Tag: مشہور ادیب

  • پہچانو میں‌ کون! عادل اسیر دہلوی کی دل چسپ منظوم پہیلی

    پہچانو میں‌ کون! عادل اسیر دہلوی کی دل چسپ منظوم پہیلی

    عادل اسیر دہلوی کا نام ہندوستان کے ان تخلیق کاروں‌ میں‌ اہم اور نمایاں ہے جنھوں نے بچّوں کے ادب کو متنوع موضوعات سے مالا مال کیا اور ان کے لیے سادہ و دل نشین انداز میں نہ صرف کہانیاں لکھیں بلکہ آسان اور عام فہم شاعری بھی کی۔

    1959ء میں‌ پیدا ہونے والے عادل اسیر کا تعلق دہلی سے تھا اور وہ اسی نسبت اپنے نام کے ساتھ دہلوی لگاتے تھے۔ 2014ء میں‌ بچّوں‌ کے اس بڑے ادیب اور شاعر نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ یہاں ہم ان کی ایک پہیلی (نظم) نقل کررہے ہیں جو بچّوں‌ ہی نہیں‌ بڑوں‌ کو بھی بظاہر چھوٹی سی ایک چیز کی اہمیت اور افادیت بتاتی ہے، مگر انسان کی ایجاد کردہ اور سب کے بہت کام آنے والی یہ چیز ہے کیا؟ جانیے۔

    مجھ سے بڑھی ہے علم کی دولت
    دیکھنے میں ہوں میں بے قیمت

    جاہل کو بے زاری مجھ سے
    عالم کی ہے یاری مجھ سے

    مجھ میں شیروں جیسی ہمّت
    سچّائی ہے میری طاقت

    گرچہ لگتا چھوٹا سا ہوں
    کام بڑے پَر میں کرتا ہوں

    دیکھو تو بے کار ہی سمجھو
    لیکن میں انمول ہوں بچّو

    تیر نہیں، تلوار نہیں میں
    دشمن پر بھی بار نہیں میں

    میری طاقت کو کیا جانو
    دانا ہو تو تم پہچانو

    کام عدالت میں بھی آؤں
    پیار محبت میں بھی آؤں

    خط لکھنا، پیغام بھی دینا
    ساتھ میں سب کا نام بھی دینا

    پہچانو تو کون ہوں پیارے
    آتا ہوں میں کام تمہارے

    (جواب: قلم)

  • ٹیگور اور لیموں کا پودا

    ٹیگور اور لیموں کا پودا

    آخری عمر میں ٹیگور طویل عرصہ عارضۂ قلب میں مبتلا رہے۔ علالت کے یہ دن اُن کی حسّاس ترین شاعری کا زمانہ ہے۔ 1926 میں علاج کے لیے ہنگری جانا ہوا، صحت بحال ہوئی تو ٹیگور نے یہاں پارک ہیلتھ پارک میں لیموں کا پودا لگایا۔

    بنگالی کہاوت ہے جب کسی کا لگایا ہوا پودا جڑ پکڑ لیتا ہے تو پودا لگانے والا اس درخت کی نئی پود نکلنے تک ضرور زندہ رہتا ہے، ٹیگور نے درخت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

    ” اے میرے ننھے پودے!
    جب میں اس دنیا میں نہیں ہوں گا
    تو فصلِ بہار میں جو لوگ یہاں گھومنے آئیں
    تُو اپنی کونپلیں لہرا کر انہیں خوش آمدید کہنا
    یاد رکھنا کہ شاعر مرتے دم تک تجھ سے پیار کرتا تھا!”

    ٹیگور یہ پودا لگانے کے بعد سترہ برس تک زندہ رہے، اور 7 اگست 1941 کو وفات پائی۔ ان کی وفات کے بعد یہاں پورا لگانا رسم بن گئی۔

    بالاٹون فورڈ کے اس ہیلتھ پارک میں، اندرا گاندھی سمیت بھارت سے ہنگری آنے والے صدر اور سربراہانِ حکومت سب نے ٹیگور کی یاد میں یہاں پودے لگائے ہیں۔ ٹیگور کے لگائے لیموں کے پودے کے اردگرد لگے دو رویہ درختوں کی وجہ سے یہ جگہ پُرسکون سڑک بن گئی ہے جو ٹیگور سیر گاہ کے نام سے معروف ہے۔

    ان درختوں کے پتّوں کی پُرجوش تالیاں آج بھی ٹیگور کی یاد میں آنے والوں کو خوش آمدید کہتی ہے۔

    (کتاب نقوشِ ٹیگور سے انتخاب)

  • چالاک درزی اور سپاہی (حکایتِ رومی)

    چالاک درزی اور سپاہی (حکایتِ رومی)

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چند دوست کہیں مل بیٹھے۔ باتوں باتوں میں ایک دوست نے کسی درزی کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ اس نے کہا درزی بڑا عیّار ہے۔ لاکھ ہوشیاری سے کام لو، مگر وہ اپنا کام کر جاتا ہے اور کپڑا چوری کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔

