Tag: مشفق خواجہ

  • مشفق خواجہ: ادبی دنیا کا ایک نابغہ

    مشفق خواجہ: ادبی دنیا کا ایک نابغہ

    اردو ادب کے مایہ ناز ادیب و شاعر، ناقد، محقق اور مقبول کالم نگار مشفق خواجہ ان شخصیات میں سے ایک ہیں جنھیں نابغۂ روزگار کہا جاتا ہے۔ آج مشفق خواجہ کی برسی ہے۔

    مشفق خواجہ کو نہ صرف ان کے فکاہیہ کالموں نے ادبی حلقوں اور قارئین میں مقبول بنایا بلکہ وہ طنز و مزاح لکھنے والوں میں اپنے موضوعات اور اسلوب کی وجہ سے بھی ممتاز ہوئے۔ مشفق خواجہ نے قلمی نام سے اپنے کالموں کی بدولت ادب اور صحافت کی دنیا میں بھی خوب نام بنایا۔ موضوع کی سطح پر مشفق خواجہ کا سب سے اہم کارنامہ تو یہی ہے کہ انھوں نے باضابطہ معاصر ادیب و شعرا اور تازہ ادبی مسائل کو اپنے فکاہیہ کالموں میں جگہ دی اور یوں ’’ادبی کالم نگاری‘‘ کی داغ بیل پڑی۔ کون ہے جسے مشفق خواجہ نے اپنے قلم کی نوک سے نہ گدگدایا ہو اور شعر و ادب میں گروہ بندی، پست تحریروں، شہرت و جاہ اور انعامات کے لیے ادیب و شعرا کی قلابازیوں، داؤ پیچ اور سچ جھوٹ کے ساتھ ان کی بعض حرکتوں پر گرفت نہ کی ہو۔ غیر ادبی عناصر، رجحانات اور تحریکوں کے نام پر ادب کو بے ادبی سکھانے والوں کی نشان دہی اور صنفی تجربات کے نام پر مذاق کرنے والوں‌ کو انھوں نے خوب بے نقاب کیا۔ آج مشفق خواجہ کی برسی ہے۔

    ایک قصّہ پڑھتے چلیے، مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد (شاعر، ادیب اور محقّق) مشفق خواجہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ بات چیت کے دوران جگن ناتھ آزاد نے متعدد بار اپنی کتابوں کی غرقابی کا تذکرہ بڑے ہی درد ناک انداز میں کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے، ’’اس میں نہ صرف مطبوعہ کتابیں ضائع ہوئیں بلکہ کچھ غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی برباد ہوگئے۔‘‘

    خواجہ صاحب نے آٹھ دس مرتبہ سیلاب کی اس دل خراش داستان کو ان کی زبانی سننے کے بعد عرض کیا، ’’اگر اجازت دیں تو ایک درد انگیز واقعہ بلا تشبیہ میں بھی عرض کروں۔‘‘

    آزاد صاحب نے کہا سنائیے، تو خواجہ صاحب بولے: ’’چند برس قبل ایک مشہور ادیب کے ہاں اتفاق سے آگ لگ گئی۔ اس میں ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں اور غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر راکھ ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے کچھ دوست اظہار ہمدردی کے لیے آئے اور ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ ایک دوست نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز سے کیا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک درد ناک سانحہ ہے، جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے وہاں غیر مطبوعہ تصانیف کا غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیناً یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے بچ گئے۔‘‘

    اس پر جگن ناتھ آزاد ہنسنے پر مجبور ہوگئے اور جتنے دن مشفق خواجہ کے ساتھ رہے، ان سے اپنی کتابوں کے ضایع ہوجانے کا ذکر نہیں کیا۔

    مشفق خواجہ اپنا کالم بہ عنوان خامہ بگوش کو بہت لطافت اور زبان کی چاشنی سے تحریر کیا کرتے تھے اور اس میں ادبی موضوعات ہی نہیں سیاسی اور سماجی مسائل بھی خوب اجاگر ہوتے رہے اور وہ طنز و مزاح کے ساتھ عوام کی آواز بنے۔ تاہم ان کے کالموں کو اگر ہم صنف کے اعتبار سے ادبی کالم کہیں تو غلط نہ ہو گا جس میں انھوں نے معاصر اہلِ قلم شخصیات سے متعلق کھل کر لکھا اور کالموں میں ادبی گروہ بندیوں کو فروغ دینے والوں اور مفاد پرست ٹولے کو بے نقاب کیا۔

