Tag: مشہور اداکار

  • دانیہ انور کے سسر کونسے مشہور اداکار ہیں؟ جان کر حیران رہ جائیں گے

    دانیہ انور کے سسر کونسے مشہور اداکار ہیں؟ جان کر حیران رہ جائیں گے

    پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ دانیہ انور نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ ان کا انڈسٹری کے لیجنڈری اداکار کے ساتھ قریبی رشتہ ہے۔

    دانیہ انور انڈسٹری کی بہت باصلاحیت اداکارہ ہیں، کچھ سالوں سے مسلسل کام کرتے ہوئے بہترین پرفارمنس دی ہے اور اب تک کئی ہٹ ڈراموں کا حصہ بھی رہ چکی ہیں جب کہ اداکارہ ابھی تماشا سیزن 3 میں بھی نظر آئیں۔

    اداکارہ دانیہ انور نے حال ہی میں اداکار عمران اشرف کے شو میں بطور مہمان شرکت کی جہاں انہوں نے اپنی پرائیوٹ زندگی سے متعلق اہم بات بتائی ہے۔

    اداکارہ نے کہا کہ یک طرفہ محبت بیکار ہے میں نے اپنی زندگی میں دو بار محبت کا تجربہ کیا، عمران اشرف نے پھر بتایا کہ کس طرح ان کے دوسرے شوہر فرحان نے انہیں دوبارہ محبت پر یقین دلایا۔

    شو کے دوران عمران اشرف نے کہا کہ دانیہ بہت پرائیویٹ شخص ہیں اور وہ اپنے خاندان کے بارے میں زیادہ شیئر نہیں کرتی ہیں لیکن ان کے شوہر دراصل ایک مشہور شخصیت ندیم بیگ کے بیٹے ہیں۔

    دانیہ انور کے شوہر فرحان بیگ لیجنڈ فلم اسٹار ندیم بیگ کے بیٹے ہیں، شو میں انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اداکارہ نےکہا کہ میرے شوہر نے محبت پر میرا اعتماد بحال کیا اور مجھے محبت پر یقین دلایا۔

    واضح رہے کہ اداکارہ دانیہ انور نے اس سے قبل بتایا تھا کہ اُنہوں نے اپنے دوست کے بھائی اور خود سے  5 سال بڑے شخص سے محض 19 سال کی عمر میں شادی کر لی تھی، یہ شادی محبت کی تھی جس کا تجربہ اور نتیجہ اچھا نہیں رہا۔

  • بالی ووڈ کے کس مشہور اداکار نے سب سے زیادہ ٹیکس دیا؟

    بالی ووڈ کے کس مشہور اداکار نے سب سے زیادہ ٹیکس دیا؟

    ممبئی: بھارت میں رواں مالی سال 24-2023ء کی ٹیکس کی ادائیگی کی رپورٹ سامنے آ گئی۔

    بھارت میں رواں مالی سال 24-2023ء کی ٹیکس کی ادائیگی کی رپورٹ سامنے آ گئی، فارچیون انڈیا کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال مشہور شخصیات میں سب سے زیادہ ٹیکس کی ادائیگی کنگ خان نے ادا کی ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق شاہ رخ خان نے 2023 سے 2024 کے مالی سال کے دوران سب سے زیادہ ٹیکس ادا کر کے تمام مشہور شخصیات کو پیچھے چھوڑ دیا، اداکار  نے 92 کروڑ روپے ٹیکس ادا کیے۔

    اس کے علاوہ ٹیکس ادا کرنے والے 10 مشہور شخصیات میں دوسرے نمبر پر اداکار تھلاپتی وجے ہیں انہوں نے 80 کروڑ روپے ٹیکس ادا کیے، باکس آفس پر ایک معمولی سال کے باوجود سلمان خان 75 کروڑ روپے ٹیکس ادا کرکے تیسرے نمبر پر ہیں۔

    میتابھ بچن بھی تفریحی دنیا میں ایک غالب شخصیت رہے، 1000 کروڑ روپے کی بلاک بسٹر کالکی 2898 اے ڈی میں اپنے کردار کے بعد انہوں نے ٹیکس میں 71 کروڑ روپے کا حصہ ڈالا۔

