Tag: مشعال خان

  • مشعال قتل کیس: ملزمان کی درخواست ضمانت خارج

    مشعال قتل کیس: ملزمان کی درخواست ضمانت خارج

    پشاور: مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں بہیمانہ طور پر قتل کیے جانے والے مشعال خان قتل کیس کے 2 ملزمان کی درخواست ضمانت خارج کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق مشعال قتل کیس میں گرفتار 2 ملزمان کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔ ملزم صابر مایار اور اظہار اللہ عرف جونی کی درخواست ضمانت کو خارج کردیا گیا۔

    پشاور ہائیکورٹ نے ملزمان کا ٹرائل 2 ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے پراسیکیوشن کو 15 دن میں چالان پیش کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

    واضح رہے کہ مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے مشعال خان کو گزشتہ سال 13 اپریل کو طالب علموں کے جم غفیر نے یونیورسٹی کمپلیکس میں اہانت مذہب کا الزام عائد کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولی مار کر قتل کردیا تھا۔

    مشعال خان قتل پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا اور سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ جو مشعال کے ساتھ ہوا، کسی اسلامی ملک میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔

    کیس مکمل ہونے کے بعد عدالت نے ایک ملزم عمران کو سزائے موت جبکہ 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا کا حکم دیا تھا۔

    مشعال خان قتل کیس میں 57 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جن میں سے 26 ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا ہے جبکہ دیگر 25 ملزمان کو 4، 4 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

    اس وقت کی خیبر پختونخواہ کی حکومت اور مشعال کے اہلخانہ نے بری ہونے والے ملزمان کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کیا تھا۔

    مزید پڑھیں: مشعال قتل کیس میں رہائی پانے والے 26 ملزمان کے خلاف اپیل

  • مشعال قتل کیس: رہا ہونے والے 26 افراد سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری

    مشعال قتل کیس: رہا ہونے والے 26 افراد سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری

    پشاور: مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں توہین مذہب کا الزام لگا کر مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے طالبعلم مشعال کے قتل کیس کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کو سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا۔ عدالت نے رہا ہونے والے 26 افراد سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق مشعال قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت ایبٹ آباد کے فیصلے کے خلاف صوبائی حکومت اور مشعال کے والد کی طرف سے دائر اپیلوں پر پشاور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔

    کیس کی سماعت جسٹس قلندر علی خان اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کی۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل میاں ارشد جان نے عدالت کو بتایا کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے واقعے میں ملوث ملزمان کو کچھ سیکشن میں بری کیا ہے ملزمان کو ان سیکشن میں بھی سزا دی جائے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ جن 26 افراد کو بری کیا گیا وہ بھی واقعے کے وقت وہاں پر موجود تھے۔ جائے وقوع کی ویڈیو اور فوٹیج میں ان افراد کو دیکھا جاسکتا ہے۔

    مشعال کے والد کے وکیل ایڈوکیٹ ایاز خان نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزمان کو جن سیکشن میں بری کیا گیا ان سیکشن میں سزا دی جائے۔

    عدالت نے صوبائی حکومت اور مشعال کے والد کی جانب سے دائر اپیلیں باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے رہا ہونے والے 26 افراد سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔

    یاد رہے کہ مشعال قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت ایبٹ آباد نے مرکزی ملزم عمران کو پھانسی، 5 ملزمان کو عمر قید، 25 کو چار سال قید اور 26 ملزمان کو بری کردیا تھا۔

    بعد ازاں مجرم عمران علی سمیت دیگر نے انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ چیلنج کرتے ہوئے ہائیکورٹ رجسٹری میں درخواست دائر کی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ عدالت نے بغیر ویڈیو اور گواہ کے سزا کا فیصلہ سنایا جو غیر قانونی ہے۔

    دوسری جانب مقتول مشعال کے اہل خانہ اور خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے بھی فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے مختلف درخواستیں دائر کی گئیں جن میں رہا ہونے والے ملزمان کو بھی سزا دینے کی استدعا کی گئی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مشعال قتل کیس: رہائی پانے والے 26 ملزمان کے خلاف اپیل دائر