    مشفق خواجہ کا اصل نام خواجہ عبدُالحیّ تھا۔ وہ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اور بی اے (آنرز) کے بعد 1958ء میں ایم اے (اردو) کیا۔ کئی برس تک انجمن میں علمی و ادارتی شعبہ کے نگراں رہے۔ یہاں خواجہ صاحب نے بحیثیت مدیر ماہ نامہ’’قومی زبان‘‘ سہ ماہی’’اردو‘‘ اور ’’قاموس الکتب‘‘ کے لیے خدمات انجام دیں۔ ان کی چند کتب ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘، ’’جائزہ مخطوطاتِ اردو‘‘، ’’خامہ بگوش کے قلم سے ‘‘، ’’سخن در سخن‘‘، ’’سخن ہائے نا گفتنی‘‘، ’’سخن ہائے گسترانہ‘‘(ادبی کالموں کا انتخاب)، ’’ابیات‘‘(شعری مجموعہ)، ’’کلیاتِ یگانہ‘‘(ترتیب وتدوین) کے عنوان سے شایع ہوئیں۔ مشفق خواجہ نے ادبی رسائل اور جرائد میں‌ مضامین کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے لیے مختلف موضوعات پر درجنوں فیچر بھی لکھے۔

    صدارتی ایوارڈ یافتہ مشفق خواجہ 21 فروری 2005ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔

  • مشفق خواجہ کا ‘سنجیدہ’ کالم

    مشفق خواجہ کا ‘سنجیدہ’ کالم

    مشفق خواجہ صرف ادبی کالم لکھا کرتے تھے، جن لوگوں نے پڑھے ہیں۔ وہی جانتے ہیں کہ وہ کیسے کالم لکھنے والے تھے۔ شاید ہزار برس تک ایسا کالم نگار پیدا نہ ہو۔

    ایک دن انھی مشفق خواجہ سے میں نے پوچھا ”آپ نے طنز و مزاح میں تو جو کالم لکھے ہیں، سو لکھے ہیں، آپ نے کبھی کوئی سنجیدہ کالم بھی لکھا ہے؟“

    مشفق خواجہ نے جو کچھ میرے سوال کے جواب میں کہا اس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا، کیوں کہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے وہ کہہ رہے تھے۔ انہیں مجموع کرنے اور بھیڑ جمع کرنے والے لوگ کبھی اچھے نہیں لگتے اور کہہ رہے تھے میں نے جو واحد سنجیدہ کالم لکھا ہے، وہ سلیم احمد کے بارے میں لکھا ہے، جب وہ وفات پا گئے۔ یہ تھے سلیم احمد، منہ چڑھا کر مشفق خواجہ ایسے شخص سے اپنے بارے میں وہ کالم لکھوا لیا، جو پھر کبھی انھوں نے نہیں لکھا۔ خود اپنے بارے میں وہ لکھ ہی نہیں سکتے تھے۔ کالم لکھنا کجا۔ وہ اپنے بارے میں کچھ پڑھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ سب عجیب ہی تھے۔ ان دنوں میں سلیم احمد کے کالم پڑھ رہا تھا۔ وہ کالم جو بعنوان ”جھلکیاں“ روزنامہ حریت کراچی میں لکھا کرتے تھے۔ ان میں تین طرح کے کمال ہوا کرتے تھے۔ اوّل کالم کا مستقل عنوان ”جھلکیاں“ ہوا کرتا تھا۔ مگر اس کے ساتھ کوئی اور شہ سرخی یا عنوان نہیں ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ معروف کالم نگاروں کے کالم میں ہوتا ہے۔ بس اوپر ”جھلکیاں“ لکھا ہے۔ اب آپ کی مرضی ہے پڑھ ڈالیں یا نہ پڑھیں۔ دوسرے کالم ہمیشہ ایک کالم میں اوپر سے نیچے تک لکھا کرتے تھے۔ تیسرے کا ذکر کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ سلیم احمد، حریت میں ایک محدود سرکولیشن کے حامل اخبار میں صرف اس لئے لکھا کرتے تھے کہ انھیں وہاں سے پیسے ملا کرتے تھے۔ اس وقت ’حریت‘ کا دامن اس حوالے سے انتہائی کشادہ ہوا کرتا تھا کہ وہ اپنے ہر لکھنے والے کو معاوضہ دیا کرتا تھا۔ اور سلیم احمد کی مجبوری اور ہائے کیسی مجبوری تھی۔ اللہ اکبر کہ انہیں اپنا گھر چلانے اور بچوں کی تعلیم اور دال دلیے کی خاطر پیسے کی اور معاوضے کی بہرصورت ضرورت ہوا کرتی تھی اور اس بات نے ان کا وجود پارہ پارہ کر ڈالا تھا۔ وہ دنیائے ادب کا ایک بڑا نام تھے۔ اتنا سرو قد نام کہ مشفق خواجہ ایسے بااصول ادیب کو ان کی وفات پر پہلی بار ایک سنجیدہ کالم لکھنا پڑا۔ پھر کتنے ہی وقت کے عظیم شاعر لوگ گزرگئے۔ مگر انھوں نے کالم نہیں لکھا۔

