Tag: مشہور ادیب

  • انشا پرداز اور بلند پایہ ادیب غلام رسول مہر کا یومِ وفات

    انشا پرداز اور بلند پایہ ادیب غلام رسول مہر کا یومِ وفات

    غلام رسول مہر اردو زبان و ادب کی ایک ہمہ صفت شخصیت تھے جنھوں نے کئی مضامین سپردِ قلم کیے اور متعدد کتب یادگار چھوڑیں۔ وہ ایک انشا پرداز، بلند پایہ ادیب، شاعر، نقّاد، مترجم، مؤرخ، محقّق اور صحافی کی حیثیت سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    غلام رسول مہرؔ 16 نومبر 1971ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ ان کا تعلق جالندھر کے ایک گاؤں پھول پور سے تھا۔ ان کی تاریخِ پیدائش 15 اپریل 1895ء ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے فارغ التحصیل غلام رسول مہر کو حیدرآباد (دکن) میں ملازمت مل گئی اور وہاں چند سال قیام کیا، لیکن پھر لاہور آگئے۔

    مولانا غلام رسول مہر نے عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور مشہور و مقبول اخبار زمین دار سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی فکر اور قلم کی بدولت صحافت میں خوب نام کمایا۔ بعد میں عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر انقلاب کا اجرا کیا اور 1949ء تک اس سے وابستہ رہے۔

    مولانا غلام رسول مہر نے پوری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ انھوں نے اردو زبان میں سیاست، تہذیب و تمدّن، ادب کی مختلف اصناف اور سیرت نگاری پر کئی مضامین لکھے جو مختلف جرائد اور اخبار میں‌ شایع ہوئے۔ ان کی لگ بھگ 100 کتابیں بھی شایع ہوئیں۔ ان میں تبرکاتِ آزاد، غالب، راہ نمائے کتاب داری، شہری معلومات، تاریخِ عالم، اسلامی مملکت و حکومت، تاریخِ‌ شام شامل ہیں۔ انھوں ایک خودنوشت سوانح عمری بھی لکھی تھی جسے ادب کے قارئین نے بہت پسند کیا۔

    ان کی تحریروں میں فکر و نظر کے مہکتے پھولوں کے ساتھ دل کشی و روانی، طنز و مزاح، استدلالیت اور منطقیت کے ساتھ مرقع نگاری بھی جھلکتی ہے جب کہ ان کے تحریر کا ایک رنگ حسبِ موقع اور زبان کی چاشنی کے لیے مختلف اشعار کا استعمال بھی ہے۔ انھوں نے ایسا اسلوب اختیار کیا جو ان کی انفرادیت قرار پایا۔

    لاہور میں‌ وفات پانے والے غلام رسول مہر کو مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • الہام کا فرشتہ

    الہام کا فرشتہ

    نوبل انعام یافتہ ترک ناول نگار اور مصنّف اورحان پاموک کا فکر و فلسفہ اور کسی ادبی موضوع پر ان کی رائے اور اظہارِ خیال بھی بہت شان دار اور قابلِ‌ توجہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مشہور اس ادیب کی گفتگو کا ایک ایسا ہی ٹکڑا ہم یہاں نقل کررہے ہیں جس کا ترجمہ اجمل کمال نے کیا ہے۔

    "میرے نزدیک کسی ادیب کا راز الہام میں نہیں، کیوں کہ کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ الہام کہاں سے آتا ہے بلکہ ادیب کی ضد اور صبر میں پوشیدہ ہے۔

    ترکی زبان کی وہ خوب صورت کہاوت، سوئی سے کنواں کھودنا، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ادیبوں ہی کے لیے وضع کی گئی تھی۔