    مشعال قتل کیس: رہائی پانے والے 26 ملزمان کے خلاف اپیل دائر

    پشاور: مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں توہین مذہب کا الزام لگا کر مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے طالبعلم مشعال کے قتل کیس میں رہائی پانے والے 26 ملزمان کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق مشعال کے بھائی نے کیس میں رہائی پانے والے 26 ملزمان کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کردی ہے۔ ہائیکورٹ میں دائر کی گئی اپیل میں بری کیے گئے ملزمان کو سزا کی استدعا کی گئی ہے۔

    اپیل میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ شہادتوں کا موازنہ درست اور صحیح طریقے سے نہیں کیا گیا۔ مشعال قتل کی ویڈیوز میں ملزمان کی نشاندہی باآسانی کی جا سکتی ہے، ان ملزمان کو بری کرنے سے عدالت نے فیصلے میں ابہام پیدا کیا۔

    اپیل میں کہا گیا کہ رہائی پانے والے ملزمان نے مردان انٹرچینج پہنچنے پر اعتراف جرم کیا کہ مشعال کو ہم نے قتل کیا۔

    اپیل میں استدعا کی گئی کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر بری ہونے والے ملزمان کو سزائیں دی جائیں۔

    ہائیکورٹ میں اپیل محمد ایاز خان ایڈوکیٹ، فضل خان ایڈوکیٹ، شہاب خٹک اور بیرسٹر امیراللہ خان چمکنی کی وساطت سے دائر کی گئی ہے۔

    یاد رہے کہ مشعال قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت ایبٹ آباد نے مرکزی ملزم عمران کو پھانسی، 5 ملزمان کو عمر قید، 25 کو چار سال قید اور 26 ملزمان کو بری کردیا تھا۔

    انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے خلاف مرحلہ وار پانچ اور اپیلیں بھی ہائی کورٹ میں دائر کی جائیں گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مشعال کیس کا فیصلہ تاریخی ہے، انسداد پولیومہم میں مولانا سمیع الحق نے ہماراساتھ دیا: پرویز خٹک

    مشعال کیس کا فیصلہ تاریخی ہے، انسداد پولیومہم میں مولانا سمیع الحق نے ہماراساتھ دیا: پرویز خٹک

    کراچی: وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ عمران خان نے کبھی سیاسی جلسوں کے لیے حکومتی ہیلی کاپٹر استعمال نہیں کیا.

    ان خیالات کا اظہار انھوں‌ نے اے آر وائی کے پروگرام اعتراض‌ میں‌ گفتگو کرتے ہوئے کیا. ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ہیلی کاپٹر صوبائی حکومت کی تقریبات کے لیے استعمال کیا.

    ان کا کہنا تھا کہ مشعال کیس کا فیصلہ تاریخی اہمیت رکھتا ہے، ایسا فیصلہ ملکی تاریخ‌ میں کسی کیس میں نہیں ہوا، مشعال کے اہل خانہ نے یہ نہیں کہا کہ ہم غیرمطمئن ہیں، بلکہ یہ کہا کہ باقی ملزمان کو بھی سزا ہونی چاہیے.

    انھوں‌ نے بری ہونے والے افراد کے استقبال پر کہا کہ مشعال کیس میں 57 لوگ نامزدتھے، سیاسی وابستگیاں ہوسکتی ہیں، سیاسی لوگوں نےاستقبال کیا ہے، ہم اس معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں. حلفیہ کہتاہوں کوئی کسی ملزم کی مدد نہیں کرسکتا.

    مشعال خان کیس: ایک ملزم کو سزائے موت، 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا

    ایک سوال کے جواب میں‌ انھوں‌ نے کہا کہ کوہاٹ کیس کےملزم کےریڈ وارنٹ نکل چکے ہیں، پولیس کی کہیں کوتاہی نہیں عاصمہ کی بہن پرکسی نے دباؤ ڈالا، تو انھیں بتایا جائے.

    اسما زیادتی کیس میں رانا ثنا اللہ کے بیان پر انھوں نے کہا کہ لیبارٹریزملک کی ہیں، راناثنااللہ نےنہیں بنائیں، ہماری لیبارٹری فعال نہیں تھی، اب ہوگئی ہے۔

    جہانگیر ترین کو صادق اور امین سمجھتا ہوں: پرویز خٹک

    ان کا کہنا تھا کہ انسداد پولیومہم میں مولانا سمیع الحق نے ہماراساتھ دیا، مولاناسمیع الحق حق کی بات کرتے ہیں، ان سے پرانا تعلق ہے

    پرویز خٹک نے کہا کہ صوبے میں 30 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنےکی صلاحیت ہے، میٹرو پشاور کے اسٹرکچرکی قیمت 28 ارب روپے ہے، اس کی نسبت آج سے10 سال پہلے پنجاب میں مکمل ہونے والی میٹرو کے اسٹرکچر پر31 ارب لاگت آئی تھی.


