احمد یوسفی کے قلم کی شوخی)

  • "کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی”

    "کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی”

    کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔

    اس سے ساکنانِ کوہِ مری کی دل آزاری نہیں، بلکہ عروسُ البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔

    کبھی کبھار شہرِ خوباں کا درجۂ حرارت جسم کے نارمل درجۂ حرارت یعنی 98.4 سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبانِ شہر لحاف اوڑھ کر ائرکنڈیشنر تیز کر دیتے ہیں۔ حسنِ تضاد کو کراچی کے محکمۂ موسمیات کی اصطلاح میں ’’کولڈ ویو‘‘ (سردی کی لہر) کہتے ہیں۔

    لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی سردی کی شدید خبریں پڑھتے ہیں تو ان سے بچاؤ کے لیے بالو کی بھنی مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں۔ ان کے بچّے بھی انہی پر پڑے ہیں۔ بادِ شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لیے اونی کنٹوپ پہن کر آئسکریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں۔

    کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔ نو وارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو اللہ جانے گرمی کیسی ہوتی ہو گی۔ بیس سال سرد و گرم جھیلنے کے بعد ہمیں اب معلوم ہوا کہ کراچی کے جاڑے اور گرمی میں تو اتنا واضح فرق ہے کہ بچّہ بھی بتا سکتا ہے۔ 90 ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہو تو یہ موسمِ گرما کی علامت ہے۔ اگر دسمبر میں ہو تو ظاہر ہے کہ جاڑا پڑ رہا ہے۔ البتہ جولائی میں 90 ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑے تو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔

    تین چار سال بعد دو تین دن کے لیے سردی کا موسم آجائے تو اہلِ کراچی اس کا الزام ’’کوئٹہ ونڈ‘‘ پر دھرتے ہیں اور کوئٹہ کی سردی کی شدّت کو کسی سیم تن ستر نما سوئٹر سے ناپتے ہیں۔

  • لوحِ مزار یا ملازمت کی درخواست؟

    لوحِ مزار یا ملازمت کی درخواست؟

    اب تو معمول سا بن گیا ہے کہ کہیں تعزیت یا تجہیزوتکفین میں شریک ہونا پڑے تو مرزا کو ضرور ساتھ لیتا ہوں۔

    ایسے موقعوں پر ہر شخص اظہارِ ہم دردی کے طور پر کچھ نہ کچھ ضرور کہتا ہے۔ قطعۂ تاریخِ وفات ہی سہی۔ مگر مجھے نہ جانے کیوں چُپ لگ جاتی ہے، جس سے بعض اوقات نہ صرف پس ماندگان کو بلکہ خود مجھے بھی بڑا دکھ ہوتا ہے۔لیکن مرزا نے چپ ہونا سیکھا ہی نہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ صحیح بات کوغلط موقع پر بے دھڑک کہنے کی جو خداداد صلاحیت اُنہیں ودیعت ہوئی ہے وہ کچھ ایسی ہی تقریبوں میں گل کھلاتی ہے۔

    وہ گھپ اندھیرے میں سرِ رہ گزر چراغ نہیں جلاتے، پھلجھڑی چھوڑتے ہیں، جس سے بس ان کا اپنا چہرہ رات کے سیاہ فریم میں جگ مگ جگ مگ کرنے لگتا ہے۔ اور پھلجھڑی کا لفظ تو یونہی مروّت میں قلم سے نکل گیا، ورنہ ہوتا یہ ہے کہ جس جگہ بیٹھ گئےآگ لگا کر اُٹھے۔

    اس کے باوصف، وہ خدا کے ان حاضر و ناظر بندوں میں سے ہیں جو محلّے کی ہر چھوٹی بڑی تقریب میں، شادی ہو یا غمی، موجود ہوتے ہیں۔ بالخصوص دعوتوں میں سب سے پہلے پہنچتےاور سب کے بعد اٹھتے ہیں۔ اِس اندازِ نشست و برخاست میں ایک کُھلا فائدہ یہ دیا کہ وہ باری باری سب کی غیبت کر ڈالتے ہیں۔ ان کی کوئی نہیں کر پاتا۔