    وہاں ایک سپاہی بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے شیخی بگھارتے ہوئے کہا کہ مجھے دھوکا دینا بہت مشکل ہے، میں کل ایک تھان لے کر اس درزی کے پاس جائوں گا اور اپنے سامنے کٹوا کر کرتا سلواؤں گا۔ اگر وہ تھان سے کچھ کپڑا اڑا لے تو میں زین سمیت گھوڑا ہار جاؤں گا۔

    اگلے روز وہ سپاہی اطلس کا تھان لے کر درزی کی طرف چلا۔ اپنا گھوڑا ایک طرف باندھا اور درزی کے پاس جاکر یوں مخاطب ہوا، درزی! میں نے سنا ہے تُو بڑا چالاک ہے۔ تُو اوروں کو دائو دیتا ہو گا، مگر میں تیرے داؤ میں آنے والا نہیں۔

    درزی نے کہا قبلہ! تشریف رکھیے آپ کے دل میں کس نے شک ڈالا۔ کام کرتے عمر گزر گئی۔ میں ایک کترن تک حرام سمجھتا ہوں۔ کسی اور الّو کو میں جُل دے بھی دوں، مگر آپ جیسے کائیاں مجھ سے کب دھوکا کھا سکتے ہیں؟ جب درزی نے ہاتھ میں قینچی لی، تو سپاہی چوکنا ہو کر بیٹھ گیا اور اس نے درزی کی آنکھوں پر اپنی آنکھیں لگا دیں۔

    درزی نے سوچا کہ اسے باتوں میں لگا کر اور چٹکلے سنا کر غافل کرنا چاہیے چناں چہ اس نے اسے یہ لطیفہ سنانا شروع کیا۔

    ایک درزی کی شادی ہوئی۔ بیوی پڑھی لکھی ملی، اسے استادوں کے ہزاروں شعر یاد تھے۔ وہ ایک دن اشعار سنا سنا کر خاوند سے داد مانگنے لگی اور پوچھا کہ بتائو کیا سمجھے؟ وہ سمجھتا کیا خاک! اسے تو ساری ابجد بھی یاد نہ تھی۔ جب بیوی نے سخت اصرار کیا تو وہ دل میں کچھ سوچ کر بیٹھا بیٹھا سر ہلانے لگ گیا۔ بیوی بولی، میں قسم کھا کر کہتی ہوں کہ تم شعروں کا مطلب سمجھتے ہو اور مجھے یونہی دم دیتے ہو کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔

    شوہر نے کہا، جو کچھ میری عقل میں آتا ہے میں بتا دیتا ہوں۔ بیوی بولی ہاں بتاؤ۔ اس نے کہا، اللہ کی قسم میں سمجھتا ہوں کہ تُو میرے پاس ٹکتی نظر نہیں آتی۔ یہ لطیفہ سن کر سپاہی مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہوگیا۔ درزی نے موقع کو غنیمت جانا اور تھان سے ایک چوتھائی حصہ کاٹ کر الگ رکھ لیا۔

    سپاہی نے کہا، ہاں ایک اور چٹکلہ ہو جائے۔ درزی نے ایسا ہی ایک اور لطیفہ سنایا۔ سپاہی کے پیٹ میں مارے ہنسی کے بل پڑ گئے۔ ہنستے ہنستے جب اس کا سرزمین پر جا لگا درزی نے ایک چوتھائی حصہ کپڑا اور کاٹ لیا۔

    اس کے بعد ترک سپاہی نے فرمائش کی کہ استاد! ایک لطیفہ اور بھی سنا دو۔ درزی نے کہا اب اور فرصت نہیں۔ جلد ناپ دو ورنہ کرتا بگڑ جائے گا اور بدن پر تنگ آئے گا۔ ادھر درزی اس سپاہی کا کُرتا تیّار کرنے بیٹھا اور اُدھر سپاہی نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس کا گھوڑا تو چور لے اڑا ہے۔

    سبق: یہاں سپاہی سے مراد وہ شخص ہے، جو اپنے تقویٰ کے زعم پر شیطانی صحبت میں جا بیٹھتا ہے اور شیطان درزی کی طرح اس کو خواہشاتِ نفسانی (لطیفوں اور ہنسی مذاق کی باتوں)‌ میں لگا کر اس کی عمر کے تھان کو رات دن کی قینچی سے کاٹ ڈالتا ہے۔

    (مثنوی مولانا جلال الدّین رومی سے انتخاب)

  • ایک تو چوہڑا اوپر سے کانا!

    ایک تو چوہڑا اوپر سے کانا!

    میں نے سوچا کہ سیّد ضیا جالندھری کی شاعری پر لکھنے والے تو مجھ سے بہتر لوگ موجود ہیں۔ میں شاید پورا انصاف نہ کر سکوں۔ البتہ میں ایک عرصہ سے ان کی شخصیت کے بارے میں ایک ایسا مضمون لکھنا چاہتاہوں جو خاکے سے بڑھ کر اور ان کے شایانِ شان ہو۔

    میں نے اس شخص کی طرح جسے راہ چلتے بائیسکل کا ایک پیڈل مل گیا تھا اور اس نے گھر جا کر بیوی سے کہا تھا کہ اسے سنبھال کر رکھ لو، پیسے جمع کر کے اس کے ساتھ بائیسکل لگوا لیں گے، خاکے کاعنوان بھی سوچ لیا تھا، ’’باتوں سے خوش بو آئے۔‘‘ اور کمپیوٹر میں محفوظ کر لیا تھا کہ خاکہ لکھ کر اس کا یہ عنوان رکھوں گا۔