    پرانی حکایتوں میں مجھے فرہاد کا صبر بہت عزیز ہے جس نے عشق کی خاطر پہاڑ کھودا تھا، اور میں اسے سمجھتا بھی ہوں۔ اپنے ناول مائی نیم از ریڈ میں جہاں میں نے ان قدیم ایرانی میناتور سازوں کا تذکرہ کیا ہے جو برسوں ایک ہی گھوڑے کا نقش کھینچنے کی مشق کیا کرتے تھے، موقلم کی ایک ایک جنبش کو ذہن نشین کرتے رہتے تھے، وہاں میں جانتا تھا کہ میں لکھنے کے مسلک کی، خود اپنی زندگی کی بات کر رہا ہوں۔ اپنی زندگی کو، دوسرے انسانوں کی کہانی کی طرح، آہستہ آہستہ، بیان کرنے، اس بیان کرنے کی قوّت کو اپنے اندر محسوس کرنے، میز پر بیٹھ کر صبر کے ساتھ خود کو اپنے فن میں، اپنے ہنر کے سپرد کرنے کے لیے کسی ادیب کو سب سے پہلے امید پرستی حاصل ہونا ضروری ہے۔

    الہام کا فرشتہ بعض ادیبوں کے پاس اکثر آتا ہے اور بعض کے پاس کبھی نہیں، لیکن وہ ان ادیبوں کو پسند کرتا ہے جو امید اور اعتماد رکھتے ہیں، اور جس وقت کوئی ادیب خود کو سب سے زیادہ تنہا محسوس کر رہا ہو، جس وقت وہ اپنی کوششوں، اپنے خوابوں اور اپنی تحریر کی قدر و قیمت کے بارے میں سب سے زیادہ زیادہ شہبے میں مبتلا ہو۔ جس وقت وہ اس خیال کا شکار ہو جائے کہ اس کی کہانی محض اس کی اپنی کہانی ہے۔ ٹھیک اس لمحے الہام کا فرشتہ اس پر ایسی کہانیاں، مناظر اور خواب منکشف کر دیتا ہے جو اس دنیا کی تعمیر میں کام آسکیں جسے وہ تخلیق کرنا چاہتا ہے۔

    لکھنے کا کام جس میں، میں نے اپنی عمر گزاری ہے، اس کے بارے میں سوچتے ہوئے میرا سب سے زیادہ متاثر کن احساس یہ ہوتا ہے کہ یہ جملے یہ خیالات اور یہ صفحات جنہوں نے مجھے اس قدر سرشاری اور مسرت بخشی، دراصل میرے تخیل کی پیداوار نہیں تھے کہ انہیں کسی اور قوّت نے تلاش کر کے دریا دلی کے ساتھ مجھے عطا کر دیا تھا۔”

  • ڈاکٹر داؤد رہبر: انھوں نے اپنے ملک اور ثقافت سے دور رہ کر بھی اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا

    ڈاکٹر داؤد رہبر: انھوں نے اپنے ملک اور ثقافت سے دور رہ کر بھی اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا

    اردو ادب کی کثیر الجہت شخصیت ڈاکٹر داؤد رہبر کی زندگی کا کم و بیش سارا شعوری حصّہ علم و ادب کی تحصیل، جمع و تدوین، تشریح اور تخلیق میں گزرا۔

    نثر کے علاوہ شاعری بھی ان کا حوالہ ہے لیکن اس کا ذکر کم کم ہوا ہے۔اردو زبان کے نام ور ادیب، مضمون نگار، ماہرِ موسیقی اور شاعر کا آج یومِ وفات ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے 5 اکتوبر 2013 کو داعئ اجل کی آواز پر لبیک کہا۔ وہ امریکا میں سکونت پذیر تھے۔

    داؤد رہبر 1926ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ جامعہ کیمبرج سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اورینٹل کالج لاہور اور بعد ازاں کینیڈا، انقرہ اور امریکا کی جامعات سے تعلیم مکمل کی اور درس و تدریس کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات پر لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

    ڈاکٹر محمد داؤد رہبر ایک لائق باپ کے لائق بیٹے تھے۔ ان کے والد پروفیسر محمد اقبال پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے سربراہ تھے، فرانسیسی اور دوسری مغربی زبانوں پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ ان کی خصوصی توجہ اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث داؤد رہبر جلد ہی علم و فضل کے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں پہنچنے کی تمنا کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے اپنے ملک اور کلچر سے دور رہنے کے باوجود اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا تھا۔

