Tag: مشہور آپ بیتیاں

  • پیلی بھیت والے بزرگ میاں محمد شیر صاحب اور جنّات

    پیلی بھیت والے بزرگ میاں محمد شیر صاحب اور جنّات

    ‘‘جوانی کے شروع میں مجھے جنّات، ہمزاد اور ستاروں کو تابع کرنے کا شوق تھا۔ میں دو برس تک اس شوق میں مبتلا رہا۔ اس زمانے کا ذکر ہے کہ کسی نے مجھ سے کہا کہ پیلی بھیت میں بزرگ رہتے ہیں جن کا نام میاں محمد شیر صاحب ہے اور وہ ایسا عمل جانتے ہیں جس سے جنات، پریاں، بھوت اور ہمزاد وغیرہ آدمی کے تابع ہوجاتے ہیں۔ یہ سن کر میں پیلی بھیت گیا اور حضرت میاں صاحب سے ملا، مگر ان کی بزرگانہ اور فقیرانہ ہیبت کے سبب میری اتنی جرأت نہ ہوئی کہ اپنا مقصد ان سے کہتا، چپ چاپ ان کی محفل میں کچھ دیر بیٹھا رہا۔ یکایک وہ خود میری طرف مخاطب ہوئے اور یہ کہنا شروع کیا۔’’

    ‘‘ارے میاں دلّی والے! سنو جب ہم تمہاری عمر میں تھے تو ہمیں جنّات تابع کرنے کا شوق ہوا اور ہم کو ایک آدمی نے جنات مسخر کرنے کا عمل بتایا۔ ہم مسجد کی لمبی جائے نماز پر بیٹھ گئے، جونہی ہم نے عمل پڑھنا شروع کیا، وہ جائے نماز خود بخود بغیر کسی لپیٹنے والے کے لپٹنی شروع ہوئی اور ہم بھی اس جائے نماز کے اندر لپٹ گئے۔ پھر کسی نے ہم کو جائے نماز سمیت مسجد کے کونے میں کھڑا کر دیا۔ کچھ دیر تو ہم جائے نماز میں لپٹے ہوئے کھڑے رہے۔ آخر ہم نے بہت مشکل سے اس جائے نماز کو کھولا اور اس کے اندر سے نکلے۔ جائے نماز کو پھر اس جگہ بچھایا اور اس پر بیٹھ کر جنّات کا عمل پڑھنا شروع کیا، مگر ہمارا دل ڈر رہا تھا اور حیرت بھی تھی کہ کس نے ہمیں جائے نماز میں لپیٹ دیا۔ دوسری مرتبہ بھی یہی ہوا یعنی پھر کسی نے جائے نماز میں ہم کو لپیٹ کھڑا کرد یا اور ہمارا دل دھڑکنے لگا اور ہم بہت ڈرے۔ آخر ڈرتے ڈرتے جائے نماز کو کھولا اور باہر نکلے۔ جائے نماز کو بچھایا اور عمل شروع کیا۔ تیسری مرتبہ بھی ہم کو کسی نے لپیٹ دیا اور ہم نے پھر کوشش کرکے اپنے آپ کو اس قید سے نکالا۔’’

    ‘‘باہر نکلے تو ایک آدمی ہمارے سامنے آیا۔ اس نے غصے اور خفگی کے لہجے میں کہا۔ تُو یہ عمل کیوں پڑھتا ہے، اور ہم کو کیوں پریشان کرتا ہے….؟
    ہم نے کہا جنّات کوتابع بنانے کے لیے۔ وہ کہنے لگا۔ ‘‘لے دیکھ میں جنّ ہوں۔ آدمی صورت میں آیا ہوں۔ تُو ہم کو مسخر کرنے کی محنت نہ کر، ہم آسانی سے کسی کے قابو میں نہیں آئیں گے، تُو خدا کا مسخر ہو جا، ہم تیرے مسخّر ہو جائیں گے۔
    یہ قصّہ سنا کر میاں محمد شیر صاحب نے فرمایا،

    میاں! اس دن سے ہم نے تو جنّات تابع کرنے کا شوق چھوڑ دیا اور خدا کی تابع داری کرنے لگے اور ہم نے دیکھا کہ واقعی جو آدمی خدا کا تابع ہو جاتا ہے تو دنیا اس کی تابع ہوجاتی ہے۔’’