    پھر ایک بار میں ان کے ہاں جا کر بیٹھ گیا۔ ان پر لکھے ہوئے خاکے، کوائف اور کچھ دیگر معلومات حاصل کیں۔ کچھ سوال و جواب بھی کیے۔ تھوڑی بہت گفتگو کی اورنوٹس لیے۔ یوں سمجھیے میں نے عمارت کی تعمیر کے لیے سارا ضروری میٹیریل جمع کر لیا۔ لیکن شاید کسی اپنے سے بڑے کی شخصیت کے بارے میں لکھنا بہت دشوار کام ہوتا ہے۔

    خصوصاً جب شخصیت بھی ضیا جالندھری جیسی پُر وقار، خوب صورت اور قابلِ احترام ہو تو یہ مشکل دو چند ہو جاتی ہے۔ آپ جانتے ہیں، عمارت محض اینٹ، پتھر، لکڑی اور سریے سے تو نہیں بنائی جاسکتی۔ ان چیزوں کو جوڑنے کے لیے چونے، گارے، ریت اور سیمنٹ وغیرہ کے مسالے کی ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن جب درمیان میں ادب، احترام اور احتیاط کی رکاوٹیں ہوں تو راج گیری کیسے ہو۔

    حالا ں کہ میں نے راج مستریوں کو مساجد کے گنبدوں اور مقدس مزاروں کی تعمیر کے دوران مچانوں پر حقّوں اور جوتیوں سمیت کام کرتے دیکھا ہے، لیکن میں ایسا نہیں کرسکا۔یہی ڈر رہا کہ کہیں کوئی اینٹ ٹیڑھی نہ لگ جائے۔ کوئی دیوار بد گنیا نہ رہ جائے۔ کہیں چونا زیادہ یا کم نہ لگ جائے۔ خاکہ لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ یا تو آپ متعلقہ شخصیت سے عمر یا مرتبے میں سینئر یا کم از کم برابر ہوں۔ جیسے ان کے دو خاکہ نگار جنابِ ابوالفضل صدیقی اور ممتاز مفتی صاحب تھے۔

    اسی لیے ایک تیسرے کم عمر خاکہ نگار نذرالحسن صدیقی کے خاکے میں وہ بات نہیں جو دوسرے صاحبان کے لکھے خاکوں میں ہے۔ خاکہ لکھنے کے لیے ایک اور شرط یہ ہوتی ہے کہ متعلقہ شخصیت سے دیرینہ تعلق اور پوری واقفیت اور بے تکلفی ہو اور آپ کو اس کے بطون میں جھانکنے کی توفیق اور موقع ملا ہو۔ اگرچہ یہ بھی ضروری نہیں کہ جس شخص سے آپ کے دیرینہ اور قریبی تعلقات ہیں، آپ اس کے بارے میں صحیح معلومات بھی رکھتے ہوں (جیسے وقار بن الٰہی چالیس سال کے تعلق اور قربت کے باوجود میرے بارے میں یہ نہیں جان سکے کہ میں ٹائی باندھنے میں خود کفیل ہوں۔ کیوں کہ اس میں ٹیکنیک انوالو ہے اور میرا ذہن ٹیکنیکل کاموں میں خوب چلتا ہے) پھر بھی نہ جاننے سے تھوڑا جاننا بہتر ہے، لیکن میرے اسی دوست وقار بن الٰہی کا ہی کہنا ہے کہ جو شخص ایک ہفتہ کے لیے چین جائے وہ لوٹ کر مضمون ضرور لکھتا ہے۔ جو شخص پندرہ روز یا ایک ماہ وہاں گزار آئے وہ سفر نامہ لکھتا ہے اور جو شخص ایک سال یا اس سے زیادہ وہاں رہ کر لوٹے وہ کچھ نہیں لکھتا۔ اسی طرح بعض لوگوں میں صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ایک آدھ سرسری ملاقات کے بعد بھی لمبا چوڑا خاکہ لکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ بعض نے تو جیسے خاکہ پہلے سے لکھ رکھا ہوتا ہے اور کسی ایسی شخصیت کی تلاش میں ہوتے ہیں جو اس میں فٹ ہوسکے۔

    یہی وجہ ہے کہ بہت سے خاکے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پورے ناپ کے نہیں۔ کوئی حصہ تنگ ہے تو کوئی کھلا۔ ممتاز مفتی صاحب کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ عمر میں ضیاء صاحب سے بڑے تھے اور بے تکلفی اور شوخی سے بخوبی کام لے سکتے تھے۔ انہوں نے بہت سے دوسرے اوکھے اولڑے لوگوں کی طرح 1989ء میں ضیا جالندھری کا خاکہ بھی لکھا اور اس کو ‘‘خوش گفتار‘‘ کا نام دیا۔ حالاں کہ اس سے پہلے وہ ضیا جالندھری صاحب کی خوش گفتاری سے بہت خائف رہتے تھے۔ 1985ء میں جب ہم نے رابطہ تنظیم بنائی تو میرے ان سے بعض ادیبوں کو رکن بنانے پر اختلافات رہے جن میں ضیا صاحب بھی شامل تھے۔

