Tag: مشہور ادیب

  • جمالیات: فطرت کے جلال و جمال، فلسفے اور فنونِ لطیفہ تک

    جمالیات: فطرت کے جلال و جمال، فلسفے اور فنونِ لطیفہ تک

    جمالیات کی ایک بڑی تاریخ ہے۔ ارتقائی منزلوں کو طے کرتے ہوئے جانے کتنے تصوّرات پیدا ہوئے ہیں، تصورات تبدیل ہوئے ہیں، مختلف تصوّرات میں مفاہیم کی نئی جہتیں پیدا ہوئی ہیں، خود جمالیات نے جانے کتنی اصطلاحوں کو خلق کیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

    جب ایسی صورت ہے تو ظاہر ہے جمالیات کے اندر سے پھوٹے ہوئے سوالات میں بھی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمالیات کی کوئی ایک تعریف نہیں ہو سکتی، اس کی مختلف تشریحوں سے اس کے ایک سے زیادہ پہلوؤں کو سمجھا جا سکتا ہے۔ معنیٰ خیز ادبی اور فنی اصطلاحوں کا حسن تو یہی ہے۔ بعض ادبی اور فنی اصطلاحیں غالبؔ کی اصطلاح میں ’چراغاں‘ کی کیفیت پیدا کر دیتی ہیں اور جانے کتنے مناظر کے ساتھ ’تماشا‘ بن جاتی ہیں۔

    یونانی فلسفیوں خصوصاً فیثا غورث وغیرہ نے جمالیات کو فلسفے کا ایک پہلو قرار دیا تھا۔ ارسطو نے اسے حسن، حسن کی فطرت و ماہیت اور فنونِ لطیفہ سے قریب تر کیا اور فن کارانہ تجربے کو جمالیاتی تجربہ سمجھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس منزل سے جمالیات کے باطن سے ایسے سوالات پھوٹنے اور ابھرنے لگے کہ جن کا تعلق حسن، حسن کی ماہیت اور تخلیقی عمل اور فنونِ لطیفہ کے جوہر سے تھا، حالاں کہ اس سے قبل سقراط نے اسے صرف اخلاقیات سے وابستہ کر رکھا تھا اور افلاطون نے اپنی ’ری پبلک‘ کے اچھے شہریوں کے لیے اسے علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا تھا۔

    لیونارڈ نے فطرت کے جلال و جمال اور فنون کے رشتوں کو سمجھنے کے لیے جمالیات کا سہارا لیا، بوآئیلو (Boileau) نے تخلیقی فن کے معیار کے لیے ’جمالیت‘ کو عزیز جانا، بام گارٹن (Baumgarten) نے آرٹ کے ذریعہ دنیا کے حسن کو پانے اور فن کار اور حیات و کائنات کے حسی رشتوں کو سمجھنے میں اس کی مدد لی۔

    ہیگل نے اسے زندگی اور آرٹ کے حسن کو سمجھنے کا ذریعہ جانا اور کائنات کی روح کے عمل اور تخلیقی آرٹ کی جگہ تلاش کرتے ہوئے جمالیات کو بڑا ذریعہ سمجھا۔ نووالس (Novalis) نے رومانیت کی قدرو قیمت کا اندازہ کرتے ہوئے فن کار کے منفرد جمالیاتی رویے کو اہمیت دی۔

    چرنی شوسکی (Chernyshoiski) نے انسان اور وجود کے رشتے کو سمجھنے کے لیے تمام جمالیاتی کیفیتوں اور رشتوں کو غیر معمولی اہمیت دی۔ بلنسکی (Belinsky) نے جمالیات کو ’فنی صداقت‘ اور حقیقت کو سمجھنے کا ایک بڑا ذریعہ بنایا۔

    کسی نے کہا کہ سماجی تبدیلیوں اور انسانی زندگی کی تبدیلی سے جمالیاتی قدریں تبدیل ہو جاتی ہیں، لہٰذا حسن کو دیکھنے اور محسوس کرنے کا رویہ بھی بدل جاتا ہے۔ کسی نے یہ بتایا کہ حسن قدر نہیں جبلت ہے اور جبلت تبدیل نہیں ہوتی۔ قدروں کی تبدیلی سے حسن کو دیکھنے، اسے محسوس کرنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا انداز بظاہر جتنا بھی بدل جائے بنیادی طور پر کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ ایک دبستان اس طرح سوچتا ہے کہ جمالیات فرد کے باطن کا معاملہ ہے۔ تخلیقی عمل میں باطنی جمالیاتی تجربے یقیناً اہم ہیں، لیکن وہ تجربے خارجی جمالیاتی قدروں کی دین ہے۔