    (از قلم: فیاض اعوان)

  • مشفق خواجہ: ایک کھرا قلم کار

    مشفق خواجہ: ایک کھرا قلم کار

    مشفق خواجہ نے نہ صرف فکاہیہ کالم نگاری سے ادبی حلقوں اور قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا بلکہ اردو زبان میں طنز و مزاح لکھنے والوں میں اپنے موضوع اور اسلوب کی وجہ سے انھیں ایک امتیاز بھی حاصل ہے۔ انھوں نے اردو ادب اور صحافت میں اپنے قلم سے خوب نام بنایا۔

    موضوع کی سطح پر مشفق خواجہ کا سب سے اہم کارنامہ تو یہی ہے کہ انھوں نے باضابطہ معاصر ادیب و شعرا اور تازہ ادبی مسائل کو اپنے فکاہیہ کالموں میں جگہ دی اور یوں ’’ادبی کالم نگاری‘‘ کی داغ بیل پڑی۔ کون تھا جسے انھوں نے اپنے قلم کی نوک سے نہ گدگدایا ہو اور شعر و ادب میں گروہ بندی، پست تحریروں، شہرت و جاہ اور انعامات کے لیے ادیب و شعرا کی قلابازیوں، داؤ پیچ اور سچ جھوٹ کے ساتھ ان کی بعض حرکتوں پر گرفت نہ کی ہو۔ غیر ادبی عناصر، رجحانات اور تحریکوں کے نام پر ادب کو بے ادبی سکھانے والوں کی نشان دہی اور صنفی تجربات کے نام پر مذاق کرنے والوں‌ کو انھوں نے خوب بے نقاب کیا۔ آج مشفق خواجہ کی برسی ہے۔

    ایک قصّہ پڑھتے چلیے، مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد (شاعر، ادیب اور محقّق) مشفق خواجہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ بات چیت کے دوران جگن ناتھ آزاد نے متعدد بار اپنی کتابوں کی غرقابی کا تذکرہ بڑے ہی درد ناک انداز میں کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے، ’’اس میں نہ صرف مطبوعہ کتابیں ضائع ہوئیں بلکہ کچھ غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی برباد ہوگئے۔‘‘

    خواجہ صاحب نے آٹھ دس مرتبہ سیلاب کی اس دل خراش داستان کو ان کی زبانی سننے کے بعد عرض کیا، ’’اگر اجازت دیں تو ایک درد انگیز واقعہ بلا تشبیہ میں بھی عرض کروں۔‘‘

    آزاد صاحب نے کہا سنائیے، تو خواجہ صاحب بولے: ’’چند برس قبل ایک مشہور ادیب کے ہاں اتفاق سے آگ لگ گئی۔ اس میں ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں اور غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر راکھ ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے کچھ دوست اظہار ہمدردی کے لیے آئے اور ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ ایک دوست نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز سے کیا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک درد ناک سانحہ ہے، جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے وہاں غیر مطبوعہ تصانیف کا غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیناً یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے بچ گئے۔‘‘

    اس پر جگن ناتھ آزاد ہنسنے پر مجبور ہوگئے اور جتنے دن مشفق خواجہ کے ساتھ رہے، ان سے اپنی کتابوں کے ضایع ہوجانے کا ذکر نہیں کیا۔

    مشفق خواجہ کو اردو ادب میں‌ ایک ادیب، نقّاد، شاعر اور بلند پایہ محقق کی حیثیت سے پہچان ملی۔ ان کی وجہِ شہرت ان کا کالم بہ عنوان خامہ بگوش بنا۔ مشفق خواجہ نے ادبی موضوعات، سیاسی اور سماجی مسائل کو ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ مختلف اخبارات کے لیے اپنے کالموں میں اجاگر کیا۔ تاہم ان کے کالموں کو اگر ہم صنف کے اعتبار سے ادبی کالم کہیں تو غلط نہ ہو گا جس میں انھوں نے معاصر اہلِ قلم شخصیات سے متعلق کھل کر لکھا اور کالموں میں ادبی گروہ بندیوں کو فروغ دینے والوں اور مفاد پرست ٹولے کو بے نقاب کیا۔