    بالی ووڈ اسٹارز اجے دیوگن اور رنبیر کپور نے اس سال بالترتیب 42 کروڑ اور 36 کروڑ روپے ٹیکس کی مد میں دیے، فائٹر فلم کے مشہور اداکار ہریتک روشن 28 کروڑ روپے کی ٹیکس ادائیگی کے ساتھ 10ویں نمبر پر ہیں۔

    دیگر قابل ذکر شخصیات میں کامیڈین کپل شرما 26 کروڑ روپے، اداکار کرینہ کپور 20 کروڑ روپے، شاہد کپور 14 کروڑ روپے اور کترینہ کیف نے 11 کروڑ روپے ٹیکس ادا کیے۔

  • الیاس کاشمیری: فلمی اداکار جو زندگی کے آخری ایّام میں‌ احساسِ گناہ میں‌ مبتلا رہے

    الیاس کاشمیری: فلمی اداکار جو زندگی کے آخری ایّام میں‌ احساسِ گناہ میں‌ مبتلا رہے

    زندگی کے آخری ایّام میں الیاس کاشمیری گم نامی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ وہ جسمانی عوارض کے ساتھ شدید کرب اور پچھتاوے کا شکار بھی تھے۔ ذیابیطس اور اس مرض کی پیچیدگی کے نتیجے میں ٹانگ سے محروم ہوجانے کے بعد وہ اپنی بیماریوں اور تکالیف کو فلم نگری کی چکاچوند اور رنگینیوں کا نتیجہ گردانتے تھے۔

    آج الیاس کاشمیری کی برسی ہے۔ 12 دسمبر 2007ء کو پاکستانی فلمی صنعت کے اس مشہور اداکار نے زندگی کی آخری سانس لی تھی۔ وہ بڑے پردے کے ایک کام یاب ولن تھے۔

    معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار نے ان کے بارے میں‌ لکھا، الیاس کاشمیری نے نِصف صدی پر پھیلے ہوئے اپنے فلمی کیریئر میں پانچ سو کے قریب فلموں میں کام کیا۔ یوں تو انھوں نے ہیرو سے لے کر وِلن اور منچلے نوجوان سے لے کر بوڑھے جاگیردار تک ہر رول میں ڈھلنے کی کوشش کی لیکن وِلن کا سانچہ اُن پر کچھ ایسا فِٹ بیٹھا کہ چالیس برس تک وہ مسلسل وِلن کا کردار ہی کرتے رہے۔

    الیاس کاشمیری 25 دسمبر 1925ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے مجموعی طور پر 547 فلموں میں کام کیا جن میں سے بیش تر فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔

    1946ء میں دراز قد اور خوبرو نوجوان الیاس کاشمیری اپنے دوست کے بلاوے پر بمبئی پہنچے تھے اور فلم ’ملکہ‘ میں شوبھنا سمرتھ کے مقابل ہیرو کا رول حاصل کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد الیاس کاشمیری لاہور آگئے جہاں 1949ء میں آغا جی اے گُل نے فلم ’مندری‘ بنائی تو آہو چشم راگنی کے مقابل خوب رُو الیاس کاشمیری کو ہیرو کا رول مل گیا۔ یہ پاکستان میں ان کی پہلی فلم تھی۔ انہوں نے چند اُردو فلموں میں بھی کام کیا، لیکن اصل کام یابی پنجابی فلموں کے ذریعے ہی نصیب ہوئی۔

    1956ء میں ’ماہی منڈا‘ ان کی پہلی کام یاب فلم کہلا سکتی ہے جس کے ایک ہی برس بعد انہیں ’یکے والی‘ جیسی سُپر ہٹ فلم میں کام مل گیا۔ اگرچہ اُردو فلم اُن کی شخصیت اور مزاج کو راس نہ تھی، لیکن 1957ء میں ڈبلیو زیڈ احمد نے اپنی فلم ’وعدہ‘ میں صبیحہ سنتوش کے ساتھ الیاس کاشمیری کو ایک ایسے رول میں کاسٹ کیا جو خود فلم ’وعدہ‘ کی طرح لا زوال ثابت ہوا۔ اس طرح کی کام یابی وہ صرف ایک مرتبہ اور حاصل کرسکے جب 1963ء میں انھوں نے خود فلم ’عشق پر زور نہیں‘ پروڈیوس کی۔ یہاں ان کے مقابل اسلم پرویز اور جمیلہ رزّاق تھیں اور الیاس کاشمیری ہیرو نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ڈاکٹر کے رول میں ساری فلم پہ چھائے ہوئے تھے۔

