Tag: مشہور

  • ’چین ٹپاک ڈم ڈم ‘ کیا ہے اور یہ سوشل میڈیا پر اتنا مشہور کیوں ہوا؟

    ’چین ٹپاک ڈم ڈم ‘ کیا ہے اور یہ سوشل میڈیا پر اتنا مشہور کیوں ہوا؟

    آج کل سوشل میڈیا پر فیس بک، ٹوئٹر یا انسٹاگرام جہاں دیکھیں ہر جگہ ’چین ٹپاک ڈم ڈم ‘کے چرچے ہیں جس پر صارفین کی جانب سے نئی میمز بھی بنائی گئی ہیں۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ بے معنی سے لگنے والا یہ الفاظ کہاں سے آیا، اس کی پیچھے کی کہانی کیا ہے، اس کو سب سے پہلے کس نے سوشل میڈیا پر متعارف کرایا؟ اور یہ سوشل میڈیا پر اتنا مشہور کیسے ہوگیا؟

    میڈیا رپوٹس کے مطابق ’چین ٹپاک ڈم ڈم‘ مشہور و معروف اور مقبول ترین کارٹون چھوٹا بھیم کے ایک منفی کردار ’ٹاکیا ‘ کا عام بول چال کا زبان ہوتا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by @pagalkhana___

    تاہم کچھ سوشل میڈیا صارفین نے اس جملے کو لے کر اس بات کی بھی نشاندھی کی ہے کہ سال 1966 میں ریلیز ہوئی فلم لڑکا لڑکی میں کشور کمار نے بھی ’چین ٹپاک ڈم ڈم‘ سے ملتا جلتا جملہ استعمال کیا تھا۔

    قابل ذکر ہے کہ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی فلم کی ایک کلپس میں بالی ووڈ کے تجربہ کار اداکار کشور کمار کو ’چین پٹاخ ڈم ڈم‘ کہتے ہوئے دیکھا اور سنا جاسکتا ہے۔

    یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انٹرنیٹ پر کئی طرح کی میمز کی بھرمار ہے اس کے علاوہ ہر زبان پر یہ فقرہ مشہور ہے۔

  • ٹی 20 ورلڈ کپ: کس میں کتنا ہے دم؟ چوکرز کے نام سے مشہور ٹیم جنوبی افریقہ

    ٹی 20 ورلڈ کپ: کس میں کتنا ہے دم؟ چوکرز کے نام سے مشہور ٹیم جنوبی افریقہ

    جنوبی افریقہ دنیائے کرکٹ کی ایک مضبوط ٹیم ہے جو آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 میں گروپ ڈی میں شامل ہے۔

    آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کا آغاز ہوچکا ہے جس میں شریک 20 ٹیموں میں جنوبی افریقہ بھی شامل ہے جو دنیائے کرکٹ کی مضبوط ٹیم کہلاتی ہے۔ تاہم بدقسمتی سے اہم اور فیصلہ کن مواقع پر ہمت ہار جانے کی عادت کے باعث بین الاقوامی کرکٹ میں اسے چوکرز کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    رواں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ گروپ ڈی میں شامل ہے جس میں سری لنکا، بنگلہ دیش، نیدرلینڈ اور نیپال کی ٹیمیں بھی موجود ہے۔ پروٹیز آج (پیر) سری لنکا کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کرے گی۔ میچ نیویارک میں کھیلا جائے گا جو پاکستانی وقت کے مطابق شام ساڑھے سات بجے شروع ہوگا۔

    تو بات ہو رہی تھی جنوبی افریقہ پر چوکرز کا لیبل لگنے کی جس کی وجہ یہ ہے کہ بڑے ٹورنامنٹ میں ہمیشہ اچھی کارکردگی کے باوجود یہ اہم اور فیصل کن میچز میں اچانک ڈھے جاتی ہے۔ ہر ٹورنامنٹ میں مضبوط ٹیم کے طور پر شرکت کرتی ہے لیکن ٹرافی اب تک کوئی نہیں جیت سکی ہے۔

    جنوبی افریقہ کی بدقسمتی کا آغاز تو 1992 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں ہوا جہاں اسے انگلینڈ کے خلاف جیت کے لیے 21 گیندوں پر 22 رنز درکار تھے اور فتح سامنے نظر آ رہی تھی لیکن اچانک آسمان سے بارش برس پڑی اور اس وقت کے متنازع قانون کے مطابق جب بارش تھمی تو جنوبی افریقہ کا ہدف تو 22 ہی تھا لیکن یہ اسے صرف ایک گیند پر بنانا تھا جو یقینی طور پر نا ممکن تھا۔ اس وقت سے یہ ٹیم ایسا گری کہ کئی بار سیمی فائنل میں پہنچی مگر جیت کے خواب کو حقیقت نہ بنا سکی۔

    ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کا آغاز 2007 میں ان کے ملک جنوبی افریقہ سے ہی ہوا لیکن اس اولین ایونٹ میں وہ سیمی فائنل تک بھی رسائی حاصل نہ کر سکی۔

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا دوسرا ایڈیشن 2009 میں ہوا جس میں سیمی فائنل میں پاکستان نے اسے ہرایا۔ گزشتہ ورلڈ کپ میں ہالینڈ نے جنوبی افر یقہ کو اپ سیٹ شکست دے کر ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا۔