    میاں صاحب کی یہ بات سن کر میں نے جنات کو مسخر کرنے کا خیال دل سے نکال دیا۔

    ‘‘میرے نانا ایک مرتبہ بہادر شاہ کے بھائی مرزا جہانگیر سے ملنے الہٰ آباد گئے۔ جہاں ان کو انگریز کمپنی نے نظر بند کر رکھا تھا۔ مرزا جہانگیر نے نانا کو ایک بڑے مکان میں ٹھہرایا۔ نانا حقّہ پیتے تھے۔ اس واسطے نوکر نے اپلے کی آگ، حقہ اور تمباکو پاس رکھ دیا اور فانوس میں شمع روشن کر دی۔’’

    ‘‘نانا عشاء کی نماز پڑھ کر پلنگ پر لیٹ گئے۔ سامنے شمع روشن تھی۔ وہ لیٹے ہوئے حقہ پی رہے تھے۔ ایکا ایکی کسی نے ان کے پلنگ کو اوپر اٹھا لیا۔ پلنگ زمین سے دو گز اونچا ہوگیا۔ نانا گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور انہوں نے پلنگ کے نیچے جھانک کر دیکھا، مگر کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ جس دالان میں ان کا پلنگ تھا، اس میں تین در تھے اور پلنگ بیچ کے در میں بچھا ہوا تھا۔ کسی نے اس پلنگ کو اونچا کر کے بیچ کے در سے اٹھایا اور آخری تیسرے در میں لے جا کر بچھا دیا۔’’

    ‘‘جب پلنگ زمین پر بچھ گیا تو نانا جان پلنگ سے اترے اور انہوں نے پلنگ گھسیٹا اور پھر بیچ کے در میں بچھا دیا۔’’

    ‘‘تھوڑی دیر کے بعد پھر پلنگ اٹھا اور خود بخود تیسرے در چلا گیا۔ نانا پلنگ کو گھسیٹ کر پھر بیچ کے در میں لے آئے۔ یہاں تک کہ تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔ تیسری مرتبہ بھی نانا پلنگ کو گھسیٹ کر بیچ کے در میں لے گئے۔ تب ایک سایہ سا نمودار ہوا جو فانوس کے پاس گیا اور شمع خودبخود گل ہوگئی۔ نانا اٹھے اور انہوں نے گندھک لگی سلائی آگ پر رکھی اور اس کو روشن کر کے شمع دوبارہ جلا دی۔ پھر وہ سایہ آیا اور اس نے شمع گُل کردی۔ غرض تین مرتبہ یہی ہوا کہ وہ سایہ شمع گُل کرتا تھا اور نانا اس کو روشن کردیتے تھے۔ جب تیسری مرتبہ نانا نے شمع روشن کی تو ایک آدمی چھت کے اوپر سے سیڑھیاں اترتا ہوا آیا اور اس نے میرے نانا کا نام لے کر کہا۔’’

    ‘‘سنو میاں غلام حسین! میں جنّ ہوں اور شمع کی روشنی سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ تم شمع گُل کر دو اور جہاں تم نے پلنگ بچھایا ہے وہاں میں رات کو نماز پڑھا کرتا ہوں۔ لہٰذا تم اپنا پلنگ بھی یہاں سے ہٹا لو۔ میں جانتا ہوں کہ تم ضدی آدمی ہو۔ میں دلّی میں تمہارے درگاہ کی زیارت کے لیے کئی مرتبہ آچکا ہوں، مگر یاد رکھو، اس مکان میں رات کے وقت جو آدمی رہتا ہے میں اس کو مار ڈالتا ہوں۔ تمہاری خیر اسی میں ہے کہ تم پلنگ یہاں سے ہٹا لو اور شمع گل کر دو، ورنہ میں تم کو مار ڈالوں گا۔’’

    نانا نے کہا۔ ‘‘بھائی جب تم جانتے ہو کہ میں ضدی آدمی ہوں تو سمجھ لو کہ جب تک جیتا ہوں نہ شمع گُل کروں گا نہ پلنگ ہٹاؤں گا۔ آج کی رات تم کسی اور جگہ نماز پڑھ لو۔ کل میں اس مکان میں نہ رہوں گا۔ یہ مرزا جہانگیر کے نوکروں نے شرارت کی کہ مجھے ایسی جگہ ٹھہرا دیا جہاں تم رہتے ہو۔’’