    اکرام چغتائی نے اپنے تذکرے میں ان کے بارے میں لکھا، ’’داؤد رہبر کثیر تصانیف مصنف ہیں اور ان کے موضوعات میں حیران کن تنوع پایا جاتا ہے، ان کی کتب اور مقالات کی جامع فہرست پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نوعمری ہی میں ان کے مقالات برصغیر کے معتبر علمی جرائد میں چھپنا شروع ہو گئے تھے۔ داؤد نے لاہور سے عربی میں ایم اے کیا، کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ پھر انقرہ یونیورسٹی میں تقرری ہوئی، بقیہ زندگی کینیڈا اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دیے، کتابیں لکھیں اور مقالات تحریر کیے۔‘‘

    ان کی تصانیف میں تسلیمات(مضامین)، باتیں کچھ سُریلی سی اور نسخہ ہائے وفا (موسیقی پر مضامین)، پراگندہ طبع لوگ (عام آدمی کی کہانیاں)، مشاعرے کا فاتح- نواب میرزا داغ دہلوی، کلچر کے روحانی عناصر اور شعری کلیات شامل ہیں۔

  • عصرِ‌حاضر اور بچّوں کا ادب

    عصرِ‌حاضر اور بچّوں کا ادب

    اگر ہم بچّوں کے ادب کے مدارج دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ بچّوں کے ادب کی ترقّی کا سلسلہ انیسویں صدی سے شروع ہوا اور بیسویں صدی میں تو اس میں ایک زبردست انقلاب آیا۔ اس صدی میں بچّوں کا ادب عروج کی منزلوں پر پہنچ گیا۔

    مشرقی ملکوں میں بچّوں کے ادب میں زندگی کے مادّی پہلوؤں مذہب و اخلاق پر خاص طور سے توجہ دی گئی جیسے سچّے تنتر میں دل چسپ کہانیوں کے ذریعہ اخلاق و حکمت کی تعلیم دی گئی۔ بچّے کا کائنات سے اوّلین رابطہ کہانیوں کے ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے یعنی طوطے، مینا، پریوں، پرندوں، راجاؤں، پھولوں کی کہانیوں کے ذریعہ ارد گرد کی چیزوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ کہانیوں کے کردار اس کے ارد گرد گھومنے لگتے ہیں۔ اور وہ خود کو ان چیزوں کا ایک حصّہ سمجھنے لگتا ہے۔

    ان کہانیوں کے ذریعہ وہ ان چیزوں کو اپنانے اور رد کرنے کا عمل سیکھتا ہے۔ ڈرامے کی دنیا بچّوں کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ جہاں پر وہ خود کو وہ کردار ادا کرتے دیکھتا ہے جس کو وہ کتابوں میں پڑھتا ہے۔ اسی لیے بچّے ڈرامے بھی بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ بچّوں کے ڈرامے بہت سادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ اس کو بڑے شوق سے اپناتے ہیں۔ تصویر بھی بچّے کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ تصویر کا تعلق براہِ راست دل اور نظر سے ہوتا ہے۔ یہ بچّوں کی قوّتِ متخیلہ بڑھاتی ہے۔ تصویر کی مدد سے وہ تمام چیزوں سے واقف ہوتا ہے۔ اس کی مدد سے پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔

    بچّوں کے ادب کی اہم خصوصیت اس کا حیرت اور استعجاب ہے۔ اس کی وجہ سے بچّوں میں کیوں، کیا اور کیسے، کب جیسے سوالا ت اٹھتے ہیں۔چوں کہ بچّہ کی فطرت متجسس ہوتی ہے، اس لیے بچّوں کے ادب میں بھی حیرت اور تجسس کا عنصر ہونا ضروری ہے۔ کبھی وہ جانور کی شکل تو کبھی دیو اور بھوت تو کبھی پری کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اسی لیے پنچ تنتر میں جانوروں کی بولی کی وجہ سے وہ اتنی دل چسپ اور انوکھی چیز بن گئی کہ صدیوں کے بعد بھی اس ادب کا مزہ تر و تازہ ہے۔

    اس کے علاوہ بچّوں کے ادب کی زبان سادہ عام فہم اور مزے دار ہو جو روز مرّہ کے الفاظ پر مشتمل ہو جن کو پڑھ کر بچّے نہ صرف لطف اندوز ہوں بلکہ وہ کہانی کی چاشنی کو محسوس کریں۔

