Tag: مشہور ادیب

  • وبا کے دنوں میں مردم شماری اور مردم شناسی!

    وبا کے دنوں میں مردم شماری اور مردم شناسی!

    قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔ مرگِ انبوہ کا جشن ہو تو قحط، حیاتِ بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔

    ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا۔ ایک سماں حشر کا دوسرا محض حشراتُ الارض کا۔

    زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں۔

    بستی، گھر اور زبان خاموش۔ درخت، جھاڑ اور چہرے مرجھائے۔ مٹی، موسم اور لب خشک۔ ندی، نہر اور حلق سوکھے۔ جہاں پانی موجیں مارتا تھا وہاں خاک اڑنے لگی، جہاں سے مینہ برستا تھا وہاں سے آگ برسنے لگی۔ لوگ پہلے نڈھال ہوئے پھر بےحال۔ آبادیاں اجڑ گئیں اور ویرانے بس گئے۔

    زندگی نے یہ منظر دیکھا تو کہیں دور نکل گئی، نہ کسی کو اس کا یارا تھا نہ کسی کو اس کا سراغ۔ یہ قحط میں زمین کا حال تھا۔

    ابر دل کھول کر برسا، چھوٹے چھوٹے دریاؤں میں بھی پانی چڑھ آیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا جل تھل ہوا کہ سبھی تر دامن ہو گئے۔ دولت کا سیلاب آیا اور قناعت کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔ علم و دانش دریا بُرد ہوئے اور ہوش و خرد مئے ناب میں غرق۔ دن ہوا و ہوس میں کٹنے لگا اور رات ناؤ نوش میں۔ دن کی روشنی اتنی تھی کہ آنکھیں خیرہ ہو گئیں، رات کا شور اتنا بلند تھا کہ ہر آواز اس میں ڈوب گئی۔

    کارواں نے راہ میں ہی رختِ سفر کھول دیا۔ لوگ شاد باد کے ترانے گانے لگے، گرچہ منزلِ مراد ابھی بہت دور تھی۔ زندگی نے یہ منظر دیکھا تو کہیں دور نکل گئی، نہ کسی کو اس کا یارا تھا نہ کسی کو اس کا سراغ۔ یہ قحط الرجال میں اہلِ زمین کا حال تھا۔ شاعر نے جو یہ حال دیکھا تو نوحہ لکھا:

    بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
    بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں!

    دل گرفتگی نے کہا، ایسی شادابی اس ویرانی پر قربان جہاں مادرِ ایام کی ساری دخترانِ آلام موجود ہوں، مگر وبائے قحط الرجال نہ ہو۔ اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار، مردم شناسی ہو تو نایاب۔

    (اس نقشِ دل پزیر کے خالق مختار مسعود ہیں)

  • پیاس، پیالہ اور پیرِ مغاں

    پیاس، پیالہ اور پیرِ مغاں

    ہندوستان میں آزادی کی تحریک، مسلمانوں کی فکری راہ نمائی اور تربیت کے ساتھ اردو زبان و ادب کے لیے خدمات کے حوالے سے جن شخصیات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ان میں سے ایک مولانا ظفرعلی خان بھی ہیں۔

    صحافت کی دنیا میں ان کی خدمات اور ادبی کارناموں کی فہرست طویل ہے۔ وہ ایک ادیب، شاعر اور جید صحافی کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ مولانا کی علمی و صحافتی خدمات اور کارناموں سے متعلق تذکروں میں ان کی زندگی اور معمولات سے متعلق یادیں بھی محفوظ ہیں۔ وہ برجستہ گو اور نکتہ آفریں ہی نہیں بذلہ سنج اور طباع بھی تھے۔ ان سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔

    ایک محفل میں مولانا آزاد اور مولانا ظفر علی خان اکٹھے تھے۔ مولانا آزاد کو پیاس محسوس ہوئی، انھوں نے اس کا اظہار کیا تو ایک بزرگ جلدی سے پانی کا پیالہ لے آئے۔ مولانا آزاد نے مسکرا کر کہا:

    لے کے اک پیرِ مُغاں ہاتھ میں مینا، آیا

    مولانا ظفر علی خان جو ان کے ساتھ ہی موجود تھے، یہ سنا تو برجستہ دوسرا مصرع کہا اور شعر مکمل کر دیا:

    مے کشو! شرم، کہ اس پر بھی نہ پینا آیا

  • ممتاز ادیب، محقق اور ماہرِ تعلیم پری شان خٹک کا تذکرہ

    ممتاز ادیب، محقق اور ماہرِ تعلیم پری شان خٹک کا تذکرہ

    تعلیم و تدریس کے شعبے میں خدمات، علمی و تحقیق کاموں اور ادب کے حوالے سے پری شان خٹک کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    معروف ماہرِ تعلیم اور ادیب پروفیسر پری شان خٹک علمی و تحقیقی سرگرمیوں‌ سے متعلق مختلف اداروں کے منتظم بھی رہے ہیں۔ آج 16 اپریل کو پروفیسر پری شان خٹک کی برسی منائی جاتی ہے۔ ان کا انتقال 2009 میں ہوا تھا۔

    پروفیسر پری شان خٹک کا اصل نام محمد غمی جان تھا۔ انھوں نے 10 دسمبر 1932 کو صوبہ سرحد (کے پی کے) کے ایک گائوں غنڈی میر خان خیل میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد پشاور یونیورسٹی سے تاریخ اور پشتو ادب میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔

    پری شان خٹک نے پشاور یونیورسٹی ہی سے بہ طور لیکچرار عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بعدازاں پشتو اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جہاں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں سے خود کو منوایا اور یہی وجہ تھی کہ بعد میں انھیں متعدد علمی و تعلیمی اداروں میں منتظم مقرر کیا گیا۔

    پروفیسر پری شان خٹک اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ انھوں نے کئی کتابوں کی تدوین اور تالیف کا کام بخوبی انجام دیا اور علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور تمغہ امتیاز سے نوازا۔

  • "بھینس بہت مشہور جانور ہے!”

    "بھینس بہت مشہور جانور ہے!”

    یہ بہت مشہور جانور ہے۔ قد میں عقل سے تھوڑا بڑا ہوتا ہے۔

    چوپایوں میں یہ واحد جانور ہے کہ موسیقی سے ذوق رکھتا ہے، اسی لیے لوگ اس کے آگے بین بجاتے ہیں۔ کسی اور جانور کے آگے نہیں بجاتے۔

    بھینس دودھ دیتی ہے، لیکن وہ کافی نہیں ہوتا۔ باقی دودھ گوالا یعنی دودھ والا دیتا ہے اور دونوں کے باہمی تعاون سے ہم شہریوں کا کام چلتا ہے۔

    تعاون اچھی چیز ہے، لیکن دودھ کو چھان لینا چاہیے تاکہ مینڈک نکل جائیں۔

    بھینس کا گھی بھی ہوتا ہے۔ بازار میں ہر جگہ ملتا ہے۔ آلوؤں، چربی اور وٹامن سے بھرپور۔ نشانی اس کی یہ ہے کہ پیپے پر بھینس کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ تفصیل میں نہ جانا چاہیے۔

  • مرزا غالب اور دل آزاری

    مرزا غالب اور دل آزاری

    غالب کا عام طریقہ یہ تھا کہ جب تک واقعی اچھا شعر نہ ہوتا، تعریف نہ کرتے اور خاموش بیٹھے رہتے۔

    خواجہ حالی فرماتے ہیں کہ اس بنا پر بعض معاصرین ان سے آزردہ رہتے تھے اور ضد میں آکر ان کی شاعری پر طرح طرح کی نکتہ چینیاں کرتے تھے۔ ویسے غالب طبعاً صلح جو تھے اور ہر شخص کی دلداری کا انتہائی خیال رکھتے تھے۔

    "تذکرہ غوثیہ” میں ایک واقعہ حضرت غوث علی شاہ پانی پتی کی زبانی مرقوم ہے کہ ایک روز مرزا، رجب علی بیگ سرور، مصنف فسانہ عجائب سے ملے۔ اثنائے گفتگو پوچھا کہ اُردو زبان کس کتاب کی عمدہ ہے۔ جواب ملا کہ "چہار درویش” کی۔

    سرور نے "فسانہ عجائب” کا نام لیا۔ غالب کو معلوم نہ تھا کہ خود مصنفِ "فسانہ عجائب” استفسار کررہا ہے۔ بے تکلف جواب دیا۔ "اجی لاحول ولا قوۃ” اس میں لطفِ زبان کہاں۔ ایک تک بندی اور بھٹیار خانہ جمع ہے۔