    الیاس کاشمیری کی کام یاب کمرشل فلموں کا دوسرا دور 1970ء کے بعد شروع ہوا۔ فلم ’بابل‘ اور ’بشیرا‘ نے جہاں سلطان راہی کے لیے مستقبل میں ایک عظیم فلمی ہیرو بننے کا راستہ ہموار کیا، وہیں الیاس کاشمیری کو بھی کام یاب ترین وِلن کا تاج پہنا دیا۔

    1973ء میں الیاس کاشمیری اور منور ظریف نے فلم ’بنارسی ٹھگ‘ میں ایک ساتھ نمودار ہوکر تماشائیوں سے زبردست داد بٹوری۔ اسی زمانے میں ’مرزا جٹ‘، ’باؤ جی‘، ’بدلہ‘، ’زرقا‘، ’دلاں دے سودے‘، ’دیا اور طوفان‘، ’سجن بے پرواہ‘، ’سلطان‘، ’ضدی‘، ’خوشیا‘، ’میرا نام ہے محبت‘ اور ’وحشی جٹ‘ جیسی فلمیں منظرِ عام پر آئیں اور الیاس کاشمیری پاکستان کے معروف ترین اداکاروں میں شمار کیے گئے۔

  • فلمی صنعت کے معروف اداکار ایم اسماعیل کی برسی جو بھائیا جی مشہور تھے

    فلمی صنعت کے معروف اداکار ایم اسماعیل کی برسی جو بھائیا جی مشہور تھے

    ایم اسماعیل نے تقسیمِ ہند سے قبل بننے والی فلموں سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔ آزادی کے بعد جب پاکستان میں فلمی صنعت کا قیام عمل میں آیا تو انھوں نے یہاں اپنی اداکاری سے بڑا نام و مقام پیدا کیا۔ ایم اسماعیل نے انڈسٹری کو کئی کام یاب فلمیں‌ دیں۔ آج اس معروف اداکار کی برسی ہے۔

    فلم انڈسٹری کے اس معروف اداکار نے 22 نومبر 1975ء کو وفات پائی۔ ان کا تعلق اندرونِ بھاٹی گیٹ، لاہور کے ایک ایسے گھرانے سے تھا جو علم و فنون کا دلدادہ اور خطّاطی کے فن کے لیے مشہور تھا۔ ایم اسماعیل 6 اگست 1902ء کو پیدا ہوئے۔ خطّاطی اور مصوّری کا شوق اور اس میں‌ کمال و مہارت انھیں گویا ورثے میں‌ ملی تھی۔ وہ خوش نویسی اور اسکیچ بناتے تھے۔

    ایم اسماعیل جس محلّے میں رہتے تھے، وہیں اپنے وقت کے نام وَر فلم ساز اے آر کاردار بھی رہائش پذیر تھے۔ انھوں نے خوب رُو اور جاذبِ نظر ایم اسماعیل کو فلم نگری میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا اور اداکاری کی طرف راغب کیا۔ ان کے کہنے پر ایم اسماعیل نے بمبئی کا رخ کیا جو متحدہ ہندوستان میں اس وقت فلم سازی کا مرکز تھا۔ وہ خاموش فلموں کا زمانہ تھا۔ وہاں انھیں‌ چند فلموں‌ میں کام کرنے کا موقع ملا اور شوق پورا ہونے کے ساتھ انھوں نے بہت کچھ سیکھا بھی۔ تاہم جب لاہور میں فلمیں بننے لگیں تو ایم اسماعیل یہیں‌ چلے آئے اور فلمی صنعت میں اپنی جگہ بنائی۔

    ایم اسماعیل کی خاموش فلموں میں حسن کا ڈاکو، آوارہ رقاصہ اور ہیر رانجھا بہت مشہور ہوئیں۔ لوک داستانوں اور تاریخی کرداروں پر مبنی فلموں میں انھوں نے اپنی شان دار اداکاری سے شائقین کے دل جیتے۔ فلم ہیر رانجھا میں اس اداکار نے کیدو کا مشہور کردار نبھایا تھا۔

