Tag: مشتری

  • مشتری پر پڑنے والی چمکدار روشنی کہاں سے آئی؟ حیرت انگیز ویڈیو

    مشتری پر پڑنے والی چمکدار روشنی کہاں سے آئی؟ حیرت انگیز ویڈیو

    جاپانی شوقیہ فلکیات دان ٹاڈاؤ اوسوگی نے مشتری (جیوپٹر) پر پڑنے والی ایک چمکدار روشنی کا مشاہدہ کیا ہے، جس کی ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس طرح کی روشنی (فلیش) ہمارے نظام شمسی کے کناروں سے آنے والے سیارچے یا دم دار ستارے کی وجہ سے نظر آتی ہیں جو مشتری کے ماحول پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

    اس فلیش کو کرہ ارض پر اب تک ریکارڈ کیے جانے والے روشن ترین فلیشز میں سے ایک بتایا گیا ہے۔

    نیویارک ٹائمز کی 15 ستمبر کو جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جاپان میں ایک شوقیہ فلکیات دان نے مشتری کی فضا میں ایک روشن چمک کا نظارہ کیا ہے، جس کے سبب سائنس دان اب اس حوالے سے مزید تحقیق کررہے ہیں۔

    نامعلوم فلکیات دان کی جانب سے کیوٹو یونیورسٹی کے ماہر فلکیات ڈاکٹر اریماتسو کو اس بابت مطلع کرنے کے لیے ایک ای میل بھیجی گئی تھی۔ ای میل موصول ہونے پر، ڈاکٹر اریماتسو نے مزید معلومات کال پر حاصل کیں۔

  • زہرہ اور مشتری کا ملاپ: جھلملاتے ستاروں سے گھبرا کر امریکیوں نے پولیس کو کال کردی

    زہرہ اور مشتری کا ملاپ: جھلملاتے ستاروں سے گھبرا کر امریکیوں نے پولیس کو کال کردی

    گزشتہ دنوں دنیا بھر میں لوگوں نے اپنے آسمان پر پورے چاند کے ساتھ ساتھ دو روشن ستاروں کو بھی دیکھا جو دراصل سیارہ زہرہ اور مشتری تھے، لیکن امریکی ریاست کیلی فورنیا میں لوگوں نے اس نظارے سے گھبرا کر ایمرجنسی سروس کو کالز کرنا شروع کردیں۔

    جمعرات کی شام سے زہرہ اور مشتری آسمان پر دو جھلملاتے ستاروں کی صورت چمکتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

    دونوں سیاروں کا ملاپ مغربی افق پر صرف نصف ڈگری کے زاویے سے دیکھا گیا جسے دوربین کے بغیر عام آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔

    عموماً زہرہ اور مشتری کا ملاپ سال میں ایک بار یا ہر 13 ماہ بعد ہوتا ہے لیکن اس سال دونوں سیاروں کے درمیان واضح فاصلہ پچھلے سال کے مقابلے میں خاصا کم تھا۔

    دنیا بھر میں فلکیات سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے ساتھ ساتھ عام افراد نے بھی اس نظارے کو دلچسپی سے دیکھا تاہم امریکی ریاست کیلی فورنیا کے رہائشیوں نے گھبرا کر ایمرجنسی سروس کو فون گھما دیے۔

    کیلی فورنیا کے قانون نافذ کرنے والے حکام نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ لوگ 911 کو کال کر کے انہیں آسمان پر چمکنے والے دو ستاروں کے بارے میں بتانے سے گریز کریں۔

    حکام کا کہنا ہے کہ لوگ انہیں کال کر کے بتا رہے ہیں کہ آسمان پر 2 غیر معمولی روشنیاں دکھائی دے رہی ہیں جو اپنی جگہ ساکت ہیں، ان کے خیال میں یہ کوئی مشتبہ چیز ہوسکتی ہے جس کے بارے میں حکام کو تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

    کال کرنے والوں کو بتایا گیا کہ یہ ایک معمول کا فلکیاتی مظہر ہے جس کے بارے میں پہلے ہی خبریں دی جاچکی ہیں۔