    ‘‘یہ بات سن کو وہ جنّ ہنسا اور اس نے کہا اچھا میاں! آج رات میں کہیں اور چلا جاؤں گا۔ مگر کل یہاں نہ رہنا۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہوگیا۔ دوسرے دن میرے نانا مرزا جہانگیر سے ملے اور ان کو بہت بُرا بھلا کہا کہ تم نے مجھے جنّات کے مکان میں کیوں ٹھہرایا۔’’

    (مشہور ادیب اور صوفی خواجہ حسن نظامی کی آپ بیتی سے انتخاب)

  • سوانح عمری اور آپ بیتی لکھنے کا فن

    سوانح عمری اور آپ بیتی لکھنے کا فن

    اردو ادب میں سوانح عمری لکھنے کی روایت پرانی ہے۔ حالی کی یادگارِ غالب، حیاتِ جاوید، شبلی نعمانی کی سیرۃُ النّبی، الفاروق، المامون، النّعمان ،الغزالی، سوانح مولانا روم، مولانا سیّد سلیمان ندوی کی حیاتِ شبلی ، سیرتِ عائشہ سوانحی حالات و کوائف سے بھری ہوئی مکمل سیرتیں ہیں۔

    ناقدوں کی رائے ہے کہ خود نوشت سوانح حیات انسانی زندگی کی وہ روداد ہے، جسے وہ خود رقم کرتا ہے اور اس میں سوانح حیات کی کسی دوسری شکل سے زیادہ سچائی ہونا چاہیے، اگر کوئی کسر رہ جائے یا مبالغہ در آئے تو وہ اچھی خود نوشت قرار نہیں پاتی۔

    خود نوشت سوانح کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ صرف ناموں کی کتھونی نہ ہو، اس میں تاریخ، سماج اور ادب کی آمیزش بھی نظر آئے، حقیقت دل کش پیرایہ میں بیان ہو، فنِ اظہار ذات کا دوسرا نام ہے، خود نوشت کا تعلق انسان کے گہرے داخلی جذبات سے ہے۔

    لہٰذا اسے فن کی اعلیٰ قدروں کا حامل ہونا چاہیے، اسی لیے خود نوشت لکھنا سوانح لکھنے سے زیادہ مشکل فن مانا جاتا ہے۔ ایک معیاری خود نوشت کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف کسی فرد کے بارے میں بیان نہ کرے، اس کے ماحول، عہد، اس دور کے رجحانات و میلانات اور معاشرتی، معاشی، ادبی اور تہذیبی پہلوؤں کو بھی سامنے لائے تاکہ اس عہد کا پورا منظر نامہ سامنے آ جائے جس میں شخص مذکور نے اپنی زندگی گزاری اور اس کی شخصیت تشکیل پائی، اس کے برعکس خود پر توجہ مرکوز کرنے سے بات نہیں بنتی، خود نوشت نگاری کا یہ بڑا نازک مقام ہوتا ہے کہ کوئی فرد اپنی شخصیت کو خود سے جدا کر کے معروضیت سے کام لے اور بے لاگ پیرایہ میں اپنی زندگی کی داستان بیان کر دے۔

    یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں خود نوشت یا آپ بیتیاں کم سپردِ قلم کی گئیں اور جو لکھی گئیں ان میں سے بیشتر مذکورہ شرائط پر پوری نہیں اترتیں۔ اردو سے پہلے فارسی میں آپ بیتی کی روایت موجود تھی۔ بادشاہوں کے حالاتِ زندگی اور صوفیائے کرام کے ملفوظات میں آپ بیتی کے ابتدائی نقوش مل جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ شیخ حزیں، میر تقی میر نے بھی فارسی میں آپ بیتی لکھی ہے۔ لیکن اردو میں آپ بیتی کے فن کو 1857ء کے خونی انقلاب کے بعد فروغ ملا۔ جب اس معرکہ کے مجاہدوں اور سپاہیوں نے اپنی یادداشتیں لکھیں، ان کے علاوہ جعفر تھانیسری کی آپ بیتی ‘تواریخِ عجیب’ (کالا پانی)، نواب صدیق حسن خاں کی ‘البقاء لمن بالقا المحن’، ظہیر دہلوی کی ‘داستانِ غدر’ اور عبدالغفور نساخ کی ‘حیات نساخ’ سپردِ قلم کی گئیں۔ جن میں ‘حیات نساخ ‘ کو اردو ادب کی پہلی آپ بیتی تسلیم کیا جاتا ہے۔