    ناطق فلموں کا دور شروع ہوا تو انھیں یہی کردار حورِ پنجاب اور ہیر سیال نامی فلموں میں ادا کرنے کا موقع ملا۔ ایم اسماعیل نے خزانچی، پھول، سوہنی مہینوال، وامق عذرا اور لیلیٰ مجنوں جیسی کام یاب فلموں میں اداکاری کی جنھیں‌ شائقین نے بہت سراہا اور اس اداکار کو بڑی پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے پنجابی فلموں کے ساتھ اردو فلموں‌ میں بھی اداکاری کی۔ وہ اپنے چہرے کے تاثرات اور فطری اداکاری کے ساتھ اپنی تیکھی آواز کے لیے بھی مشہور تھے۔

    ان کی آخری فلم مان جوانی دا تھی جو 1977ء میں‌ نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے اس معروف اداکار نے مجموعی طور پر 156 فلموں میں‌ کام کیا تھا۔ ایم اسماعیل لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • خوش شکل اور دراز قد شیام جس نے فلم کی عکس بندی کے دوران زندگی ہار دی

    خوش شکل اور دراز قد شیام جس نے فلم کی عکس بندی کے دوران زندگی ہار دی

    شیام کا نام آج شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ وہ ایک ایسے اداکار تھے جن کا بطور ہیرو فلمی سفر بہت مختصر رہا اور وہ 26 اپریل 1951ء میں ایک حادثے میں اپنی زندگی سے محروم ہوگئے۔ شیام کا اصل نام شیام سندر چڈھا تھا جنھوں نے 1920ء میں سیالکوت کے کتھری ہندو گھرانے میں آنکھ کھولی اور راولپنڈی میں پرورش پائی۔ یہیں‌ تعلیم کے مراحل طے کرنے کے بعد شیام فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے۔

    شیام نے اداکاری کا آغاز ایک پنجابی فلم”گوانڈی” سے کیا۔ یہ فلم 1942ء میں بنائی گئی تھی۔ اس فلم کے بعد وہ بمبئی چلے گئے اور تقسیم کے بعد وہیں رہے، بمبئی میں انھوں نے ایک اداکار کی حیثیت سے متعدد کام یابیاں سمیٹیں۔ لیکن قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوئی اور بطور ہیرو ان کی شہرت اور مقبولیت کا سفر شروع ہوا تو زندگی ان سے روٹھ گئی۔

    شیام خوش شکل اور دراز قد تھے۔ وہ رومان پرور مشہور تھے۔ فلمی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد اداکاراؤں کے ساتھ ان کی دوستیوں کا چرچا ہونے لگا۔ اس زمانے کے فلمی میگزین شیام سے متعلق خبریں اور فلم نگری میں ان کی قربتوں اور دوستیوں پر مضامین شایع کرتے رہتے تھے۔ ایک دن یہ خبر آئی کہ شیام گھوڑے سے گر کر ہلاک ہو گئے ہیں۔

    ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک اچھے گھڑ سوار بھی تھے، لیکن فلم "شبستان” کی شوٹنگ کے دوران ایک سین کی عکس بندی کے دوران ان کا گھوڑا بدک گیا اور شیام زمین پر آرہے، لیکن پیر رکاب میں پھنس جانے اور گھوڑے کے مسلسل دوڑتے رہنے سے شیام کو سَر اور جسم پر شدید چوٹیں آئیں اور جب تک لوگوں نے گھوڑے کو قابو کیا، اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ شیام کو اسپتال لے جایا گیا مگر وہ زندگی کی بازی ہار چکے تھے۔

    شیام کی فلموں کی تعداد 30 کے لگ بھگ ہے۔ بازار ان کی کام یاب ترین فلم تھی جسے 1949ء میں‌ نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ من کی جیت، پتنگا، مینا بازار میں‌ بھی شیام نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔

    شیام محض 31 سال کے تھے جب اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے گہرے دوست بھی تھے۔