    میرا کہنا تھا کہ ضیا صاحب کی باتوں سے خوشبو آتی ہے، لیکن مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ وہ اپنی باتوں سے اسی خوشبو کی وجہ سے اہلِ محفل کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے اور دوسرے نظر انداز ہوتے ہیں۔ بہرحال میں انہیں رضامند کرنے میں کام یاب ہوگیا اور ہم برسوں ضیا صاحب کی خیال انگیز نظموں، خوب صورت غزلوں اور خوشبو دار باتوں سے محظوظ ہوتے رہے۔

    ممتاز مفتی صاحب نے اپنے خاکے میں لکھا، ’’ضیا باتوں سے یوں بھرا پڑا ہے جیسے شہد مٹھاس سے بھرا ہوتا ہے یا جیسے عوام سرکار کے خلاف شکایات سے بھرے ہوتے ہیں۔‘‘ انہوں نے ایک مزے کی بات یہ بھی لکھی کہ ’’جنابِ والا جالندھر نے بڑی بڑی شخصیات پیدا کی ہیں۔ مثلاً میرے دوستوں میں حفیظ تھا۔ کلیم ہے۔ فیضی ہے، ایچ یو بیگ ہے، مجید ہے، حافظ ہے، مسعود ہے۔ (افسوس اب ان میں سے زیادہ تر ہے کی بجائے تھے ہوگئے ہیں) ایک سے ایک نہیں ملتا، لیکن جالندھریت کی وجہ سے سب ملتے ہیں، ملتے رہتے ہیں۔ اتفاقاً نہیں التزاماً ملتے رہتے ہیں۔ جالندھریے کو میل جول کا عارضہ لاحق ہوتا ہے۔ جالندھریا اجلا نہیں ہوتا۔ صابون سے منہ دھو کر آئے تو بھی میلا میلا لگتا ہے۔ کلف زدہ نہیں ہوتا۔دھوبی سے دھلے کپڑے پہنے تو بھی لگتا ہے، جیسے گھر کے دھلے ہوں۔جالندھریے میں ٹیں نہیں ہوتی۔ مونچھیں ہوں تو ہوں ان میں اکڑ نہیں ہوتی۔ لٹکی لٹکی رہتی ہیں۔ ضیا کو دیکھیے۔ اس میں لاہور ہے، کراچی ہے، اسلام آباد ہے، لیکن جالندھر نہیں ہے۔ خود کو جالندھری کہتا ہے، اس لیے ہم مانے لیتے ہیں۔ ورنہ جالندھر کا رنگ نہیں ہے۔‘‘

    جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ضیا جالندھری صاحب، جالندھر شہر میں پیدا ہوئے۔ پورا خاندانی نام ضیا نثار احمد ہے۔ سیّد گھرانا تھا۔ نانی کے ہاں پیدائش ہوئی، انہوں نے ضیا نام رکھا، مگر والد نے کہا کہ میں تو نثار احمد نام رکھوں گا۔ اس طرح ننھیال اور ددھیال کے دیے ہوئے ناموں کو ملا کر ان کا پورا خاندانی نام ضیا نثار احمد طے پایا۔ ان کے والد سید سردار احمد شاہ لاہور کے تھے۔ والدہ گورداس پور کی اور نانی کا تعلق جالندھر سے تھا۔

    ایک زمانے میں ہمارے شاعروں میں شہروں کی نسبت سے نام رکھنے کا بہت رواج تھا۔ بعض شہر بھی علمی اور ادبی حوالوں سے ایسے تھے کہ ان سے نسبت باعثِ فخر ہوتی تھی۔ بعض شہروں کے ناموں میں صوتی حسن اور ایک وقار سا ہوتا ہے جیسے لاہور، لکھنؤ، دہلی، ملیح آباد، اکبرآباد، انبالہ، ہوشیار پور اور جالندھر وغیرہ۔ ایسے نام شاعر ادیب کے نام کے ساتھ لگ جاتے تو بھرپوریت کا احساس ہوتا۔

    اب راولپنڈی، سرگودھا، شیخوپورہ، گوجرانوالہ اور اٹک وغیرہ کو کوئی اپنے نام کے ساتھ کیا لگائے۔ کیوں کہ راولپنڈی میں پنڈ، سرگودھا میں گودھا، شیخو پورہ میں شیخو، گوجراں والا میں گوجر یا گاجر اور اٹک پورے کا پورا اتنے غیر شاعرانہ ہیں کہ اس سے بہتر ہے آدمی والد کے نام کے ساتھ چھوٹی ’ی‘ کا اضافہ کر کے اکبری، شاہدی، حمیدی، رفیقی یا گھر کے مختلف حصّوں کے حوالے سے فرشی، سقفی اور دریچوی وغیرہ بن جائے۔

    اگر طالبِ علمی کے زمانے میں میرے قصبے کا نام فاروق آباد کی بجائے چوہڑکانہ نہ ہوتا تو شاید میں منشا فاروق آبادی ہوتا۔ کوئی بھی ذوقِ سلیم رکھنے والا شخص چوہڑکانوی بننے سے تو رہا۔ بھلا چوہڑ کا نہ بھی کوئی نام تھا۔ ایک تو چوہڑا، اوپر سے کانا۔

