Tag: مشہور ادیب

  • نام ور ادیب قدرت اللہ شہاب کی برسی

    نام ور ادیب قدرت اللہ شہاب کی برسی

    آج اردو کے نام ور ادیب قدرت اللہ شہاب کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 24 جولائی 1986 کو ہوا تھا۔

    قدرت اللہ شہاب ایک مشہور سول سرونٹ تھے جن کا تعلق گلگت سے تھا جہاں وہ 1917 میں پیدا ہوئے۔ 1941 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا اور انڈین سول سروس میں شامل ہوگئے۔ اس سروس کے دوران انھیں بہار، اڑیسہ اور بنگال میں خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد قدرت اللہ شہاب نے متعدد اہم انتظامی عہدوں پر خدمات انجام دیں سیکریٹری جنرل، وفاقی سیکریٹری وزارتِ اطلاعات، ڈپٹی کمشنر، ڈائریکٹر اور منتخب سیاست دانوں اور وفاقی عہدے داروں کے پرائیویٹ سیکریٹری رہے۔ بعد میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہوگئے اور فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کیا۔

    اردو زبان اور ادب کے لیے جہاں انھوں‌ نے اپنے قلم کا سہارا لیا اور تخلیقی کام کیا، وہیں قدرت اللہ شہاب کا ایک اہم کارنامہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل تھا۔

    ان کی مشہور تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماں جی اور سرخ فیتہ کے علاوہ ان کی خودنوشت سوانح عمری شہاب نامہ شامل ہے۔ شہاب نامہ کو جہاں‌ قارئین نے بہت پسند کیا، وہیں‌ اس میں‌ شامل متعدد ابواب پر اعتراضات اور تنقید بھی کی گئی۔

    شہاب نامہ ایک خود نوشت سوانح حیات ہے جس میں مسلمانانِ برصغیر اور تحریکِ آزادی سے لے کر قیامِ پاکستان اور دیگر تاریخی واقعات کو نہایت دل چسپ انداز میں لکھا گیا ہے۔ روحانی شخصیات کا ذکر اور پراسرار واقعات کا بیان قاری کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے آج بھی نہایت شوق اور دل چسپی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔

    قدرت اللہ شہاب اسلام آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • منٹو کے ساتھ گزرے دس دن

    منٹو کے ساتھ گزرے دس دن

    اردو ادب میں سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی کا بنیادی حوالہ ان کی افسانہ نگاری ہے، لیکن مختلف موضوعات پر ان دونوں ادیبوں کے علمی و تحقیقی مضامین، کالم اور خاکے بھی اس دور کے قارئین میں مقبول ہوئے۔

    سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی ہم عصر تخلیق کار ہی نہیں دوست بھی تھے۔ ان دونوں ادیبوں میں شناسائی کی وجہ اور ان دس دنوں کی روداد پڑھیے جنھوں اپنے وقت کے ان عظیم لکھاریوں کو دوستی کے تعلق میں باندھ دیا۔

    1931 میں تحریکِ آزادی کے نام ور راہ نما مولانا محمد علی جوہر لندن میں انتقال کر گئے، جہاں وہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر نے کہا تھاکہ وہ ایک غلام ملک یعنی ہندوستان واپس نہیں جائیں گے۔

    آزادی کے ہیرو مولانا جوہر کی اس خواہش کا احترام کیا گیا اور انہیں فلسطین میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ممتاز افسانہ نگار اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے مولانا جوہر پر ایک نظم لکھی، جو لاہور سے نکلنے والے اخبار ’سیاست‘ میں شایع ہوئی۔ اس نظم کو قاسمی صاحب اپنے شعری سفر کا آغاز کہتے تھے۔

    اسی دور میں انہوں نے افسانے بھی لکھنا شروع کر دیے۔ ان کا ایک افسانہ ’بے گناہ‘ معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں شایع ہوا، جسے پڑھنے کے بعد اس زمانے کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اختر شیرانی سے رابطہ کیا اور اس افسانے کی تعریف کی۔