  • بلراج ساہنی: باکمال اداکار، ہمہ جہت شخصیت

    بلراج ساہنی: باکمال اداکار، ہمہ جہت شخصیت

    ہندوستانی فلمی صنعت کے باکمال اداکار اور ہمہ جہت شخصیت بلراج ساہنی 13 اپریل 1973ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فن کار تھے جنھوں نے نہ صرف اداکار بلکہ اسکرین رائٹر، ڈراما اور سفر نامہ نگار کی حیثیت سے بھی اپنے فن اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور خوب نام و مقام پیدا کیا۔

    بلراج ساہنی کا شمار ان اداکاروں‌ میں‌ کیا جاتا ہے جن کا کام دوسروں کے لیے مثال اور قابلِ تقلید بنا۔ 1913ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہونے والے بلراج ساہنی نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ 30ء کی دہائی کے آخر میں انھوں نے ایک جامعہ میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔

    بعد میں لندن چلے گئے جہاں ریڈیو انائونسر کی ملازمت کی، لیکن 1943ء میں ہندوستان واپس آ گئے۔ اداکاری کا شوق انھیں شروع سے ہی تھا۔ وہ انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن کے ڈراموں میں حصہ لیتے رہے، 1946ء میں فلم ’’انصاف‘‘ سے اداکاری کا آغاز کیا۔ اسی سال خواجہ احمد عباس کی فلم ’’دھرتی کے لال‘‘ اور پھر ’’دور چلیں‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔

    1953ء میں ’’دو بیگھے زمین‘‘ میں کام سے خوب شہرت حاصل کی۔ کینز کے فلمی میلے میں انھیں انعام سے بھی نوازا گیا۔ ’’کابلی والا‘‘ ان کی وہ فلم تھی جس نے ہر طرف دھوم مچا دی اور بلراج ساہنی کی اداکاری کو بہت سراہا گیا۔

    بلراج ساہنی نے اپنے وقت کی تمام معروف ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا جن میں پدمنی، نوتن، مینا کماری، وجنتی مالا اور نرگس شامل ہیں۔ ان کی مشہور ترین فلموں میں سٹہ بازار، ہم لوگ، بھابی کی چوڑیاں، کٹھ پتلی، لاجونتی، وقت، تلاش، ہلچل، ایک پھول دو مالی شامل ہیں۔ ان فلموں میں‌ بلراج ساہنی نے اپنے کرداروں میں‌ حقیقت کا ایسا رنگ بھرا کہ دیکھنے والے ششدر رہ گئے۔ غریب آدمی سے لے کر مجبور کسان اور بے بس مزدور تک انھوں نے غضب کی اداکاری کی۔ انھوں نے لگ بھگ 135 فلموں میں کام کیا۔

    بلراج ساہنی بلاشبہ خداداد صلاحیتوں کے حامل تھے۔ وہ ادیب بھی تھے جنھوں نے انگریزی اور بعد میں پنجابی زبان میں ادب لکھا۔ وہ وسیع المطالعہ اور سیاسی و سماجی شعور سے مالا مال شخص تھے۔ انھوں نے اسکرین پلے رائٹر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور خود کو منوانے میں کام یاب رہے۔

  • فلم ڈائریکٹر نے مشہور اداکار راج کپور کو تھپڑ کیوں مارا؟

    فلم ڈائریکٹر نے مشہور اداکار راج کپور کو تھپڑ کیوں مارا؟

    ’بامبے ٹاکیز‘ نے بیسویں صدی کے 30 ویں عشرے میں ہندوستان کے فلم سازوں اور شائقین کو اپنی جانب متوجہ کیا اور اس بینر تلے بننے والی فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ اسی فلم اسٹوڈیو سے دلیپ کمار، مدھوبالا، راج کپور، دیوآنند جیسے فن کاروں کی شہرت کا سفر بھی شروع ہوا۔

    ہندوستانی سنیما کے مشہور اداکار راج کپور نے اسی اسٹوڈیو میں ڈانٹ سنی اور انھیں ایک روز تھپڑ بھی پڑا۔

    فلم ’جوار بھاٹا‘ کی شوٹنگ کی جارہی تھی جس میں راج کپور کا بھی ایک کردار تھا۔ فلم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کیدار شرما تھے۔

