Tag: مشتاق یوسفی کی تحریریں

  • چوائس ہے کہاں؟

    چوائس ہے کہاں؟

    علامہ اقبال نے ان شاعروں، صورت گروں اور افسانہ نویسوں پر بڑا ترس کھایا ہے جن کے اعصاب پہ عورت سوار ہے۔ مگر ہمارے حبیب لبیب اور ممدوح بشارت فاروقی ان بدنصیبوں میں سے تھے جن کی بے داغ جوانی اس شاعر کے کلام کی طرح تھی جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ موصوف کا کلام غلطیوں اور لطف دونوں سے پاک ہے!

    بشارت کی ٹریجڈی شاعروں، آرٹسٹوں اور افسانہ نویسوں سے کہیں زیادہ گھور گھمبیر تھی۔ اس لیے کہ دکھیا کے اعصاب پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی سوار رہا، سوائے عورت کے۔ اس دور میں جسے ناحق جوانی دیوانی سے تعبیر کیا جاتا ہے، ان کے اعصاب پر بالترتیب ملا، ناصح، بزرگ، ماسٹر فاخر حسین، ممتحن، مولوی مظفر، داغ دہلوی، سیگل اور خسرِ بزرگوار سوار رہے۔ خدا خدا کر کے وہ اسی ترتیب سے ان پر سے اترے تو گھوڑا سوار ہوگیا۔ وہ سبز قدم ان کے خواب، ذہنی سکون اور گھریلو بجٹ پر جھاڑو پھیر گیا۔ روز روز کے چالان، جرمانے اور رشوت سے وہ اتنے عاجز آچکے تھے کہ اکثر کہتے کہ اگر مجھے چوائس دی جائے کہ تم گھوڑا بننا پسند کرو گے یا اس کا مالک یا کوچوان تو میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے SPCA کا انسپکٹر بننا پسند کروں گا جو ان تینوں کا چالان کرتا ہے۔ سنگین غلطی کرنے کے بعد پس بینی (hingsight) کا مظاہرہ کرنے والوں کی طرح وہ اس زمانے میں چوائس کی بہت بات کرتے تھے۔ مگر چوائس ہے کہاں؟ مہاتما بدھ نے تو دو ٹوک بات کہہ دی کہ اگر چوائس دی جاتی تو وہ پیدا ہونے سے ہی انکار کر دیتے۔ لیکن ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ گھوڑے کو اگر چوائس دی جاتی تو وہ اگلے جنم میں بھی گھوڑا ہی بننا پسند کرے گا۔ مہاتما بدھ بننا ہرگز پسند نہیں کرے گا کیوں کہ وہ گھوڑیوں کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھ سکتا جیسا گوتم بدھ نے یشودھرا کے ساتھ کیا۔ یعنی انہیں غافل سوتا چھوڑ کر بیابان کو نکل جائے یا کسی جاکی کے ساتھ بھاگ جائے۔ گھوڑا کبھی اپنے گھوڑے پن سے شرمندہ نہیں ہوتا۔ نہ کبھی اس غریب کو فلکِ کج رفتار سے شکوہ ہوگا۔ نہ اپنے سوارِ گردوں رکاب سے کوئی شکایت۔ نہ تن بہ تدبیر، بسیار جو ماداؤں کے ہرجائی پن کا کوئی گلہ کرے۔ یہ تو آدمی ہی ہے جو ہر دم اپنے آدمی پن سے نادم و نالاں رہتا ہے اور اس فکر میں غلطاں ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔

    گھوڑا تانگہ رکھبت اور اسے ٹھکانے لگانے کے بعد بشارت میں بہ ظاہر دو متضاد تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ پہلی تو یہ کہ گھوڑے اور اس کے دور و نزدیک کے تمام متعلقات سے ہمیشہ کے لیے نفرت ہوگئی۔ تنہا ایک لنگڑے گھوڑے نے انہیں جتنا نقصان پہنچایا، اتنا تمام ہاتھیوں نے مل کر پورس کو نہیں پہنچایا ہوگا۔ دوسری تبدیلی یہ آئی کہ اب وہ سواری کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ آدمی کو ایک دفعہ سواری کی عادت پڑجائے تو پھر اپنی ٹانگوں سے ان کا فطری کام لینے میں توہین کے علاوہ نقاہت بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ان کی لکڑی کی بزنس اب کافی پھیل گئی تھی جسے وہ کبھی دوڑ دھوپ کا پھل اور کبھی اپنے والد بزرگوار کی جوتیوں کا طفیل بتاتے تھے، جب کہ خود بزرگوار اسے بھاگوان گھوڑے کے قدموں کی برکت پر محمول کرتے تھے۔ بہر صورت، قابلِ غور بات یہ کہ ان کی ترقی کا محرک اور سبب کبھی پیروں اور جوتیوں کی سطح سے اوپر نہیں گیا۔ کسی نے بلکہ خود انہوں نے بھی ذہانت اور فراست کو اس کا کریڈٹ نہیں دیا۔ لکڑی کی بِکری بڑھی تو دفتروں کے چکر بھی بڑھے۔ اسی قدر سواری کی ضرورت میں اضافہ ہوا۔ اس زمانے میں کمپنیوں میں رشوت نہیں چلتی تھی۔ لہٰذا کام نکالنے میں کہیں زیادہ ذلت و خواری ہوتی تھی۔ ہمارے ہاں ایمان دار افسر کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ جب تک بے جا سختی، خوردہ گیر اور اڑیل اور سڑیل پن سے سب کو اپنی ایمان داری سے عاجز نہ کردے، وہ اپنی ملازمت کو پکا اور خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ بے ایمان افسر سے بزنس مین باآسانی نمٹ سکتا ہے، ایمان دار افسر سے اسے ہول آتا ہے۔ چنانچہ صورت یہ تھی کہ کمپنی سے لکڑی اور کھوکھوں کا آرڈر لینے کے لیے پانچ چکر لگائیں تو بل کی وصولی کے لیے دس چکر لگانے پڑتے تھے۔

    جب سے کمپنیاں لیچڑ ہوئیں، انہوں نے دس پھیروں کا کرایہ اور محنت بھی لاگت میں شامل کر کے قیمتیں بڑھا دیں۔ ادھر کمپنیوں نے ان کی نئی قیمتوں کو لُٹس قرار دے کر دس فی صد کٹوتی شروع کردی۔ بات وہیں کی وہیں رہی۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ ہر دو فریق ایک کو لالچی، کائیاں اور چور سمجھ کر لین دین کرنے لگے۔ اور یہ چوکس اور کامیاب بزنس کا بنیادی اصول ہے۔

    ( عہد ساز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ’’آبِ گم‘‘ سے اقتباس)

  • مسلمان اور تجارت

    مسلمان اور تجارت

    ایک رِیت سی پڑگئی تھی کہ مسلمان رؤسا اور جاگیرداروں کی آمدنی کا حساب تو ہندو رکھتے اور خرچ کا حساب خود عدالت کو قرقی کے وقت بنانا پڑتا تھا۔

    اعمال کے حساب کتاب کا جنجال بھی ہم نے کراماً کاتبین کو اور متعلقہ آڈٹ منکر نکیر کو سونپ رکھا ہے، ہمیں روپیہ ہمیشہ کم ہی معلوم ہوتا ہے۔ مسلمان 3 اور 2 کو 4 نہیں بلکہ ایک کم پانچ کہتا ہے، جب کہ ہندو ایک اوپر 3 کہتا ہے۔ یہ قول رابرٹ کلایو کے ایک ہم عصر سے منسوب ہے کہ روپیہ بچاکر رکھنے کے معاملے میں مسلمان چھلنی کی طرح ہوتا ہے اور ہندو اسفنج کی مانند۔

    سوداگری کو کسر شان سمجھنے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ دودمان تیموریہ پر جب ملکِ خدا تنگ ہوا تو اس کا آخری چشم و چراغ مہاجن سے قرض لے کر فوج کی تنخواہیں چکاتا اور اپنی غزلوں کی اصلاح کرنے والے استاد نجم الدولہ، دبیرالملک مرزا، اسد اللہ خان غالب کو چاندی کے طشت میں زربفت کے تورہ پوش سے ڈھکا ہوا سیم کے بیجوں کا توشہ بھیجتا۔