    اس کے بعد بچّوں کی سیرت کی تعمیر ہو، مذہبی عقائد کے قصّے بزرگوں کی کہانیاں، ان کی سیرت، بہادروں کے کارنامے، خدا کا خوف، سیرت سے واقفیت بھی ادبِ اطفال کے ادیبوں کی اہم ذمہ داری ہے۔ ادبِ اطفال کی سب سے اہم ذمہ داری یکجہتی، بھائی چارگی، حب الوطنی، آپسی میل ملاپ کا بڑھاوا ہو۔ ان کی تربیت میں نفرت، عداوت، جلن جیسی رزیل چیزوں کو ان کی سیرتوں سے پرے رکھنا بھی ادیب کی اہم ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ ان کے موضوعات ایسے ہوں جن میں ہمیشہ نیا پن ہو کیوں کہ وہ ایک جیسی چیزوں سے اکتا جاتے ہیں۔

    ادب کے ذریعہ بچوں کو تنگ نظری تعصب جیسی برائیوں سے دور رہنے کا درس فراہم کرنا چاہیے۔ انھیں ایسی باتیں بتائی جائیں جن سے ان کے ذہن میں وسیع النّظری کو فروغ ملے اور محبت کی فضا قائم رہ سکے۔

    (ماخوذ از: مضمون برائے سمینار بہ عنوان "اردو ادب: تہذیبی قدریں، ماضی حال اور مستقبل” شمیم سلطانہ، تلنگانہ)

  • نام وَر محقق، نقّاد اور مصنّف ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی برسی

    نام وَر محقق، نقّاد اور مصنّف ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی برسی

    ماہرِ لسانیات، نام وَر محقّق، نقاد اور مشہور ادبی جریدے نگار کے مدیر ڈاکٹر فرمان فتح پوری 3 اگست 2013ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنّف تھے جو اردو زبان و ادب کا سرمایہ ہیں۔

    وہ 26 جنوری 1926ء کو ہندوستان کے شہر فتح پور میں پیدا ہوئے اور اسی شہر کی نسبت ان کے نام سے جڑی رہی۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی، انھوں نے یہاں جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں جامعہ کراچی ہی میں اردو ادب کی تدریس سے منسلک ہو گئے۔

    تنقید اور تحقیق کے میدان میں ڈاکٹر فتح پوری انتہائی قدآور شخیصت تھے اور ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے انھیں‌ اردو زبان کا پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔

    انھوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں، جن میں تحقیق و تنقید، اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط شامل ہیں جو اردو زبان و ادب کا نہایت معتبر اور مستند حوالہ ہیں۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری تقریباً تین دہائیاں اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے کام کیا۔ ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ اس موضوع پر مستند حوالہ ہے۔ اردو ڈکشنری بورڈ کی لغت میں سے کئی جلدیں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی نگرانی میں مکمل کی گئی تھیں۔

    مشہور ہے کہ ان کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا تھا۔ ان کے تحریر کردہ مضامین دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    کراچی میں وفات پانے والے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو حکومتِ پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • زبان آزادی نہیں‌ پابندی چاہتی ہے!

    زبان آزادی نہیں‌ پابندی چاہتی ہے!

    ہر شخص کو اپنی زبان پیاری ہوتی ہے۔ ادیبوں اور شاعروں کو اور بھی زیادہ۔ کیوں کہ زبان کا بنانا سنوارنا اور اسے ترقّی دینا انہیں کا کام ہوتا ہے۔

    اسے سیکھنے اور سلیقے سے برتنے کے لیے انہیں سیکڑوں معیاری کتابوں کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ پھر انہیں مشق و مزاولت کے ہفت خواں طے کرنے پڑتے ہیں۔ اس پر بھی برسوں کے بعد ان کی نثر یا نظم میں چٹخارہ پیدا ہوتا ہے۔

    امیرؔ اک مصرعۂ تربت کہیں صورت دکھاتا ہے
    بدن میں خشک جب ہوتا ہے شاعر کے لہو برسوں