    ایک سین کی عکس بندی کے لیے جب وہ شوٹنگ شروع کرنے کو کہتے تو راج کپور کیمرے کے سامنے آتے اور اپنے بال ٹھیک کرنے لگتے۔ ایسا دو تین بار ہوا اور جب بار بار راج کپور نے یہی حرکت کی تو کیدار شرما برداشت نہ کرسکے اور آگے بڑھ کر انھیں ایک تھپڑ لگا دیا۔

    ڈائریکٹر کی جھڑکیاں اور وہ تھپڑ راج کپور کے کام آیا اور ہندی سنیما کے شائقین نے انھیں بے حد سراہا اور ان کے کام کو پسند کیا، بعد کے برسوں میں راج کپور اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے باکمال فن کاروں کی صف میں‌ کھڑے ہوئے اور ان کی فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔

    (ہندوستانی سنیما سے متعلق راج نارائن کی یادداشتوں سے ایک ورق)

  • منصور بلوچ: لاجواب اداکاری، شان دار شخصیت

    منصور بلوچ: لاجواب اداکاری، شان دار شخصیت

    پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہری دور میں جہاں کئی فن کار اپنی لاجواب اداکاری کے علاوہ اپنے منفرد لب و لہجے اور آواز و انداز کی وجہ سے پہچانے گئے ان میں منصور بلوچ کا نام بھی شامل ہے۔

    ٹیلی ویژن ڈراموں اور فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے منصور بلوچ تین مئی 1994 کو لاہور میں وفات پا گئے تھے۔ آج ٹیلی وژن اور فلم کے اس باکمال فن کار منصور بلوچ کی برسی ہے۔

    منصور بلوچ 1942 میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق نواب شاہ سے تھا۔ اسی ضلع نواب شاہ کے ایک گاؤں بچھری میں انھیں‌ سپردِ خاک گیا گیا۔

    منصور بلوچ نے متعدد سندھی فلموں اور ڈراموں میں‌ کام کیا۔ ان کے فنی سفر کا آغاز ہی سندھی زبان میں بننے والی فلم سے ہوا تھا، بعد میں پاکستان ٹیلی وژن پر ڈراموں‌ میں‌ اداکاری کے جوہر دکھانے ملا اور انھوں نے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔

    منصور بلوچ نے ٹیلی وژن کے مشہور ترین ڈراما سیریل دیواریں اور جنگل میں کردار نبھا کر خوب شہرت حاصل کی۔ ڈراما سریل دیواریں میں‌ ان کی جان دار اداکاری اور شان دار پرفارمنس یادگار ٹھہری اور پی ٹی وی ایوارڈ سے نوازے گئے۔

  • کرونا: کیا ’’جیمز بانڈ‘‘ مبینہ سازش کو بے نقاب کرسکتا ہے؟

    کرونا: کیا ’’جیمز بانڈ‘‘ مبینہ سازش کو بے نقاب کرسکتا ہے؟

    خفیہ ایجنٹ 007 کی شہرت دنیا بھر میں ہے۔ اسے آپ ’’جیمز بانڈ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

    ہالی وڈ کی بلاک بسٹر سیریز میں لگ بھگ سات دہائیوں سے اس کردار کو شائقین کی بھرپور توجہ اور دل چسپی حاصل ہے۔

    جیمز بانڈ کے کردار کو 1953 میں تخلیق کیا گیا تھا۔ یہ معروف ناول نگار ایان فلیمنگ کی اختراع ہے۔ انھوں نے بانڈ سیریز کے بارہ ناول لکھے۔

    1964 میں وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو خفیہ ایجنٹ کے اس سلسلے کو دوسرے چھے ناول نگاروں نے لکھنا شروع کیا اور خطروں سے کھیلنے والے اس پُرسرار کردار پر متعدد ڈرامے اور فلمیں بنائی گئیں۔

    برطانوی خفیہ ایجنٹ جیمز بانڈ کے اس مقبولِ عام کردار کو اپنے وقت کے نام ور اداکاروں نے نبھایا اور شائقین کی توجہ کا مرکز بن گئے۔

    اس کردار کے خالق نے ناول میں بتایا تھا کہ جیمز بانڈ ایک سفید فام وجیہہ مرد ہے، جسے دنیا ایجنٹ 007 کے نام سے جانتی ہے۔