    ظاہر ہے ایسی صورت میں ’جمالیات‘ کی تعریف ممکن نہیں ہے۔ جمالیات کے تعلق سے یہ تشریحیں، تعبیریں اور تفسیریں اہمیت رکھتی ہیں۔ ان تصورات کے علاوہ دوسرے جانے کتنے تصورات موجود ہیں کہ جن کی اہمیت ہے۔ یہ سب جمالیات کی مختلف جہتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ ہر خیال اور ہر تصور میں کوئی نہ کوئی سچائی موجود ہے۔

    ایسے سیکڑوں تصورات سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ جمالیات کی اصطلاح ایک انتہائی معنی خیز معمولی اصطلاح ہے اور فنونِ لطیفہ میں اس کی معنویت اپنی تہ داری کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ فنونِ لطیفہ جمالیات کی دین ہے۔ جمالیات ہی تجربہ کو فنی تجربہ بناتی ہے۔ جمالیاتی فکر و نظر ہی سے تخلیق ہوتی ہے، جمالیات سے ہی فن کار کے وژن میں کشادگی پیدا ہوتی ہے، اس سے فنونِ لطیفہ میں جلال و جمال کا ایک نظام قائم ہوتا ہے۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد اور ماہرِ‌ تعلیم پروفیسر شکیل الرّحمٰن کے مضمون ‘ادب اور جمالیات’ سے اقتباس)

  • اردو اور انگریزی زبان کے نام وَر ادیب اور نقّاد ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا یومِ وفات

    اردو اور انگریزی زبان کے نام وَر ادیب اور نقّاد ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا یومِ وفات

    آج نام وَر نقاد، افسانہ اور ناول نگار ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 26 فروری 1978ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا تعلق لکھنؤ سے تھا جہاں انھوں نے 22 نومبر 1913ء کو آنکھ کھولی۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ’’رومانوی شاعروں پر ملٹن کے اثرات‘‘ کا موضوع پی ایچ ڈی کے لیے چنا اور یوں تعلیمی میدان میں مزید آگے بڑھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے تھے۔

    پاکستان میں انھوں نے جامعہ کراچی، سندھ یونیورسٹی اور بلوچستان یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی سے وابستگی کے دوران تدریسی فرائض انجام دینے کے ساتھ علمی و ادبی مشاغل جاری رکھے۔ وہ انگریزی ادب کے ایک مستند استاد ہونے کے علاوہ بلند پایہ ادیب اور نقّاد تھے۔ انھیں جرمن اور فرانسیسی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا جب کہ اردو کے علاوہ فارسی اور عربی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر وں میں مختلف ادبیات کے رجحانات اور میلانات کا سراغ ملتا ہے جن میں ان کے فکر کا تنوع اور گہرائی دیکھی جاسکتی ہے۔

    اردو کی بات کی جائے تو ان کا شمار صفِ اوّل کے ناقدین میں ہوتا ہے۔ اردو زبان میں انھوں نے اپنی جو کتب یادگار چھوڑی ہیں‌، ان میں اردو ناول کی تنقیدی تاریخ، ناول کیا ہے، ادبی تخلیق اور ناول، میر انیس اور مرثیہ نگاری اور تاریخ انگریزی ادب سرفہرست ہیں۔

    ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے افسانے بھی لکھے اور ناول بھی۔ ان کے ناولوں میں شامِ اودھ، آبلہ دل کا، سنگِ گراں اور سنگم شامل ہیں جب کہ افسانوں کا مجموعہ رہِ رسمِ آشنائی کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔

    کوئٹہ میں وفات پانے والے ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کو کراچی میں خراسان باغ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • سخت سردی کے باوجود مولانا نے کمبل اوڑھنا گوارا نہ کیا!

    سخت سردی کے باوجود مولانا نے کمبل اوڑھنا گوارا نہ کیا!

