Tag: مشرقی پاکستان

  • پاکستان کی وحدت کا قائل وہ ‘بنگالی’ جسے دو سال تک جیل میں رہنا پڑا

    پاکستان کی وحدت کا قائل وہ ‘بنگالی’ جسے دو سال تک جیل میں رہنا پڑا

    یہ سقوطِ‌ ڈھاکہ پر ایک مشہور تصنیف کے مصنف کی باتیں ہیں جس پر آج بھی دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مصنّف ان لوگوں‌ میں سے تھے جنھوں‌ نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

    یہ شخصیت پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین ہیں جو سقوط مشرقی پاکستان سے پہلے صوبے کی معروف ترین ڈھاکہ یونیورسٹی کے آخری وائس چانسلر تھے۔ انگریزی ادب کے ممتاز استاد اور فلسفہ تاریخ کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین ضلع ماگورہ (موجودہ بنگلہ دیش) میں پیدا ہوئے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کیا اور ناٹنگھم یونیورسٹی (برطانیہ) سے انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کی۔

    وہ قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت سے متاثر ہو کر تحریک آزادی کے قافلے کا حصہ بنے اور قیام پاکستان کی حمایت کرنے والے اوّلین بنگالی نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ بنگلہ زبان میں انھوں‌ نے "پاکستان” کے نام سے پندرہ روزہ جریدہ بھی جاری کیا۔ مختلف اخبارات میں نظریۂ پاکستان کے حق میں مضامین تحریر کیے۔ 1944ء میں اسلامیہ کالج، کلکتہ میں انگلش کے لیکچرر مقرر ہوئے۔ ساری زندگی درس و تدریس میں صرف کر دی۔ راج شاہی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور سقوط مشرقی پاکستان سے چند ماہ قبل ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے تھے۔ انھوں نے بنگلہ دیش میں جو سزائیں بھگتیں اور دو سال جیل بھی کاٹی۔ اس کا تذکرہ انھوں نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں کیا ہے جس سے یہ پارے لیے گئے ہیں۔ پانچ کتابوں کے مصنّف کی اس کتاب کا اردو ترجمہ "شکستِ آرزو” کے نام سے ہوا تھا۔ اسے ہم ایک عاشقِ زار کے طرز فکر، جذبات اور مشاہدات کا دل گداز مرقع کہہ سکتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    میں نے یہ یادداشتیں ۱۹۷۳ء میں ڈھاکا جیل میں قلم بند کی تھیں، جہاں مجھے پاکستان کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں شیخ مجیب الرحمان کا ساتھ نہ دینے کے جرم میں قید رکھا گیا تھا۔

    میں نہ کوئی سیاست دان تھا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا کارکن۔ البتہ میں یحییٰ حکومت کی درخواست پر ۱۹۷۱ء میں برطانیہ اور امریکا گیا تھا تاکہ یہ واضح کر سکوں کہ مشرقی پاکستان میں جاری جدوجہد دراصل کن دو قوتوں کے درمیان تھی۔ ایک طرف تو وہ لوگ تھے جو پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے اور دوسری طرف وہ جو اِس کے نظریے سے محبت کرتے تھے۔

    جیل میں میرا موڈ شدید غصے، بدحواسی اور مایوسی کے امتزاج پر مبنی تھا۔ قتل کی ایک ناکام کوشش نے مجھے جسمانی معذوری سے بھی دوچار کر دیا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جو کچھ میرے عقائد اور نظریات پر مبنی تھا وہ میری آنکھوں کے سامنے مٹی میں مل چکا تھا۔ مجھ پر اس کا خاص نفسیاتی اثر مرتب ہوا تھا۔ دل میں یہ احساس بھی جاگزیں تھا کہ ہم ایک ایسی شکست سے دوچار ہوئے ہیں جس کے اثرات سے جان چھڑانا ممکن نظر نہیں آتا تھا کہ ۱۹۷۱ء میں جو تبدیلی رونما ہوئی تھی وہ میرے لوگوں کے لیے سود مند نہیں تھی۔ اس خیال نے مجھے خاصے دباؤ میں رکھا اس لیے کہ کہیں امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس خاص ذہنی کیفیت اور فضا میں، میں نے ان واقعات سے متعلق یادداشتیں قلم بند کیں جو ۱۹۷۱ء کے سانحے پر منتج ہوئے۔