    آزادی کے بعد حسرت موہانی کی ‘قیدِ فرنگ’ مولانا ابوالکلام آزاد کی ‘تذکرہ’ دیوان سنگھ مفتون کی ‘ناقابلِ فراموش’ معیاری خود نوشتوں میں شمار کرنے کے لائق ہیں۔

    ‘کاروانِ زندگی’ مولانا ابوالحسن علی ندوی کی خود نوشت کئی جلدوں پر محیط اور اپنے پورے عہد کی معلومات فراہم کرتی ہے۔ ‘کاروانِ حیات’ قاضی اطہر مبارکپوری کی خود نوشت مختصر اور کتابی شکل میں غیر مطبوعہ ہے جو ماہنامہ ‘ضیاء الاسلام’ میں شائع ہوئی ہے۔ خواجہ حسن کی نظامی کی ‘آپ بیتی’، چودھری فضلِ حق کی ‘میرا افسانہ، بیگم انیس قدوائی کی ‘نیرنگیٔ بخت’، مولانا حسین احمد مدنی کی ‘نقشِ حیات’، رضا علی کی ‘اعمال نامہ’، کلیم الدین احمد کی ‘اپنی تلاش میں’، یوسف حسین خاں کی ‘یادوں کی دنیا’ بھی قابلِ ذکر خود نوشتیں ہیں۔

    رشید احمد صدیقی کے باغ و بہار قلم نے ‘آشفتہ بیانی میری’ میں بچپن کے حالات، ابتدائی تعلیم، خاندان کی معلومات تو کم لکھیں، اپنے وطن جونپور کی تاریخ و تہذیب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کا نصف سے زیادہ حصہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے زمانۂ تعلیم کی سرگرمیوں پر مشتمل ہے جس میں ڈاکٹر ذاکر حسین، اقبال سہیل، ثاقب صدیقی جیسی شخصیات سے ان کے رشتہ پر روشنی پڑتی ہے۔

    ان کے علاوہ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی ‘یادوں کا جشن’ میں ان کے خاندانی احوال، فارغ البالی، رئیسانہ مشاغل کا تفصیلی بیان ہے۔ وزیر آغاز کی ‘شام کی منڈیر سے’ ان کی نجی زندگی کے ساتھ پورے عہد کے اہم واقعات پر محیط ہے۔ رفعت سروش کی ‘ممبئی کی بزم آرائیاں’ میں ان کی زندگی، نوکری اور ترقی پسند تحریک کے حوالے کافی معلومات فراہم کی گئی ہے۔ اخترُ الایمان کی ‘اس آباد خرابے میں’ زندگی کے واقعات و مسائل کے بیان میں جس صداقت سے کام لیا گیا ہے وہ کم خود نوشتوں میں ملتا ہے۔

    (عارف عزیز کے مضمون سے چند پارے، مصنّف کا تعلق بھارت کے شہر بھوپال سے ہے)

  • ’ارجنٹینا‘ میں ’دستِ صبا‘

    ’ارجنٹینا‘ میں ’دستِ صبا‘

    ایک دن مسز فیض سے اس سلسلے میں باتیں ہو رہی تھیں تو میں نے کہا کہ فیض تو یہاں ہیں نہیں کہ وہ خود اپنے دوستوں اور عزیزوں کو اپنی کتاب پیش کرتے۔ کیوں نہ ہم کتاب کی اشاعت کے موقع پر کچھ اخبار نویسوں، فیض کے احباب اور عزیزوں کو مدعو کر کے پریس کانفرنس کریں اور کتابیں انہیں فیض کی جانب سے پیش کر دیں۔

    خیال رہے کہ یہ بات آج سے تقریباً ساٹھ (60) سال پہلے کی ہے۔ اس زمانے میں کسی کتاب کی اشاعت پر کوئی تقریب منعقد کرنے کا رواج نہ تھا بلکہ اس قسم کی تقریب کا تصور بھی ذہنوں میں نہ تھا۔