    تقسیم سے پہلے کے تین چار سو برسوں میں خاص کر برصغیر کے مسلمان نے تجارت کو اپنی شانِ قلندری کے خلاف سمجھا۔ اس لیے کہ اس میں یہ اندیشہ تھا کہ ذرا سی غفلت یا لاپروائی سے کہیں منافع نہ ہوجائے۔ چمڑے اور کھالوں کی ساری تجارت البتہ مسلمانوں کے ہاتھ میں رہی جس کی تین وجہیں تھیں۔ اول تو یہ انہی مرحومین کی آخری نشانی تھی جنہیں وہ بہ رغبت کھا چکے تھے۔ دوم یہ کہ ہندو اس کاروبار کو ناپاک سمجھتے تھے۔ سوم، خوش قسمتی سے ان تاجروں کا تعلق چنیوٹ سے تھا جو دلّی کے دربار سے ہنوز دور تھا۔ ان کی سوجھ بوجھ کے سامنے مارواڑی بھی کان پکڑتے ہیں۔ مشہور ہے کہ چنیوٹی یا میمن پاگل ہوجائے تب بھی دوسرے کی پگڑی اتار کر اپنے ہی گھر میں پھینکتا ہے۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پرگندہ طبع لوگ۔

    (اردو کے مشہور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)

  • موسموں کا شہر

    موسموں کا شہر

    انگریزوں کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ طبعاً کم گو واقع ہوئے ہیں۔

    میرا خیال ہے کہ وہ فقط کھانے اور دانت اکھڑوانے کے لیے منھ کھولتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر انگلستان کا موسم اتنا واہیات نہ ہوتا تو انگریز بولنا بھی نہ سیکھتے اور انگریزی زبان میں کوئی گالی نہ ہوتی۔ کم و بیش یہی حال ہم اہلیانِ کراچی کا ہے۔ میں اپنے شہر کی برائی کرنے میں کوئی بڑائی محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میرا خیال ہے جو شخص کبھی اپنے شہر کی برائی نہیں کرتا وہ یا تو غیر ملکی جاسوس ہے یا میونسپلٹی کا بڑا افسر! یوں بھی موسم، معشوق اور حکومت کا گلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی تفریحی مشغلہ (INDOOR PASTIME) رہا ہے۔ ہر آن بدلتے ہوئے موسم سے جس درجہ شغف ہمیں ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ یہاں بہت سے نجومی ہاتھ دیکھ کر آئندہ چوبیس گھنٹوں کے موسم کی پیش گوئی کرتے ہیں اور الغاروں کماتے ہیں۔

    اب سے چند مہینے پہلے تک بعض گرم و سرد چشیدہ سیاست دان خرابیِ موسم کو آئے دن وزارتی رد و بدل کا ذمہ دار ٹھیراتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کراچی کا موسم بھی انگریز ہی کی ایک چال ہے۔ لیکن موسم گزیدہ عوام کو یقین ہو چلا تھا کہ در حقیقت وزارتی رد و بدل کے سبب یہاں کا موسم خراب ہو گیا ہے۔ نظرِ انصاف سے دیکھا جائے تو موسم کی برائی تہذیب اخلاق کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ اگر موسم کو برا بھلا کہہ کر دل کا غبار نکالنا شہری آداب میں داخل نہ ہوتا تو لوگ مجبوراً ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگتے۔

    اس میں شک نہیں کہ ریڈیو کی گڑگڑاہٹ ہو یا دمہ، گنج ہو یا پاؤں کی موچ، ناف ٹلے یا نکسیر پھوٹے، ہمیں یہاں ہر چیز میں موسم کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ بلغمی مزاج والا سیٹھ ہو یا سودائی فن کار، ہر شخص اسی بت ہزار شیوہ کا قتیل ہے۔ کوئی خرابی ایسی نہیں جس کا ذمہ دار آب و ہوا کو نہ ٹھیرایا جاتا ہو (حالانکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے موسم خراب لگتا ہے۔)

