Tag: مشعال خان قتل کیس

  • مشال خان قتل کیس کا فیصلہ 21 مارچ کو سنایا جائے گا

    مشال خان قتل کیس کا فیصلہ 21 مارچ کو سنایا جائے گا

    پشاور: انسداد دہشت گردی عدالت مشال خان قتل کیس میں گرفتار چار ملزمان کے خلاف محفوظ فیصلہ 21 مارچ کوسنائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مشال قتل کیس میں گرفتار چار ملزمان کے خلاف فیصلہ موخرکردیا، 21 مارچ کو فیصلہ سنایا جائے گا۔

    عدالت نے کیس کا فیصلہ 12 مارچ کو محفوظ کیا تھا، فیصلہ سنانے کے لیے آج کی تاریخ مقررکی گئی تھی۔

    انسداد دہشت گردی عدالت میں مشال خان کے والد اور دیگر 46 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، عدالت میں گزشتہ سماعت کے دوران دونوں فریقین کے وکلاء نے دلائل مکمل کیے تھے۔

    عدالت نے مشال خان قتل کیس میں وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل 7 فروری 2018 کو ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بھی مشال خان قتل کیس کا فیصلہ سنایا تھا جس میں 58 گرفتار ملزمان سے ایک ملزم عمران کو قتل کا جرم ثابت ہونے پرسزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

    عدالت نے 5 ملزمان میں سے فضل رازق، مجیب اللہ، اشفاق خان کو عمرقید جبکہ ملزمان مدثر بشیراور بلال بخش کو عمر قید کے ساتھ ایک، ایک لاکھ روپے جرمانے کی بھی سزائیں سنائیں تھیں۔

    انسداد دہشت گردی عدالت نے اپنے فیصلے میں 25 دیگر ملزمان کو ہنگامہ آرائی، تشدد، مذہبی منافرت پھیلانے اور مجرمانہ اقدام کے لیے ہونے والے اجتماع کا حصہ بننے پر 4،4 سال قید جبکہ 26 افراد کو عدم ثبوت پر بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

    واضح رہے کہ مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو طالب علموں کے جم غفیر نے یونیورسٹی کمپلیکس میں اہانت مذہب کا الزام عائد کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولی مار کر قتل کردیا تھا۔

  • مشعال خان قتل کیس: پختونخواہ حکومت کا 26 ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل کا فیصلہ

    مشعال خان قتل کیس: پختونخواہ حکومت کا 26 ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل کا فیصلہ

    پشاور: خیبر پختونخواہ حکومت نے مشعال خان قتل کیس میں 26 ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ حکومت نے مشعال خان قتل کیس میں 26 ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ آج ہری پور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں سنایا گیا جس میں مشعال خان پر تشدد اور فائرنگ کرنے والے مرکزی ملزم عمران کو سزائے موت، 5 ملزمان کو 25 سال قید اور 25 ملزمان کو 4 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

    عدالت نے قتل میں ملوث دیگر 26 ملزمان کو باعزت بری کردیا ہے۔

    اس بارے میں پختونخواہ کے صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں 26 ملزمان کو عجلت میں بری کیا گیا۔ ان 26 میں سے بعض لوگوں کو سزا ملنی چاہیئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کیس کے مفرور ملزمان پاکستان سے فرار ہوگئے تھے۔

    واضح رہے کہ مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے مشعال خان کو گزشتہ سال 13 اپریل کو طالب علموں کے جم غفیر نے یونیورسٹی کمپلیکس میں اہانت مذہب کا الزام عائد کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولی مار کر قتل کردیا تھا۔

    مشعال خان قتل پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا اور سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ جو مشعال کے ساتھ ہوا، کسی اسلامی ملک میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔

    مشعال خان کے والد اقبال خان نے کیس کو ایبٹ آباد منتقل کرنے کی درخواست کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مشعال قتل کیس حساس نوعیت کا ہے اور اب بھی دھمکیاں مل رہی ہیں اس لیے کیس کا ٹرائل سینٹرل جیل میں کیا جائے۔

    انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ بیٹیوں کو تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے لہٰذا ہمیں اسلام آباد منتقل کیا جائے جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے مشعال قتل کیس مردان سے ہری پور جیل کی انسداد دہشت گردی کی عدالت منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مشعال خان قتل کیس: ایک ملزم کو سزائے موت، 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا

    مشعال خان قتل کیس: ایک ملزم کو سزائے موت، 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا

    ہری پور: مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں بہیمانہ طور پر قتل کیے جانے والے مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ واقعے میں ملوث ایک ملزم کو سزائے موت اور 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا کا حکم سنایا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ ایبٹ آباد انسداد دہشت گردی عدالت کے جج فضل سبحان نے سینٹرل جیل ہری پور میں سنایا۔ عدالت نے 30 جنوری کو مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جبکہ عدالت کے سامنے تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔

    عدالت نے ایک ملزم عمران کو سزائے موت جبکہ 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا کا حکم دیا ہے۔ مشعال خان قتل کیس میں 57 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جن میں سے 26 ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا ہے جبکہ دیگر 25 ملزمان کو 4، 4 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

    سزائے موت کے ملزم عمران پر تشدد کے بعد مشعال پر فائرنگ کا الزام تھا۔ عمران مشعال خان کا ہم جماعت طالب علم تھا۔

    سیکیورٹی خدشات پر سینٹرل جیل میں آج تمام قیدیوں کی ملاقات بند کردی گئی جبکہ سینٹرل جیل سیکیورٹی کے لیے پولیس کی جانب سے غیر معمولی اقدامات کیے گئے ہیں۔

    جیل کی سیکورٹی کے لیے 250 پولیس اہلکار تعینات ہوں گے۔ جیل کے راستوں پر ناکہ بندی کر کے مکمل تلاشی کا عمل جاری ہے۔

    مشعال خان قتل کیس کے فیصلے کے دن مشعال خان کے گھر پر بھی سخت سیکیورٹی  انتظامات کیے گئے تھے۔ مشعال کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے وہ عدالت نہیں جاسکے۔

    خیال رہے کہ عدالت نے اس کیس میں گواہان، مشعال کے والد اقبال خان، ملزمان کے بیانات اور وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ کیس میں مشعال کے والد اور استغاثہ کے وکیل سردار عبدالرؤف ایڈووکیٹ نے چیف پراسیکیوٹر کے طور پر بھی عدالتی معاونت کی۔

    مزید پڑھیں:  مشعال قتل کیس میں 57 ملزمان پر فرد جرم عائد

    پشاور ہائیکورٹ کے حکم پر یہ کیس ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں منتقل ہوا تھا۔

    مشعال خان قتل کیس میں 50 گواہان نے بیانات قلم بند کروائے ہیں۔ کل 61 ملزمان میں سے 58 ملزمان گرفتار اور 3 مفرور ہیں جب کہ تمام ملزمان کی درخواست ضمانت کی اپیلیں بھی مسترد ہوچکی ہیں۔

    واضح رہے کہ مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے مشعال خان کو گزشتہ سال 13 اپریل کو طالب علموں کے جم غفیر نے یونیورسٹی کمپلیکس میں اہانت مذہب کا الزام عائد کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولی مار کر قتل کردیا تھا۔

    مشعال خان قتل پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا اور سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ جو مشعال کے ساتھ ہوا، کسی اسلامی ملک میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔

    مشعال خان کے والد اقبال خان نے کیس کو ایبٹ آباد منتقل کرنے کی درخواست کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مشعال قتل کیس حساس نوعیت کا ہے اور اب بھی دھمکیاں مل رہی ہیں اس لیے کیس کا ٹرائل سینٹرل جیل میں کیا جائے۔

    انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ بیٹیوں کو تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے لہٰذا ہمیں اسلام آباد منتقل کیا جائے جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے مشعال قتل کیس مردان سے ہری پور جیل کی انسداد دہشت گردی کی عدالت منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