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مشعال خان قتل کیس: ایک ملزم کو سزائے موت، 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا

    مشعال خان قتل کیس: ایک ملزم کو سزائے موت، 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا

    ہری پور: مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں بہیمانہ طور پر قتل کیے جانے والے مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ واقعے میں ملوث ایک ملزم کو سزائے موت اور 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا کا حکم سنایا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ ایبٹ آباد انسداد دہشت گردی عدالت کے جج فضل سبحان نے سینٹرل جیل ہری پور میں سنایا۔ عدالت نے 30 جنوری کو مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جبکہ عدالت کے سامنے تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔

    عدالت نے ایک ملزم عمران کو سزائے موت جبکہ 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا کا حکم دیا ہے۔ مشعال خان قتل کیس میں 57 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جن میں سے 26 ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا ہے جبکہ دیگر 25 ملزمان کو 4، 4 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

    سزائے موت کے ملزم عمران پر تشدد کے بعد مشعال پر فائرنگ کا الزام تھا۔ عمران مشعال خان کا ہم جماعت طالب علم تھا۔

    سیکیورٹی خدشات پر سینٹرل جیل میں آج تمام قیدیوں کی ملاقات بند کردی گئی جبکہ سینٹرل جیل سیکیورٹی کے لیے پولیس کی جانب سے غیر معمولی اقدامات کیے گئے ہیں۔

    جیل کی سیکورٹی کے لیے 250 پولیس اہلکار تعینات ہوں گے۔ جیل کے راستوں پر ناکہ بندی کر کے مکمل تلاشی کا عمل جاری ہے۔

    مشعال خان قتل کیس کے فیصلے کے دن مشعال خان کے گھر پر بھی سخت سیکیورٹی  انتظامات کیے گئے تھے۔ مشعال کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے وہ عدالت نہیں جاسکے۔

    خیال رہے کہ عدالت نے اس کیس میں گواہان، مشعال کے والد اقبال خان، ملزمان کے بیانات اور وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ کیس میں مشعال کے والد اور استغاثہ کے وکیل سردار عبدالرؤف ایڈووکیٹ نے چیف پراسیکیوٹر کے طور پر بھی عدالتی معاونت کی۔

    مزید پڑھیں:  مشعال قتل کیس میں 57 ملزمان پر فرد جرم عائد

    پشاور ہائیکورٹ کے حکم پر یہ کیس ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں منتقل ہوا تھا۔

    مشعال خان قتل کیس میں 50 گواہان نے بیانات قلم بند کروائے ہیں۔ کل 61 ملزمان میں سے 58 ملزمان گرفتار اور 3 مفرور ہیں جب کہ تمام ملزمان کی درخواست ضمانت کی اپیلیں بھی مسترد ہوچکی ہیں۔

    واضح رہے کہ مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے مشعال خان کو گزشتہ سال 13 اپریل کو طالب علموں کے جم غفیر نے یونیورسٹی کمپلیکس میں اہانت مذہب کا الزام عائد کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولی مار کر قتل کردیا تھا۔

    مشعال خان قتل پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا اور سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ جو مشعال کے ساتھ ہوا، کسی اسلامی ملک میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔

    مشعال خان کے والد اقبال خان نے کیس کو ایبٹ آباد منتقل کرنے کی درخواست کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مشعال قتل کیس حساس نوعیت کا ہے اور اب بھی دھمکیاں مل رہی ہیں اس لیے کیس کا ٹرائل سینٹرل جیل میں کیا جائے۔

    انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ بیٹیوں کو تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے لہٰذا ہمیں اسلام آباد منتقل کیا جائے جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے مشعال قتل کیس مردان سے ہری پور جیل کی انسداد دہشت گردی کی عدالت منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مشعال کی قتل گاہ بننے والا یونیورسٹی کا گارڈن کیمپس کھول دیا گیا