    زبان کا معاملہ آزادی کا نہیں پابندی کا ہے۔ ادیبوں کا ایک ایک لفظ زبان و بیان کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے کیوں کہ ادیب سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نفیس اور قابلِ تقلید نثر لکھے لگا۔ ہر ادیب کی امکانی کوشش یہی ہونی چاہیے۔ تو اس کا دعویٰ کوئی نہیں کر سکتا کہ وہ بے عیب نثر لکھتا ہے، یا اس سے کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ ہمارے سامنے رہ نمائی اور تقلید کے لیے اسلاف کے اعلیٰ نمونے ہیں۔

    دلّی اور لکھنؤ کے نمونے بڑی حد تک مثالی سمجھے جاتے ہیں۔ کنگز انگلش کے بعد آکسفورڈ اور کیمبرج کی انگریزی مثالی تصور کی جاتی ہے۔ اب دلّی اور لکھنؤ مرکز نہیں رہے تو لاہور اور کراچی مرکز بن گئے ہیں اور لاہور تو ایک صدی سے اردو کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کراچی قیامِ پاکستان کے بعد بن رہا ہے، کیوں کہ دلّی اور لکھنؤ کی بیشتر آبادی کراچی میں منتقل ہو گئی ہے اور اب اس 22 لاکھ آبادی کے شہر میں اردو کے مقتدر ادارے بھی قائم ہو چکے ہیں۔

    (اردو کے حال اور مستقبل سے متعلق صاحب اسلوب ادیب، تذکرہ و خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے خیالات، جن کا اظہار انھوں نے اپنے ایک ہم عصر کو لکھے گئے خط میں‌ کیا تھا)

  • انسانوں کے بارے میں‌ بھوت پریت کیا رائے رکھتے ہیں؟

    انسانوں کے بارے میں‌ بھوت پریت کیا رائے رکھتے ہیں؟

    دنیا ترقّی کررہی ہے، تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اور آج کا انسان خود کو پہلے سے زیادہ متمدن و مہذّب بتاتا ہے، دانا اور باشعور سمجھتا ہے۔

    وہ رفتگاں کی طرح توہّم پرست بھی نہیں اور بھوت پریت پر یقین نہیں رکھتا، آج کے لوگ ایسے قصّوں کو من گھڑت کہتے ہیں اور ان کی نظر میں بھوت پریت خیالی باتیں ہیں، لیکن کیا بھوت بھی انسانوں کے بارے میں ایسا ہی سوچتے ہیں!

    اردو ادب میں مختصر کہانی نئی نہیں۔ اسے شارٹ اسٹوری کہیے یا افسانچہ ہر شکل میں اسے وہ تخلیق کار میّسر آئے جنھوں نے اپنے تخیل کی قوّت اور زورِ قلم سے خوب کام لیا۔ یہاں ہم نام وَر فکشن نگار جوگندر پال کا ایک پُراثر افسانچہ آپ کی نذر کررہے ہیں جسے پڑھ کر شاید آپ جان سکیں گے کہ بھوت پریت انسانوں کو کیا سمجھتے ہیں۔

    افسانچہ ملاحظہ کیجیے۔

    چند بھوت حسبِ معمول اپنی اپنی قبر سے نکل کر چاندنی رات میں گپیں ہانکنے کے لیے کھلے میدان میں اکٹھا ہو کر بیٹھ گئے اور بحث کرنے لگے کہ کیا واقعی بھوت ہوتے ہیں!

    ’’نہیں،‘‘ ایک نے ہنس کر کہا،’’سب من گھڑت باتیں ہیں۔‘‘

    ایک اور بولا، ’’کسی بھی بھوت کو علم نہیں ہوتا کہ وہی بھوت ہے۔‘‘

    اسی اثنا میں ایک اور نے ایک جھاڑی کی طرف اشارہ کر کے خوف زدہ آواز میں کہا، ’’وہ دیکھو!‘‘

    جھاڑی کے پیچھے ایک غریب آدمی بڑے انہماک سے لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔

    ’’ہاں، وہی۔۔۔‘‘ اور سارے بھوت بے اختیار چیخیں مارتے ہوئے اپنی اپنی قبر کی طرف دوڑے۔