    سوشل میڈیا پر حکام کی جانب سے ہدایات دیے جانے کے بعد 911 پر کی جانے والی کالز میں خاصی کمی آئی۔

  • چھوٹے سیاروں کو نگلنے والا سیارہ

    چھوٹے سیاروں کو نگلنے والا سیارہ

    ہمارے نظام شمسی کے پانچویں سیارے مشتری کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ اس نے چھوٹے سیاروں کو نگلا جس کی وجہ سے اس کی ساخت میں تبدیلیاں آئیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق سیارہ مشتری یا جوپیٹر کی سطح میں صرف 9 فیصد دھات اور چٹانیں موجود ہیں اور بقیہ سیارہ دبیز گیسوں پر مشتمل ہے، اس سے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ اپنے ابتدائی ایام میں اس نے چھوٹے سیارے کو تیزی سے نگلا ہے جس کی وجہ سے سیارہ اس حال تک پہنچا ہے۔

    اس سیارے کو ناکام سورج بھی کہا جاتا ہے جو زیادہ تر ہیلیئم اور ہائیڈروجن گیسوں سے بنا ہے، بظاہر اس میں سورج کی تشکیل کے وقت اولین نیبولہ کے آثار بھی ہیں، لیکن اس میں پتھر اور دھاتوں کی مقدار دیکھ کر ایک نئی تحقیق کی گئی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی ابتدا میں یہ چھوٹے تشکیل پذیر سیاروں اور ان کے اجزا کو نگل چکا ہے۔

    اس دریافت کا سہرا ناسا کے جونو خلائی جہاز کو جاتا ہے جس نے مشتری پر سیر حاصل تحقیق کی ہے اور اس سے ہمارے اولین تصورات بھی بدلے ہیں۔

    جونو پر نصب جدید آلات کی وجہ سے مشتری کے اندر کی ساخت اور دیگر معلومات ملی ہیں، اپنی تشکیل کے وقت مشتری پتھریلے اجزا سے تشکیل پا رہا تھا تاہم اس کے بعد ابتدائی نظام شمسی کی گیس اس میں جمع ہونا شروع ہوگئی اور لاکھوں کروڑوں برس میں وہ مکمل طور پر گیسی دیو میں تبدیل ہوگیا۔

    لیکن یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابتدائی کیفیت میں جن چٹانوں نے اس کی تشکیل کی وہ بہت بڑے تھے یا بہت چھوٹے تھے اور کیا وہ کسی اور سیارے کا حصہ تو نہیں تھے؟

    سائنس دانوں کے مطابق مشتری پر گہرے بادلوں اور گیسوں کی دبیز چادر ہے جو کم سے کم 50 کلو میٹر موٹی ہے اور اس کے نیچے جھانک کر ہی ہم اس کے ماضی کا فیصلہ اور تشکیل کا خاکہ مرتب کرسکتے ہیں۔

    اگرچہ یہ نظام شمسی کا سب سے پرانا سیارہ ہے لیکن اس کے کئی رازوں سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔

    فی الحال جونو کی تحقیق بتاتی ہے کہ سیارہ مشتری نے اطراف میں موجود پتھریلے سیاروں کا ابتدائی مواد نگلا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید نظام شمسی میں مزید سیارے موجود ہوتے۔

  • کیا سیارہ زہرہ اور مشتری ٹکرانے کے قریب ہیں؟

    کیا سیارہ زہرہ اور مشتری ٹکرانے کے قریب ہیں؟

    رواں ہفتے کے آخر میں سیارہ زہرہ اور مشتری آسمان پر انتہائی قریب دیکھے جاسکیں گے، یہ ایک نہایت نایاب نظارہ ہوگا۔

    اس ہفتے نظام شمسی کے دو روشن ترین سیارے، زہرہ اور مشتری، اس ہفتے کے آخر میں آسمان پر انتہائی قریب دیکھے جاسکیں گے۔