    مشعال کی قتل گاہ بننے والا یونیورسٹی کا گارڈن کیمپس کھول دیا گیا

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مردان میں عبد الولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل کے بعد یونیورسٹی کا گارڈن کیمپس بھی کھول دیا گیا۔ جامعہ میں پولیس کی نفری تعینات ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مشعال خان کے لیے قتل گاہ بننے والا عبد الولی خان یونیورسٹی کا گارڈن کیمپس ایک بار پھر سے کھول دیا گیا۔ 42 روز قبل مشعال کو اسی مقام پر بے دردی سےقتل کیا گیا تھا۔

    گارڈن کیمپس میں 42 روز بعد تدریسی عمل بحال ہوا تو سیکیورٹی کے کڑے انتظامات دیکھنے میں آئے۔

    مزید پڑھیں: مشعال خان سے نظریاتی اختلاف تھا

    کسی بھی نا خوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے کیمپس کے اندر اور باہر پولیس تعینات ہے۔ دفعہ 144 کے تحت طلبا کے اجتماعات، سیاسی سرگرمیوں اور دیگر پروگرامز پر پابندی عائد ہے۔

    اس سے قبل یونیورسٹی کے دیگر کیمپسز مشال کے چہلم کے بعد کھول دیے گئے تھے۔

    یاد رہے کہ 13 اپریل کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    مشعال پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تاہم چند روز بعد انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بتایا کہ مشعال کے خلاف توہین رسالت سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔

    مزید پڑھیں: توہین مذہب کا الزام عائد کرنے والوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، امام کعبہ

    بعد ازاں کیس کے مرکزی ملزم وجاہت نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے واقعے کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی پر ڈال دی تھی۔ ملزم کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے جامعہ کی انتظامیہ نے کہا تھا۔

    ملزم کے مطابق انتظامیہ نے اسے کہا کہ مشعال اور ساتھیوں نے توہین رسالت کی ہے جس پر ملزم نے یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر طالب علموں کے سامنے مشعال اور ساتھیوں کے خلاف تقریر کی، تقریر میں کہا کہ ہم نے مشعال، عبداللہ اور زبیر کو توہین کرتے سنا ہے۔

    مشعال کے قتل کے خلاف قومی اسمبلی میں بھی مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

    مشعال کے قتل میں ملوث ملزمان پولیس کی تحویل میں ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مشعال خان سے نظریاتی اختلاف تھا: مرکزی ملزم کا اعتراف جرم

    مشعال خان سے نظریاتی اختلاف تھا: مرکزی ملزم کا اعتراف جرم

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مردان میں عبد الولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل کے مرکزی ملزم عمران علی نے عدالت میں اعترافی بیان ریکارڈ کروا دیا۔ ملزم کو 2 روز قبل گرفتار کیا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق طالب علم مشعال خان کو قتل کرنے والے مرکزی ملزم عمران علی نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔

    مشعال قتل کیس میں گرفتار مرکزی ملزم عمران علی کو سینئر سول جج کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اس نے اپنا اعترافی بیان ریکارڈ کروایا۔ بیان میں اس نے کہا کہ مشعال میرا کلاس فیلو تھا۔ مشعال کے نظریات سے اختلاف تھا۔

    یاد رہے کہ عمران علی کو دو روز قبل گرفتار کیا گیا تھا۔ عمران نے ابتدائی تفتیش کے دوران ہی جرم کا اعتراف کرلیا تھا۔

    مشعال کے قتل میں مطلوب 47 افراد قانون کی حراست میں ہیں جبکہ 2 مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

    یاد رہے کہ 13 اپریل کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    مشعال پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تاہم چند روز بعد انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بتایا کہ مشعال کے خلاف توہین رسالت سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔

    مزید پڑھیں: توہین مذہب کا الزام عائد کرنے والوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، امام کعبہ

    بعد ازاں کیس کے مرکزی ملزم وجاہت نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے واقعے کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی پر ڈال دی تھی۔ ملزم کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے جامعہ کی انتظامیہ نے کہا تھا۔

    ملزم کے مطابق انتظامیہ نے اسے کہا کہ مشعال اور ساتھیوں نے توہین رسالت کی ہے جس پر ملزم نے یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر طالب علموں کے سامنے مشعال اور ساتھیوں کے خلاف تقریر کی، تقریر میں کہا کہ ہم نے مشعال، عبداللہ اور زبیر کو توہین کرتے سنا ہے۔

    مشعال کے قتل کے خلاف قومی اسمبلی میں بھی مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