    چناں چہ جب میں نے مسز فیض سے ایسی تقریب منعقد کرنے کا ذکر کیا تو اسے پریس کانفرنس کا نام ہی دے سکا، کیوں کہ اس زمانے میں انگریزی تقریبِ رونمائی کی ترکیب وضع ہو کر ابھی رائج نہ ہوئی تھی۔ حتیٰ کہ انگریزی میں (Book Launching ceremony) کی اصطلاح بھی عام طور پر مستعمل نہ تھی۔

    اس لیے مسز فیض نے بھی میری مجوزہ تقریب کے متعلق فیض کو پریس کانفرنس کرنے کے متعلق ہی لکھا جس کے جواب میں فیض نے اپنے خط مؤرخہ 25 اکتوبر 1952ء میں لکھا:

    ’کتاب کی اشاعت کہاں تک پہنچی ہے۔ پریشان افکار کے اس مجموعے کے لیے پریس کانفرنس منعقد کرنا مجھے کچھ مبالغہ سا معلوم ہوتا ہے، لیکن شاید اس میں کچھ فائدہ ہو۔ مجھے ٹھیک سے معلوم نہیں کہ ایسے موقعوں پر کیا کہنا چاہیے۔ شاید کہا جا سکتا ہے کہ تمام ادب خواہ کسی سیاسی نظریے، کسی مکتب فکر یا کسی شخص کے متعلق ہو، بہر صورت قومی اثاثے کا جزو ہے۔ اس لیے حالات کچھ بھی ہوں ادب کی تخلیق بہر صورت ایک قومی خدمت کی ادائیگی ہے، جس کا کچھ اعتراف اور کچھ قدر ہونی چاہیے۔

    شاید ابھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر خادمِ قوم کی طرح، ہر ادیب کو کم از کم آزادی ضرور میسر ہونی چاہیے کہ وہ خدمت انجام دے سکے۔ اس اعتبار سے اگر اس شخص کی شخصی آزادی کو گزند پہنچایا جائے تو اس اقدام سے صرف اس کی ذات ہی نہیں اور بہت سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔‘

    فیض جیل میں تھے اور میرا ادارہ پیپلز پبلشنگ ہاؤس زیرِ عتاب۔ میرے کئی ساتھی بھی جیل میں تھے۔ ان حالات میں ہم لوگوں کی جانب سے کسی تقریب کا انعقاد جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ سی آئی ڈی والے ہر وقت ساتھ رہتے حتیٰ کہ ریسٹورنٹ کے کارپردازان کو بھی پریشان کیا گیا۔ ایسی صورتِ حال کے پیشِ نظر تقریب کی صدارت کے لیے کسی بااثر شخصیت یا وزیر وغیرہ سے استدعا کرنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

    چناں چہ میں نے دیرینہ پڑوسی اور مرّبی جناب عبدُالرحمٰن چغتائی سے صدارت کے لیے درخواست کی جو انہوں نے بلا تأمل قبول کر لی۔ اس سے پیشتر فیض اور میری فرمائش پر وہ ’دستِ صبا‘ کا سرورق بھی ڈیزائن کر چکے تھے۔

    چناں چہ 22 دسمبر 1952ء کو بوقت سہ پہر مال روڈ (شاہراہِ قائد اعظم) کے ریسٹورنٹ جس کا نام ’ارجنٹینا‘ تھا، میں یہ پریس کانفرنس یا افتتاحی تقریب منعقد ہوئی اور یہ بات بلامبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی کتاب کی ہی پہلی افتتاحی تقریب رونمائی تھی جو اسی طرز اور اہتمام سے منعقد ہوئی جس طرح کہ آج کل ایسی تقاریب عام طور پر منعقد ہوتی ہیں۔

    میں فی زمانہ کتابوں کی منعقد ہونے والی تقاریب رونمائی کی روداد اخباروں میں پڑھتا ہوں تو معاً میرا ذہن ’دستِ صبا‘ کی اشاعت کے موقع پر اپنی طرف سے منعقدہ کردہ تقریب کی طرف چلا جاتا ہے اور فیض کا یہ شعر جو اس زمانے میں ’دستِ صبا‘ کے اشتہارات میں بھی آیا کرتا تھا، یاد آ جاتا ہے۔

    ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
    فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے

    (عبدالرؤف ملک کی کتاب سرخ سیاست سے ایک پارہ)