    قاسمی صاحب کے بقول اِس کے بعد ان کی منٹو سے خط و کتابت شروع ہو گئی۔

    منٹو ہی کی دعوت پر وہ نئی دہلی گئے، جہاں دس دن تک منٹو کے ساتھ رہے۔ یہی دس دن ان دنوں کے درمیان گہری دوستی کی بنیاد بنے۔

    اردو زبان کے ان دو نام ور افسانہ نگاروں کے درمیان مراسم منٹو کے انتقال تک قائم رہے۔

  • دادی اماں اور سات کا ہندسہ

    دادی اماں اور سات کا ہندسہ

    دادی جی بہت اچھی ہیں۔ پوپلا منہ، چہرے پر بے شمار جھریاں اور خیالات بے حد پرانے۔

    ہر وقت مجھے بھوتوں جنوں اور چڑیلوں کی باتیں سنا سنا کر ڈراتی رہتی ہیں۔ ’’دیکھ بیٹا مندر کے پاس جو پیپل ہے اس کے نیچے مت کھیلنا۔ اس کے اوپر ایک بھوت رہتا ہے۔

    آج سے پچاس سال پہلے جب میری شادی نہیں ہوئی تھی میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ اس پیپل کے نیچے کھیل رہی تھی کہ یک لخت میری سہیلی بے ہوش ہو گئی۔ اس طرح وہ سات دفعہ ہوش میں آئی اور سات دفعہ بے ہوش ہوئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے چیخ کر کہا ’’بھوت‘‘! اور وہ پھر بے ہوش ہو گئی۔

    اسے گھر پہنچایا گیا جہاں وہ سات دن کے بعد مر گئی اور وہاں، پرانی سرائے کے پاس جو کنواں ہے اس کے نزدیک مت پھٹکنا۔ اس میں ایک چڑیل رہتی ہے۔ وہ بچوں کا کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہے۔ اس چڑیل کی یہی خوراک ہے۔‘‘

    بڑے بھائی صاحب کا خیال ہے جو چیز بڑوں کے لیے بے ضرر ہے چھوٹوں کے لیے سخت مضر ہے۔ خود چوبیس گھنٹے پان کھاتے ہیں لیکن اگر کبھی مجھے پان کھاتا دیکھ لیں فوراً ناک بھویں چڑھائیں گے۔ پان نہیں کھانا چاہیے۔ بہت گندی عادت ہے۔ سنیما دیکھنے کے بہت شوقین ہیں لیکن اگر میں اصرار کروں تو کہیں گے، چھوٹوں کو فلمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ اخلاق پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

    بڑی بہن کو گانے بجانے کا شوق ہے۔ ان کی فرمائشیں اس قسم کی ہوتی ہیں ’’ہارمونیم پھر خراب ہو گیا ہے اسے ٹھیک کرا لاؤ۔ ستار کے دو تار ٹوٹ گئے ہیں اسے میوزیکل ہاؤس لے جاؤ۔ طبلہ بڑی خوف ناک آوازیں نکالنے لگا ہے اسے فلاں دکان پر چھوڑ آؤ۔‘‘

    لے دے کر سارے گھر میں ایک غم گسار ہے اور وہ ہے میرا کتّا ’’موتی۔‘‘

    بڑا شریف جانور ہے۔ وہ نہ تو بھوتوں اور چڑیلوں کے قصّے سنا کر مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتا، نہ مجھے نالائق کہہ کر میری حوصلہ شکنی کرتا ہے اور نہ اسے جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق ہے اور نہ ستار بجانے کا۔

    بس ذرا موج میں آئے تو تھوڑا سا بھونک لیتا ہے۔ جب اپنے بزرگوں سے تنگ آ جاتا ہوں تو اسے لے کر جنگل میں نکل جاتا ہوں۔

    کاش! میرے بزرگ سمجھ سکتے کہ میں بھی انسان ہوں۔ یا کاش، وہ اتنی جلدی نہ بھول جاتے کہ وہ کبھی میری طرح ایک چھوٹا سا لڑکا ہوا کرتے تھے۔