    دوسری جانب چند روز قبل سپریم کورٹ میں مشعال خان کے قتل کی ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت نے پشاور ہائیکورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے سے روک دیا۔ آئی جی خیبر پختونخواہ نے مکمل رپورٹ مرتب کرنے کے لیے مزید مہلت مانگ لی۔

  • مشعال خان کے قتل میں ملوث مزید 2 ملزمان گرفتار

    مشعال خان کے قتل میں ملوث مزید 2 ملزمان گرفتار

    مردان: صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مردان میں عبد الولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل کے الزام میں مزید 2 ملزمان گرفتار کرلیے گئے۔ کیس میں گرفتار ملزمان کی تعداد 36ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق عبد الولی خان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم مشعال کے قتل کیس میں پیشرفت جاری ہے۔ پولیس نے مزید 2 ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزم اشفاق خلجی کو ویڈیو کے ذریعے شناخت کیا گیا۔ مشعال قتل کیس میں سیکیورٹی انچارج بلال بخش سمیت گرفتار ملزمان کی تعداد 36 ہوگئی ہے۔

    یاد رہے چند روز قبل مشعال کے قتل کے حوالے سے کچھ ویڈیوز بھی منظر عام پر آچکی ہیں جن میں سے کچھ قتل سے پہلے اور کچھ قتل کے بعد کی ہے۔

    ایک ویڈیو قتل سے پہلے کی ہے جس میں مشتعل ہجوم مشعال کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ دوسری ویڈیو میں قتل کے بعد یونیورسٹی کے طالب علموں کا جتھا ایک دوسرے کو مبارکباد دیتا اور ایک دوسرے سے قاتل کا نام نہ بتانے کا حلف لیتا دکھائی دے رہا ہے۔

    ایک اور ویڈیو میں مشتعل طلبا یونیورسٹی سے باہر جانے والی گاڑیوں میں مشعال کی لاش تلاش کر رہے ہیں تاکہ بہیمانہ تشدد سے اسے موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد اس کی لاش کو بھی جلا دیا جائے۔

    مجسٹریٹ کے سامنے ایک ملز م سدیس نے اعتراف جرم کرلیا تاہم 7 ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا ہے۔ مشعال قتل کیس کے مرکزی ملزمان تاحال گرفتار نہیں کیے جاسکے۔

    یاد رہے کہ 13 اپریل کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    مشعال پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تاہم چند روز بعد انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بتایا کہ مشعال کے خلاف توہین رسالت سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔

    مزید پڑھیں: توہین مذہب کا الزام عائد کرنے والوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، امام کعبہ

    بعد ازاں کیس کے مرکزی ملزم وجاہت نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے واقعے کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی پر ڈال دی تھی۔ ملزم کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے جامعہ کی انتظامیہ نے کہا تھا۔

    ملزم کے مطابق انتظامیہ نے اسے کہا کہ مشعال اور ساتھیوں نے توہین رسالت کی ہے جس پر ملزم نے یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر طالب علموں کے سامنے مشعال اور ساتھیوں کے خلاف تقریر کی، تقریر میں کہا کہ ہم نے مشعال، عبداللہ اور زبیر کو توہین کرتے سنا ہے۔

    مشعال کے قتل کے خلاف قومی اسمبلی میں بھی مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

    دوسری جانب چند روز قبل سپریم کورٹ میں مشعال خان کے قتل کی ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت نے پشاور ہائیکورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے سے روک دیا۔ آئی جی خیبر پختونخواہ نے مکمل رپورٹ مرتب کرنے کے لیے مزید مہلت مانگ لی۔

  • مشعال کے قتل کے بعد مشتعل ہجوم کی گاڑیوں کی تلاشی

    مشعال کے قتل کے بعد مشتعل ہجوم کی گاڑیوں کی تلاشی

    مردان: صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل سے متعلق ایک اور ویڈیو منظر عام پر آگئی۔ قتل کے بعد مشتعل ہجوم پولیس کی موجودگی میں مشعال کی لاش ڈھونڈنے کے لیے گاڑیوں کی تلاشی لیتا رہا۔

    مشعال کے قاتلوں کو نوجوان کی جان لینے کے بعد بھی قرار نہ آیا۔ مشعال کے قتل سے متعلق ایک اور ویڈیو منظر عام پر آگئی۔

    فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر مشتعل ہجوم باہر جانے والی گاڑیوں میں مشعال کی لا ش تلاش کر رہا ہے۔