    انگریز برِصغیر کو دولت کی کان اور کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ سمجھتے تھے اور یہاں کی دولت سے خوب فائدہ اُٹھاتے تھے۔ یہاں سے سستے داموں کپاس خریدتے، یہ کپاس انگلستان جاتی، وہاں اُس سے طرح طرح کے کپڑے تیار ہوتے۔

    پھر یہ کپڑے برصغیر آتے، مہنگے داموں فروخت ہوتے اور انگریز اس کاروبار سے مالی منفعت حاصل کرتے۔ ایک تو یہ کہ اُن کے کارخانے چلتے، ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا۔ دوسرے یہ کہ کپڑے کی فروخت سے بھی خوب فائدہ ہوتا۔

    ایک کپاس ہی کیا، برِصغیر کی ساری قدرتی پیداوار انگلستان جاتی۔ وہاں سے بدلی ہوئی شکل میں واپس آ کر انگریزوں کی دولت بڑھاتی۔ اس زمانے میں برِصغیر میں کارخانے بھی کم تھے۔ جو تھے وہ بھی انگریزی کارخانوں سے مقابلہ نہ کر پاتے۔

    برِصغیر کے راہ نماؤں نے انگریزوں کی اس زبردستی کو ختم کرنے کے لیے سودیشی تحریک شروع کی۔ سودیشی کا مطلب ہے دیس سے تعلق رکھنے والی۔ سودیشی تحریک کے تحت ہر شخص سے کہا گیا کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدے اور استعمال کرے۔ برِصغیر کی معیشت کو پہنچنے والے بھاری نقصان کے اعتبار سے یہ بہت اچھی تحریک تھی۔

    دنیا کی تمام ترقی کرنے والی قومیں اسی اصول پر عمل کرتی ہیں۔ انگریز اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدتے ہیں اور اُس پر فخر کرتے ہیں۔ امریکی فرانسیسی، چینی، جاپانی سب اپنے ملکوں کی مصنوعات پسند کرتے ہیں۔ یہ خاصیت ہم میں ہی ہے کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں چھوڑ کر پرائے دیس کی چیزیں خریدتے ہیں۔ انہیں استعمال کرتے اور خوشی خوشی ہر ایک کو دکھاتے ہیں کہ یہ باہر کا کپڑا ہے۔ یہ باہر کا جوتا ہے۔ حالاں کہ اس سے قومی صنعتوں اور قومی ترقی کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔ افسوس کہ آج بھی ہمارا یہی حال ہے۔

    سودیشی تحریک کو لوگوں نے کام یاب بنانے کی کوشش کی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک میں پھیل گئی۔ مولانا حسرت کو بھی سودیشی تحریک بہت پسند آئی۔ انہوں نے سب سے پہلے تو یہ عہد کیا کہ میں اب کوئی غیر ملکی چیز استعمال نہیں کروں گا۔ یہ بڑا مشکل عہد ہے۔ آسان بات نہیں مگر مولانا دُھن کے پکّے تھے۔ جب تک جیے اس عہد کو نباہتے رہے۔

    ایک دفعہ ایسا ہوا کہ سخت سردی کا زمانہ تھا۔ شام کے وقت مولانا لکھنؤ میں ایک معروف عالم سیّد سلیمان ندوی سے ملنے گئے۔ باتوں میں بڑی دیر ہو گئی۔ سید صاحب نے اصرار کیا۔ کہنے لگے۔ "اب کہاں جائیے گا۔ رات بہت ہو گئی ہے۔ سردی بھی بہت ہے۔ رات یہیں گزار لیجے، صبح کو چلے جائیے گا۔”

    مولانا سیّد صاحب کے اصرار پر وہیں ٹھہر گئے۔ رات کو اتفاقاً سیّد صاحب کی آنکھ کھلی تو خیال آیا، مولانا حسرت مہمان ہیں۔ ذرا دیکھ لو آرام سے تو ہیں۔ کوئی تکلیف تو نہیں۔ یہ سوچ کر سیّد صاحب اس کمرے میں گئے جہاں مولانا سو رہے تھے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ مولانا گُڑی مُڑی بنے، سُکڑے سِمٹے لیٹے ہیں اور اونی کمبل پائنتی پر پڑا ہے۔