  • ’’گِلِ گُل‘‘ کیا ہے اور کس کام آتی ہے؟ جانیے

    ’’گِلِ گُل‘‘ کیا ہے اور کس کام آتی ہے؟ جانیے

    شیراز کو دیکھنے کا ارمان تھا۔ ایک عمر کے بعد خدا نے پورا کیا۔

    اللہ اللہ! خواجہ حافظ اور شیخ سعدی کا پیارا وطن جس پر وہ لوگ تعریفوں اور دعاؤں کے پھول چڑھائیں۔ اس کو دیکھنے کا ارمان کیوں نہ ہو، میں نے دیکھا اور تعجب کے ساتھ دیکھا، کیوں کہ جس شیراز پر نورانی بزرگوں نے نور برسائے تھے، اُس کی رونق و آبادی ان کے ساتھ ہی رحلت کر گئی۔

    اب بڑی بڑی وسیع اور بلند پرانی مسجدیں اور کہنہ مدرسے گرے پڑے کھڑے ہیں اور بنانے والوں کی ہمّتوں پر دلائل پیش کر رہے ہیں۔

    یہ اہلِ ایران میں عام دستور ہے کہ اشرافِ سفید پوش کے مکان کے ساتھ ایک مردانہ مکان ہوتا ہے۔ وہ حرم سرائے سے زیادہ آراستہ ہوتا ہے اور ضروریات کے سامان موجود ہوتے ہیں۔

    اکثر ہوتا ہے کہ موافق طبع دوست صبح ملاقات کو آیا۔ ظہر کی نماز پڑھ کر رخصت ہوا۔ یا رات کو رہا، صبح ناشتا کر کے رخصت ہوا۔

    شیراز کے لوگ اب تک لباس و اوضاع میں اپنے بزرگوں کی تصویر ہیں۔ علما اور ثقہ لوگ عمامہ باندھتے ہیں۔ عبا پہنتے ہیں۔ خاندانی تُرک کلاہ پوست برہ کی پہنتے ہیں۔ طہران کے اوضاعِ جدید ابھی تک وہاں لذیذ نہیں ہوئے۔

    شیراز میں چھوٹی چھوٹی ٹکیاں بکتی دیکھیں کہ ان سے لوگ سَر اور داڑھیاں دھوتے تھے۔ وہ ایک قسم کی مٹّی ہے جس کی کان شہر کے پاس ہے۔ اس میں خوش بُو کے اٹھانے کی قدرتی تاثیر ہے۔ اُسے پھولوں میں بسا کر صاف کرتے ہیں اور ٹکیاں بنا کر بیچتے ہیں۔ شہروں میں تحفہ لے جاتے ہیں۔ گِلِ گُل اس کا نام ہے۔ مجھے گلستان کا سبق یاد آیا۔

    گلِ خوشبوئے در حمام روزے

    جن دنوں ہم نے پڑھا تھا تو خدا جانے کیا سمجھے تھے۔ پھر ایک خیالِ شاعرانہ سمجھتے رہے۔ اب معلوم ہوا کہ شیراز کا اصلی تحفہ ہے۔

    جاڑے کا موسمِ کوہ برف لیے سَر پر چلا آتا تھا۔ بڑھاپے نے خوف کے لحاف میں دبک کر کہا کہ شیراز تو دیکھ لیا۔ اب اصفہان کو دیکھو اور آگے بڑھو کہ تلاش کی منزل ابھی دور ہے۔

    شیراز کے دوست بہت روکتے اور رستہ کے جاڑے سے ڈراتے رہے، مگر جب کارواں چلا، مجھے اشتیاق نے اٹھا کر کجاوہ میں بٹھا دیا۔ چار چار، پانچ پانچ کوس پر شاہ عباسی سرائیں آباد، موجود تھیں جن کی پختگی اور وسعت قلعوں کو ٹکّر مارتی تھی۔ ان سراؤں میں مسافر اگر روپیہ رکھتا ہو تو خاطر خواہ سامان آسائش کا ملتا ہے، چار پانچ آنہ کو مرغ اور پیسے کے دو دو انڈے، ہر قسم کے تر و خشک میوے نہایت اعلیٰ اور نہایت ارزاں ملتے ہیں۔

