Tag: مشہور ادبی لطائف

  • شیطان کی کوٹھری

    شیطان کی کوٹھری

    اردو کے نام ور شاعر مرزا غالب کی شاعری، ان کی نثر نگاری بالخصوص ان کے خطوط کے علاوہ ہمیں ان سے منسوب لطائف یا دل چسپ واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جو مرزا غالب کی شگفتہ مزاجی اور شوخی و ظرافت کا ثبوت ہیں۔

    مرزا غالب کے قریبی احباب، اور ان کے شاگردوں‌ نے ایسے کئی واقعات ادبی تذکروں‌ میں رقم کیے ہیں جن میں‌ سے ایک ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    مرزا غالب رمضان کے مہینے میں دہلی کے محلے قاسم جان کی ایک کوٹھری میں بیٹھے پچسی کھیل رہے تھے۔ میرٹھ سے ان کے شاگرد مفتی شیفتہ دہلی آئے تو مرزا صاحب سے ملنے گلی قاسم جان آئے۔

    انہوں نے دیکھا کہ رمضان کے متبرک مہینے میں مرزا پچسی کھیل رہے تھے۔ انہوں نے اعتراض کیا: مرزا صاحب ہم نے سنا ہے کہ رمضان میں شیطان بند کردیا جاتا ہے۔

    مرزا غالب نے جواب دیا مفتی صاحب آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ شیطان جہاں قید کیا جاتا ہے، وہ کوٹھری یہی تو ہے۔

  • جب محفلِ سخن کشتِ زعفران بن گئی!

    جب محفلِ سخن کشتِ زعفران بن گئی!

    پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی اردو کے عاشقوں میں سے تھے۔ انھوں نے اردو کی ترقی اور فروغ کے لیے کوششوں میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کا بہت ساتھ دیا اور ان کا ہاتھ بٹاتے رہے۔

    وہ بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر تو عبور رکھتے ہی تھے، سنسکرت اور ہندی میں بھی خاصی استعداد تھی۔ اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔

    کیفی دہلوی ایک بار لکھنو گئے تو ان کی اعزاز میں محفل شعر و سخن سجائی گئی۔ حامد علی خان بیرسٹر ایٹ لاء شعر و سخن کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ وہ بھی محفل میں موجود تھے۔ ان سے کلام پیش کرنے کی فرمائش کی گئی تو کیفی دہلوی کے کان کے پاس جا کر یہ شعر کہا:

    اکہتر، بہتّر، تہتر، چوہتر
    پچھتر، چھہتر، ستتّر، اٹھتّر

    اس مذاق پر کیفی دہلوی نے خوش دلی سے داد دی۔ آخر میں جب کیفی صاحب سے کلام سنانے کی فرمائش کی گئی تو وہ بیرسٹر حامد علی خان کے قریب گئے اور یہ شعر سنایا :

    اکیاسی، بیاسی، تراسی، چوراسی
    پچاسی، چھیاسی، ستاسی، اٹھاسی

    شعرا اور سامعین نے یہ سنا تو خوب ہنسے۔ محفلِ سخن کشتِ زعفران بن گئی اور اردو ادبی تذکروں میں‌ یہ لطیفہ زندہ رہ گیا۔

  • طوطی بولتا ہے!

    طوطی بولتا ہے!

    تذکیر و تانیث پر دہلی اور اودھ کے اسکولوں میں بڑی معرکہ آرائی رہی۔ یہ اردو کی خوش قسمتی ہے کہ اسے دو اسکولوں نے اپنایا۔ دہلی نے جہاں اسے عظمت عطا کی، وہیں اودھ نے اس کے حُسن میں چار چاند لگائے۔

    ظاہر ہے بعض چیزوں میں اختلاف بھی ہوا، لیکن ہم دونوں اسکولوں کی نیت پر شبہ نہیں کر سکتے کہ دونوں ہی اس زبان کے عاشق تھے۔ میرے نزدیک ایسے اختلافات کو بنیاد بنا کر بحث و مباحثہ کرنا تضیعِ اوقات ہے۔ البتہ اس سلسلے میں جو لطائف سامنے آئیں ان سے محظوظ ضرور ہوا جا سکتا ہے۔

    ایسے واقعات نہ تو کسی اسکول کی طرف داری میں پیش کیے جاتے ہیں اور نہ ہی مقصد کسی کی تضحیک ہوتا ہے، یہ صرف تفننِ طبع کے لیے ہیں۔

    ایک مرتبہ استاد ابراہیم ذوق نے اپنی ایک غزل سنائی جس کا شعر تھا:

    ہے قفس سے شور اک گلشن تلک فریاد کا
    خوب طوطی بولتا ہے ان دنوں صیّاد کا

    شعر سنتے ہی ان کے ایک لکھنوی دوست نے ٹوکا اور کہا حضرت آپ نے طوطی کو مذکر کیسے باندھا جب کہ اس میں علامتِ تانیث کے طور پر یائے معروف موجود ہے۔

    استاد نے کہا کہ محاورے پر کسی کا اجارہ نہیں۔ آپ میرے ساتھ چوک چلیے جہاں چڑی ماروں کا ٹولہ آتا ہے اور سنیے وہ کیا ہانک لگاتا ہے۔

    دونوں جامع مسجد، دہلی کے ساتھ لگنے والے بازار پہنچے۔ وہاں بہت سے چڑی مار تیتر، بٹیر، مینا، بیا اور طرح طرح کے پنچھی لیے بیٹھے تھے۔ ایک بانکا طولی لیے چلا آتا تھا۔ استاد ذوق نے کہا۔ ذرا ان سے تو دریافت کیجیے۔ اس شخص نے بے تکلفی سے پوچھا۔

    بھیا آپ کی طوطی کیسے بولتی ہے۔ اس نے جواب دیا: بولتی تمہاری ہوگی، یاروں کا طوطی خوب بولتا ہے۔

    یہ سن ذوق نے کہا۔ اس پر نہ جائیے کہ یہ ان لوگوں کی زبان ہے، یہی دہلی کے خواص کی زبان بھی ہے۔

    ( زبان و ادب سے متعلق تذکروں‌ سے انتخاب، سید احمد دہلوی نے فرہنگِ آصفیہ میں اس واقعہ کو زیادہ تفصیل سے نقل کیا ہے)