    اگرچہ حقیقت میں یہ دونوں ایک دوسرے سے لاکھوں میل کے فاصلے پر ہوں گے لیکن دنیا پر فلک بینوں کو یہ اتنے قریب دکھیں گے کہ لگے گا یہ آپس میں ٹکرانے والے ہیں، ایسا سال میں ایک ہی بار ہوتا ہے۔

    البتہ اس سال مشتری اور زہرہ ایک دوسرے سے معمول سے زیادہ قریب سے گزریں گے اور یہ منظر ممکنہ طور پر دوربین یا برہنہ آنکھوں سے دیکھا جا سکے گا۔

    غیر معمولی سیاروی ترتیب کے مناظر میں زحل اور مریخ، مشتری اور زہرہ کے ساتھ میں ایک قطار میں ظاہر ہوں گے۔

    آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے ایک آسٹرو فزسٹ بریڈ ٹکر کا کہنا تھا کہ سیارے گزشتہ دو ہفتوں سے ایک دوسرے کے قریب حرکت کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اگرچہ زہرہ اور مشتری ہر چند سالوں میں ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں، اس بار مریخ اور زحل قریب آئیں گے جو کافی نایاب ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر آپ کے پاس ایک ٹیلی اسکوپ، یا دوربین یا ایک اچھا کیمرا ہے، پھر آپ ایک بہتر نظارہ دیکھ سکیں گے۔

  • مشتری جیسا سیارہ دریافت

    مشتری جیسا سیارہ دریافت

    فلکیاتی ماہرین نے زمین سے 17 ہزار نوری سال کے فاصلے پر بالکل مشتری جیسے سیارے کو دریافت کیا ہے، اس سیارے کی ساخت چٹانی نہیں بلکہ مشتری کی طرح گیسز پر مبنی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ زمین سے 17 ہزار نوری سال کے فاصلے پر ایک ستارے کے گرد سیارے کو گردش کرتے دیکھا گیا ہے جو بالکل مشتری کے جیسا ہے۔

    اس سیارے کی نشان دہی ناسا کی کیپلر ٹیلی اسکوپ سے کی گئی ہے۔

    مانچسٹر کے ماہرینِ فلکیات کے مطابق نظام شمسی کے باہر موجود K2-2016-BLG-0005Lb نامی سیارہ وزن اور اپنے مرکزی ستارے سے فاصلے کے اعتبار سے تقریبآ مشتری سے ملتا جلتا ہے۔

    یہ سیارہ اپنے مرکزی ستارے سے تقریباً 42 کروڑ میل کے فاصلے پر ہے جبکہ مشتری سورج سے 46.2 کروڑ میل کے فاصلے پر ہے۔

    دوسری جانب سیارے کا وزن مشتری کی نسبت 1.1 گُا زیادہ ہے جبکہ جس ستارے کے گرد یہ گھومتا ہے اس کا وزن ہمارے سورج کے 60 فیصد تک ہے۔

    یہ سیارہ اور اس کا ستارہ سیگٹیریس ستاروں کی جھرمٹ مین موجود ہیں جو گلیکٹک سینٹر کے اطراف کا علاقہ گھیرتا ہے، یہ ہماری ملکی وے کہکشاں کے محور کا مرکز ہے۔

    یہ نئی تحقیق یونیورسٹی آف مانچسٹر کے جوڈریل بینک سینٹر کے آسٹرو فزکس کے ماہرین کی بین الاقوامی ٹیم کی جانب سے کی گئی۔

    جوڈریل بینک کے ڈاکٹر ایمن کرنس کے مطابق سیارے کی ساخت چٹانی نہیں بلکہ مشتری کی طرح گیسز پر مبنی ہے۔

  • سیارہ مشتری پر آکسیجن دریافت؟

    سیارہ مشتری پر آکسیجن دریافت؟

    ماہرین ایک طویل عرصے سے دوسرے سیاروں پر زندگی یا زندگی کے لیے سازگار حالات کی تلاش میں ہیں اور اب ایک تحقیق میں انہیں سیارہ مشتری پر آکسیجن کے شواہد ملے ہیں۔