    میری خواہش تھی کہ تمام تکلفات کو بالائے طاق رکھ کر دل کی بات لکھوں۔ مگر اس بات کا کم ہی یقین تھا کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں وہ کبھی منظرِ عام پر آ سکے گا۔ بہرحال اس بات کو میں اپنا فرض سمجھتا تھا کہ جو کچھ دیکھا اور سنا ہے اُسے ریکارڈ پر ضرور لے آؤں۔ میں نے سچ بیان کیا ہے اور اس معاملے میں کسی دوست یا دشمن کی پروا نہیں کی ہے۔ یہ سب کچھ لکھنے کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ میں بیان کر سکوں کہ ہم اُس ریاست کی حفاظت کیوں نہ کر سکے جو کروڑوں انسانوں کے خوابوں کی تعبیر تھی اور جس کے حصول کے لیے ہم نے بے حساب خون، پسینہ اور آنسو بہائے تھے۔ منافقوں کی موقع پرستی سے بھی میں بہت رنجیدہ تھا۔ میں نے ایسے بھی بہت سے لوگ دیکھے تھے جو آخری لمحات تک متحدہ پاکستان کے حامی تھے، مگر بنگلہ دیش کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ’’فاتحین‘‘ کو یقین دلانے میں مصروف ہو گئے کہ انہوں نے بھی اسی دن کا خواب دیکھا تھا۔

    میں نے ۷۱۔۱۹۷۰ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی مخالفت کی تھی۔ تاہم میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ مشرقی بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ شناخت دے کر بنگالی قوم پرستی ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے ضروری استحکام فراہم کر سکتی ہے۔ کسی بھی مسئلے کا حل مایوسی نہیں۔ ہمیں ہر حالت میں اپنے وجود پر یقین رکھنا ہے۔
    جن پر میں نے تنقید کی ہے، انہیں اگر میری زبان اور لہجے میں سختی محسوس ہو تو خیال رہے کہ میں نے یہ کتاب شدید (ذہنی و نفسیاتی) دباؤ میں لکھی تھی۔ انہیں محسوس کرنا چاہیے کہ جب خواب بکھرتے ہیں تو دل پر کیا گزرتی ہے۔ کتاب میں جابجا بیان کا خلا سا محسوس ہوگا، جس کی توضیح سے زیادہ، معذرت مناسب ہے۔ کتاب کا اختتام بھی آپ کو خاصا بے ربط سا محسوس ہوگا، اس کے لیے بھی میں معذرت خواہ ہوں۔

    کتاب میں رہ جانے والا خلا میں ۵ دسمبر ۱۹۷۳ء کو جیل سے رہائی پانے کے بعد دور کرسکتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ جیل میں رہائی کی امید کے نہ ہونے کی کیفیت میں، جو کچھ میں نے لکھا وہ گھر کی آزاد فضا میں لکھی جانے والی باتوں سے بہت مختلف ہو گا۔ میں اس کتاب میں ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کے کریک ڈاؤن میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار پر بھی پوری تفصیل سے بحث نہیں کر سکا۔ میں یہ بھی بیان نہیں کر پایا کہ اس کریک ڈاؤن کی نوعیت کیا تھی؟ پاکستانی فوج نے دسمبر ۱۹۷۰ء سے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء تک علیحدگی کی تحریک کو کچلنے کے لیے کوئی بھی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ اور پھر اچانک حرکت میں کیوں آگئی، جبکہ اس کریک ڈاؤن کے مؤثر ہونے کا خود اسے بھی کم ہی یقین تھا؟۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات پر بھی میں کھل کر روشنی نہیں ڈال سکا جو مشرقی پاکستان کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے منعقد کیے گئے تھے۔ جو شخص ۱۹۷۰ء میں زندہ و موجود رہا ہو اور اب بھی ان واقعات کو یاد کر سکتا ہو اُسے اندازہ ہو گا کہ عوامی لیگ نے انتخابات میں بھاری اکثریت پانے کے لیے کس طرح مخالفین کے خلاف بھرپور عسکری طاقت کا استعمال کیا۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد فتح سے بڑھ کر، واک اوور حاصل کرنا تھا۔ لوگوں کو یہ بھی اچھی طرح یاد ہو گا کہ کھلنا اور دیگر ساحلی علاقوں میں ۱۹۷۱ء کے خوفناک سمندری طوفان کے نتیجہ میں ایک لاکھ سے زائد ہلاکتوں کے باوجود، شیخ مجیب الرحمن نے انتخابات کے انعقاد پر اصرار کیا تھا اور یحییٰ خان کو دھمکی دی تھی کہ انتخابات شیڈول کے مطابق نہ ہوئے تو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔

    یہ اور بہت سے دوسرے واقعات مَیں اس لیے بیان نہیں کر سکا کہ ہمیں یہ عندیہ مل چکا تھا کہ ہم دسمبر ۱۹۷۳ء میں عام معافی کے تحت رہا کر دیے جائیں گے۔ پہلے میں نے یہ سوچا تھا کہ جیل سے باہر نکلنے پر مسوّدے میں اضافہ نہیں کروں گا، مگر پھر یہ سوچا کہ مشرقی پاکستان کے سقوط کا سبب بننے والے واقعات کے بارے میں رائے دینا ضروری ہے، خواہ بیان بے ربط ہی لگے۔

    ۱۹۷۵ء میں، میں سعودی عرب جانے کے لیے، پہلے لندن روانہ ہوا، اس وقت میں نے کتاب کا مسوّدہ عجلت میں ٹائپ کروا کے ایک دوست کے حوالے کر دیا۔ تاکہ یہ کہیں گم نہ ہو جائے۔ میں اپنے اس دوست کا شکر گزار ہوں کہ اس نے ۲۰ سال تک مسوّدے کو سنبھال کر رکھا۔ کہیں ۱۹۹۲ء میں جاکر مجھے اس کی اشاعت کا خیال آیا۔

    (پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی انگریزی تصنیف The Wastes of Time: Reflections on the Decline and Fall of East Pakistan کے اردو ترجمہ کے پیش لفظ سے چند پارے)

  • نظیر صدیقی کا تذکرہ جنھوں نے اردو ادب کو ‘جان پہچان’ دی!

    نظیر صدیقی کا تذکرہ جنھوں نے اردو ادب کو ‘جان پہچان’ دی!

    نظیر صدیقی اردو کے ایک اہم نثر نگار اور نقاد تھے۔ وہ انشائیہ نگار اور شاعر کی حیثیت سے بھی معروف ہیں‌۔ اردو زبان و ادب کے کم ہی طالبِ علم شاید ان کے نام اور علمی و ادبی کارناموں سے واقف ہوں گے، لیکن نظیر صدیقی کا ادبی تحقیقی کام، اور تدریس کے میدان میں ان کی کاوشیں لائقِ تحسین ہیں۔ آج پروفیسر نظیر صدیقی کی برسی ہے۔

    اردو اور انگریزی میں ایم اے کرنے والے پروفیسر نظیر صدیقی مشرقی پاکستان کی کئی جامعات اور کالجوں سے وابستہ رہے۔ 1969ء میں وہ کراچی منتقل ہوگئے تھے جہاں اسلام آباد کے وفاقی کالج برائے طلبہ سے وابستگی اختیار کی اور بعد ازاں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے منسلک ہوگئے۔ اسی جامعہ سے وہ صدر شعبۂ اردو کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ نظیر صدیقی نے نے بیجنگ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں بھی تدریس کے فرائض بھی انجام دیے تھے۔

    پروفیسر نظیر صدیقی نے 12 اپریل 2001ء کو وفات پائی اور اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیے گئے۔ نظیر صدیقی کا پورا نام محمد نظیر الدّین صدیقی تھا۔ وہ 7 نومبر 1930ء کو سرائے ساہو ضلع چھپرا بہار میں پیدا ہوئے تھے۔

    تنقید ایک مشکل کام ہے اور نثر پاروں یا کسی شاعر کے کلام پر معیاری اور مفید تنقید ہر اعتبار سے تحقیق اور محنت طلب امر ہے اور صرف اسی صورت میں‌ معیاری اور مفید مباحث سامنے آسکتے ہیں جب کوئی نقاد اس میں‌ دقّتِ نظری سے کام لے۔ پروفیسر نظیر صدیقی نے اس میدان میں‌ بڑی محنت سے مفید مباحث چھیڑے ہیں۔

    نظیر صدیقی کی انشائیہ نگاری بھی کمال کی ہے۔ ادبی حلقوں‌ نے ان کی بلند خیالی اور نکتہ رسی کو سراہا اور ان کے انشائیوں پر مشتمل کتاب ‘شہرت کی خاطر’ کو بہت پذیرائی ملی۔ اسی طرح پروفیسر نظیر صدیقی کے شخصی خاکوں کا مجموعہ ‘جان پہچان’ کے نام سے بہت مشہور ہوا۔ ادبی دنیا میں بالخصوص اس کتاب میں شامل خاکے بہت مقبول ہوئے۔ پروفسیر نظیر صدیقی نے ایک خود نوشت سوانح عمری بھی سپردِ‌ قلم کی تھی۔ ان کی یہ کتاب بعنوان ‘سو یہ ہے اپنی زندگی’ شایع ہوئی تھی۔