    ان کا اصل نام خواجہ عبدُالحیّ اور تخلص مشفق تھا جو ادب کی دنیا میں‌ مشفق خواجہ کے نام سے پہچانے گئے۔ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اور بی اے (آنرز) کے بعد 1958ء میں ایم اے (اردو) کیا۔ کئی برس تک انجمن میں علمی و ادارتی شعبہ کے نگراں رہے۔ یہاں خواجہ صاحب نے بحیثیت مدیر ماہ نامہ’’قومی زبان‘‘ سہ ماہی’’اردو‘‘ اور ’’قاموس الکتب‘‘ کے لیے خدمات انجام دیں۔ ان کی چند کتب ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘، ’’جائزہ مخطوطاتِ اردو‘‘، ’’خامہ بگوش کے قلم سے ‘‘، ’’سخن در سخن‘‘، ’’سخن ہائے نا گفتنی‘‘، ’’سخن ہائے گسترانہ‘‘(ادبی کالموں کا انتخاب)، ’’ابیات‘‘(شعری مجموعہ)، ’’کلیاتِ یگانہ‘‘(ترتیب وتدوین) کے عنوان سے شایع ہوئیں۔ مشفق خواجہ نے ادبی رسائل اور جرائد میں‌ مضامین کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے لیے مختلف موضوعات پر درجنوں فیچر بھی لکھے۔

    21 فروری 2005ء کو صدارتی ایوارڈ یافتہ ادیب مشفق خواجہ کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

  • مشفق خواجہ: ایک کھرا ادیب اور جری محقّق

    مشفق خواجہ: ایک کھرا ادیب اور جری محقّق

    مشفق خواجہ نہ صرف فکاہیہ کالم نگاری میں بلکہ اردو طنز و مزاح کی تاریخ میں ایک نہایت اہم اور بڑا نام ہیں۔ انھوں نے موضوع، مواد اور اسلوب ہر سطح پر ندرت کی مثالیں اور انفرادیت کے نقوش چھوڑے ہیں۔ وہ اردو صحافت کے ایک البیلے قلم کار تھے۔

    موضو ع کی سطح پر ان کا سب سے اہم اضافہ تو یہی ہے کہ انھوں نے باضابطہ معاصر ادیب و شعرا اور تازہ ادبی مسائل کو اپنے فکاہیہ کالموں میں سمویا اور یوں ’’ادبی کالم نگاری‘‘ کی داغ بیل پڑی۔

    کون تھا جسے انھوں نے اپنے قلم کی نوک سے نہ گدگدایا ہو اور شعر و ادب میں گروہ بندی، پست تحریروں، شہرت و جاہ اور انعامات کے لیے ادیب و شعرا کی قلابازیوں، داؤ پیچ اور سچ جھوٹ کے ساتھ ان کی بعض حرکتوں پر گرفت نہ کی ہو۔ غیر ادبی عناصر، رجحانات اور تحریکوں کے نام پر ادب کو بے ادبی سکھانے والوں کی نشان دہی اور صنفی تجربات کے نام پر مذاق کرنے والوں‌ کو انھوں نے خوب بے نقاب کیا۔ آج مشفق خواجہ کی برسی ہے۔ 21 فروری 2005ء کو وہ کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ مشفق خواجہ کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

    ایک قصّہ پڑھتے چلیے: مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد (شاعر، ادیب اور محقّق) مشفق خواجہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ بات چیت کے دوران جگن ناتھ آزاد نے متعدد بار اپنی کتابوں کی غرقابی کا تذکرہ بڑے ہی درد ناک انداز میں کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے، ’’اس میں نہ صرف مطبوعہ کتابیں ضائع ہوئیں بلکہ کچھ غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی برباد ہوگئے۔‘‘

    خواجہ صاحب نے آٹھ دس مرتبہ سیلاب کی اس دل خراش داستان کو ان کی زبانی سننے کے بعد عرض کیا، ’’اگر اجازت دیں تو ایک درد انگیز واقعہ بلا تشبیہ میں بھی عرض کروں۔‘‘

    آزاد صاحب نے کہا سنائیے، تو خواجہ صاحب بولے: ’’چند برس قبل ایک مشہور ادیب کے ہاں اتفاق سے آگ لگ گئی۔ اس میں ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں اور غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر راکھ ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے کچھ دوست اظہار ہمدردی کے لیے آئے اور ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ ایک دوست نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز سے کیا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک درد ناک سانحہ ہے، جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے وہاں غیر مطبوعہ تصانیف کا غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیناً یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے بچ گئے۔‘‘

    اس پر جگن ناتھ آزاد ہنسنے پر مجبور ہوگئے اور جتنے دن مشفق خواجہ کے ساتھ رہے، ان سے اپنی کتابوں کے ضایع ہوجانے کا ذکر نہیں کیا۔

    مشفق خواجہ کو اردو ادب میں‌ ایک شاعر، ادیب، نقّاد اور بلند پایہ محقّق کی حیثیت سے پہچان ملی۔ ان کی وجہِ شہرت خامہ بگوش کے عنوان سے ان کے فکاہیہ کالم بنے۔ اس قلمی نام سے انھوں نے طنز و مزاح اور فکاہیہ نگاری میں اپنے تخلیقی جوہر اور فنی مہارت کا خوب اظہار کیا۔