  • دلّی والوں کا دستر خوان

    دلّی والوں کا دستر خوان

    1947ء سے پہلے تک دلّی والوں کا دستر خوان بڑا سادہ ہوتا تھا۔ جیسا بھی کچھ زور تھا وہ بس دو وقت کے کھانے پر تھا، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا۔

    ناشتے کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا تھا، سوائے اس کے کہ شدید گرمی کے موسم میں تانبے کی درمیانی سائز کی قلعی دار بالٹی میں کبھی برف ڈال کر تخمِ ریحاں کا شربت بن گیا، جسے بول چال کی زبان میں تخمراں کا شربت کہتے تھے اور بہت سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ تخمراں اصل میں کس لفظ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔

    کسی دن ستّو بن گئے، ستّوﺅں میں مٹھاس کے لیے گڑ کی شکر پڑتی تھی، کسی دن اور زیادہ عیش کا موڈ آیا تو بازار سے دہی منگوا کے دہی کی لسّی بنالی۔ سب نے ایک ایک گلاس اس مشروب کا پیا اور بس ناشتہ ہوگیا۔

    شدید گرمی کے علاوہ باقی موسم میں ناشتے کے نام پر صرف چائے بنتی تھی جس کے لیے تانبے کی قلعی دار پتیلی چولھے پر چڑھتی تھی، جو پانی چائے بنانے کو ابالنے کے چڑھایا جاتا تھا اس میں تھوڑی سی کنکریاں نمک کی ضرور ڈالی جاتی تھیں، پانی میں اُبال آنے کے بعد اس میں چائے کی پتّی ڈالی جاتی تھی اور اسے اس وقت تک اونٹایا جاتا تھا جب تک کہ چائے کی پتّی خوب پانی پی کر پتیلی کی تہ میں نہ بیٹھ جائے۔

    اب اس میں چینی اور بھینس کا جوش کیا ہوا بالکل خالص دودھ ملایا جاتا تھا، اس کے بعد چند منٹ تک چائے چلانے کے لیے ایک خاص قسم کے چمچے سے جسے گھَنٹی کہتے تھے، چائے بھر بھر کے کئی بار نکالی اور انڈیلی جاتی تھی جیسے دودھ کی دکان پر دودھ والے کڑھاﺅ میں سے لُٹیا میں دودھ نکال کر اونچائی پر لے جاکر واپس کڑھاﺅ میں ڈالتے ہیں، یہ اس لیے تاکہ چائے کا درجہ حرارت اس مقام پر قائم رہے جہاں اس کے ابلنے کا احتمال نہ ہو، اب گویا چائے تیار۔

    ایک دوسری قلعی دار پتیلی میں یہ چائے چھان کر پلٹ لی جاتی اور پھر اس گھنٹی سے نکال نکال کر سب کو دی جاتی تھی۔ چائے یا چینی کے تیز یا ہلکا ہونے کا کوئی مذاق اس وقت تک نہیں پیدا ہوا تھا، سب کو ایک ہی برانڈ کی چائے ملتی تھی۔

    بعض بچّے یہ چائے، چائے کے کپ میں پینے کے بجائے چینی کے پیالے میں لیتے تھے اور اس میں رات کی بچی ہوئی روٹی کے ٹکڑے بھگو کر چمچے سے سڑپ سڑپ کر کے کھاتے تھے۔ بچّوں کو چائے دن بھر میں صرف ایک بار صبح ناشتے پر ملتی تھی، باقی ناشتے کی بچی ہوئی چائے قدرے چھوٹی پتیلی میں منتقل کر کے گنجینے (توشہ خانے) میں رکھ دی جاتی تھی، شام تک ایک دو دور اس چائے کے بڑوں کے چلتے تھے۔

    جب موسم ذرا گلابی ہوجاتا تو پھر بچّوں کو ناشتے میں چھوٹی سی روغنی ٹکیہ اور انڈے کا چھوٹا آملیٹ ملتا تھا، اس طرح کہ ایک انڈے کو پھینٹ کر اس میں سے کم از کم چار چھوٹی چھوٹی ٹکیاں انڈے کی تل کر بچوں کو روغنی ٹکیہ کے اوپر رکھ کر دی جاتی تھی، کبھی کبھی زیادہ عیش کا موڈ ہوا تو بازار سے حلوہ پوری یا نہاری آگئی۔