    ایک صاحب کو جانتا ہوں جنہیں عرصہ سے بنولے کے سٹہ کا ہوکا ہے۔ وہ بھی کراچی کی مرطوب آب و ہوا ہی کو اپنے تین دوالوں کا ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔ ایک اور بزرگ کا دعویٰ ہے کہ میں اپنی بتیسی اسی نامعقول آب و ہوا کی نذر کر چکا ہوں۔ دیکھنےمیں یہ بات عجیب ضرور لگتی ہے مگر اپنے مشاہدے کی بناپر کہتا ہوں کہ اس قسم کی آب و ہوا میں چائے اور سٹہ کے بغیر تندرستی قائم نہیں رہ سکتی۔ اور تو اور چالان ہونے کے بعد اکثر پنساری اپنی بے ایمانی کو ایمائے قدرت پر محمول کرتے ہوئے اپنی صفائی میں کہتے ہیں کہ ’’حضور! ہم موسم کی خرابی کی وجہ سے کم تولتے ہیں۔ سیلن سے جنس اور دالوں کا وزن دگنا ہو جاتا ہے اور زنگ کھا کھا کر باٹ آدھے رہ جاتے ہیں۔ نتیجہ میں گاہک کو ۱/۴سودا ملتا ہے! ہم بالکل بے قصور ہیں۔‘‘

    ایک اور ایک کفایت شعار خاتون (جنھوں نے پچھلے ہفتہ اپنی 32 ویں سالگرہ پر 23 موم بتیاں روشن کی تھیں) اکثر کہتی ہیں کہ دس سال پہلے میں گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑی رہتی تھی۔ لیکن یہاں کی آب و ہوا اتنی واہیات ہے کہ اب بے خبری میں آئینے پر نظر پڑ جاتی ہے تو اس کی ’’کوالٹی‘‘ پر شبہ ہونے لگتا ہے۔
    لیکن غصہ ان حضرات پر آتا ہے جو بے سوچے سمجھے یہاں کے موسم پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اس کی وضاحت نہیں فرماتے کہ انہیں کون سا موسم ناپسند ہے۔

    یہ تو آپ جانتے ہیں کہ کراچی میں موسم ہر لحظہ روئی کے بھاؤ کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ ہم نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ ایک ہی عمارت کے کرایہ دار ایک منزل سے دوسری منزل پر تبدیل آب و ہوا کی غرض سے جاتے ہیں۔ یہاں آپ دسمبر میں ململ کا کرتہ یا جون میں گرم پتلون پہن کر نکل جائیں تو کسی کو ترس نہیں آئے گا۔ اہلِ کراچی اس واللہ اعلم بالصواب قسم کے موسم کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اگر یہ دو تین گھنٹے تبدیل نہ ہو تو وحشت ہونے لگتی ہے اور بڑی بوڑھیاں اس کو قربِ قیامت کی نشانی سمجھتی ہیں۔

    ہوتا یہ ہے کہ اچھے خاصے لحاف اوڑھ کر سوئے اور صبح پنکھا جھلتے ہوئے اٹھے۔ یا محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کو ملحوظ رکھتے ہوئے صبح برساتی لے کر گھر سے نکلے اور دوپہر تک لو لگنے کے سبب بالا ہی بالا اسپتال میں داخل کرا دیے گئے۔ کہاں تو رات کو ایسی شفاف چاندنی چھٹکی ہوئی تھی کہ چارپائی کی چولوں کے کھٹمل گن لیجیے۔ اور کہاں صبح دس بجے کہرے کا یہ عالم کہ ہر بس ہیڈ لائٹ جلائے اور اوس سے بھیگی سڑک پر خربوزے کی پھانک کی طرح پھسل رہی ہے۔ بعض اوقات تو یہ کہرا اتنا گہرا ہوتا ہے کہ نوواردوں کو کراچی کا اصل موسم نظر نہیں آتا۔ موسم کے تلون کی یہ کیفیت ہے کہ دن بھر کے تھکے ہارے پھیری والے شام کو گھر لوٹتے ہیں تو بغیر استخارہ کیے یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ صبح اٹھ کر بھول بل کی بھنی گرما گرم مونگ پھلی بیچیں یا آئس کریم!