    گیٹ پر راستے روکے کھڑے افراد کو گاڑیوں کے دروازے اور ڈگی کھولتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق مشتعل طلبہ لاش کو جلانا چاہتے تھے۔

    ویڈیو میں بندوقیں تھامے پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی خاموش تماشائی بنی نظر آرہی ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز یونیورسٹی کی ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جو مشعال کے قتل کے کچھ دیر بعد کی تھی۔

    مزید پڑھیں: مشعال کو قتل کرنے کے بعد قاتلوں کی ایک دوسرے کو مبارکباد

    ویڈیو میں توہین مذہب کا الزام لگا کر مشعال کی جان لینے والے، قتل کے بعد ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ ملزمان نے با آواز بلند حلف بھی اٹھایا کہ گولی مارنے والے کا نام کوئی نہیں لے گا۔

    یاد رہے کہ 13 اپریل کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    مشعال پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تاہم چند روز بعد انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بتایا کہ مشعال کے خلاف توہین رسالت سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔

    مزید پڑھیں: توہین مذہب کا الزام عائد کرنے والوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، امام کعبہ

    بعد ازاں کیس کے مرکزی ملزم وجاہت نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے واقعے کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی پر ڈال دی تھی۔ ملزم کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے جامعہ کی انتظامیہ نے کہا تھا۔

    ملزم کے مطابق انتظامیہ نے اسے کہا کہ مشعال اور ساتھیوں نے توہین رسالت کی ہے جس پر ملزم نے یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر طالب علموں کے سامنے مشعال اور ساتھیوں کے خلاف تقریر کی، تقریر میں کہا کہ ہم نے مشعال، عبداللہ اور زبیر کو توہین کرتے سنا ہے۔

    گذشتہ روز قومی اسمبلی میں بھی مشعال خان کے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے۔

    آج صبح سپریم کورٹ میں مشعال خان کے قتل کی ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت نے پشاور ہائیکورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے سے روک دیا۔ آئی جی خیبر پختونخواہ نے مکمل رپورٹ مرتب کرنے کے لیے مزید مہلت مانگ لی۔

  • مشعال کو قتل کرنے کے بعد قاتلوں کی ایک دوسرے کو مبارکباد

    مشعال کو قتل کرنے کے بعد قاتلوں کی ایک دوسرے کو مبارکباد

    مردان: عبد الولی خان یونیورسٹی میں طالب علم مشعال کو قتل کرنے کے بعد قاتلوں کی ایک اور ویڈیو منظر عام پر آگئی جس میں قاتل ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے اور قاتل کا نام راز رکھنے کے لیے حلف اٹھاتے نظر آرہے ہیں۔

    یہ ویڈیو مبینہ طور پر مشعال کے قتل کے کچھ دیر بعد کی ہے۔

    ویڈیو میں توہین مذہب کا الزام لگا کر مشعال کی جان لینے والے قتل کے بعد ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ ملزمان نے با آواز بلند حلف بھی اٹھایا کہ گولی مارنے والے کا نام کوئی نہیں لے گا۔

    مزید پڑھیں: مشعال خان قتل کیس کو پاکستان میں مثال بنائیں گے، عمران خان

    ویڈیو میں حلف لینے میں والوں میں تحریک انصاف کے کونسلر عارف کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

    امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ویڈیو کی مدد سے ملزمان کی باآسانی شناخت میں مزید مدد ملے گی۔

    یاد رہے کہ 13 اپریل کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    مشعال پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تاہم گزشتہ روز انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بتایا کہ مشعال کے خلاف توہین رسالت سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔

    مزید پڑھیں: توہین مذہب کا الزام عائد کرنے والوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، امام کعبہ

    بعد ازاں گزشتہ روز کیس کے مرکزی ملزم وجاہت نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے واقعے کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی پر ڈال دی تھی۔ ملزم کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے جامعہ کی انتظامیہ نے کہا تھا۔

    ملزم کے مطابق انتظامیہ نے اسے کہا کہ مشعال اور ساتھیوں نے توہین رسالت کی ہے جس پر ملزم نے یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر طالب علموں کے سامنے مشعال اور ساتھیوں کے خلاف تقریر کی، تقریر میں کہا کہ ہم نے مشعال، عبداللہ اور زبیر کو توہین کرتے سنا ہے۔

    آج صبح قومی اسمبلی میں بھی مشعال خان کے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے۔