    (معروف ادیب اور افسانہ نگار منشا یاد کی کتاب ‘حسبِ منشا’ سے اقتباس)

  • اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    ایک واقعۂ دلچسپ اہلِ ذوق کی ضیافتِ طبع کے لیے لکھتا ہوں۔ لاہور میں پہلی دفعہ جب ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ ہوا تو پروفیسر آزاد (محمد حسین آزاد) زندہ تھے، گو دماغ کسی حد تک متاثر ہو چکا تھا۔

    نذیر احمد ملنے کے لیے گئے، حالی اور غالباً شبلی بھی ساتھ تھے، نذیر احمد کا لیکچر ہونے والا تھا جو چھپا ہوا ان کے ہاتھ میں تھا۔ آزاد رسالہ کی طرف متوجہ ہوئے تو نذیر احمد نے یہ کہہ کر آگے بڑھا دیا کہ ایک نظر دیکھ لیجیے، کانفرنس میں پیش کرنا ہے۔

    آزاد فوراً قلم سنبھال کر بیٹھ گئے اور کانٹ چھانٹ شروع کر دی۔ نذیر احمد، آزاد کی اس بے تکلفی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ جوشِ محبت سے آنکھیں نم ہو گئیں۔ ان کو قدرتی طور پر یہ خیال آیا کہ ابھی ان کے دائرہ میں ایک شخص ایسا موجود ہے جو ایک ’’بوڑھے‘‘ بچہ کی مشقِ سخن پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔

    حالیؔ بھی آزاد کی استادی کا لوہا مانتے تھے، ان کی مخلصانہ عقیدت کیشی کے لیے وہ تقریظ و تنقید دیکھیے جو آبِ حیات اور نیرنگِ خیال پر حالی نے لکھی ہے اور جس پر ضمناً یہ طے کردیا ہے کہ نیچرل شاعری دراصل آزاد کی صنعتِ فکر کا نقشِ اوّلین اور ان کی اوّلیات میں محسوب ہونے کے لائق ہے۔ حالیؔ لکھتے ہیں،

    ’’نظم و نثر میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ یعنی لٹریچر کے رقبہ کا طول و عرض بڑھ گیا ہے، لیکن اس کا ارتفاع جہاں تھا وہیں رہا۔ یعنی اخلاقی سطح بہت اونچی نہیں ہوئی لیکن آزاد کی پاکیزہ خیالی اور خوش بیانی نے یہ کمی پوری کر دی۔ ’نیرنگِ خیال‘ کی بہت کچھ داد دی ہے، کیوں کہ آزاد کے قلم نے پہلے پہل جذباتِ انسانی کی تجسیم و تشخیص کی اور معقولات کی تصویریں محسوسات کی شکلوں میں کھینچی ہیں اور خصائلِ انسانی کے فطری خواص ایسے مؤثر اور دل کش پیرایہ میں بیان کیے ہیں، جن سے اردو لٹریچر اب تک خالی تھا۔‘‘

    شبلی بھی آزاد کا ادب کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے آزاد اردوئے معلیٰ کا ہیرو ہے، اس کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں، وہ اصلی معنوں میں ایک زبردست انشا پرداز ہے۔

    (نام وَر انشا پرداز اور مضمون نگار مہدی افادی کی تحریر بعنوان ‘ملک میں تاریخ کا معلّمِ اوّل’ سے ایک پارہ)

  • ممتاز محقّق، ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر محمد باقر کی برسی

    ممتاز محقّق، ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر محمد باقر کی برسی

    اردو، فارسی اور پنجابی زبان و ادب کے نام وَر محقق، ادیب اور نقّاد ڈاکٹر محمد باقر 25 اپریل 1993ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے اور علمی و ادبی موضوعات پر کئی کتابیں‌ یادگار چھوڑیں۔ ڈاکٹر محمد باقر پاکستان میں ایک اسکالر اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔

    4 اپریل 1910ء کو لاہور بنگلہ، لائل پور میں پیدا ہونے والے محمد باقر نے 1939ء میں لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1950ء سے 1970ء تک پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی میں صدارت کے منصب پر رہتے ہوئے انھوں نے اپنے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی مشاغل اور تخلیقی کام بھی جاری رکھا۔

    1965ء میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے پرنسپل مقرر ہوگئے۔ پاکستان کے ان دونوں اہم تعلیمی اداروں میں انھوں نے تعلیم و تدریس کے حوالے سے اپنے وسیع تجربے، گہرے مشاہدے اور مختلف نظام ہائے تدریس کے مطالعے کی بدولت نمایاں خدمات انجام دیں۔

    ڈاکٹر محمد باقر کی تصانیف میں Lahore Past and Present، اردوئے قدیم دکن اور پنجاب میں، لندن سے لاہور تک، لندنی دوست کے نام خطوط، لندن سے خطوط،
    خدا کی لاٹھی، سیاہ کار اور دوسرے افسانے، شعرائے پنجاب، تہذیبِ عمل، شرحِ بانگِ درا، احوال و آثارِ اقبال شامل ہیں جنھیں علمی و ادبی حلقوں میں‌ بڑی اہمیت دی گئی اور یہ کتب ڈاکٹر محمد باقر کا ادب کے لیے گراں قدر سرمایہ ہیں۔