    رستہ آبِ رواں سے سبزہ وار آبادیوں سے معمور تھا۔ جہاں منزل کرتا، گاؤں میں جا کر پوچھتا اور جو اہلِ علم ہوتا اُس سے ملاقات کرتا۔ چھوٹی سے چھوٹی آبادی میں بھی ایک دو عالم اور بعضے صاحبِ اجتہاد ہوتے تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر تعجّب آتا تھا۔ مثلاً کھیت سے گائے کے لیے گھاس کندھے پر لیے آتے ہیں۔ یا نہر پر کپڑے دھو رہے ہیں۔ لڑکا گھر کی دیوار چُن رہا ہے۔ جب فارغ ہوئے تو اسے شرع لمعہ یا قوانین الاصول کا سبق پڑھانے لگے۔

    جب اُن سے پوچھتا کہ کسی شہر میں جا کر ترویج علم کیوں نہیں کرتے؟ کہ رواجِ کار بھی ہو تو کہتے کہ وہاں خلوت کا لطف نہیں رہتا، حضورِ قلب میں خلل آتا ہے، دنیا چند روز ہے۔ گزار دیں گے اور گزر جائیں گے۔ یہ علمی روشنی کل مملکتِ ایران میں عام ہے کہ شاہان سلف کی پھیلائی ہوئی ہے۔

    میں اُن سے کہتا تھا کہ ہماری تمہاری تو جس طرح گزری گزر گئی۔ لڑکوں کو طہران بھیجو اور دار الفنون پڑھواؤ کہ زمانہ کی ہوا پھر گئی ہے۔ اکثر ہنس دیتے اور میرے ساتھ ہم داستان ہو کر کہتے، انہی کو کہو کہ ان کا معاملہ ہے۔ بعضے بحثنے لگتے اور آخر اتفاق رائے کرتے۔

    میرے پاس کھانے پکانے کا سامان نہ تھا۔ وہیں بیٹھ کر کسی گھر سے روٹی مول لیتا۔ کہیں سے انڈے کہیں سے گھی۔ اشکنہ یعنی انڈوں کا قلیہ پکاتا۔ اس میں روٹی ڈبوتا، کھاتا اور شکرِ الٰہی بجا لاتا۔ اس میں بہت باتوں اور تحقیقات کے موقع ملتے تھے اور وہ لوگ ان کاموں میں میری مدد کرنی مہمان نوازی کا جزو سمجھتے تھے جو کہ حقیقت میں فرضِ مذہبی ہے۔

    (اردو زبان کے نام ور ادیب اور شاعر محمد حسین آزاد 1886ء میں سیرِ ایران کے بعد اپنے وطن (ہندوستان) لوٹے تو اس سفر کی روداد لکھی، یہ مختصر پارہ اسی تحریر سے نقل کیا گیا ہے)

  • یومِ‌ وفات: راجہ راؤ انگریزی ادب کے اوّلین ہندوستانی تخلیق کاروں میں‌ شامل ہیں

    یومِ‌ وفات: راجہ راؤ انگریزی ادب کے اوّلین ہندوستانی تخلیق کاروں میں‌ شامل ہیں

    انگریزی ادب کے اوّلین ہندوستانی تخلیق کاروں‌ میں‌ راجہ راؤ نے بڑا نام و مرتبہ حاصل کیا۔ وہ 1996ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ راجہ راؤ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں‌ مقیم تھے۔ انھوں نے زندگی کی 97 بہاریں‌ دیکھیں‌ اور متعدد ادبی اعزازات اپنے نام کیے۔

    1908ء کو ریاست میسور کے ایک گھرانے میں‌ پیدا ہونے والے راجہ راؤ نے ناول اور شارٹ اسٹوریز لکھیں۔ ان کی تخلیقات مابعدُالطّبیعیاتی فکر کے زیرِ اثر ہیں۔ وہ ادیب سے زیادہ فلسفی تھے۔