    حال ہی میں ہونے وال ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا کہ مشتری کے چاند یورپا کے برف کے خول میں موجود نمکین پانی ممکنہ طور پر برف سے ڈھکے مائع پانی کے سمندر میں آکسیجن کی آمد و رفت کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ چاند کی ناسازگار سرزمین کے اندر ایسا ہونا زندگی کو کی بقا کے لیے سازگار ہوسکتا ہے۔

    ان کا ماننا ہے کہ یورپا کے سمندر میں موجود آکسیجن کی مقدار ممکنہ طور پر اتنی ہی ہوسکتی ہے جتنی مقدار اس کی آج زمین کے سمندر میں ہے۔

    یہ تھیوری پہلے پیش کی جا چکی ہے لیکن امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر آسٹن میں قائم یونیورسٹی آف ٹیکسس کے ماہرین نے دنیا کی پہلی طبیعات پر مبنی اس عمل کی کمپیوٹر سمیولیشن آزمائش کے لیے بنائی۔

    یو ٹی جیکسن اسکول آف جیو سائنسز کے شعبہ ارضیاتی سائنسز سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے سربراہ محقق مارک ہیسی کا کہنا تھا کہ ان کی ریسرچ نے اس عمل کو ممکنات کی دنیا میں ڈال دیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں ایک یورپا کے سمندر کے اندر کی سطح میں زندگی کی افزائش کے حوالے سے مسئلے کا ایک حل فراہم کرتا ہے۔

  • ناسا نے مریخ کے بعد مشتری کی طرف بھی خلائی جہاز روانہ کر دیا

    ناسا نے مریخ کے بعد مشتری کی طرف بھی خلائی جہاز روانہ کر دیا

    فلوریڈا: مریخ کے بعد ایک اور سیارے کی کھوج کا سفر شروع ہو گیا، ایک خلائی جہاز نے فلوریڈا میں کیپ کیناورل اسپیس اسٹیشن سے نظام شمسی کے ‘فوصل’ کو دریافت کرنے کے مشن پر خلا کی طرف اڑان بھر لی ہے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے نظام شمسی کے فوصل کی دریافت کے لیے مریخ کے بعد مشتری یعنی جوپیٹر کی کھوج شروع کر دی ہے، جس کے لیے انھوں نے اپنا مشن روانہ کر دیا ہے۔

    اس مشن کو لوسی کا نام دیا گیا ہے، اگلے 12 برس میں اس مشن پر 981 ملین امریکی ڈالر خرچ کیے جائیں گے، اس دوران لوسی مشن 7 ٹروجنز کی جانچ اور ان کا مطالعہ کرے گا۔

    یہ لوسی پروب مشتری کے مدار کی طرف روانہ ہوئی ہے، تاکہ سیارچوں کے دو بڑے گروپس کا مطالعہ کرے، جو کہ گیس کے اس دیو (مشتری) سے آگے اور پیچھے غول کی صورت میں دوڑ رہے ہیں۔

    1974 میں ایتھوپیا میں دنیا کا قدیم ترین ڈھانچا دریافت ہوا تھا، جسے لوسی کا نام دیا گیا تھا، لوسی نامی اس ڈھانچے کی دریافت نے انسان کی ابتدا اور ارتقا کے متعلق نظریات کو بدل کر رکھ دیا۔ مشتری پر ٹروجن کی چھان بین کے لیے ناسا نے اپنے مشن کا نام اسی اوّلین انسانی ڈھانچے کے نام پر رکھا ہے۔

    امریکی خلائی ایجنسی (ناسا) کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ دراصل سیاروں کی تشکیل سے باقی بچنے والی اشیا ہیں، انھیں سائنس دان ٹروجن کہتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ نظام شمسی کے ابتدائی ارتقا کے بارے میں ان باقیات سے اہم اشارے مل سکتے ہیں۔