    کنہیا لال کپور کے مضمون "مجھے میرے بزرگوں سے بچاؤ” سے انتخاب

  • رائے جانکی پرشاد: ہندو مسلم تہذیب کا نمائندہ، اردو کا دیوانہ

    رائے جانکی پرشاد: ہندو مسلم تہذیب کا نمائندہ، اردو کا دیوانہ

    متحدہ ہندوستان میں اور تقسیم کے بعد سرحدی پٹی کے دونوں اطراف شہروں میں بس جانے والے عالم و فاضل، نہایت قابل اور باصلاحیت لوگوں نے اپنے اپنے شعبوں میں‌ کام جاری رکھا اور بٹوارے سے قبل بلاتفریقِ رنگ و نسل اور مذہب علمی و ادبی میدان میں اپنے ہم عصروں کے کردار اور ان کے کارناموں کا کشادہ دلی سے اعتراف کیا۔

    حیدر آباد دکن میں جہاں علم و ادب کے میدان میں مسلمانوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں اور نسلِ نو کے لیے بیش قیمت سرمایہ چھوڑا ہے، وہیں کئی غیر مسلم شخصیات بھی تاریخِ ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ رشید الدین نے ایسی ہی چند نابغہ روزگار ہستیوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے ایک رائے جانکی پرشاد ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    اردو میں اعلٰی قابلیت کی وجہ وہ دارالترجمہ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ قیامِ جامعہ عثمانیہ کے بعد اردو کو علمی درجہ تک پہنچانے کے لیے دارالترجمہ قائم کیا گیا تھا جہاں اردو کے بلند قامت ادبا اور شعرا کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جن میں جوش ملیح آبادی، علامہ عبداللہ عمادی اور بابائے اردو جیسی عظیم المرتبت شخصیتیں شامل تھیں۔

    رائے جانکی پرشاد نے ایسی بلند قامت شخصیتوں کے ساتھ مل کر اس مقصد کو پورا کیا اور علمی اصطلاحات کی تدوین فرمائی۔

    رائے جانکی پرشاد ہندو مسلم تہذیب کی نمائندہ شخصیت تھے۔ ان کا لباس ٹوپی، شیروانی اور پاجامہ ہوا کرتا تھا۔ وہ وظیفہ حسنِ خدمت پر علیحدگی کے بعد مختلف سماجی اداروں سے وابستہ ہوئے اور ان کی راہ نمائی کی۔

    وہ بڑے صاحب الرائے شخصیت کے حامل تھے۔ حامد نواز جنگ نے جو لا ولد تھے انہی کے مشورے پر اپنے گراں قدر سرمائے سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جس سے فنی تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبا کو وظائف جاری کیے جاتے تھے۔ رائے جانکی پرشاد اس ٹرسٹ کے واحد غیر مسلم ٹرسٹی
    تھے۔

    نواب مہدی نواز جنگ جو اس وقت وزیر طبابت تھے، انہوں نے رائے جانکی پرشاد کے مشورے پر ہی کینسر اسپتال قائم کیا۔ اردو ہال کا قیام بھی موصوف کے گراں قدر مشوروں کا حاصل ہے۔

    ان ساری گوناگوں مصروفیات کے باوجود انہوں نے تصنیف و تالیف کا کام بھی جاری رکھا۔ ان کی تصانیف ’’عصر جدید‘‘ ’’ترجمہ کا فن‘‘ اور’’انگریزی اردو ڈکشنری‘‘ اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

  • "آپ کے اندر ایک خلا ہے!”

    "آپ کے اندر ایک خلا ہے!”

    آپ کا جسم ایک مجموعہ ہے۔ آپ کا کچھ حصہ آپ کی ماں کی طرف سے آیا ہے، کچھ حصہ باپ کی طرف سے اور باقی سب کچھ کھانے پینے سے۔ یہ آپ کا کُل جسم ہے۔

    تلاش کریں کہ دماغ میں تو کوئی ذات نہیں ہے؟ اگر آپ بہت گہرائی میں چلے جائیں تو دیکھیں گے کہ آپ کی پہچان ایک پیاز کی طرح ہے۔ آپ ایک چھلکا اتاریے تو دوسرا آجائے گا۔ دوسرا اتاریے، تیسرا آجائے گا۔ اور آخر کار کچھ بھی نہیں بچے گا۔