    ادبی موضوعات، سیاسی اور سماجی مسائل پر مشفق خواجہ ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ اپنے قارئین میں مقبول تھے۔ وہ ایک طرف طبقاتِ‌ عوام کی زندگی کے مسائل کو اجاگر کرتے تھے تو دوسری طرف مخصوص اور مفاد پرست ادبی ٹولے کی درگت بناتے تھے۔

    ان کا اصل نام خواجہ عبدُالحیّ اور تخلص مشفق تھا۔ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اور بی اے (آنرز) کے بعد 1958ء میں ایم اے (اردو) کیا۔ کئی برس تک انجمن میں علمی و ادارتی شعبہ کے نگراں رہے۔ یہاں خواجہ صاحب نے بحیثیت مدیر ماہ نامہ’’قومی زبان‘‘ سہ ماہی’’اردو‘‘ اور ’’قاموس الکتب‘‘ کے لیے خدمات انجام دیں۔

    مشفق خواجہ کا شمار ان اہلِ قلم اور تخلیق کاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے تصنیف و تالیف کے میدان میں نہایت معیاری کام کیا۔ ان کی چند کتب ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘، ’’جائزہ مخطوطاتِ اردو‘‘، ’’خامہ بگوش کے قلم سے ‘‘، ’’سخن در سخن‘‘، ’’سخن ہائے نا گفتنی‘‘، ’’سخن ہائے گسترانہ‘‘(ادبی کالموں کا انتخاب)، ’’ابیات‘‘(شعری مجموعہ)، ’’کلیاتِ یگانہ‘‘(ترتیب وتدوین) کے عنوان سے شایع ہوئیں۔ ریڈیو پاکستان کے لیے ان کے مختلف موضوعات پر فیچر بھی پسند کیے گئے۔

    مشفق خواجہ نے عمر بھر قلم سے اپنا رشتہ استوار رکھا، اُنھیں بلاشبہ اُردو کا کھرا ادیب، اور میدان تحقیق کا جری قرار دیا جاسکتا ہے۔

  • جب استادوں کے جھگڑے میں شاگردوں نے قلم کی جگہ تلواریں سنبھالیں!

    جب استادوں کے جھگڑے میں شاگردوں نے قلم کی جگہ تلواریں سنبھالیں!

    اردو ادب میں استادی شاگردی کی روایت بہت پرانی ہے۔

    پرانے زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ جس طرح کوئی شخص استاد کی جوتیاں سیدھی کیے بغیر بڑھئی یا لوہار نہیں بن سکتا، اسی طرح شاعر بننے کے لیے بھی کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہ کرنا ضروری ہے۔ گویا قلم گھسنا بھی رندہ پھیرنے اور ہتھوڑا چلانے جیسا کام تھا۔

    دلّی اور لکھنؤ میں ایک ایک استاد کے سیکڑوں شاگرد تھے، اور پھر فارغ الاصلاح شاگردوں کے بھی شاگرد ہوتے تھے جو اپنے استاد کے استاد کو دادا استاد کہتے تھے۔ اس طرح ہر شاعر کے دو شجرہ ہائے نسب ہوتے تھے جن میں سے ایک کا باپ سے اور دوسرے کا استاد سے تعلق ہوتا تھا۔ باپ والے شجرے کو کوئی نہیں پوچھتا تھا مگر استاد والے شجرۂ نسب کے بغیر مشاعرے میں شرکت کی اجازت نہیں ملتی تھی۔

    پرانے استادوں میں مصحفی استاذُ الااساتذہ تھے۔ ان کے شاگردوں، اور پھر شاگردوں کے شاگردوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ جن دنوں وہ لکھنؤ میں مقیم تھے، اس شہر کے آدھے سے زیادہ شاعر انہی کے سلسلۂ سخن سے تعلق رکھتے تھے۔ شہر کے باقی شعرا انشاءُ اللہ خاں انشا کے شاگرد تھے۔ دونوں استادوں میں جب جھگڑا ہوا تو ان کے شاگردوں نے قلم کی جگہ تلواریں سنبھال لیں۔ بعض بااثر لوگوں کے دخل دینے سے بات آگے نہ بڑھی ورنہ اردو ادب کی تاریخ میں ایک باب ”شہیدانِ سخن“ کے عنوان سے کہا جاتا جس میں ان شاعروں کے حالات درج ہوتے جو اس جھگڑے میں کام آتے۔