    اردو کے اس معروف نقاد، ادیب اور شاعر کی تنقیدی کتب میں‌ تأثرات و تعصبات، میرے خیال میں، تفہیم و تعبیر، اردو ادب کے مغربی دریچے، جدید اردو غزل ایک مطالعہ شامل ہیں جب کہ ادبی تحقیقی کتابیں اردو میں عالمی ادب کے تراجم، اقبال اینڈ رادھا کرشنن اور ایک شعری مجموعہ حسرتِ اظہار کے نام سے شایع ہوا تھا۔

  • رودبارِ انگلستان عبور کرنے والے بروجن داس کا تذکرہ

    رودبارِ انگلستان عبور کرنے والے بروجن داس کا تذکرہ

    پاکستان کے مشہور کالم نویس، مصنّف اور ڈراما نگار منو بھائی ایک مرتبہ ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) گئے تو ایئر پورٹ پر صحافیوں اور علمی و ادبی شخصیات کے درمیان بروجن داس بھی ان کے استقبال کے لیے موجود تھے اور وہی گاڑی ڈرائیو کر کے منو بھائی کو ڈھاکہ میں ان کی اگلی منزل کی طرف لے گئے تھے۔

    منو بھائی نے اپنے ایک کالم میں اس سفر کی یاد تازہ کرتے ہوئے لکھا تھا، ہم ڈھاکہ ایئرپورٹ سے پریس کلب جانے کے لیے ایک گاڑی میں سوار ہوئے تو میں نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میری گاڑی بروجن داس چلا رہے ہیں۔

    بروجن داس مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مشہور تیراک تھے جنھوں نے ملکی سطح پر کئی مقابلوں میں‌ حصّہ لیا اور متعدد ریکارڈ قائم کیے۔

    9 دسمبر 1927ء کو مشرقی بنگال کے ایک گاؤں بکرم پور میں پیدا ہونے والے بروجن داس کو کم عمری ہی میں‌ تیراکی کا شوق ہو گیا تھا۔ ایک وقت آیا جب دریا اور سمندر کی لہروں کا سامنا کرنے والے بروجن داس تند و تیز موجوں کا مقابلہ کرنے لگے۔ تیراکی کا شوق انھیں فری اسٹائل مقابلوں تک لے گیا۔ انھوں نے 1951ء سے 1957ء کے دوران تیراکی کے مقابلوں میں ریکارڈ بنائے اور اس کھیل میں نام پیدا کیا۔

    23 اگست 1958ء کو بروجن داس 14 گھنٹے 57 منٹ میں رودبارِ انگلستان عبور کرکے پہلے ایشیائی تیراک کا اعزاز اپنے نام کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ انھوں نے چھے مرتبہ اس رودبار کو عبور کیا۔

    رودبار کسی بڑے دریا، بڑی نہری گزر گاہ یا آبنائے کو کہتے ہیں۔ رودبارِ انگلستان یا انگلش چینل دراصل بحرِ اوقیانوس کا ایک حصّہ ہے جو برطانیہ کو شمالی فرانس سے جدا اور بحیرۂ شمال کو بحرِ اوقیانوس سے جوڑتا ہے۔ یہ 563 کلومیٹر طویل اور زیادہ سے زیادہ 240 کلومیٹر چوڑی رودبار ہے۔

    یہ رودبار تاریخی اعتبار سے بھی اہمیت کی حامل ہے اور کئی جنگوں کی شاہد ہے۔ ان میں قدیم اور دورِ جدید میں مختلف ممالک اور اقوام کے درمیان ہونے والی جنگیں شامل ہیں۔

    پاکستانی تیراک بروجن داس 22 ستمبر 1961ء کو ایک مرتبہ پھر رودبارِ انگلستان میں ریکارڈ بنانے کا عزم لے کر اترے اور اس مرتبہ 10 گھنٹے 35 منٹ میں اس رودبار کو عبور کرلیا اور ایک نیا عالمی ریکارڈ بنایا۔

    23 مارچ 1960 ء کو حکومتِ پاکستان نے اس ماہر تیراک کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کے بعد وہ اپنے آبائی وطن میں رہے جہاں 1997ء میں‌ کینسر کی تشخیص کے بعد علاج کی غرض سے وہ بھارت کے شہر کولکتہ چلے گئے تھے تاہم اس کے اگلے سال 1998ء میں آج ہی کے دن بروجن داس کا انتقال ہوگیا۔ ان کے جسدِ خاکی کو بنگلہ دیش منتقل کیا گیا جہاں 3 جون کو ان کی تدفین کردی گئی۔

  • تہوار، عبادت، ناچ رنگ، میلے اور حسنِ بنگال

    تہوار، عبادت، ناچ رنگ، میلے اور حسنِ بنگال

    بنگال ہمیشہ ہی سے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کے بڑے لوگوں نے اس شہر کی سیر کی۔

