Tag: مشہور ادیبوں کے قصے

  • گالیوں کا پٹارا

    گالیوں کا پٹارا

    نواب تاباںؔ بھی شاعر تھے، اردو میں بھی شعر کہتے تھے اور فارسی میں بھی۔

    حکیم اجمل خاں کے ہاں شرفائے دہلی کا جمگھٹا رہتا تھا۔ حکیم صاحب بھی طرفہ خوبیوں کے آدمی تھے، یہ جتنے بڑے طبیب تھے اتنے ہی بڑے شاعر بھی تھے۔ ایک دفعہ شبلی نعمانی دلّی آئے تو حکیم صاحب کے ہاں مہمان ہوئے۔ نواب تاباںؔ کی تعریفِ غائبانہ بہت کچھ سن چکے تھے، ان سے ملنے کے خواہش مند ہوئے۔

    حکیم صاحب نے سوچا کہ نواب صاحب کو اگر یہاں بلایا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس بات کا برا مان جائیں، لہٰذا ایک صاحب کے ساتھ شبلی کو ان کے گھر بھیج دیا۔ نواب صاحب نے بڑے تپاک سے ان کا خیر مقدم کیا، عزت سے بٹھایا، خاطر تواضع کی۔

    شبلی کی فرمائش پر اپنی غزل سنانی شروع کی۔ شبلی بھی ذرا مدمغ آدمی تھے۔ خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ تاباںؔ نے دیکھا کہ مولانا ہوں ہاں بھی نہیں کرتے تو چمک کر بولے، ’’ ہاں صاحب، یہ شعر غور طلب ہے۔‘‘ یہ کہہ کر غزل کا اگلا شعر سنایا۔

    مولانا نے اوپری دل سے کہا، ’’ سبحان اللہ! اچھا شعر کہا ہے آپ نے۔‘‘ بس پھر تاباںؔ آئیں تو جائیں کہاں؟ بولے، ’’ابے لنگڑے! میں نے تو یہ شعر تین دن میں کہا اور تُو نے ایک منٹ میں اسے سمجھ لیا؟ بیٹا، یہ شعرُ العجم نباشد!‘‘ اس کے بعد ان کا گالیوں کا پٹارا کھل گیا اور مولانا شبلی کو اپنا پنڈ چھڑانا مشکل ہو گیا۔ ویسے اپنی روز مرّہ کی زندگی میں تاباںؔ بڑے زندہ دل آدمی تھے اور دوستوں کو کھلا پلا کر خوش ہوتے تھے۔ شطرنج کی انہیں دھت تھی اور چال بھی اچھی تھی۔ بڑے بڑے کھلاڑی ان کے ہاں آتے رہتے تھے۔

    (اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور مشہور خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے اقتباس)

  • مولوی صاحب نے جب محبّت نامہ پڑھا!

    مولوی صاحب نے جب محبّت نامہ پڑھا!

    پروفیسر سید محمد عقیل نے اپنی زندگی کے تقریباً 70 سال اردو زبان و ادب کی خدمت میں گزارے اور دو درجن سے زائد تصنیفات یادگار چھوڑیں‌۔

    وہ 2019ء میں‌ بھارت میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا شمار ممتاز ترقّی پسند ادیبوں اور ناقدین میں‌ ہوتا ہے۔ پروفیسر سیّد محمد عقیل نے علمی و ادبی سرگرمیاں انجام دینے کے ساتھ تدریس کا پیشہ اپنایا اور نسلِ‌ نو کی تعلیم و تربیت کرتے رہے۔

    ان کی قابلِ ذکر کتابوں میں "اردو مثنوی کا ارتقا، اصول تنقید، ترقی پسند تنقید کی تنقیدی تاریخ، تنقید اور عصری آگہی، سماجی تنقید اور تنقیدی عمل، غزل کے نئے جہات، مرثیہ کی سماجیات” وغیرہ شامل ہیں۔

    ان کی خودنوشت سوانح حیات گئو دھول کے نام سے 1995ء میں شایع ہوئی تھی۔ یہاں ہم عقیل صاحب سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جو بھارت کے معروف ادیب اور نقّاد ڈاکٹر علی احمد فاطمی کے خاکوں کی کتاب ‘‘فن اور فن کار‘‘ سے لیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ممتاز بزرگ افسانہ نگار رتن سنگھ کسی سلسلے میں الہ آباد آئے تو میں نے اپنے گھر پر ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا۔ رتن سنگھ نے افسانہ پڑھا۔ ہم سبھی نے اس کے موضوع پر اپنے اپنے انداز سے تبصرہ کیا۔

    عقیل صاحب بھی اس محفل میں موجود تھے۔ انھوں نے موضوع پر گفتگو کرنے کے بجائے دو تین جگہ پر املا اور جملے پر اعتراض کر دیے۔

    رتن سنگھ تھوڑا سا خفیف ہوئے، اس وقت کچھ نہ بولے، لیکن جب عقیل صاحب چلے گئے اور چند احباب رہ گئے تو رتن سنگھ نے بڑی دل چسپ بات کہی۔

    فاطمی! تمھارے استاد کا معاملہ ایک مدرسے کے اس مولوی کی طرح ہے جو لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو پڑھاتا تھا، ان میں سے ایک لڑکی مولوی صاحب پر عاشق ہو گئی اور محبّت نامہ لکھ کر بھیج دیا، مولوی صاحب نے محبّت نامہ پڑھا اور املا کی دو تین غلطیاں نکال کر بڑی شفقت سے کہا۔ ”بی بی پہلے اپنا املا درست کیجیے، اس کے بعد عشق کیجیے گا۔”