    (پروفیسر اسلم پرویز (مرحوم) کی آپ بیتی ‘‘میری دلّی‘‘ سے انتخاب)

  • برطانوی حکومت کے حق میں ہندوستانی طلبہ کی ذہن سازی کیسے کی جاتی تھی؟

    برطانوی حکومت کے حق میں ہندوستانی طلبہ کی ذہن سازی کیسے کی جاتی تھی؟

    انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا راج برقرار رکھنے کے لیے جہاں من مانے اصولوں اور قوانین کا سہارا لیا، وہیں ہندوستانیوں کی حمایت اور وفاداریاں سمیٹنے کی کوشش بھی کی اور لوگوں کو یہ باور کرایا کہ برطانیہ اس خطّے اور مقامی لوگوں کی ترقی و خوش حالی چاہتا ہے جس کا ثبوت مختلف سرکاری اسکیمیں اور ترقیاتی کام ہیں۔

    کہتے ہیں اس زمانے میں عام لوگوں اور اسکولوں کے طلبہ کی "برکاتِ حکومتِ انگلشیہ” کے تحت لٹریچر سے ذہن سازی کی جاتی تھی۔ اس ضمن میں برطانوی راج کے فوائد و ثمرات سے متعلق سوالات ہوتے اور درست جواب دینے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ اس حوالے سے اردو کے مشہور و معروف افسانہ اور ناول نگار، فلمی ہدایت کار اور صحافی خواجہ احمد عباس کی آپ بیتی ‘‘جزیرہ نہیں ہوں میں‘‘ سے یہ اقتباس لائقِ مطالعہ ہے۔

    خواجہ احمد عباس نے ایسے ہی ایک واقعے کو یوں رقم کیا ہے:

    ”مجھ سے آگے والے لڑکے سے انسپکٹر صاحب نے کہا، ”تم بتاؤ برطانوی راج کی رحمتیں کون کون سی ہیں؟“

    جواب پہلے سے ہمیں زبانی یاد کرایا جاچکا تھا اور ہم کو وہی دہرانا تھا۔ ”برطانوی حکومت نے ہندوستان کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ سڑکیں بنوائی ہیں، ریلوے، ڈاک خانے، اسکول، اسپتال….“

    لڑکا کچھ ایسا ذہین نہیں تھا۔ اردو بولتے بولتے بھی اکھڑ گیا۔ انگریزی تو ہمارے اساتذہ تک کو نہیں آتی تھی۔

    ”جناب انسپکٹر صاحب، برطانوی حکومت نے ہمارے لیے بنائیں سڑکیں، ریلیں، ڈاک خانے….“ اس سے آگے کی فہرست وہ بھول گیا اور خاموش ہوگیا۔

    ”اور… اور؟“ انسپکٹر نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پوچھا۔ اس کو امید تھی کہ لڑکا کہے گا شفا خانے، کتب خانے وغیرہ وغیرہ۔

    ”اور کون بتا سکتا ہے؟“ انسپکٹر نے پوچھا۔ میں نے فوراً اپنا ہاتھ اٹھا دیا۔

    یہ واقعہ ہمارے شہر میں مہاتما گاندھی کی آمد کے فوراً بعد کا ہے اور مجھ کو معلوم تھا کہ ان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ مجھ کو صرف ایک ہی اور ”خانہ“ معلوم تھا، جو لڑکا بتانا بھول گیا تھا۔

    ”ہاں؟“ انسپکٹر صاحب نے میری طرف رُخ کیا۔ میں جماعت میں سب سے چھوٹا تھا۔ انھوں نے مسکرا کر میرا حوصلہ بڑھاتے ہوئے پہلے والے لڑکے کے الفاظ دہرائے۔ ”ریلیں، سڑکیں، ڈاک خانے….؟“

    میں نے بہ آوازِ بلند فاتحانہ انداز سے کہا۔ ”قید خانے۔“

    میرا اشارہ ان قید خانوں کی طرف تھا جن میں مہاتما گاندھی، علی برادران اور ان کے بہت سے پیرو کاروں کو بند کر کے رکھا گیا تھا۔

    میرے جواب پر انسپکٹر صاحب خوش نہیں ہوئے۔ حالاں کہ میں مطمئن تھا کہ قید خانے اور ڈاک خانے ہم صوت تھے۔