    قدیم روایت کا یہ شہر اپنی تہذیب و تمدن کا بہترین عکاس ہے۔ ندی، نالے، پوکھر، پھل، پھول، سبزی، کھیتی، فصل، کھان پان، قدرتی مناظر، آب و ہوا، تہوار، عبادت، ناچ رنگ، میلے اور حسنِ بنگال دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

    بنگالی بہت جذباتی اور محنت کش ہوتے ہیں۔ شاید اسی لیے ہر موقع پر لوگ سڑک پر اپنا احتجاج درج کرانے آجاتے ہیں۔ یہ ان کے جذباتی ہونے کی سب سے بڑی مثال ہے۔ رقص و موسیقی، ادب لطیف، کھان پان کے علاوہ تجارت و ملازمت کے لیے بھی یہ شہر ہمیشہ ہی سے لوگوں کی توجہ کا خاص مرکز رہا ہے۔ اپنی عظیم شخصیات کا کس طرح سے اعتراف کیا جائے، یہ اہل بنگال سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ٹیگور کی قدر دانی اس کا بیّن ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ بھی بنگال اور اہل بنگال اپنی گونا گوں خصوصیات کی بنا پر عالمی منظر نامے پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔

    صنعتی علاقے ہوں یا پھر شہری علاقے، یہاں کی تہذیب گاؤں دیہات سے مختلف ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صنعتی علاقے اور شہروں میں مختلف جگہوں کے لوگ بستے ہیں، اس لیے ان میں اصل تہذیب و تمدن کی جھلک ذرا کم ہی نظر آتی ہے۔ اسی طرح سے بنگلہ تہذیب و تمدن سے اسی وقت آگاہی حاصل کی جا سکتی ہے، جب بنگال کے گاؤں دیہات کا سفر کیا جائے۔ نہ صرف بنگال کا بلکہ پورے ہندوستان میں تہذیب و تمدن کا گہرا تعلق دیہات سے ہے۔ کھان پان، ناٹک اور اس طرح کی دیگر چیزوں کو اصل روپ میں دیہات میں ہی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

    بنگال کے مناظر، ندی نالے، چرند پرند، دھان اور پاٹ کے کھیت، اسٹیمر، لانچ اور ناؤ میں سفر، مانجھی کی زندگی اور اس کے پُرسوز بھاٹیالی نغموں کا ذکر اور دیہات کی صبح و شام، شب و روز کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ذیل میں چند اہم خصوصیات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

    ندی، نالے اور پوکھر:
    بنگال میں ندی، نالے اور پوکھر انسانی زندگیوں کے لیے ناگزیر ہیں۔ بنگالیوں کا اصل کھان پان کا تصور پانی کے بغیر ہے ہی نہیں۔ کیوں کہ ان کا اصل کھان پان مچھلی اور بھات ہے۔ مچھلی اور چاول کا پورا دار و مدار پانی سے ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے یہاں ندی، نالے اور پوکھر کی بہت اہمیت ہے۔ شہر سے دور کے علاقے میں سڑک کے کنارے چھوٹے چھوٹے مکانات کے آگے یا پیچھے، دائیں یا بائیں جہاں بھی مناسب جگہ ہو، ایک چھوٹا سا پوکھر ضرور ہوتا ہے۔ جس میں مچھلیاں پالی جاتی ہیں۔ بنگالی اس کا بہت اہتمام کرتے ہیں۔ اسی لیے یہ لوگ مہمانوں کے سامنے تازہ مچھلی پیش کرتے ہیں۔ جہاں یہ ان کی پسندیدہ غذا ہے، وہیں آسانی سے دستیاب بھی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح سے پوکھر کے ارد گرد یا جہاں بھی دوچار درخت لگانے کی جگہ ہو، پورے بنگال میں کیلے، آم ، ناریل اور سپاری کے درخت ہوں گے۔ ان میں سے اگر کچھ نہیں ہوگا تو پانس کے جھنڈ ضرور ہوں گے۔ کیلے اس لیے لگاتے ہیں کہ کچے کیلے سے سبزی بنا لیتے ہیں۔ اسی لیے اسے پانی کا دیش بھی کہا جاتا ہے۔

    پھل، پھول اور سبزی:
    بنگال کے میوے کی کئی بڑے لوگوں نے تعریف کی ہے۔ اس ضمن میں مرزا غالب کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ غالب نے بنگال کے میوہ کا اپنے خطوط میں بھی ذکر کیا ہے۔ ڈاب (ناریل کا پانی) اور آم (ہگلی کا آم) کا بہت سے شعرا و ادبا نے اپنی تخلیق میں ذکر کیا ہے۔ یہاں کے باغات اور پھلوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ بنگال کے حسن کو سپاری اور ناریل کے درختوں کے بغیر کیسے مکمل سمجھا جا سکتا ہے۔