    ہُوا یہ کہ مولانا کے پائنتی کمبل رکھ دیا گیا تھا کہ رات کو اوڑھ کر سو جائیں۔ کمبل تھا ولایتی۔ مولانا نے ولایتی کمبل دیکھا تو اپنے عہد کے مطابق اُسے نہیں اوڑھا۔ کمبل پائنتی پڑا رہا۔ مولانا رات بھر سردی میں سُکڑتے رہے، مگر ولایتی کمبل اوڑھنا گوارا نہ ہوا۔ عہد پر قائم رہنے والے سچّے لوگ ایسے ہوتے ہیں۔

    اگر سب لوگ اپنے عہد کا پاس کرنے لگیں تو کوئی بڑے سے بڑا قومی کام بھی ناممکن نہ رہے۔

    (ڈاکٹر اسلم فرخی کے کتابچے "مولانا حسرت موہانی” سے نثر پارے)

  • ڈپٹی نذیراحمد کا بچپن

    ڈپٹی نذیراحمد کا بچپن

    بچّو! کبھی تم نے ڈپٹی نذیراحمد کا نام بھی سنا ہے؟ یہ ایک بڑے پایہ کے عالم، قانون داں اور اردو کے پہلے ناول لکھنے والے تھے۔ خود ان کی زندگی کی کہانی بڑی دل چسپ اور سبق آموز ہے۔

    نذیر احمد ایک بہت غریب آدمی کے بیٹے تھے۔ انھیں لکھنے پڑھنے کا بچپن ہی سے شوق تھا، مگر ان کے باپ بیچارے کے پاس اتنا پیسہ کہاں تھا کہ بچّے کی پڑھائی کا انتظام کرتے۔ اس زمانے میں آج کل کی طرح جگہ جگہ ایسے اسکول تو تھے نہیں کہ جہاں بغیر پیسے خرچ کیے غریبوں کے بچّے تعلیم حاصل کرسکیں۔

    ان کے شوق کو دیکھ کر باپ نے انھیں ایک مولوی صاحب کے پاس چھوڑ دیا۔ مولوی صاحب تھے تو بڑے قابل، مگر بڑے سخت بھی تھے اور غریب بھی۔ ایک مسجد میں رہتے تھے۔ وہیں بہت سارے بچّوں کو اکٹھا کر کے پڑھایا کرتے۔ وہ فیس کسی سے نہیں لیتے تھے۔ جو امیر بچّے ہوتے تھے ان کے گھروں سے مولوی صاحب اور ان کے ساتھ رہنے والے غریب بچّوں کے لیے کھانا آجایا کرتا تھا۔ اس طرح نذیر احمد وہاں رہنے لگے۔

    ان کے سپرد یہ کام تھاکہ گھروں میں جاکر کھانا لے آیا کریں۔ اس میں انھیں گھر والوں کی گھڑکیاں بھی سننی پڑتیں۔ چھوٹا بڑا کام بھی کرنا پڑتا اور کبھی کبھی کام بگڑ جانے پر مار بھی کھانا پڑتی، مگر پڑھائی کی خاطر وہ یہ سب برداشت کرلیتے۔

    ایک روز کیا ہوا کہ وہ کشمیری گیٹ کی طرف سے گزر رہے۔ وہاں دہلی کالج کا سالانہ جلسہ ہورہا تھا۔ اور پاس ہونے والوں کو ڈگریاں مل رہی تھیں۔ بڑی بھیڑ تھی۔ نذیر احمد کا بھی جلسہ دیکھنے کو دل چاہا اور وہ بھیڑ میں گھس گئے، مگر اتنے لوگ تھے کہ وہ دھکا کھا کر گر گئے اور بے ہوش ہوگئے۔

    لوگ اٹھا کر پرنسپل کے دفتر میں لے گئے اور پانی کے چھینٹے وغیرہ دے کر ہوش میں لایا گیا۔ جب ہوش آیا تو پرنسپل جو کہ انگریز تھا، اس نے پوچھا تم کون ہو اور کہاں پڑھتے ہو؟ وہ بیچارے کسی اسکول میں تو پڑھتے نہ تھے۔ اپنی مسجد کا نام بتا دیا اور جو کتابیں مولوی صاحب سے پڑھتے تھے وہ بتلا دیں۔ کتابیں وہ تھیں جو بڑے لوگ بھی مشکل سے پڑھ اور سمجھ پائیں۔

