Tag: مشہور ادبی واقعات

  • معروف ناول نگار بانو قدسیہ کی اردو…. (دل چسپ قصّہ)

    معروف ناول نگار بانو قدسیہ کی اردو…. (دل چسپ قصّہ)

    اشفاق احمد بانو قدسیہ کے متعلق کہا کرتے تھے جب ہم گورنمنٹ کالج میں کلاس فیلو تھے تو بانو قدسیہ کو اردو بالکل نہیں آتی تھی۔

    اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ریاضی میں بی ایس سی کی تھی۔ وہ ”ہمدردی‘‘ کو ”ہمددری‘‘ لکھتی تھیں۔ خواہشمند کی میم ”ہ‘‘ سے پہلے آ جاتی تھی۔ خیر پڑھنا شروع کیا، جب ہمارے پہلے ضمنی امتحان ہوئے تو بانو فرسٹ آ ئیں، ہم پیچھے رہ گئے۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ جو چیزیں مجھ میں بہت کم ہیں وہ ان میں بہت زیادہ ہیں۔ میں نے سوچا کہ ان خوبیوں کو گھر لے جائیں۔

    دوسری جانب بانو قدسیہ خود کو اشفاق احمد کی چیلی قرار دیا کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اشفاق صاحب نے ہمیشہ تلقین کی جب ایک بھی لکھنے کا کام کرو تو مکمل کرو۔ کوئی ملنے آ جائے تو انکار کر دو، جہاں بیٹھ کر لکھو یکسوئی سے لکھو۔

    اردو کی یہ نامور مصنفہ بانو قدسیہ مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئی تھیں اور تقسیم ہند کے بعد لاہور آ گئی تھیں۔ ان کے والد بدرالزماں ایک گورنمنٹ فارم کے ڈائریکٹر تھے اور ان کا انتقال 31 سال کی عمر میں ہو گیا تھا۔ اس وقت ان کی والدہ ذاکرہ بیگم کی عمر صرف 27 برس تھی۔ بانو قدسیہ کی عمر اس وقت ساڑھے تین سال رہی ہوگی۔

    بانو قدسیہ کو بچپن سے کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا تھا۔ پانچویں جماعت میں ہی تھیں تو ان کے اسکول میں ڈرامہ فیسٹیول کا انعقاد ہوا جس میں ہر کلاس کو اپنا اپنا ڈرامہ پیش کرنا تھا۔ بہت تلاش کے باوجود کلاس کو تیس منٹ کا کوئی اسکرپٹ دستیاب نہ ہوا۔ چنانچہ ہم جولیوں اور ٹیچرز نے اس مقصد کے لیے بانو قدسیہ کی طرف دیکھا جن کی پڑھنے لکھنے کی عادت کلاس میں سب سے زیادہ تھی۔ ان سے درخواست کی گئی کہ تم ڈرامائی باتیں کرتی ہو لہٰذا یہ ڈراما تم ہی لکھ دو۔ بانو قدسیہ نے اس چیلنج کو قبول کیا اور بقول ان کے جتنی بھی اردو آتی تھی اس میں ڈرامہ لکھ دیا۔ یہ ان کی پہلی کاوش تھی۔ اس ڈرامے کو اسکول بھر میں فرسٹ پرائز دیا گیا۔ اس حوصلہ افزائی کے بعد وہ دسویں جماعت تک افسانے اور ڈرامے ہی لکھتی رہیں۔

    طویل عرصے تک وہ اپنی کہانیوں کی اشاعت پر توجہ نہ دے پائیں اور ایم اے اردو کرنے کے دوران اشفاق احمد کی حوصلہ افزائی پر ان کا پہلا افسانہ ”واماندگی شوق‘‘ 1950ء میں اس وقت کے ایک سرکردہ ادبی جریدے ”ادبِ لطیف‘‘ میں شائع ہوا۔ بانو قدسیہ کہتی تھیں، ”میں نے کسی سے اصلاح نہیں لی اور نہ کبھی کچھ پوچھا تاوقتیکہ میری شادی نہیں ہو گئی۔ اس کے بعد اشفاق احمد صاحب میرے بڑے معاون و مددگار بلکہ استاد ہوئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا اگر تمہیں لکھنا ہے تو ایسا لکھو کہ کبھی مجھ سے دو قدم آگے رہو اور کبھی دو قدم پیچھے تاکہ مقابلہ پورا ہو۔ اس کا مجھے بڑا فائدہ ہوا۔ اشفاق صاحب نے ہمت بھی دلائی اور حوصلہ شکنی بھی کی۔ میری کئی باتوں پر خوش بھی ہوئے۔ آخر تک ان کا رویہ استاد کا ہی رہا، میں انہیں شوہر کے ساتھ ساتھ اپنا استاد بھی سمجھتی رہی ہوں۔‘‘

    (ماخوذ از سوانح و تذکرہ بانو قدسیہ)

  • شیخ علی حزیں اور رفیع سودا کی ملاقات

    شیخ علی حزیں اور رفیع سودا کی ملاقات

    شعر و سخن کی دنیا میں مرزا رفیع سودا کو ان کے قصائد اور شہر آشوب کی وجہ سے خوب شہرت ملی۔ انھوں‌ نے اردو شاعری کی محبوب صنف غزل میں‌ بھی زور مارا، لیکن بعض ناقدین کہتے ہیں کہ پیچیدہ اور مشکل زمینوں کے ساتھ ان کی غزل پر جو رنگ غالب تھا، اس نے ہم عصروں کے مقابلے میں ان کی حیثیت و مرتبہ گھٹایا ہے، لیکن ان کی کچھ غزلوں کے اشعار مشہور بھی ہیں۔ اس ضمن میں‌ یہ واقعہ باذوق قارئین کی دل چسپی کا باعث ہو گا۔

    فخرِ شعرائے ایران، شیخ علی حزیں ہندوستان آئے اور پوچھا! شعرائے ہند میں آج کل کوئی صاحبِ کمال ہے؟ لوگوں نے سودا کا نام لیا۔ سودا نے سنا تو خود ملاقات کو پہنچ گئے۔ شیخ صاحب کی نازک مزاجی اور عالی دماغی مشہور تھی۔ سودا سے کلام سنانے کو کہا تو انھوں‌ نے اپنا یہ شعر سنایا۔

    ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
    تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں

    شیخ نے شعر سنا اور پوچھا کہ تڑپے کا معنیٰ کیا ہے۔ سودا نے جواب میں‌ کہا کہ ہند میں ’طپیدن‘ کو تڑپنا کہتے ہیں۔ شیخ نے ان سے دوبارہ شعر سنا اور زانو پر ہاتھ مارکر کہا! مرزا رفیع سودا، تم نے قیامت کردی۔ ایک مرغ قبلۂ نماز باقی تھا، تم نے تو اسے بھی نہ چھوڑا۔ یہ کہہ کر کھڑے ہوگئے اور بغل گیر ہوکر ساتھ بٹھا لیا۔

    1713 کو مغل دور میں‌ پیدا ہونے والے مرزا رفیع‌ سود 1781 میں‌ راہی ملکِ عدم ہوئے تھے۔