    پرانے زمانے میں بڑے بڑے نوابوں اور امیروں کو بھی شاعری کا شوق تھا کیونکہ اس زمانے میں بٹیر بازی اور مرغ بازی کی طرح شاعری بھی ایک تفریح کا درجہ رکھتی تھی۔ نواب اور امیر عموماً موزوں طبع نہیں ہوتے تھے، اس لیے کسی نامور شاعر کو صیغۂ شاعری میں ملازم رکھ لیتے تھے۔ یہ شاعر استاد کہلاتا تھا جس کا کام اپنے شاگرد یعنی آقائے ولی نعمت کے نام غزلیں لکھنا ہوتا تھا۔ بعض استاد نوکری نہیں کرتے تھے، کھلے بازار میں غزلیں بیچتے تھے۔

    مصحفی کے بارے میں مشہور ہے کہ جتنا کلام ان کے نام سے موجود ہے، اس سے کہیں زیادہ انہوں نے فروخت کر دیا تھا۔ اردو کے مشہور شاعر میر سوز نے البتہ دانش مندی سے کام لیا۔ وہ ایک عرصہ تک فرخ آباد میں وہاں کے ایک بڑے عہدے دار مہربان خان رند کے پاس صیغۂ شاعری میں ملازم رہے۔ استاد اور شاگردوں کے انتقال کے بعد معلوم ہوا کہ دونوں کے دیوانوں میں بہت سی غزلیں مشترک ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ سوز اپنے شاگرد کو جو غزل لکھ کر دیتے، اسے اپنے دیوان میں بھی درج کر لیتے تھے۔

    پرانے زمانے میں بڑا شاعر اسے نہیں سمجھا جاتا تھا جس کا کلام سب سے اچھا ہو، بلکہ اسے اچھا شاعر مانا جاتا تھا جس کے شاگردوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو۔ اس سلسلے میں غالب کے شاگرد صفیر بلگرامی کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے پاس ایک رجسٹر تھا جس میں وہ شاگردوں کے نام اور شاگرد ہونے کی تاریخ درج کرتے تھے۔ آخر آخر شاگرد بنانے کا شوق اتنا بڑھا کہ اگر کوئی ملاقات کے لیے آتا تھا تو اس کا نام بھی شاگردوں کے رجسٹر میں لکھ لیتے تھے۔ ان کے بیٹے کی شادی میں جتنے مہمان شریک ہوئے ان کے نام بھی انہوں نے اس رجسٹر میں درج کر لیے۔ اس طرح ایک دن میں سو سے زیادہ لوگوں نے ان کی شاگردی قبول کی۔

    (از قلم مشفق خواجہ)

  • یومِ وفات:‌ "خامہ بگوش کے قلم سے” مشفق خواجہ کی پہچان بنا

    یومِ وفات:‌ "خامہ بگوش کے قلم سے” مشفق خواجہ کی پہچان بنا

    مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد (شاعر، ادیب اور محقّق) مشفق خواجہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ بات چیت کے دوران جگن ناتھ آزاد نے متعدد بار اپنی کتابوں کی غرقابی کا تذکرہ بڑے ہی درد ناک انداز میں کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے، ’’اس میں نہ صرف مطبوعہ کتابیں ضائع ہوئیں بلکہ کچھ غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی برباد ہوگئے۔‘‘

    خواجہ صاحب نے آٹھ دس مرتبہ سیلاب کی اس دل خراش داستان کو ان کی زبانی سننے کے بعد عرض کیا، ’’اگر اجازت دیں تو ایک درد انگیز واقعہ بلا تشبیہ میں بھی عرض کروں۔‘‘

    آزاد صاحب نے کہا سنائیے، تو خواجہ صاحب بولے: ’’چند برس قبل ایک مشہور ادیب کے ہاں اتفاق سے آگ لگ گئی۔ اس میں ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں اور غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر راکھ ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے کچھ دوست اظہار ہمدردی کے لیے آئے اور ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ ایک دوست نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز سے کیا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک درد ناک سانحہ ہے، جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے وہاں غیر مطبوعہ تصانیف کا غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیناً یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے بچ گئے۔‘‘

    اس پر جگن ناتھ آزاد ہنسنے پر مجبور ہوگئے اور جتنے دن مشفق خواجہ کے ساتھ رہے، ان سے اپنی کتابوں کے ضایع ہوجانے کا ذکر نہیں کیا۔