    پرنسپل سمجھا یہ ایسے ہی گپ مار رہے ہیں۔ اس نے انھیں آزمانے کو دو چار سوال کر ڈالے۔ انھوں نے ایسے جواب دیے کہ پرنسپل حیران رہ گیا۔ اس نے پوچھا تم ہمارے کالج میں پڑھو گے۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ نذیر احمد نے فوراً ہاں کردی مگر اپنی غریبی کا حال بھی کہہ دیا۔

    پرنسپل نے وظیفہ مقرر کر کے انھیں کالج میں داخلہ دے دیا۔ اپنے شوق کی بدولت انھوں نے اونچی تعلیم حاصل کی اور اپنے زمانے کے مشہور ادیب، ماہرِ تعلیم اور قانون داں کہلائے۔

    (ڈاکٹر افتخار بیگم صدیقی کی کتاب "بڑوں کا بچپن” سے انتخاب، 1983ء میں اس کی اشاعت کا اہتمام "ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ (بھارت)” نے کیا تھا)

  • "اونھ” کی تباہ کاریاں!

    "اونھ” کی تباہ کاریاں!

    خدا اس "اُونھ” سے بچائے جس کی زبان پر آیا اُس کو تباہ کیا، جس گھر میں گھسا اس کا ستیا ناس کیا اور جس ملک میں پھیلا اس میں گدھے کے ہل چلوا دیے۔ ثبوت درکار ہو تو دنیا کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لو کہ اس اونھ نے زمانے کے کیا کیا رنگ بدلے ہیں۔

    طالبِ علموں میں دیکھو، اونھ کا زور سب سے زیادہ انہی میں پائو گے۔ سال بھر گزار دیا۔ امتحان کا خیال آیا تو اونھ کر دی یعنی کل سے پڑھیں گے… آخر یہ اونھ یہاں تک کھینچی کہ امتحان آگیا۔ فیل ہوئے۔ اس فیل ہونے پر بھی اونھ کر دی۔

    بہت ہی بامعنٰی ہوتی ہے۔ اس کے ایک معنٰی تو یہ ہیں کہ باپ زندہ ہیں، کھانے پینے اور اڑانے کو مفت ملتا ہے۔ اگر وہ بھی مر گئے تو جائیداد موجود ہے۔ قرضہ دینے کو ساہوکار تیار ہیں۔

    پھر پڑھ لکھ کر کیوں اپنا وقت ضایع کریں۔ دوسرے معنٰی یہ ہیں کہ ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے۔ صرف اٹھارہ برس ہی کی تو ہے۔ اگر مڈل کے امتحان میں دو چار بار فیل ہوچکے ہیں تو کیا حرج ہے۔ تیس سال کی عمر تک بھی انٹرنس پاس کر لیا تو سفارش کے بل پر کہیں نہ کہیں چپک ہی جائیں گے۔ یا کم از کم ولایت جانے کا قرضہ تو ضرور مل جائے گا اور ذرا کوشش کی تو بعد میں معاف ہوسکے گا۔

    اس فیل ہونے پر ادھر انھوں نے اونھ کی اُدھر ماں باپ نے اونھ کی۔ اس صورت میں ابّا اور امّاں کی اونھ کا دوسرا مطلب ہے یعنی یہ کہ بچہ ابھی فیل ہوا ہے، دل ٹوٹا ہوا ہے۔ ذرا کچھ کہا تو ایسا نہ ہو کہ رو رو کر اپنی جان ہلکان کرے یا کہیں جا کر ڈوب مرے۔ غرض اس اونھ نے صاحبزادہ صاحب کی تعلیم کا خاتمہ بالخیر کیا۔

    (فرحت اللہ بیگ کے شگفتہ قلم سے)

  • بلند پایہ ادیب اور انشا پرداز مولانا غلام رسول مہر کی برسی

    بلند پایہ ادیب اور انشا پرداز مولانا غلام رسول مہر کی برسی

    بلند پایہ ادیب، انشا پرداز، شاعر، نقّاد، مترجم، مؤرخ، محقق اور صحافی غلام رسول مہرؔ 16 نومبر 1971ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    جالندھر کے ایک گاؤں پھول پور سے تعلق رکھنے والے مولانا غلام رسول مہر کی تاریخِ پیدائش 15 اپریل 1895ء ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد چند برس حیدرآباد (دکن) میں ملازمت کی اور دوبارہ لاہور چلے آئے۔