  • مشتری کے چاند پر پانی کی موجودگی کی نشاندہی

    مشتری کے چاند پر پانی کی موجودگی کی نشاندہی

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی ٹیلی اسکوپ ہبل نے سیارہ مشتری کے چاند پر پانی کی موجودگی کی نشاندہی کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائنسدانوں نے سیارہ مشتری کے خوبصورت چاند جینی میڈ پر آبی بخارات کی دریافت کا اشارہ دیا ہے۔

    پانی کے بخارات اس وقت وجود پاتے ہیں جب چاند کی سطح سے برفیلے ذرات ٹھوس سے گیس میں بدل جاتے ہیں۔ یہ تحقیق ہبل خلائی دوربین کی بدولت ممکن ہوئی ہے جس سے حاصل شدہ غیر معمولی ڈیٹا اب بھی سائنسدانوں کے زیرِ مطالعہ ہے۔

    جینی میڈ نہ صرف سیارہ مشتری بلکہ نظام شمسی کا بھی سب سے بڑا چاند ہے، اس سے قبل کہا گیا تھا کہ اس پر زمین کے تمام سمندروں سے زائد پانی موجود ہے۔ لیکن درجہ حرارت اتنا سرد ہے کہ وہ پانی منجمد ہوچکا ہے۔ لیکن جینی میڈ کا سمندر لگ بھگ 100 میل گہرائی میں موجود ہے جو قشرِ جینی میڈ کے نیچے پایا جاتا ہے۔

    ماہرینِ فلکیات گزشتہ بیس برس سے ہبل کی تحقیق کو دیکھتے ہوئے جینی میڈ پر پانی کے بخارات کی تلاش میں ہیں۔ سنہ 1998 میں ہبل خلائی دوربین نے عکسی طیف نگاروں کی بدولت جینی میڈ کی اولین تصاویرلی تھیں۔ ان میں دو تصاویر بہت مقبول ہوئیں جن میں برق ذدہ گیس کی رنگین پٹیوں نما ساخت دیکھی جاسکتی ہے جبکہ ایک اور تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند کا کمزور مقناطیسی میدان بھی ہے۔

    اگرچہ بعض تصاویر وہاں آکسیجن کے سالمے او 2 کو ظاہر کرتی ہیں لیکن بعض تصاویر یک ایٹمی آکسیجن کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ پھر مزید تحقیق کی گئی تو 2018 میں ناسا کے جونو مشن کے مشاہدات اور ہبل کی تصاویر کا باہم موازنہ کیا گیا ۔ یہ کام کے ٹی ایچ رائل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، سوئیڈن کے سائنسدانوں نے کیا۔ اس میں 1998 سے 2010 تک ہبل کا ڈیٹا بھی پڑھا گیا جس میں زیادہ تر تصاویر شامل تھیں۔

    ماہرین پر انکشاف ہوا کہ جینی میڈ کا درجہ حرارت بدلتا رہتا ہے اور دن کے اوقات میں خط استوا پر اتنی گرمی ضرور ہوتی ہے کہ منجمد برف کا کچھ حصہ پگھل کر بھاپ کی شکل اختیار کرلیتا ہے،بعد ازاں اس کی مزید تصدیق بھی ہوگئی۔

    اس طرح سالماتی آکسیجن کی تصدیق ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ درجہ حرارت میں تبدیلی سے پانی کے بخارات بن رہے ہیں۔

    سنہ 2022 میں ایک جدید ترین خلائی جہاز اسی مقصد کے لیے روانہ کیا جائے گا۔ یورپی خلائی ایجنسی کا یہ جہاز جوس کے نام سے مشہور ہے اور 2029 میں مشتری اور اس کے چاندوں تک پہنچے گا، توقع ہے کہ اس کے تفصیلی مشاہدے سے اولین نتائج کی تصدیق ہوسکے گی۔

  • کیا خلائی مشن کو سیارہ مشتری پر جنات اور پریاں دکھائی دیں؟

    کیا خلائی مشن کو سیارہ مشتری پر جنات اور پریاں دکھائی دیں؟

    امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ روبوٹک خلائی مشن جونو نے سیارہ مشتری کی بالائی فضا میں مافوق الفطرت مخلوق جنات اور پریاں دیکھیں۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ جونو سے حاصل ہونے والی تصاویر میں 2 اقسام کی تیز روشنیاں نظر آئیں، یہ روشنیاں اسپرائٹس (پریاں) اور ایلوز (جن) تھے۔