    آج مشفق خواجہ کا یومِ وفات ہے۔ اردو ادب میں‌ انھیں شاعر، ادیب، نقّاد اور بلند پایہ محقق کی حیثیت سے پہچان ملی۔ مشفق خواجہ کی وجہِ شہرت ان کا کالم بہ عنوان خامہ بگوش بنا اور انھوں نے طنز و مزاح نگاری اور فکاہیہ نویسی میں اپنے قلمی نام سے اپنے قارئین کی تعداد میں خوب اضافہ کیا۔ مشفق خواجہ نے ادبی موضوعات، سیاسی اور سماجی مسائل کو ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ مختلف اخبارات کے لیے اپنے کالموں میں اجاگر کیا۔ تاہم ان کے کالموں کو ادبی کالم کہا جائے تو غلط نہ ہو گا جس میں انھوں نے معاصر اہلِ قلم شخصیات سے متعلق بھی کھل کر لکھا ہے۔ ان کالموں میں مشفق خواجہ نے غیر معیاری ادب اور شہرت و جاہ یا سرکاری اعزازات اور انعامات کے لیے داؤ پیچ چلانے والے اہلِ قلم اور نام نہاد تخلیق کاروں کی خوب کھنچائی کی اور ایسے غیر ادبی میلانات، رجحانات اور تحریکوں کو نشانہ بنایا ہے جن کو فروغ دینے سے مخصوص ادبی ٹولے کا مفاد جڑا ہوتا تھا۔

    ان کا اصل نام خواجہ عبدُالحیّ اور تخلص مشفق تھا جو ادب کی دنیا میں‌ مشفق خواجہ کے نام سے پہچانے گئے۔ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اور بی اے (آنرز) کے بعد 1958ء میں ایم اے (اردو) کیا۔ کئی برس تک انجمن میں علمی و ادارتی شعبہ کے نگراں رہے۔ یہاں خواجہ صاحب نے بحیثیت مدیر ماہ نامہ’’قومی زبان‘‘ سہ ماہی’’اردو‘‘ اور ’’قاموس الکتب‘‘ کے لیے خدمات انجام دیں۔

    اردو ادب میں مشفق خواجہ کا شمار ان اہلِ قلم اور تخلیق کاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے تصنیف و تالیف کا شغل اختیار کرکے نہایت معیاری کام کیا۔ ان کی چند کتب ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘، ’’جائزہ مخطوطاتِ اردو‘‘، ’’خامہ بگوش کے قلم سے ‘‘، ’’سخن در سخن‘‘، ’’سخن ہائے نا گفتنی‘‘، ’’سخن ہائے گسترانہ‘‘(ادبی کالموں کا انتخاب)، ’’ابیات‘‘(شعری مجموعہ)، ’’کلیاتِ یگانہ‘‘(ترتیب وتدوین) کے عنوان سے شایع ہوئیں۔

    مشفق خواجہ نے ادبی رسائل اور جرائد میں‌ مضامین کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے لیے مختلف موضوعات پر درجنوں فیچر بھی لکھے۔

    کراچی میں 21 فروری 2005ء کو وفات پانے والے مشفق خواجہ کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • ایک بد ذوق اور خوش قسمت

    ایک بد ذوق اور خوش قسمت

    حضرت تابش ؔدہلوی کا شمار بھی اساتذۂ فن میں ہوتا ہے، لیکن ان کی خوش گوئی اور خوش فکری میں کلام نہیں۔ بلاشبہ وہ ہمارے مقبول شاعروں میں سے ہیں۔ ہمارے دل میں ان کا بے حد احترام ہے۔ اسی لیے ہم نے ان کے مجموعہ ہائے کلام کو ادباً دُور ہی سے دیکھا ہے۔

    ان کے نئے مجموعے کو قریب سے دیکھنے کی اتفاقی صورت یوں پیدا ہوگئی ہے کہ پچھلے دنوں ہم حیدر آباد سندھ جا رہے تھے، بس میں ہمارے ساتھ جو صاحب بیٹھے تھے، ان کے ہاتھ میں ایک کتا ب تھی، جسے وہ بڑے انہماک سے پڑھ رہے تھے۔ ہمیں ان صاحب کی بد ذوقی پر حیرت ہوئی کہ بس کے تمام مسافر تو ڈرائیور کے ذاتی ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہونے والے نازیہ اور زوہیب کے نئے گانوں سے محظوظ ہو رہے ہیں اور یہ صاحب کتاب پڑھ رہے ہیں۔

    اسی دوران بلا ارادہ ہماری نظر اس صفحے پر پڑی جو موصوف کے سامنے کھلا تھا۔ اس پر جلی حرفوں میں یہ عنوان درج تھا: ’’شان الحق حقی کی شادی پر غالبؔ سے معذرت کے ساتھ‘‘ ہم شان صاحب کے پرانے نیاز مند ہیں۔ اس لیے اس عنوان پر ہمیں بے حد تعجب ہوا۔ شان صاحب کی شادی پر غالب سے معذرت کی ضرورت ہماری سمجھ میں نہ آئی۔

    شان صاحب غالبؔ کے دیوان کی شرح لکھتے یا تضمین کرتے تو معذرت کی گنجائش تھی، مگر شادی تو بالکل ایک مختلف کام ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم نے اپنے ہم سفر سے کتاب دیکھنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے فوراً اسے ہمارے حوالے کر دیا، جیسے وہ اسی انتظار میں ہوں کہ کوئی ان سے کتاب لے لے۔

    اس کے بعد وہ تو گانے سننے میں اور ہم کتاب کی ورق گردانی میں مصروف ہوگئے اور یوں ہم نے جناب شان الحق حقی سے نیاز مندی کا رشتہ رکھنے کی پاداش میں حضرتِ تابش دہلوی کے چوتھے مجموعۂ کلام ’’غبارِ انجم‘‘ سے استفادہ کیا۔ اسے ہم اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔

    (خامہ بگوش کے قلم سے از مشفق خواجہ)

  • بھورے خاں آشفتہ کا مردہ!