    مولانا غلام رسول مہر نے صحافت کا آغاز زمین دار اخبار سے کیا۔ وہ اپنی فکر و اور قلم کے زور پر ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز ہوئے اور صحافت میں خوب نام کمایا۔ بعد میں عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر انقلاب جاری کیا اور 1949ء تک اس سے وابستہ رہے۔

    مولانا غلام رسول مہر نے پوری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ انھوں نے اردو زبان میں سیاست، تہذیب و تمدن، ادب کی مختلف اصناف اور سیرت نگاری پر کئی مضامین لکھے اور ان کی سو کے لگ بھگ کتب منظرِ عام پر آئیں۔ ان میں تبرکاتِ آزاد، غالب، راہ نمائے کتاب داری، شہری معلومات، تاریخِ عالم، اسلامی مملکت و حکومت، تاریخِ‌ شام شامل ہیں۔

  • لال قلعہ کی جھلکِ ظرافت آمیز

    لال قلعہ کی جھلکِ ظرافت آمیز

    بہادر شاہ ابو ظفر کے عہد میں غدر سے پہلے دو داستان گو شہر میں مشہور تھے۔ بڑے عبداللہ خاں اور چھوٹے عبد اللہ خاں۔ دونوں کے دونوں اپنے فن میں کامل تھے۔

    بڑے عبداللہ خاں اکثر حضورِ والا کو داستان سناتے تھے اور حضورِ والا پسند فرماتے تھے۔ میر کاظم علی دہلوی جو داستان گوئی میں فرد تھے، انہی کے شاگرد تھے اور میر باقر علی دہلوی انہی اپنے ماموں میر کاظم علی صاحب کے داستان میں شاگردِ بے نظیر تھے، جو حال ہی میں فوت ہوئے ہیں۔

    رات کا وقت تھا۔ حضورِ والا چھپر کھٹ پر لیٹے تھے۔ حکیم احسن اللہ خاں صاحب چھپر کھٹ کے پاس بیٹھے تھے۔ عبداللہ خاں نے حسبِ دستور داستان شروع کرنے سے پہلے یہ لطیفہ بیان کیا کہ امر گڑھ کے قلعہ کے پاس چوک میں دو مسافر یوں بات چیت کر رہے تھے۔

    ’’آپ کی وضع سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ لکھنؤ کے رہنے والے ہیں۔‘‘

    ’’جی ہاں! میں لکھنؤ کا باشندہ ہوں۔ مگر آپ کے لب و لہجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دہلی والے ہیں۔‘‘

    ’’بیشک میں دہلی رہتا ہوں۔ لکھنوی صاحب! یہ تو فرمائیے، آپ یہاں کیوں آئے ہیں اور کیا کام کرتے ہیں؟‘‘

    لکھنوی: میں امیروں کو میٹھی میٹھی باتیں سناتا ہوں۔ آپ کیا شغل رکھتے ہیں؟

    دہلوی: میں بات میں رفو کرتا ہوں۔

    لکھنوی: ہم تم اس راجہ کے دربار میں چلیں اور اپنا ہنر دکھائیں۔

    دونوں کی سرِشام راجہ تک پہنچ ہوگئی۔ راجہ نے کہا، ’’کچھ بیان کرو۔‘‘

    لکھنوی: حضور یہ فدوی آج ہی آپ کے شہر میں داخل ہوا ہے۔ شہر سے ملی ہوئی ندی جو بہتی ہے اس میں ٹخنوں ٹخنوں پانی تھا۔ اتفاقاً ایک بیل ندی میں اترا، اس کا پاؤں پانی میں پھسلا۔ گرا اور گرتے ہی بھسم ہوگیا اور ا س کا ریشہ ریشہ پانی میں بہہ گیا۔

    راجہ: یہ بات سمجھ میں نہیں آئی!

    دہلوی: حضور ان کا کہنا سچ ہے۔ بیل کی بیٹھ پر سوکھا چونا لدا ہوا تھا۔ بیل کے گرتے ہی چونا بجھا اور بیل کو گلا کر اس کی بوٹی بوٹی کردی۔

    راجہ اس حاضر جوابی سے بہت خوش ہوا اور دونوں کو پچاس روپیہ دے کر رخصت کیا۔ راجہ کے محل سے نکل کر لکھنؤ والے نے دہلی والے سے کہا،