    اس اقسام کی روشنیاں زمین پر دیکھی جاتی رہی ہیں تاہم کسی دوسرے سیارے پر یہ پہلی بار دیکھی گئیں۔

    امریکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یورپی افسانوں کے مطابق اسپرائٹس ہوشیار اور پری نما مخلوق ہیں جبکہ سائنس میں کہا جاتا ہے کہ یہ روشنی کے وہ روشن مراکز ہیں جو آسمانی بجلی سے متحرک ہوتی ہیں اور طوفان کے اوپر دکھائی دیتی ہیں۔

    یہ مناظر زمین پر عموماً بڑے طوفانوں کے اوپر تقریباً 60 میل کی اونچائی پر دکھائی دیتے ہیں۔

    آسمان کو روشن کرنے والے ان اسپرائٹس کی روشنی 15 سے 30 میل کے فاصلے تک پھیل سکتی ہے لیکن یہ سلسلہ صرف چند ملی سیکنڈز تک جاری رہتا ہے۔

    دوسری جانب ایلوز سائنسی زبان میں الیکٹرو میگنیکٹ پلس ذرائع کی وجہ سے روشنی کے اخراج اور انتہائی کم فریکوئنسی کے انتشار کا نام ہے جو انتہائی تیز چمکتی بجلی کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔

    ایلوز ایک متوازی ڈسک کی طرح دکھائی دیتی ہیں اور یہ آسمان کے ایک بڑے حصے پر 200 میل تک پھیل سکتی ہیں۔

    جونو مشن پر کام کرنے والے سائنسدان اور اس تحقیق کے مصنف روہنی ایس جائلز کا کہنا تھا کہ زمین پر اسپرائٹس اور ایلوز بالائی فضا میں موجود نائٹروجن سے ردعمل کی وجہ سے سرخ رنگ میں دکھائی دیتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ مشتری پر بلندی میں فضا میں ہائیڈروجن موجود ہوتی ہے جس کی وجہ سے اسپرائٹس اور ایلوز نیلی یا گلابی بھی دکھائی دے سکتی ہیں۔

    یہ تحقیق 27 اکتوبر کو جرنل آف جیوفزیکل ریسرچ میں سیاروں سے متعلق سیریز میں شائع ہوئی۔

  • سیارہ مشتری کے 12 نئے چاند دریافت

    سیارہ مشتری کے 12 نئے چاند دریافت

    نظام شمسی کے پانچویں اور سب سے بڑے سیارے مشتری کے گرد محو سفر مزید 12 چاند دریافت کرلیے گئے جس کے بعد مشتری کے چاندوں کی تعداد 79 ہوگئی ہے۔

    مذکورہ دریافت واشنگٹن میں واقع کارنیگی انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کے ماہرین فلکیات نے طاقتور ترین دوربینوں کی مدد سے کی۔

    حالیہ دریافت کے بعد مشتری سب سے زیاد چاند رکھنے والا سیارہ بن گیا ہے۔

    ادارے کے ماہرین کے مطابق مشتری کے نئے چاندوں کی حرکت کا ایک سال تک مشاہدہ کیا گیا جس کے بعد اب ان کی دریافت کا حتمی اعلان کردیا گیا ہے۔

    ماہرین کے ابتدائی اندازے کے مطابق یہ چاند دراصل اسی مادے سے بنے ہیں جس سے سیارہ مشتری تخلیق ہوا۔ یہ ٹکڑے سیارے سے جڑنے سے رہ گئے جس کے بعد اب یہ چاندوں کی صورت میں مشتری کے گرد گھوم رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: سیارہ مشتری کے عظیم طوفان کی جھلک

    نو دریافت شدہ 12 میں سے تین چاندوں کو مشتری کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں زمین کے 2 سال یعنی 730 دن لگ جاتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