    بھورے خاں آشفتہ کا مردہ!

    ہم نے لکھنؤ میں ہندوستان کے ایک محقق کاظم علی خاں سے پوچھ لیا۔
    ”آج کل آپ کس موضوع پر تحقیق کررہے ہیں؟“

    انھوں نے جواب دیا۔ ”مصحفی کے ایک ہم عصر بھورے خاں آشفتہؔ کے سالِ وفات پر تحقیق جاری ہے۔“

    اس کے بعد دو گھنٹے تک وہ ہمیں اس کے نتائج سے مستفید فرماتے رہے۔

    جب بھورے خاں آشفتہ کا مردہ اچھی طرح خراب ہوچکا تو انھوں نے ہماری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ہم ہی بھورے خاں آشفتہ ہوں۔

    پوچھا، ”آپ کی کیا رائے ہے؟“

    ہم نے کہا، ”آپ نے بھورے خاں کے ساتھ ہمارا بھی سالِ وفات ہی نہیں، تاریخ، مہینہ اور دن بھی متعین کردیا ہے۔“

    ہمارے جواب پر وہ خوش ہوئے اور کہنے لگے، ”جی ہاں تحقیق میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ آپ کسی ایک شخص کا سالِ وفات تلاش کریں تو بہت سوں کے سال ہائے وفات خود بخود معلوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔“

    (مشفق خواجہ کے قلم سے)

  • کیا آپ بھی ان تین چیزوں‌ سے ڈرتے ہیں؟

    کیا آپ بھی ان تین چیزوں‌ سے ڈرتے ہیں؟

    ہم تین چیزوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ تجریدی مصوری سے، علامتی افسانے سے اور اساتذہ کے کلام سے۔

    وجہ یہ ہے کہ اِن تینوں کے مفہوم اخذ کرنا ناظر یا قاری کی ذمہ داری ہے نہ کہ مصور، افسانہ نگار اور شاعر کی۔ مصور الوان و خطوط سے، افسانہ نگار الفاظ سے اور اساتذۂ سخن ردیف و قوانی سے فن پارے کو اِس حد تک گراں بار کر دیتے ہیں کہ اس میں مزید کوئی بار اُٹھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ لہٰذا مفہوم و معنی کا یہ بار ہم جیسے ناتوانوں کو اُٹھانا پڑتا ہے۔

    میر تقی میر کو بھی اِس قسم کا تجربہ ہوا تھا جس کا ذکر اِس شعر میں ملتا ہے:

    سب پہ جس بار نے گرانی کی
    اس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا

    ہم تجریدی مصوری کی نمائشوں میں کبھی نہیں جاتے، یہاں تک احتیاط برتتے ہیں کہ جب شہر میں اِس قسم کی کوئی نمائش ہوتی ہے، تو گھر سے باہر نہیں نکلتے کہ کہیں فضائی آلودگی ہم پر بھی اثر انداز نہ ہوجائے۔
    علامتی افسانے لکھنے والوں کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ انھوں نے گفتگو میں علامتوں سے کام لیا تو ہمارا حشر بھی وہی ہوگا جو افسانے کی صنف کا ہوا ہے۔

    اساتذۂ سخن کا ہم بے حد ادب کرتے ہیں اور اِسی وجہ سے ہم نے کبھی ان سے بے تکلف ہونے کی جسارت نہیں کی۔ یعنی ان کے دواوین کے قریب جانا اور چھونا تو کیا، انھیں دور سے دیکھنا بھی ہمارے نزدیک سوء ادب ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے، تو بڑی جماعتوں کے طالب علموں کو ان کی شرارتوں پر جو سخت سزا دی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ ان سے استاد ذوق کی کسی غزل کی شرح لکھوائی جاتی تھی۔

    یہی سبب ہے کہ ہم نے بڑی جماعتوں میں پہنچنے سے پہلے ہی سلسلۂ تعلیم منقطع کر لیا۔ معلوم نہیں آج کل اسکولوں میں اِس قسم کی سزائیں دینے کا رواج ہے یا نہیں۔

    مشفق خواجہ کے قلم سے ایک شگفتہ پارہ