    چناں چہ اس سنیچر کی شام کو بھی میوہ شاہ قبرستان میں وہ میرے ساتھ تھے۔ سورج اس شہر خموشاں کو جسے ہزاروں بندگانِ خُدا نے مرمر کے بسایا تھا، لال انگارہ سی آنکھ سے دیکھتا دیکھتا انگریزوں کے اقبال کی طرح غُروب ہو رہا تھا۔ سامنے بیری کے درخت کے نیچے ایک ڈھانچہ قبر بدر پڑا تھا۔ چاروں طرف موت کی عمل داری تھی اور سارا قبرستان ایسا اداس اور اجاڑ تھا جیسے کسی بڑے شہر کا بازار اتوار کو۔ سبھی رنجیدہ تھے، (بقول مرزا، دفن کے وقت میّت کے سوا سب رنجیدہ ہوتے ہیں) مگر مرزا سب سے الگ تھلگ ایک پُرانے کتبے پر نظریں گاڑے مسکرا رہے تھے۔

    چند لمحوں بعد میرے پاس آئے اور میری پسلیوں میں اپنی کُہنی سے آنکس لگاتے ہوئے اُس کتبے تک لے گئے، جس پر منجملہ تاریخِ پیدائش و پنشن، مولد و مسکن، ولدیّت و عہدہ (اعزازی مجسٹریٹ درجہ سوم) آسُودہ لحد کی تمام ڈگریاں مع ڈویژن اور یونیورسٹی کے نام سے کندہ تھیں اور آخر میں، نہایت جلی حروف میں، مُنہ پھیر کر جانے والے کو بذریعہ قطعہ بشارت دی گئی تھی کہ اللہ نے چاہا تو بہت جلد اُس کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے۔

    میں نے مرزا سے کہا، ‘‘یہ لوحِ مزار ہے یا ملازمت کی درخواست؟ بھلا ڈگریاں، عہدہ اور ولدیت وغیرہ لکھنے کا کیا تُک تھا؟’’

    انھوں نے حسبِ عادت بس ایک لفظ پکڑ لیا۔ کہنے لگے‘‘ٹھیک کہتے ہو۔ جس طرح آج کل کسی کی عمر یا تنخواہ دریافت کرنا بُری بات سمجھی جاتی ہے، اِسی طرح، بالکل اِسی طرح بیس سال بعد کسی کی ولدیّت پُوچھنا بداَخلاقی سمجھی جائے گی!’’
    اب مجھے مرزا کی چونچال طبیعت سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ لہٰذا انھیں ولدیّت کے مستقبل پر مسکراتا چھوڑ کر میں آٹھ دس قبر دُور ایک ٹکڑی میں شامل ہوگیا، جہاں ایک صاحب جنّت مکانی کے حالاتِ زندگی مزے لے لے کر بیان کر رہے تھے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی کتاب خاکم بدہن سے انتخاب)

  • السلام علیکم کہا، نہ آداب، مزاج پوچھا نہ احوال!

    السلام علیکم کہا، نہ آداب، مزاج پوچھا نہ احوال!

    ضمیر جعفری جس انداز سے اپنے چاہنے والوں سے ملتے تھے، اسے خلوص یا تپاک کہنا کسر بیانی (Under-statement) ہو گا۔ ان کی چھلکتی ہمکتی گرم جوشی اس سے آگے کی چیز تھی۔

    ٹیلی فون پر بھی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ’’جچھی‘‘ ڈال دی ہے اور اپنے 50 انچ چوڑے سینے سے علیٰحدہ نہیں ہونے دیں گے۔

    جیسے ہی وہ فون اٹھاتے اور میں کہتا، "میں یوسفی بول رہا ہوں” تو وہ نہ السلام علیکم کہتے، نہ آداب۔ مزاج پوچھتے نہ حال احوال۔ بلکہ مجھے بھی اتنا موقع نہ دیتے کہ یہ مراسم ادا کر سکوں۔