  • فطرت کا شاعر، رومانوی تحریک کا نمائندہ ولیم ورڈز ورتھ

    فطرت کا شاعر، رومانوی تحریک کا نمائندہ ولیم ورڈز ورتھ

    فطرت کا دلدادہ شاعر ولیم ورڈزورتھ (William Wordsworth) 23 اپریل 1850ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا، لیکن آج بھی اس کی نظمیں‌ بڑے ذوق و شوق سے پڑھی اور سنی جاتی ہیں اور قاری خود کو فطرت کی گود میں سانس لیتا ہوا محسوس کرتا ہے۔

    ورڈز ورتھ نے حقیقی اور عام زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو نظموں کا حصہ بنایا۔ اس کی نظم میں سادہ بیانی، علاقائی رنگ دیکھے جاسکتے ہیں۔ ورڈز ورتھ رومانویت اور رومانوی تحریک کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے۔

    وہ 7 اپریل 1770ء کو انگلستان کے متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ زندگی کے ابتدائی چند سال گزارے تھے کہ ماں باپ فوت ہو گئے اور چچا نے اس کی پرورش کی۔ اس نے اسکول میں داخلہ لیا تو وہاں فطرت کے خوب صورت نظارے دیکھنے اور ہرے بھرے ماحول میں وقت گزاتے ہوئے اس نے سبزہ و گل اور رنگ و بُو میں عجیب کشش پائی، یہ گویا فطرت سے اس کے لگاؤ اور محبّت کا آغاز تھا۔

    وہ فرانس اور سوئٹزر لینڈ کی سیر کو گیا، جرمنی گیا اور فرانسیسی زبان بھی سیکھی۔ انقلابِ فرانس سے متاثر رہا اور بعد میں بدظن ہوگیا۔ اس نے ساری عمر شاعری کی اور سیر و سیّاحت کے دوران فطرت کو قریب سے دیکھنے کے ساتھ مختلف نظریات اور فنون کے بارے میں‌ سیکھتا اور جانتا رہا۔ اس کی شاعری کا شہرہ یہاں تک تھا کہ ایک یونیورسٹی نے اسے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔

    ولیم ورڈز ورتھ نے شاعری کے ساتھ تنقیدی نظریات تشکیل دیے اور ادبی تحریک کو جنم دیا۔ وہ اپنی شاعری اور تنقیدی نظریات میں ترمیم و اضافہ کرتا رہا اور انھیں‌ شایع بھی کروایا۔ اس کی شاعری میں عام فہم اور سادہ زبان سے اس کے ہم عصر اختلاف بھی کرتے تھے۔

    اس شاعر نے قدیم اور روایتی شاعری سے دامن چھڑا کر رومانوی تحریک کو تقویت بخشی اور یہ سلسلہ بعد میں ساری دنیا میں پھیل گیا۔ انگریزی زبان میں تنقید میں اس نے شاعری کے موضوعات اور زبان پر کھل کر بحث کی جب کہ فطرت اور انسانوں کے ساتھ شاعری میں تخیل کی اہمیت کو واضح کیا۔

    دنیا میں ولیم ورڈز ورتھ کو بحیثیت شاعر اور نقّاد اہم مقام حاصل ہے اور اسے ایک ایسا شاعر مانا جاتا ہے جس نے سب سے منفرد اور عام ڈگر سے ہٹ کر روش اختیار کی اور مقبول ہوا۔

    وفات کے وقت اس شاعرِ‌ فطرت و رومان کی عمر 80 سال تھی۔ اس کی موت کی وجہ نمونیا تھا۔

  • صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کا یومِ‌ وفات

    صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کا یومِ‌ وفات

    اردو زبان و ادب میں‌ نادرِ‌ روزگار اور صاحبِ اسلوب ادیبوں میں اشرف صبوحی کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا جن کا بیش قیمت تخلیقی سرمایہ درجنوں کتابوں میں محفوظ ہے اور علم و ادب کی دنیا میں یہ کتب لائقِ مطالعہ ہی نہیں بلکہ یہ برصغیر کی نابغہ روزگار ہستیوں کی زندگی کے بعض‌ واقعات، تذکروں اور ہندوستان کے تہذیبی و ثقافتی ورثے پر سند و حوالہ سمجھی جاتی ہیں۔

    اشرف صبوحی 22 اپریل 1990ء کو کراچی میں وفات پا گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ اشرف صبوحی کو صاحبِ اسلوب ادیب مانا جاتا ہے۔ انھیں‌ واقعات اور خاکہ نگاری میں کمال حاصل تھا اور ان کے مضامین میں دلّی کی تہذیب، ثقافت وہاں کے خاص پکوان اور مختلف شخصیات کے تذکرے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

    ان کا اصل نام سیّد ولی اشرف تھا۔ وہ 11 مئی 1905ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے اور یہیں زندگی کا سفر تمام کیا۔

    ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے اشرف صبوحی کی نثر رواں اور نہایت خوب صورت ہے جس نے انھیں ہم عصروں میں ممتاز کیا اور قارئین نے ان کی تحریروں کو بہت پسند کیا۔

    اشرف صبوحی کی تصانیف میں دہلی کی چند عجیب ہستیاں، غبار کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے تراجم شامل ہیں۔ ان کے تراجم دھوپ چھائوں، ننگی دھرتی اور موصل کے سوداگر بہت مشہور ہوئے، اشرف صبوحی نے بچوں کے لیے بھی لکھا اور یہ سرمایہ کتابی شکل میں محفوظ ہے۔ وہ گلشنِ اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • دلّی والوں کا دستر خوان

    دلّی والوں کا دستر خوان

    1947ء سے پہلے تک دلّی والوں کا دستر خوان بڑا سادہ ہوتا تھا۔ جیسا بھی کچھ زور تھا وہ بس دو وقت کے کھانے پر تھا، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا۔

    ناشتے کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا تھا، سوائے اس کے کہ شدید گرمی کے موسم میں تانبے کی درمیانی سائز کی قلعی دار بالٹی میں کبھی برف ڈال کر تخمِ ریحاں کا شربت بن گیا، جسے بول چال کی زبان میں تخمراں کا شربت کہتے تھے اور بہت سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ تخمراں اصل میں کس لفظ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔

    کسی دن ستّو بن گئے، ستّوﺅں میں مٹھاس کے لیے گڑ کی شکر پڑتی تھی، کسی دن اور زیادہ عیش کا موڈ آیا تو بازار سے دہی منگوا کے دہی کی لسّی بنالی۔ سب نے ایک ایک گلاس اس مشروب کا پیا اور بس ناشتہ ہوگیا۔

    شدید گرمی کے علاوہ باقی موسم میں ناشتے کے نام پر صرف چائے بنتی تھی جس کے لیے تانبے کی قلعی دار پتیلی چولھے پر چڑھتی تھی، جو پانی چائے بنانے کو ابالنے کے چڑھایا جاتا تھا اس میں تھوڑی سی کنکریاں نمک کی ضرور ڈالی جاتی تھیں، پانی میں اُبال آنے کے بعد اس میں چائے کی پتّی ڈالی جاتی تھی اور اسے اس وقت تک اونٹایا جاتا تھا جب تک کہ چائے کی پتّی خوب پانی پی کر پتیلی کی تہ میں نہ بیٹھ جائے۔

    اب اس میں چینی اور بھینس کا جوش کیا ہوا بالکل خالص دودھ ملایا جاتا تھا، اس کے بعد چند منٹ تک چائے چلانے کے لیے ایک خاص قسم کے چمچے سے جسے گھَنٹی کہتے تھے، چائے بھر بھر کے کئی بار نکالی اور انڈیلی جاتی تھی جیسے دودھ کی دکان پر دودھ والے کڑھاﺅ میں سے لُٹیا میں دودھ نکال کر اونچائی پر لے جاکر واپس کڑھاﺅ میں ڈالتے ہیں، یہ اس لیے تاکہ چائے کا درجہ حرارت اس مقام پر قائم رہے جہاں اس کے ابلنے کا احتمال نہ ہو، اب گویا چائے تیار۔

    ایک دوسری قلعی دار پتیلی میں یہ چائے چھان کر پلٹ لی جاتی اور پھر اس گھنٹی سے نکال نکال کر سب کو دی جاتی تھی۔ چائے یا چینی کے تیز یا ہلکا ہونے کا کوئی مذاق اس وقت تک نہیں پیدا ہوا تھا، سب کو ایک ہی برانڈ کی چائے ملتی تھی۔

    بعض بچّے یہ چائے، چائے کے کپ میں پینے کے بجائے چینی کے پیالے میں لیتے تھے اور اس میں رات کی بچی ہوئی روٹی کے ٹکڑے بھگو کر چمچے سے سڑپ سڑپ کر کے کھاتے تھے۔ بچّوں کو چائے دن بھر میں صرف ایک بار صبح ناشتے پر ملتی تھی، باقی ناشتے کی بچی ہوئی چائے قدرے چھوٹی پتیلی میں منتقل کر کے گنجینے (توشہ خانے) میں رکھ دی جاتی تھی، شام تک ایک دو دور اس چائے کے بڑوں کے چلتے تھے۔

    جب موسم ذرا گلابی ہوجاتا تو پھر بچّوں کو ناشتے میں چھوٹی سی روغنی ٹکیہ اور انڈے کا چھوٹا آملیٹ ملتا تھا، اس طرح کہ ایک انڈے کو پھینٹ کر اس میں سے کم از کم چار چھوٹی چھوٹی ٹکیاں انڈے کی تل کر بچوں کو روغنی ٹکیہ کے اوپر رکھ کر دی جاتی تھی، کبھی کبھی زیادہ عیش کا موڈ ہوا تو بازار سے حلوہ پوری یا نہاری آگئی۔

    (پروفیسر اسلم پرویز (مرحوم) کی آپ بیتی ‘‘میری دلّی‘‘ سے انتخاب)