    کراچی کے باشندوں کو غیر ملکی سیر و سیاحت پر اکسانے میں آب و ہوا کو بڑا دخل ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقیت ہے کہ انگلستان کا موسم اگر اتنا ظالم نہ ہوتا تو انگریز دوسرے ملکوں کو فتح کرنے ہرگز نہ نکلتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ محض میری صحت دیکھ کر یہاں کی آب و ہوا سے بدظن ہو جائیں۔ لیکن اطلاعاً اتنا ضرور عرض کروں گا کہ مقامی چڑیا گھر میں جو بھی نیا جانور آتا ہے، کچھ دن یہاں کی بہارِ جاں فزا دیکھ کر میونسپل کارپوریشن کو پیارا ہوجاتا ہے اور جو جانور بچ جاتے ہیں، ان کا تعلق اس مخلوق سے ہے جس کو طبعی موت مرتے کم از کم میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مثلاً مگرمچھ، ہاتھی، میونسپلٹی کا عملہ!

    (ممتاز مزاح نگار مشتاق یوسفی کی ایک تحریر سے چند پارے)

  • کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے!

    کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے!

    کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔ اس سے ساکنان کوہِ مری کی دل آزاری نہیں، بلکہ عروسُ البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔

    کبھی کبھار شہرِ خوباں کا درجۂ حرارت جسم کے نارمل درجۂ حرارت سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبانِ شہر لحاف اوڑھ کر ایئر کنڈیشنر تیز کر دیتے ہیں۔ یہ خوبی صرف کراچی کے متلون موسم میں دیکھی کہ گھر سے جو لباس بھی پہن کر نکلو، دو گھنٹے بعد غلط معلوم ہوتا ہے۔

    لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی شدید سردی کی خبریں پڑھتے ہیں تو ان سے بچاؤ کے لیے بالو کی بھنی مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں۔ ان کے بچّے بھی انہی پر پڑے ہیں۔ بادِ شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لیے اونی کنٹوپ پہن کر آئس کریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں۔

    کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔ نووارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو اللہ جانے گرمی کیسی ہوتی ہو گی۔ بیس سال سرد و گرم جھیلنے کے بعد ہمیں اب معلوم ہوا کہ کراچی کے جاڑے اور گرمی میں تو اتنا واضح فرق ہے کہ بچّہ بھی بتا سکتا ہے۔ 90 ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہو تو یہ موسمِ گرما کی علامت ہے۔ اگر دسمبر میں ہو تو ظاہر ہے کہ جاڑا پڑ رہا ہے۔ البتہ جولائی میں 90 ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑے تو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔ غالباً کیا یقیناً ایسے ہی کم نیم گرم، کنکنے کراچوی جاڑے سے اکتا کر نظیر اکبرآبادی نے تمنا کی تھی،

    ہر چار طرف سے سردی ہو اور صحن کھلا ہو کوٹھے کا
    اور تن میں نیمہ شبنم کا، ہو جس میں خس کا عطر لگا
    چھڑکاؤ ہوا ہو پانی کا، اور خوب پلنگ بھی ہو بھیگا
    ہاتھوں میں پیالہ شربت کا، ہو آگے اک فراش کھڑا
    فراش بھی پنکھا جلتا ہوا، تب دیکھ بہاریں جاڑے کی

    تین چار سال بعد دو تین دن کے لیے سردی کا موسم آجائے تو اہلِ کراچی اس کا الزام ’’کوئٹہ ونڈ‘‘ پر دھرتے ہیں اور کوئٹہ کی سردی کی شدت کو کسی سیم تن کے ستر نما سوئٹر سے ناپتے ہیں۔ کراچی کی سردی بیوہ کی جوانی کی طرح ہوتی ہے۔ ہرایک کی نظر پڑتی ہے اور وہیں ٹھہر بلکہ ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔

    ادھر کوئٹہ میں جب دستانے، کمبل، مفلر اور سمور کے انبار میں سے صرف چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا ناممکن ہوجائے کہ ان کے جنوب میں مونچھ ہے یا پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے، تو کوئٹہ والے اس گھپلے کا ذمہ دار قندھاری ہوا کو ٹھیراتے ہیں اور جب قندھار میں سائبیریا کی زمہریری ہواؤں سے درختوں پر اناروں کی بجائے برف کے لڈو لٹکتے ہیں، گوالے گائے کے تھنوں سے آئس کریم دوہتے ہیں، اور سردی سے تھر تھر کانپتے ہوئے انسان کے دل میں خود کو واصل جہنم کرنے کی شدید خواہش ہوتی ہے، تو اہالیانِ قندھار کمبل سے چمٹ کر ہمسایہ ملک کی طرف غضب ناک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔

    چھوٹے ملکوں کے موسم بھی تو اپنے نہیں ہوتے۔ ہوائیں اور طوفان بھی دوسرے ملکوں سے آتے ہیں۔ زلزلوں کا مرکز بھی سرحد پار ہوتا ہے۔

    (اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون "سبق یہ تھا پہلا کتاب ربا کا” سے اقتباسات)

  • بِچھڑا اور پَچھڑا ہوا طبقہ!