    تمام چھلکے اتار دیجیے، اندر سے کچھ بر آمد نہیں ہوگا۔ جسم اور دماغ پیاز کے مانند ہیں۔ آپ دونوں کو چھیلتے جائیے تو اندر سے کچھ نہیں نکلے گا۔ سوائے ایک مہیب اور لا محدود خلا کے۔ جس کو بدھا نے ”شنیہ“ یعنی صفر کہا ہے۔

    اس صفر کو، اس مہیب خلا کو فتح کرنا خوف کو جنم دیتا ہے۔ خوف اصل میں یہاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم استغراقی سے گریز کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں باتیں ضرورت کرتے ہیں، لیکن اس سمت میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے۔

    آپ کو پکا یقین ہے کہ وہاں ایک لا محدود خلیج ہے، مگر اس خوف سے چھٹکارا نہیں پاتے۔ آپ جو چاہیں کرلیں، خوف باقی رہے گا، جب تک آپ اس پر قابو نہیں پالیتے۔ بس ایک یہی طریقہ ہے۔

    اگر ایک بار آپ اپنے عدم کو فتح کرلیں۔ جب ایک بار آپ کو علم ہوجائے کہ آپ کے اندر ایک خلا ہے، ایک صفر ہے۔ تب آپ کو کوئی خوف نہیں رہے گا۔

    اس کے بعد خوف باقی نہیں رہ سکتا۔ کیوں کہ یہ صفر، یہ خلا تباہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ خلیج پاٹی نہیں جاسکتی۔ وہ جس کو موت آسکتی تھی اب باقی نہیں، اس کی حیثیت پیاز کے چھلکے جیسی تھی۔

    (گرو رجنیشں، ”مخزنِ راز“ سے انتخاب)

  • میں سمجھا یہ کوئی پہلوان ہیں…!

    میں سمجھا یہ کوئی پہلوان ہیں…!

    نصر ﷲ خاں کا حلقۂ احباب وسیع اور ان کے شناسا بہت تھے۔ پاک و ہند کے مختلف شہروں میں ان کے دوست احباب اور ملنے والے موجود تھے جن میں ادیب، شاعر، صحافی اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات شامل تھیں۔

    نصر اللہ خاں نے کئی معروف شخصیات کو بہت قریب سے دیکھا، جن کے خاکے 1948 میں شایع ہونے والی ان کی کتاب ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ میں شامل ہیں۔

    نصر ﷲ خاں ایک ادیب، صحافی اور کالم نویس کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، ان کے لکھے ہوئے خاکوں میں مولانا عبد السلام نیازی کی جھلک کچھ یوں ملتی ہے۔

    "مولانا عبدالسلام نیازی کو میں نے پہلی مرتبہ حکیم نصیر میاں کے دیوان خانے میں دیکھا تو سمجھا، یہ کوئی پہلوان ہیں۔ سَر گھٹا ہوا، چار ابرو کا صفایا، سَر پر چوٹی ہوتی اور دھوتی باندھے ہوتے تو متھرا کے چوبے معلوم ہوتے، شاہ نظام الدین حسن بریلویؒ کے مرید تھے۔”

    "جن لوگوں نے مولانا کا ناریل چٹختے دیکھا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مولانا کا جلال دیکھنے کا ہوتا تھا۔ اپنے حریفوں پر ایسا گرجتے برستے تھے کہ اللہ کی پناہ، گالیاں دینے پر آتے تو ان گالیوں میں بھی علمی و ادبی رنگ جھلکتا۔ وہ عالموں میں عالم تھے، رندوں میں رند، پابند شرع اور عابد شب زندہ دار تھے۔

    مولانا بڑے طباع اور حاضر جواب تھے۔ جملہ ایسا چست کرتے کہ سبحان اللہ!”