  • نوعمر ترقّی پسندوں کے چار مشغلے

    نوعمر ترقّی پسندوں کے چار مشغلے

    جب میں 1938ء میں دہلی سے لکھنؤ آیا تو مجاز وہاں پہلے سے موجود تھے۔ ان کے والد نے ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد لکھنؤ میں گھر بنایا تھا، مجاز کے چھوٹے بھائی انصار ہاروانی جو اب پارلیمنٹ کے ممبر ہیں، نیشنل ہیرالڈ میں کام کرتے تھے، وہاں کئی اور بھی احباب تھے، انور جمال قدوائی، سبط حسن، فرحت اللہ انصاری، علی جواد زیدی وغیرہ۔ حیات اللہ انصاری ہفتہ وار ہندوستان کے ایڈیٹر تھے۔ یش پال ہندی اور اردو میں الگ الگ اپنا رسالہ وپلو شائع کرتے تھے۔

    روز بروز ترقی پسندوں کا حلقہ وسیع ہوتا جاتا تھا۔ ڈاکٹر علیم اور احمد علی لکھنؤ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ ڈاکٹر رشید جہاں جنہیں ہم سب پیار سے رشید آپا کہتے تھے، ڈاکٹری کرتی تھیں، افسانے لکھتی تھیں، اور تمام نوعمر ادیبوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتی تھیں۔

    کبھی کبھی الٰہ آباد سے سجاد ظہیر، ڈاکٹر اشرف اور ڈاکٹر احمد آ جاتے تھے، جو پنڈت نہرو کی سرپرستی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے آفس میں کام کر رہے تھے۔ کان پور میں دو ایک انگریز ترقی پسند پروفیسر تھے۔ وہ بھی لکھنؤ کے چکّر لگاتے رہتے تھے۔
    اسی سال ڈاکٹر ملک راج آنند ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے (جس کا افتتاح ٹیگور نے کیا) انگلستان سے آئے تھے، ان کی زبان پر اسپین کا ذکر تھا، جس کے انقلابی کارنامے پہلے ہی ہم تک پہنچ چکے تھے۔

    لاپشناریا اور لور کے نام فضاؤں میں گونج رہے تھے، ایک سال بعد 1939ء میں جذبی بھی لکھنؤ آئے اور جوش ملیح آبادی بھی۔ ان کا رسالہ ’’کلیم‘‘ اب نیا ادب میں ضم ہو گیا اور وہ ایک طرح سے ہمارے ادبی سرپرست بن گئے۔ (اسی زمانے میں سکندر علی وجد بھی لکھنؤ آ گئے۔ وہ نظام سرکار کا سول سروس کا امتحان دے کر ٹریننگ لینے لکھنؤ آئے تھے۔ اس لیے آوارہ گردوں اور چاک گریبانوں میں شامل ہوئے، ویسے جذباتی طور سے وہ بھی ہمارے قریب تھے۔)

    نوعمر ترقّی پسندوں کی ٹولی عجیب و غریب زندگی بسر کر رہی تھی۔ کچھ تو ابھی تک کالج اور یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے لیکن سارے ہندوستان میں مشہور ہو چکے تھے، کچھ ابھی ابھی تعلیم سے فارغ ہوئے تھے۔ ہمارے چار مشغلے تھے۔ تعلیم، ادب، سیاست اور آوارہ گردی۔ اس اعتبار سے ہم مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر پائے جاتے تھے۔

    ایک سرے پر فرنگی محل تھا، جس کے روشن خیال اور خوش اخلاق علما کے ساتھ نہایت ادب سے انتہائی بے باک بحثیں کی جاتی تھیں، اور دوسرے سرے پر ریڈیو کی مشہور گانے والی گوہر سلطان کا وہ گھر تھا جسے ہم خرابات کہتے تھے۔

    ان دونوں سروں کے درمیان نیشنل ہیرالڈ، پانیر، ہندوستان، وپلو اور نیا ادب کے دفاتر، یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ حبیب اللہ صاحب کا گھر، پروفیسر ڈی پی مکھر جی کا کتب خانہ، وائی، ڈبلو، سی، اے کا خوب صورت ہال جہاں مایا سرکار شمعِ محفل ہوا کرتی تھیں۔ یونیورسٹی کی لڑکیوں کا کیلاش ہاسٹل جہاں ہرسال ہولی کھیلنے پر جرمانہ ہوتا تھا اور نہ جانے کتنے کافی ہاؤس، ریستوراں اور مے خانے تھے اور یہ ساری گزرگاہیں کوچہ پار سے ہوتی ہوئی زندانوں کی طرف جارہی تھیں، جن کی دیواروں کے پیچھے آزادی کی خوب صورت صبح کا اجالا دھندلا دھندلا نظر آ رہا تھا اور اس کی دل فریبی ہماری نگاہوں کو دعوتِ نظّارہ دے رہی تھی۔

    (ہندوستان پر انگریز راج سے بیزار، آزادی اور انقلاب کا خواب دیکھنے والے ہم مجلس نوجوان ادبا اور شعرا کے بارے میں ترقی پسند شاعر اور نقّاد علی سردار جعفری کے مضمون ” لکھنؤ کی پانچ راتیں” سے اقتباس)