    بِچھڑا اور پَچھڑا ہوا طبقہ!

    ’’کسی ملک کی معیشت کے استحکام، پھیلاؤ اور توانائی کا اندازہ اس سے نہیں لگایا جا سکتا کہ اس کے امیر کتنے امیر ہیں، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ غریب کتنے غریب ہیں۔

    کسی معاشرے کے مہذب اور فلاح یافتہ ہونے کو پرکھنے کی محک اور کسوٹی یہ ہے کہ وہ اپنے کم زور، پیچھے رہ جانے والے، دکھی اور خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتا ہے۔

    ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب تک ہماری قوم کا یہ بچھڑا اور پچھڑا ہوا طبقہ آگے نہیں بڑھتا، ہمارا معاشرہ آنکھوں پر بے حسی کے کھوپے چڑھائے خود ساختہ اندھیرے میں بھٹکتا اور دوسروں کو بھٹکاتا پھرے گا۔

    ایک افریقی مثل ہے کہ جنگل میں ہاتھیوں کے جھنڈ کی رفتار کا تعین سب سے تیز دوڑنے والا ہاتھی نہیں کرتا، بلکہ سب سے سست قدم اور لدھڑ ہاتھی کرتا ہے!‘‘

    (اردو عظیم مزاح نگار اور ادیب مشتاق احمد یوسفی کی فکر سے ایک پارہ)

  • "دس بار مسکرائیے!”

    "دس بار مسکرائیے!”

    مشتاق احمد یوسفی کو اردو کا صاحبِ طرز مزاح نگار اور تخلیقی نثر نگار کہا جاتا ہے۔

    عام طور پر مزاح‌ نگار کوئی انوکھی بات اور نرالی منطق پیش کرتے ہوئے، دل چسپ اور عجیب صورتِ حال کی منظر کشی کے ساتھ مضحکہ خیز کرداروں کی مدد سے اپنے قاری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن مشتاق احمد یوسفی نے الگ ہی راہ نکالی اور عہد ساز ٹھہرے۔ ان کا مزاح فلسفیانہ رنگ لیے ہوئے ہے اور وہ گہری اور چبھتی ہوئی بات اس طرح کرتے ہیں‌ کہ پڑھنے والا قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

    یہاں‌ ہم مشتاق احمد یوسفی کے دس تیکھے جملے آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ٭ لفظوں کی جنگ میں فتح کسی بھی فریق کی ہو، شہید ہمیشہ سچّائی ہوتی ہے۔

    ٭ دشمنوں کے حسبِ عداوت تین در جے ہیں: دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار۔

    ٭ محبّت اندھی ہوتی ہے، چناں چہ عورت کے لیے خوب صورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہوتا ہے۔

    ٭ بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکی داری میں ذرا فرق نہیں، سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔

    ٭ آدمی ایک بار پروفیسر ہو جائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھ داری کی باتیں ہی کیوں نہ کر نے لگے۔

    ٭ مصائب تو مرد بھی جیسے تیسے برداشت کرلیتے ہیں، مگر عورتیں اس لحاظ سے قابلِ ستائش ہیں کہ انہیں مصا ئب کے علاوہ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

    ٭ مرض کا نام معلوم ہو جائے تو تکلیف تو دور نہیں ہوتی، الجھن دور ہوجاتی ہے۔

    ٭ انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔

    ٭ مرد عشق و عاشقی صرف ایک ہی مرتبہ کرتا ہے، دوسری مرتبہ عیاشی اور اس کے بعد نری بدمعاشی۔

    ٭ عورتیں ہمیشہ سچ بولتی ہیں، وہ ا یک دوسرے کی عمر ہمیشہ صحیح بتاتی ہیں۔