    (کتاب ”کیا قافلہ جاتا ہے“ سے ایک ورق)

  • روز ایک افسانہ…

    روز ایک افسانہ…

    کرشن چندر کا یہ قاعدہ تھا کہ جب بھی انھیں کہانی کے لیے کوئی پلاٹ سوجھتا، وہ فوراً اس کے بنیادی خیال کو قلم بند کر کے محفوظ کر لیتے تھے تاکہ وہ ان کے ذہن سے نہ اُتر جائے۔

    اس طرح انھیں پلاٹ سوجھتے رہتے اور وہ انھیں نوٹ کرتے رہتے۔ جس خیال کو وہ کہانی کی شکل میں ڈھال دیتے، اُسے اپنی اس فہرست میں قلم زد کر دیتے اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے باقاعدہ ایک رجسٹر بنا رکھا تھا۔

    محمد طفیل، جو مدیر ”نقوش“ لاہور تھے، انھو‌ں نے جب اُن کا یہ رجسٹر دیکھا تو ابھی ایک سو کے قریب کہانیوں کے بنیادی خیالات کو افسانوں کی شکل دینا باقی تھا۔ اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں اس قدر زرخیز ادیب شاید ہی کوئی دوسرا ہوا ہو۔ اس بارے میں محمد طفیل لکھتے ہیں:

    ”میں نے ان سے پوچھا: آپ روز ایک سے ایک موضوع کس طرح لکھ لیتے ہیں؟ ”میرے پاس رجسٹر ہے….رجسٹر۔ جب کوئی پلاٹ ذہن میں آتا ہے تو اُسے یہاں نقل کر لیتا ہوں۔“

    ذرا دیکھوں!۔۔۔ میں نے رجسٹر دیکھا۔ اس میں تین تین چار چار سطروں میں افسانوں کے بنیادی خیال لکھے ہوئے تھے۔

    کچھ یاداشتوں کے آگے اس قسم کے (x) نشان پڑے ہوئے تھے اور کچھ یاداشتوں پر کوئی نشان نہ تھا۔ میں نے پوچھا ”یہ نشانات کیسے ہیں؟“

    کہنے لگے: ”جن پر اس قسم کے (x) نشانات ہیں، وہ افسانے تو لکھے جا چکے ہیں۔ باقی لکھے جانے والے ہیں۔“

    میں نے اندازہ لگایا کہ اس طرح تو وہاں بھی ایک سو کے قریب لکھے جانے والے افسانوں کی یاداشتیں موجود تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روز ایک افسانہ لکھ لیتے تھے۔“

    (ادب اور ادیبوں کے تذکروں سے انتخاب)

  • عید کی جوتی…

    عید کی جوتی…

    جناب اکبر نے فرمایا تھا، ڈاسن نے جوتا بنایا، میں نے مضمون لکھا۔ میرا مضمون نہ چلا اور جوتا چل گیا۔

    اب کوئی ان سےعرض کرے، ولایتی جوتوں کے دام اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ان کے چلتے پاؤں بھی لنگڑے ہوئے جاتے ہیں۔ عید پر خلقت جوتے خریدنے جاتی تھی اور دو جوتیاں لاتی تھی، جوتا مذکر ہے اور جوتی مؤنث، لڑائی نے مرد ختم کر دیے، عورتوں کو بڑھا دیا تو مذکر جوتے کیوں نہ کم ہوتے۔ مونث جوتیوں کا ڈھیر تھا، مذکر جوتے ناپید تھے۔

    ہائے میری پیاری دلی کی پیاری پیاری نازک اندام وصلی کی جوتی چشمِ بدور، خدا نے اس کا نصیبہ جگایا۔ بارہ برس پیچھے دن پھرے۔ دلی والوں نے اٹھا کر سر پر رکھا۔ وصلی کی جوتی کی کیا بات ہے، درحقیقت جوتی ہے۔ کیسی بھولی بھالی۔ کیسی ہریالی متوالی۔ ولایتی بوٹ کی طرح خراٹ نہیں، یل تل نہیں۔ دیکھنے میں دیدار، پہننے میں سکھ دینے والی۔

    ولایتی جوتوں کے دام پوچھو گیارہ روپے سے بھی کچھ اوپر۔ اس جھجھماتی کی قیمت تین چار، حد سے حد پانچ چھے۔ دام کم، کام بڑھیا۔ پرانی ہو جائے تو آٹھ دس آنے کو آنکھ بند کر کے بک سکتی ہے، مگر یہ بوٹ بگڑے پیچھے کوڑی کام کا نہیں۔