    ’’کل پھر ہم تم مل کر راجہ کے یہاں چلیں گے۔‘‘

    دہلی والے بولے میں تمہاری بات میں رفو نہیں کرسکتا۔ تم بے تکی باتیں بناتے ہو۔ کجا سوکھی ندی میں بیل کا گرنا اور کجا اس کا بھسم ہوجانا وہ تو مجھے سوجھ گئی اور بات میں رفو ہوگیا۔

    (صاحبِ اسلوب ادیب اور شاعر ناصر نذیر فراق دہلوی کے مضمون سے انتخاب)

  • Tsundoku: وہ اصطلاح جو ایک دل چسپ بحث چھیڑ سکتی ہے

    Tsundoku: وہ اصطلاح جو ایک دل چسپ بحث چھیڑ سکتی ہے

    فلسفہ، مصوری، موسیقی کے رسیا اور انگریز مصنف سیموئیل بٹلر سے منسوب قول ہے کہ "کتابیں قیدی روحوں کی طرح ہوتی ہیں یہاں تک کہ کوئی انھیں کسی شیلف سے لے جائے اور آزاد کر دے۔”

    دنیا بدل چکی ہے، کتاب پڑھنے اور مطالعے کے شوقین تو شاید اب بھی بہت ہوں، لیکن ورق گردانی کی عادت پر انٹرنیٹ اور کمپیوٹر اسکرین کا رنگ گہرا ہوتا جارہا ہے۔ یوں تو دنیا بھر میں‌ لوگ اب بھی کتب خریدتے اور پڑھتے ہیں، مگر یہ جان کر شاید آپ کو حیرت ہو کہ ان میں‌ سے بعض ایسے ہیں‌ جو صرف کتاب سجانے کے لیے گھر لاتے ہیں، اس کا مطالعہ کبھی نہیں کرتے۔

    سن ڈوکُو (Tsundoku) انہی لوگوں‌ کے لیے ایک اصطلاح ہے جس نے جاپان میں‌ جنم لیا۔ اس اصطلاح میں‌ Tsun سے مراد حاصل یا اکٹھا کرنا اور جمع کرنا ہے اور Doku کا مطلب پڑھنا یا مطالعہ کرنا ہے۔

    یہ اصطلاح ایسے فرد کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو کتب اکٹھی کرنے کا شوق رکھتا ہو اور انھیں اپنے بک شیلف میں‌ باقاعدہ ترتیب اور قرینے سے رکھ دیتا ہے اور گاہے گاہے بک شیلف کی صفائی اور کتابوں‌ پر جمنے والی گرد بھی جھاڑتا رہتا ہے، لیکن ان کا مطالعہ نہیں‌ کرتا!

    ماہرین کا کہنا ہے اکثریت کے لیے یہ اصطلاح نئی بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں‌ ہے کہ یہ حالیہ برسوں‌ یا چند دہائیوں کے دوران وضع کی گئی ہے‌۔ یہ اصطلاح 1879 میں برتی گئی اور غالب امکان ہے کہ یہ اس سے بھی زیادہ پرانی ہو۔

  • الف سے ایکسٹرا

    الف سے ایکسٹرا

    الف سے ایکسٹرا ہوتا ہے اور ہوتی بھی ہے۔ یعنی ایکسٹرا مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی۔

    فلم میں جب کسی گلی محلے یا بازار کا سین دکھایا جاتا ہے تو اس میں چلنے پھرنے والے لوگوں کی اکثریت ایکسٹرا ہوتی ہے۔ وہ پان بیچنے والا ایکسٹرا ہے اور وہ جو دکان پر کھڑا ہو کر "ایک پونا کالا کانڈی” پان کی فرمائش کر رہا ہے وہ بھی ایکسٹرا ہے۔

    بادشاہ کے درباری ایکسٹرا ہوتے ہیں۔ وہ دربان جو لال رنگ کا چوغا پہنے سنہرے رنگ کی موٹھ والی چھتری ہاتھ میں لیے بادشاہ کے آگے چل رہا ہے اور بلند بانگ لہجے میں چلا رہا ہے: "باادب باملاحظہ ہوشیار” وہ بھی ایکسٹرا ہے۔

    کبھی کبھی بادشاہ بھی ایکسٹرا ہوتے ہیں۔ جیسے وہ آج کل اکثر ملکوں میں ہوتے ہیں۔ یعنی سنہری وردی پہنے تخت پر بیٹھے ہیں۔ مگر مجال نہیں کہ اپنی مرضی سے اپنے جوتے کا تسمہ بھی کھول سکیں۔