    فون پر بس ایک لفظی نعرۂ مستانہ سا سنائی دیتا: ’’جناب۔‘‘

    نہ میں نے کسی اور کو اس طرح لفظ ’’جناب‘‘ میں اپنی ساری شخصیت اور پیار کو سموتے سنا، نہ میں ان کے ’’جناب‘‘ کی نقل کرسکتا ہوں۔

    ممکن ہے ان کے چھوٹے صاحب زادے جو اپنے ابا کے دلآویز اور گونجیلے ترنم کی بڑی اچھی نقل کرتے ہیں، ان کے ’’جناب‘‘ کی گونج اور گمک بھی سنا سکیں۔

    وہ ’’جناب‘‘ کے ’’نا‘‘کو اپنی مخصوص لے میں اتنا کھینچتے کہ راگ دلار کا الاپ معلوم ہوتا۔

    کیسے بتاؤں کہ وہ اس سمپورن الاپ میں کیا کیا سمو دیتے تھے۔

    (مشہور مزاح نگار سید ضمیر جعفری سے متعلق مشتاق احمد یوسفی کی تحریر سے انتخاب)

  • "پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”

    "پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”

    آئیے، ایک اور مہربان سے آپ کو ملواؤں۔ ان کی تکنیک قدرے مختلف ہے۔

    میری صورت دیکھتے ہی ایسے ہراساں ہوتے ہیں کہ کلیجہ مُنہ کو آتا ہے۔ ان کا معمول ہے کہ کمرے میں بغیر کھٹکھٹائے داخل ہوتے ہیں اور میرے سلام کا جواب دیے بغیر تیمار داروں کے پاس پنجوں کے بل جاتے ہیں۔

    پھر کُھسر پُھسر ہوتی ہے۔ البتہ کبھی کبھی کوئی اچٹتا ہوا فقرہ مجھے بھی سنائی دے جاتا ہے۔ مثلاً:

    "صدقہ دیجیے۔ جمعرات کی رات بھاری ہوتی ہے”
    "پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”
    ” آدمی پہچان لیتے ہیں؟”

    یقین جانیے یہ سُن کر پانی سَر سے گزر جاتا ہے اور میں تو رہا ایک طرف، خود تیمار دار میری صورت نہیں پہچان سکتے۔

    سرگوشیوں کے دوران ایک دو دفعہ میں نے خود دخل دے کر بقائمیِ ہوش و حواس عرض کرنا چاہا کہ میں بفضلِ تعالٰی چاق و چوبند ہوں۔ صرف پیچیدہ دواؤں میں مبتلا ہوں، مگر وہ اس مسئلہ کو قابلِ دست اندازیِ مریض نہیں سمجھتے اور اپنی شہادت کی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہیں۔

    میرے اعلانِ صحت اور ان کی پُر زور تردید سے تیمار داروں کو میری دماغی صحت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ یوں بھی اگر بخار سو ڈگری سے اوپر ہو جائے تو میں ہذیان بکنے لگتا ہوں جسے بیگم، اقبالِ گناہ اور رشتے دار وصیّت سمجھ کر ڈانٹتے ہیں اور بچّے ڈانٹ سمجھ کر سہم جاتے ہیں۔

    میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہ حضرت مزاج پُرسی کرنے آتے ہیں یا پُرسا دینے۔ ان کے جانے کے بعد میں واقعی محسوس کرتا ہوں کہ بس اب چل چلاؤ ہے۔ سانس لیتے ہوئے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ روایتی ہچکی نہ آ جائے۔ ذرا گرمی لگتی ہے تو خیال ہوتا ہے کہ شاید آخری پسینا ہے اور طبعیت تھوڑی بحال ہوتی ہے تو ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھتا ہوں کہ کہیں سنبھالا نہ ہو۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر سے ایک پارہ)