    کھیتی، فصل اور کھان پان:
    بنگال کی پیداوار میں دھان خاص ہے، اس کے علاوہ پاٹ بھی ہے۔ پہاڑی علاقے چائے کے باغات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ بنگالیوں کی پسندیدہ غذا بھات (چاول) اور مچھلی ہے، جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں کا ’رس گلا‘ بہت مشہور ہے۔ اس کے علاوہ بنگالی پان بھی خوب کھاتے ہیں۔ یوں تو پان بنارس (بنارسی پان) کا مشہور ہے۔ لیکن ’بنگلہ پان‘ بھی یوپی، بہار اور ملک کے دوسرے حصے میں مشہور ہے۔ ظاہر ہے کہ بنگلہ تہذیب وتمدن کا ذکر ہو اور ان سب چیزوں کا ذکر نہ کیا جائے تو بنگلہ تمدن مکمل نہیں گردانا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے تہواروں، پوجا پاٹ اور رسم و رواج میں ان چیزوں کا خوب استعمال ہوتا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان سب کے بغیر کسی بھی قسم کی تقریب مکمل نہیں سمجھی جا سکتی۔ اس کو اس طرح سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ’پان، سپاری‘ کے بغیر لکشمی دیوی کی پوجا نہیں ہوتی۔ اسی طرح سے دھان کی بالیاں بھی پوجا کا اہم حصہ ہوتی ہیں، مچھلی ہر تہوار کا اہم حصہ ہے، جب کہ شادی بیاہ کا تصور وہاں کے’رس گلے‘ کے بغیرنہیں کیا جاسکتا۔ یہ عام بات ہے کہ کسی بھی دیش، پردیش کی پیداوار کا تعلق وہاں کے تہذیب و تمدن سے بہت گہرا ہوتا ہے۔

    تہوار، عبادت، ناچ رنگ اور میلے:
    گاؤں کی’’لیٹو‘‘ ٹولیاں بنگلہ تہذیب و تمدن کی جیتی جاگتی مثال ہے۔’’لیٹو‘‘ (بنگال کے دیہات میںڈراموں کے معنی میں استعمال ہوتا ہے) میں گاؤں دیہات کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ فنی خوبیوں کی مہارت بعض حالت میں کم سن کو بھی لیٹو کا قائد بنا دیتی ہے۔ قاضی نذرُالاسلام کم عمر(چودہ برس) میں ہی اپنی ٹولی کے قائد بن گئے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ گیت کار کے ساتھ ساتھ ایک اچھے گائیک بھی تھے۔ اس ضمن میں انہوں نے کتھا بھی تخلیق کی۔ اور انہیں مناسب ’’سُر‘‘ بھی دیا۔ وہ بانسری اور دوسرے آلاتِ موسیقی بڑی آسانی سے بجا لیتے تھے۔

    جو ’لیٹو‘ ٹولیاں لوگوں کی توجہ کا خاص مرکز تھیں۔ اب اس میں لوگوں کی دل چسپی بہت کم ہوگئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ چیزوں کا آسانی سے میسر ہونا ہے۔ ورنہ ایک زمانے میں یہ لیٹو ٹولیاں لوگوں کی دل چسپی کا نہ صرف سامان ہوتی تھیں، بلکہ بنگلہ کے مختلف حصّوں کی بھرپور نمائندگی ہوتی تھی۔ لیکن ترقی نے ان سب کو اس طرح سے نگل لیا کہ اب ان کا ذکر ہی ہوتا ہے یا پھر کبھی کبھی عملی صورت میں کہیں نظر آ جاتا ہے۔

    (ڈاکٹر شاہ نواز فیاض،نئی دہلی کے قلم سے)

  • شہناز بیگم: مشرقی پاکستان کی پہلی گلوکارہ جنھوں نے اردو میں ملّی نغمات پیش کیے

    شہناز بیگم: مشرقی پاکستان کی پہلی گلوکارہ جنھوں نے اردو میں ملّی نغمات پیش کیے

    پاکستان میں‌ شہناز بیگم کا نام اور ان کی مسحور کن آواز اردو زبان میں‌ ان کے گائے ہوئے ملّی نغمات کی وجہ سے آج بھی مقبول ہے۔ اس گلوکارہ کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا جو بنگلہ دیش بن جانے کے بعد اپنے آبائی وطن منتقل ہوگئی تھیں۔