    مجھے آج کل کے بادشاہوں اور فلم کے ایکسٹرا لوگوں کو دیکھ کر بڑی ہم دردی ہوتی ہے مگر دراصل یہ لوگ کسی ہم دردی کے محتاج نہیں ہیں۔

    فلم کے ایکسٹرا فلمی دنیا میں سب سے کم کماتے ہیں۔ مہینے میں کسی کو پانچ دن تو کسی کو دس دن کام ملتا ہے۔ باقی دن یہ مانگے تانگے سے کس طرح چلاتے ہیں، بھگوان ہی بہتر جانتا ہے مگر پھر بھی یہ فلمی دنیا سے الگ نہیں ہو سکتے۔ کسی قیمت پر الگ نہیں ہو سکتے۔ اگر یقین نہ آئے تو کسی فلمی ایکسٹرا کو جو مہینے میں بڑی مشکل سے پچیس روپے کماتا ہے، پچاس روپے کی دربانی پیش کر کے دیکھ لیجیے۔ وہ ٹھوکر مار دے گا۔ کام کو بھی اور آپ کو بھی۔

    اسے فلمی دنیا میں پانچ دن کام کر کے باقی پچیس دن بھوکا مرنا منظور ہے، مگر وہ کوئی اور کام نہیں کر سکتا۔

    دراصل یہ ایکسٹرا وہ لوگ ہوتے ہیں، جو ہیرو یا ہیروئین بننے کی خواہش میں ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھر چھوڑ کر اپنے ماں باپ، بھائی بہن، خاوند، بیوی بچے سب چھوڑ کر بمبئی چلے آتے ہیں اور بھیڑوں کی طرح ایک سیٹ سے دوسرے سیٹ پر دھکیلے جاتے ہیں۔

    ان میں سے ہر مرد یا عورت کی آنکھوں میں ایک خواب بستا ہے۔ کبھی وہ ہیرو یا ہیروئین بن جائیں گے۔ اور بدقسمتی سے فلمی دنیا میں چند ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کبھی ایک ایکسٹرا دو سال تک ایکسٹرا رہا پھر اچانک ہیرو بن گیا۔ ایک لڑکی جو پانچ سال تک ایکسٹرا رہی اچانک ہیروئین بن گئی۔ اور امپالا میں بیٹھ گئی۔ اس لیے یہ خواب کسی ایکسٹرا کی آنکھوں سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔

    (ممتاز ادیب اور افسانہ نگار کرشن چندر کے مضمون الف سے ایکٹر، ایکٹریس، اشتہار: فلمی قاعدہ سے انتخاب)

  • ممتاز ادیب، نقاد اور ماہرِ تعلیم سجاد باقر رضوی کی برسی

    ممتاز ادیب، نقاد اور ماہرِ تعلیم سجاد باقر رضوی کی برسی

    سجاد باقر رضوی کو اردو ادب میں‌ ایک شاعر، ادیب، نقاد اور مترجم کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ انھوں نے درس و تدریس کے شعبے میں‌ خدمات انجام دیتے ہوئے خود کو علمی اور ادبی سرگرمیوں‌ سے جوڑے رکھا۔ 13 اگست 1992 کو سجاد باقر رضوی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

    ان کا تعلق اعظم گڑھ، یو پی سے تھا جہاں‌ وہ 4 اکتوبر 1928 کو پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سجاد باقر رضوی کراچی آگئے اور یہاں‌ جامعہ کراچی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور چلے گئے۔ لاہور میں‌ انھیں‌ اسلامیہ کالج سول لائنز اور اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ہوکر تعلیم کے شعبے میں‌ خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔

    سجاد باقر رضوی نے تنقید کے میدان میں نہایت اہم اور وقیع کام کیا۔ اس ضمن میں مغرب کے تنقیدی اصول اور تہذیب و تخلیق اردو تنقید کی اہم کتابوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ سجاد باقر رضوی کے شعری مجموعے ’’تیشۂ لفظ‘‘ اور ’’جوئے معانی‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ تراجم میں داستانِ مغلیہ، افتاد گانِ خاک، حضرت بلال اور بدلتی دنیا کے تقاضے کے نام سے ان کی کتابیں‌ ادبی کارنامہ ہیں۔