    راجہ راؤ ایک ہندوستانی برہمن تھے، تعلیم ایک مسلم مدرسہ میں حاصل کی۔ وہ کم سِن تھے جب ان کی والدہ ساتھ چھوڑ گئیں اور انھوں نے ماں کی کمی شدّت سے محسوس کی۔ کہتے ہیں‌ اسی دکھ نے انھیں‌ ادب کی طرف مائل کیا۔ انھوں نے اکثر تحریروں میں‌ ماں اور یتیمی کا کرب بیان کیا ہے۔

    بعد میں وہ امریکا چلے گئے تھے جہاں یونیورسٹی آف ٹیکساس ہیوسٹن میں کئی برس تدریسی فرائض انجام دیے، وہ انگریزی ادب کے شعبے میں پروفیسر ایمرٹس کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے۔

    ہندوستان سے متعلق راجہ راؤ نے اپنی کہانیوں میں برطانوی دور، انگریزوں سے نفرت اور آزادی کی خواہش اور مختلف تحریکوں کے ساتھ رسم و رواج کو نہایت خوبی سے سمیٹا ہے۔ 1930ء کے عشرے میں ان کا پہلا ناول ’کنٹھا پورہ‘ سامنے آیا تھا جس کا مرکزی کردار جنوبی ہند کے ایک گاؤں سے دہلی جاتا ہے اور وہاں سے ’باپو جی‘ کے خیالات کا زبردست حامی بن کر لوٹتا ہے، وہ گاؤں کے لوگوں کو سامراج کے خلاف بھڑکاتا ہے، لیکن وہ یہ سب کچھ اپنے گاؤں کے چائے کے باغات کے مالک سے بغاوت کرکے شروع کرنا چاہتا ہے۔ اس ناول کو ناقدین نے بہت سراہا۔ انگریزی زبان کے اس ادیب نے ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں بھی حصّہ لیا تھا۔

    ناولوں کے علاوہ ان کی مختصر کہانیوں کے متعدد مجموعے بھی شایع ہوئے۔
    راجہ راؤ کو ہندوستان میں‌ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ دیا گیا جب کہ انگریزی ادب کے چند غیر ملکی ایوارڈ بھی ان کے نام ہوئے۔

  • پی ٹی وی کے مقبول ڈراموں کے خالق حمید کاشمیری کی برسی

    پی ٹی وی کے مقبول ڈراموں کے خالق حمید کاشمیری کی برسی

    6 جولائی 2003ء کو معروف ڈراما نویس اور افسانہ نگار حمید کاشمیری جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ پی ٹی وی کے لیے ان کے تحریر کردہ متعدد ڈرامے مقبول ہوئے۔

    حمید کاشمیری کا اصل نام عبدالحمید تھا۔ وہ یکم جون 1929ء کو مری، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ حمید کاشمیری کا شمار فعال ادیبوں میں ہوتا تھا۔ وہ لکھنے لکھانے کے ساتھ فروغِ علم و ادب کے لیے بھی کوشاں رہے اور ایک کتب فروش کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔ کراچی میں صدر کے علاقے میں ان کی دکان ہوا کرتی تھی جہاں اکثر بڑے بڑے ادیب اور نام وَر شخصیات اکٹھا ہوتی تھیں۔ حمید کاشمیری اپنی کتابوں کی دکان کے قریب ہی ایک عمارت میں رہائش پذیر تھے۔

    کئی افسانے تخلیق کرنے والے حمید کاشمیری نے پندرہ سے زیادہ ناول اور ٹیلی ویژن کے لیے 50 سے زائد ڈرامے لکھے۔ ان میں سیریلز اور ڈراما سیریز شامل ہیں جنھیں بے حد پسند کیا گیا اور ان کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔

    حمید کاشمیری کے ڈراموں میں ایمرجنسی وارڈ، روزنِ زنداں، شکستِ آرزو، اعتراف، کشکول، کافی ہائوس شامل ہیں۔

    پت جھڑ کے بعد حمید کاشمیری کا وہ ڈراما تھا جس پر 1973ء میں انھوں نے میونخ ڈراما فیسٹیول میں انعام حاصل کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان رائٹرز گلڈ اور 2002ء میں اے آر وائی گولڈ انعام بھی حاصل کیا۔

    حمید کاشمیری کراچی کے میوہ شاہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