    اس بار بھی جنوبی افریقہ کی ٹیم تگڑی ہے، جس میں کوئنٹن ڈی کاک، ریزا ہینڈرکس، مارکرم (کپتان)، رکلٹن، کلاسن، ملر اور اسٹبز جیسے ورلڈ کلاس ہٹرز ہیں تو ربادا، نورخیا، بارٹ مین، کوٹزی اورینسین جیسے فاسٹ بولرز بھی اسکواڈ کا حصہ ہیں تاہم اسپن میں ورائٹی کم ہے اور تینوں اسپنر بائیں ہاتھ سے بولنگ کرتے ہیں۔

    جنوبی افریقہ ہر بار کی طرح اس بار بھی ٹرافی جیتنے کا عزم لے کر ورلڈ کپ میں اپنے سفر کا آغاز کرے گی، لیکن کیا روایت پھر دہرائی جائے گی اور وہ خالی ہاتھ جائے گی یا اس بار نئی تاریخ رقم کر کے وہ چمچاتی ٹرافی اٹھائے گی اس کے لیے شائقین کرکٹ کو کچھ انتظار کرنا ہوگا۔

  • منگول باشندے چنگیز خان کا مدفن کیوں‌ دریافت نہیں‌ کرنا چاہتے؟

    منگول باشندے چنگیز خان کا مدفن کیوں‌ دریافت نہیں‌ کرنا چاہتے؟

    چنگیز خان کو تاریخ میں بہادر اور فاتح ہی نہیں‌ ظالم اور سفاک حکم راں بھی لکھا گیا ہے جس کی بہادری کے قصّے اور ظلم کی کئی داستانیں مشہور ہیں۔

    اس منگول سردار کا اصل نام تموجن تھا جو اپنی لیاقت، شجاعت اور سوجھ بوجھ میں مقامی قبائل کے سورماؤں اور سرداروں میں ممتاز ہوا۔ اپنے قبیلے کا سردار بننے کے بعد اس نے دیگر منگول قبائل کی مکمل حمایت اور ہر طرح سے مدد حاصل کرلی اور یوں ایک مضبوط ریاست قائم کرنے میں‌ کام یاب ہوا۔ منگول قبائل نے تموجن کو چنگیز خان کا خطاب دے دیا۔

    چنگیز خان نے ایشیا کا ایک بڑا حصہ فتح کرلیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ طاقت اور تلوار کے زور پر عظیم فاتح بننا چاہتا تھا اور اس کے لیے ہر قسم کا ظلم اور جبر اس کے نزدیک جائز تھا، مگر منگول اسے ایک عظیم حکم راں مانتے ہیں جس نے انھیں‌ عزت اور پہچان دی۔

    بعض مؤرخین کے نزدیک چنگیز خان وہ حکم راں‌ تھا جس نے منگولیا کو مہذب معاشرہ دیا اور ان کا وقار بلند کیا۔ یہی وجہ ہے کہ منگولیا میں چنگیز خان کا نام بڑی عزت اور فخر سے لیا جاتا ہے۔

    کیا آپ نے منگولوں کے اس ہیرو اور تاریخ‌ کے مشہور کردار کے مقبرے کا ذکر سنا ہے؟

    کوئی نہیں‌ جانتا کہ چنگیز خان کہاں‌ دفن ہے اور منگولیا کے باشندے تو یہ جاننا ہی نہیں‌ چاہتے کہ ان کے محبوب حکم راں کی قبر کہاں ہے۔

    شاید یہ بات آپ کے لیے تعجب خیز ہو، مگر اس کی بھی ایک وجہ ہے۔

    منگولیا کے لوگ سمجھتے ہیں‌ کہ چنگیز خان بعد از مرگ بے نشاں رہنا چاہتا تھا اور اگر وہ یہ خواہش رکھتا کہ مرنے کے بعد لوگ اس کی قبر پر‌ آئیں اور اسے یاد کیا جائے تو ایک حکم راں‌ کی حیثیت سے اپنی آخری آرام کے لیے ضرور کوئی وصیت چھوڑتا جس پر عمل کیا جاتا، مگر ایسا نہیں‌ ہے اور اسی لیے کوئی نہیں‌ چاہتا کہ چنگیز خان کی قبر تلاش کی جائے۔

    دنیا کے مختلف ممالک میں شاہان و سلاطین، راجاؤں اور امرائے وقت کے نہایت شان دار اور قابلِ ذکر طرزِ تعمیر کے حامل مقبرے دیکھنے کو ملتے ہیں، لیکن چنگیز خان جیسے نام ور کا کوئی نشان نہیں‌ ملتا جو حیرت انگیز ہے۔

    کہتے ہیں‌ کہ اس بادشاہ نے وصیت کی تھی کہ اس کی تدفین خاموشی سے کی جائے اور قبر کا نشان باقی نہ رہے اور ایسا ہی کیا گیا۔

    چنگیز خان کی موت کو آٹھ صدیاں گزر چکی ہیں، لیکن منگولیا میں‌ کسی کو اس کی قبر تلاش کرنے میں‌ کوئی دل چسپی نہیں‌ ہے۔

    بادشاہ کی وصیت کے علاوہ مقامی لوگوں‌ میں‌ یہ بھی مشہور ہے کہ اگر چنگیز خان کی قبر دریافت کر لی گئی اور اسے کھودا گیا تو یہ دنیا تباہ ہو جائے گی۔

    منگولیائی قدامت پسند ہیں اور مؤرخین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کا بہت احترام کرتے ہیں اور ان کی حکم عدولی کو اخلاقی جرم تصور کرتے ہیں، اور اس لیے بھی وہ چنگیز خان کی قبر تلاش نہیں‌ کرنا چاہتے۔

    عام لوگ سمجھتے ہیں‌ کہ چنگیز خان کو ‘كھینتی’ پہاڑیوں میں برخان خالدون نامی چوٹی پر دفنایا گیا تھا۔