    اس کردار نے خطروں سے کھیلتے ہوئے اپنے اسٹائل اور مخصوص اشیا جیسے گلاسز، ہیئراسٹائل، کوٹ اور ٹائی کے علاوہ بندوق تھامنے کے منفرد انداز سے بھی شائقین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ مداحوں نے یہی گیٹ اپ اپنایا اور اسی کی طرز کا لباس اور ہیئر اسٹائل بنانے لگے، جو جیمز بانڈ کی شخصیت سے ان کے بے حد متاثر ہونے کا ثبوت ہے۔

    فلمی دنیا میں ’’جیمز بانڈ‘‘ کا سفر طویل اور مالی طور پر فائدہ مند ثابت ہوا۔

    1962 میں بانڈ سلسلے کی پہلی فلم ’’ڈاکٹر نو‘‘ تھی اور اداکار شین کونری کا اس ایجنٹ کے روپ میں سامنے آنا گویا تہلکہ خیز ثابت ہوا، اس اداکار نے سنیما کے شائقین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ جیمز سیریز میں بانڈ گرل کا کردار بھی بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس کے لیے اداکارہ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔

    ’’جیمز بانڈ‘‘ نے کئی اہم اور مشکل ترین کام انجام دیے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں جہاں کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے اور اس کا علاج دریافت کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، وہیں سوشل میڈیا پر مختلف مفروضے گردش میں ہیں جن میں وائرس کو لیبارٹری میں تیار کردہ حیاتیاتی ہتھیار اور اس کے ذریعے مخصوص ممالک کی معیشت کو برباد کرکے مفادات کی تکمیل بتایا جارہا ہے۔ تاہم عام آدمی کے لیے اس کی حقیقت جاننا آسان نہیں۔

    کیا جیمز بانڈ جیسا ذہین اور شاطر ایجنٹ اس سازش کو بے نقاب کرسکتا ہے؟

  • معروف ڈرامے ‘تنہایاں’ کا مشہور اداکار  اب ہم میں نہیں رہا

    معروف ڈرامے ‘تنہایاں’ کا مشہور اداکار اب ہم میں نہیں رہا

    کراچی : پاکستانی تاریخ کے مشہور ڈرامے “تنہایاں” میں سعد سلمان کا کردار ادا کرنے والے اداکار اب ہم میں نہیں رہے، عامر حتمی نے شہناز شیخ یعنی (زارا) کے مد مقابل کام کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان ٹیلی ویژن پر ماضی کےمشہور ڈرامے تنہایاں میں مختصر کردار نبھانے والے سابق ماڈل اور اداکار عامر حتمی انتقال کرگئے، عامر حتمی کا تعلق کراچی میں ایئرفورس کے گھرانے سے تھا، ان کے والد پاک فضائیہ کے آفیسر تھے۔

    صحافی فی فی ہارون کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اداکار عامر حتمی کے انتقال کی خبر دی گئی۔

    پاکستان ٹیلی ویژن کے کلاسک اور شہرہ آفاق ڈرامے تنہایاں میں عامر حتمی نے شہناز شیخ یعنی (زارا) کے مد مقابل کام کیا تھا، ڈرامے میں ان کا نام سعد سلمان تھا، عامر نے ڈرامے میں مختصر کردار نبھایا لیکن ان کی بہترین اداکاری کی وجہ سے لوگ انھیں سعد سلمان کے نام سے ہی جانتے رہے۔

    پر کشش شخصیت کے مالک عامر حتمی کچھ عرصے تک ماڈلنگ سے بھی وابستہ رہے اور کئی مشہور برینڈز کیلئے ماڈلنگ بھی کی۔

    خیال رہے اس ڈرامے کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ٹیلی کاسٹ ہونے کے وقت یعنی رات 8 بجے سڑکیں ویران ہوجاتی تھی، دو بہنوں کی جدوجہد کے گرد گھومتی کہانی پر مبنی ڈرامہ ’تنہایاں‘ سنہ 1985 میں پیش کیا گیا تھا، جو اپنے والدین کے انتقال کے بعد آپنی آنٹی کے گھر پروان چڑھیں، ان دونوں بہنوں کی زندگی کا مقصد اپنے آبائی گھر کو خریدنا تھا۔

    اس ڈرامے میں شہناز شیخ، مرینہ خان، جمشید انصاری سمیت دیگر اداکاروں نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