    یہ اتفاق ہے کہ پاکستان کے ملّی نغمے گانے والی اس مشہور گلوکارہ کی تاریخِ وفات 23 مارچ ہے جب قراردادِ پاکستان پیش کی گئی تھی۔

    2019ء میں‌ وفات پانے والی شہناز بیگم مشرقی پاکستان کی وہ پہلی گلوکارہ تھیں جنھوں نے اردو زبان میں ملّی نغمات کو اپنی آواز دی اور لازوال شہرت حاصل کی۔ انھوں‌ نے شہنشاہِ غزل مہدی حسن سے گلوکاری کے اسرار و رموز سیکھے تھے۔

    سابق مشرقی پاکستان کی شہناز بیگم کی پُراثر آواز آج بھی ارضِ پاک کی فضاؤں میں سنائی دیتی ہے اور ان کے گائے ہوئے قومی نغمات ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر ہوتے ہیں۔ خوب صورت شاعری اور گلوکارہ کی دل پذیر آواز ہر قومی دن پر گلی گلی اور ہر تقریب میں‌ ہماری سماعتوں کو لطف و سرور اور سرشاری عطا کرتی ہے۔ شہناز بیگم جب بھی پاکستان آتیں تو ان سے قومی نغمات ”جیوے جیوے پاکستان، اور ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے” سنانے کی فرمائش کی جاتی جسے وہ ضرور پورا کرتیں۔ اس پر وہ بنگلہ دیش میں مطعون بھی کی جاتیں اور انھیں غدارِ وطن بھی کہا گیا، مگر جن نغمات نے انھیں شہرت اور جن لوگوں‌ نے انھیں‌ عزّت اور پیار دیا، ان کی فرمائش ٹالنا شاید ان کے لیے ممکن نہیں‌ تھا۔

    شہناز بیگم کا اصل نام شہناز رحمت اللہ تھا جو 1952ء کو مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ شہناز بیگم نے اسکول کے زمانے میں گانا شروع کردیا تھا۔ وہ دس سال کی تھیں جب ریڈیو پاکستان، ڈھاکہ اسٹیشن سے ایک پروگرام کا حصّہ بنیں اور بنگلہ زبان میں پاکستانی قومی نغمہ گایا۔ 65ء کی جنگ میں بھی انھوں نے اپنی آواز میں‌ گانے ریکارڈ کروائے اور خوب داد و تحسین وصول کی۔

    ڈھاکہ میں حالات شدید خراب ہوئے تو شہناز بیگم کراچی منتقل ہوگئیں اور یہاں ” جییں تو اس دھرتی کے ناتے، مریں تو اس کے نام” جیسا خوب صورت نغمہ گایا۔ شہناز بیگم نے 1971ء میں بھارت کے مشرقی پاکستان پر حملے کے بعد کراچی میں ریڈیو سے مہدی حسن خاں کے ساتھ مل کر نغمۂ یکجہتی گایا جس کے اشعار یہ تھے:

    پاک زمیں کے سارے ساتھی، سارے ہم دَم ایک ہیں
    پورب پچھم دور نہیں ہیں، پورب پچھم ایک ہیں
    وہ سلہٹ ہو یا خیبر ہو، سُندر بن ہو یا کشمیر
    ہم دونوں کا ایک وطن ہے اِک نظریہ اک تقدیر

    اس گلوکارہ کی آواز میں پاکستان ٹیلی ویژن پر قومی نغمہ ”وطن کی مٹی گواہ رہنا” سب سے پہلے گونجا تھا۔ جنگ کے بعد بھی شہناز بیگم نے ایک بار پھر حبُ الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے صہبا اختر کا تحریر کردہ نغمہ ” آیا نیا زمانہ آیا ، بھیا بھول نہ جانا، پاکستان بچانا” گا کر ہم وطنوں کا دل جیت لیا۔

    ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے” وہ گیت تھا جسے پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے پہلا انعام دیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ پاکستانی عوام اس عظیم گلوکارہ کو نہیں بھولے ہیں۔

    یہ منفرد قومی نغمہ "موج بڑھے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے” کس نے نہیں‌ سنا ہو گا۔ آج بھی شہناز بیگم کی آواز میں یہ شاعری دلوں کو گرماتی اور جوش و ولولہ بڑھاتی ہے۔

  • بھارتی فوج نے مکتی باہنی کا ساتھ دیا، نریندرمودی کا اعتراف

    بھارتی فوج نے مکتی باہنی کا ساتھ دیا، نریندرمودی کا اعتراف

    بنگلہ دیش : سقوط ڈھاکہ کے اصل مجرم نے آخر کار اقرار جرم کرلیا ہے، نریندرمودی کو کرارا جواب دینے کے لئے پاکستان کے پاس کچھ بھی نہیں۔