    ذرا نام ہی خیال کرنا۔ ’وصلی۔‘ ہائے ’وصلی‘ میں وصال کا اشارہ ہے، یعنی وصلی کی جوتی پہنو تو دام کم خرچ ہوں گے اور دام کم خرچ ہوں گے تو دل مطمئن رہے گا۔ دل کا اطمینان وصالِ حقیقی ہے، ولایتی جوتا موسمی اور ’فصلی‘ جوتا ہے۔

    (خواجہ حسن نظامی کے مضمون "عید کی جوتی” سے انتخاب)

  • بابائے ظرافت کو خلد آشیاں ہوئے بیس برس بیت گئے

    بابائے ظرافت کو خلد آشیاں ہوئے بیس برس بیت گئے

    اردو زبان کے مزاح گو شعرا میں‌ سید ضمیر جعفری اپنے تخلیقی جوہر کے ساتھ ساتھ بامقصد شاعری کے قائل ہونے کی وجہ سے ممتاز اور قابلِ ذکر ہیں۔ 1999 میں آج ہی کے دن فرشتہ اجل نے انھیں ابدی نیند کا پیام دیا تھا۔ آج ہم نام ور شاعر، ادیب اور مترجم سید ضمیر جعفری کی برسی منا رہے ہیں۔

    یکم جنوری 1914 کو ضلع جہلم میں پیدا ہونے والے سید ضمیر نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد صحافت کے شعبے میں قدم رکھا۔ بعد میں فوج میں شمولیت اختیار کرلی اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔

    ان کے شعری مجموعوں میں کار زار، لہو ترنگ، مافی الضمیر، مسدس بے حالی، کھلیان، ضمیریات، قریۂ جان، ضمیرِ ظرافت شامل ہیں۔ انھوں نے مختلف مضامین تحریر کرنے کے ساتھ کالم نویسی بھی کی جن میں ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ سماجی مسائل اور تلخ حقیقتوں کو اجاگر کیا جاتا تھا۔

    سید ضمیر جعفری کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، تمغہ قائد اعظم سے نوازا گیا۔ وہ راولپنڈی میں سید محمد شاہ بخاری کے پہلو میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • مجید امجد کی نظم منٹو اور سعادت حسن منٹو!

    مجید امجد کی نظم منٹو اور سعادت حسن منٹو!

    مجید امجد کا شمار اردو کے اہم نظم گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی نظمیں اپنے موضوعات ہی کی وجہ سے منفرد نہیں بلکہ ان کا تخیل اور تخلیقی جوہر ان کی شاعری کا حسن ہیں اور انھیں‌ اپنے عہد کے دیگر شعرا میں نمایاں کرتے ہیں۔

    متنوع موضوعات اور لب و لہجے کی انفرادیت کے ساتھ مجید امجد کی بعض نظمیں آج بھی ہمیں‌ اپنی گرفت میں‌ لے لیتی ہیں۔ ان کی شاعری کے متعدد مجموعے شایع ہوئے جن میں شب رفتہ، شب رفتہ کے بعد، چراغ طاق جہاں وغیرہ شامل ہیں۔ 11 مئی کو مجید امجد کی برسی منائی جاتی ہے جب کہ مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا یومِ پیدائش بھی آج ہی ہے۔

    مجید امجد نے ایک نظم "منٹو”‌ کہی تھی جو اس دن کی مناسبت سے آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    "منٹو”
    میں نے اس کو دیکھا ہے
    اجلی اجلی سڑکوں پر، اک گرد بھری حیرانی میں
    پھیلتی بھیڑ کے اوندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں
    جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے
    ”دنیا! تیرا حسن، یہی بد صورتی ہے”
    دنیا اس کو گھورتی ہے
    شور سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے
    انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال
    کون ہے یہ جس نے اپنی بہکی بہکی سانسوں کا جال
    بام زماں پر پھینکا ہے
    کون ہے جو بل کھاتے ضمیروں کے پر پیچ دھندلکوں میں
    روحوں کے عفریت کدوں کے زہر اندوز محلکوں میں
    لے آیا ہے یوں بن پوچھے اپنے آپ
    عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں کی چاپ
    کون ہے یہ گستاخ
    تاخ تڑاخ!