    بنگلہ دیش میں اپنے خطاب کے دوران بھارتی وزیراعظم مودی نے بھارتی جرائم کا اعتراف کرلیا کہ مکتی باہنی کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان میں مظالم ڈھانے میں بھارتی فوج کا ہاتھ تھا  اور بنگلہ دیش بننے کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد کی۔

    مودی کے بیان سے ثابت ہوگیا کہ مشرقی پاکستان میں دہشتگردی اور مسلح جتھوں کو بھارتی مدد حاصل تھی، جنہوں نے حالات خراب کئے۔

    بھارتی وزیرِاعظم کے بیان کو کئی گھنٹے گزرنے پر بھی پاکستانی وزارتِ خارجہ کے کان پر جوں نہ رینگی۔

    بھارتی وزیرِدفاع نےابھی کچھ دن پہلے بھی کہا تھا کہ مبینہ دہشتگردی کودہشتگردوں کے زریعے ختم کریں گے، بھارت کی دہشتگردی کی داستان مشرق پاکستان سے بلوچستان تک پھیلی ہوئی ہے۔

    بنگلادیش میں سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو بنگلادیش کی آزادی میں فعال کردار ادا کرنے کے لئے “بنگلادیش لبریشن وار آنر” سے نوازا گیا اور نریندر مودی نے واجپائی کے لئے یہ اعزاز بنگلادیشی صدر عبدالحمید کے ہاتھ سے وصول کیا۔

    نریندر مودی نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش کا قیام میں بھارتی شہریوں نے بھی کردار ادا کیا ہے۔

  • پاکستان بھر میں مشرقی پاکستان کی یاد میں آج سقوط ڈھاکہ منایا جارہا ہے

    پاکستان بھر میں مشرقی پاکستان کی یاد میں آج سقوط ڈھاکہ منایا جارہا ہے

    اسلام آباد: سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کے سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد میں آج پاکستان بھر میں یوم سقوط ڈھاکہ منایا جارہا ہے۔

    بنگلہ دیش کی جنگ آزادی، جسے بنگال میں مکتی جدھو اور پاکستان میں سقوط مشرقی پاکستان یا سقوط ڈھاکہ کہا جاتا ہے، پاکستان کے دو بازوؤں یعنی مشرقی و مغربی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ تھی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ا بھرا۔

    تینتالیس برس قبل مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے ملک کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ شیخ مجیب الرحمن کی مدد سے مکتی باہنی کے نام پر بھارت نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کی اور پھر حکومتِ وقت کیخلاف بغاوت کی فضا پیدا کرکے مغربی پاکستان پر بھی جنگ مسلط کر دی گئی۔

    جنگ کا آغاز 26 مارچ 1971ء کو حریت پسندوں، گوریلا گروہ اور تربیت یافتہ فوجیوں (جنہیں مجموعی طور پر مکتی باہنی کہا جاتا ہے) نے عسکری کاروائیاں شروع کیں اور پاکستان کی افواج اور وفاق پاکستان کے حکام اور وفادار اہلکاروں کا قتل عام شروع کیا۔

    مارچ سے لے کے سقوط ڈھاکہ تک تمام عرصے میں بھارت بھرپور انداز میں مکتی باہنی اور دیگر گروہوں کو عسکری، مالی اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا یہاں تک کے بالآخر دسمبر میں مشرقی پاکستان کی حدود میں گھس کر اس نے 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں افواج پاکستان کو محصور کردیا اور افواجِ پاکستان کو بھارت کے آگئے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا گیا۔

    بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے نتیجے میں پاکستان رقبے اور آبادی دونوں کے لحاظ سے بلاد اسلامیہ کی سب سے بڑی ریاست کے اعزاز سے محروم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب جاننے کے لیے پاکستان میں اس کی حکومت نے ایک کمیشن تشکیل دیا جسے حمود الرحمٰن کمیشن کے نام سے جانا جاتا ہے، کمیشن کی رپورٹ میں ان تمام وجوہات اور واقعات کو رپورٹ کا حصہ بنایا گیا جس کے باعث سقوط ڈھاکہ ہو ا تھا۔

    آج کے ہی دن جنرل نیازی نے بھارتی جنرل اروڑا کے سامنے اپنا ریوالور رکھ کر پاک فوج کے ہتھیار پھینکنے کا باضابطہ اعلان کر دیا تھا۔ چار دہائیاں گزر جانے کے باوجود اہل وطن کے دلوں میں اس دن کی تکلیف اور اذیت زندہ ہے۔