    جب سرور چلے گئے اور غالب کو معلوم ہوا کہ یہ "فسانہ عجائب” کے مصنف تھے تو بہت افسوس کیا اور کہا، "ظالمو پہلے سے کیوں نہ کہا۔”

    دوسرے دن غوث علی شاہ صاحب ملے، انھیں سارا قصہ سنایا اور کہا کہ حضرت! یہ امر مجھ سے بے خبری میں سرزد ہوگیا۔ آئیے آج سرور کے مکان پر چلیں اور کل کی مکافات کر آئیں۔

    چناں چہ وہاں گئے۔ مزاج پرسی کے بعد غالب نے عبارت آرائی کا ذکر چھیڑا اور بولے، جناب مولوی صاحب رات میں نے "فسانہ عجائب” کو بہ غور دیکھا تو اس کی خوبی عبارت اور رنگینی کا کیا بیان کروں، نہایت ہی فصیح و بلیغ ہے۔ غرض اس قسم کی باتوں سے سرور کو مسرور کیا۔

    دوسرے دن ان کی دعوت کی اور غوث علی شاہ صاحب کو بھی بلایا۔

    شاہ صاحب یہ واقعہ بیان فرمانے کے بعد کہتے ہیں:

    "مرزا صاحب کا مذہب یہ تھا کہ دل آزاری بڑا گناہ ہے۔” لیکن اشعار کی داد میں راہِ حق سے بال برابر بھی انحراف گوارا نہ تھا۔

    (مولانا غلام رسول مہر کی کتاب سے انتخاب)

  • "پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”

    "پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”

    آئیے، ایک اور مہربان سے آپ کو ملواؤں۔ ان کی تکنیک قدرے مختلف ہے۔

    میری صورت دیکھتے ہی ایسے ہراساں ہوتے ہیں کہ کلیجہ مُنہ کو آتا ہے۔ ان کا معمول ہے کہ کمرے میں بغیر کھٹکھٹائے داخل ہوتے ہیں اور میرے سلام کا جواب دیے بغیر تیمار داروں کے پاس پنجوں کے بل جاتے ہیں۔

    پھر کُھسر پُھسر ہوتی ہے۔ البتہ کبھی کبھی کوئی اچٹتا ہوا فقرہ مجھے بھی سنائی دے جاتا ہے۔ مثلاً:

    "صدقہ دیجیے۔ جمعرات کی رات بھاری ہوتی ہے”
    "پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”
    ” آدمی پہچان لیتے ہیں؟”

    یقین جانیے یہ سُن کر پانی سَر سے گزر جاتا ہے اور میں تو رہا ایک طرف، خود تیمار دار میری صورت نہیں پہچان سکتے۔

    سرگوشیوں کے دوران ایک دو دفعہ میں نے خود دخل دے کر بقائمیِ ہوش و حواس عرض کرنا چاہا کہ میں بفضلِ تعالٰی چاق و چوبند ہوں۔ صرف پیچیدہ دواؤں میں مبتلا ہوں، مگر وہ اس مسئلہ کو قابلِ دست اندازیِ مریض نہیں سمجھتے اور اپنی شہادت کی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہیں۔

    میرے اعلانِ صحت اور ان کی پُر زور تردید سے تیمار داروں کو میری دماغی صحت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ یوں بھی اگر بخار سو ڈگری سے اوپر ہو جائے تو میں ہذیان بکنے لگتا ہوں جسے بیگم، اقبالِ گناہ اور رشتے دار وصیّت سمجھ کر ڈانٹتے ہیں اور بچّے ڈانٹ سمجھ کر سہم جاتے ہیں۔

    میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہ حضرت مزاج پُرسی کرنے آتے ہیں یا پُرسا دینے۔ ان کے جانے کے بعد میں واقعی محسوس کرتا ہوں کہ بس اب چل چلاؤ ہے۔ سانس لیتے ہوئے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ روایتی ہچکی نہ آ جائے۔ ذرا گرمی لگتی ہے تو خیال ہوتا ہے کہ شاید آخری پسینا ہے اور طبعیت تھوڑی بحال ہوتی ہے تو ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھتا ہوں کہ کہیں سنبھالا نہ ہو۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر سے ایک پارہ)

  • میٹھی اور سریلی ہنسی کے ساتھ ایک انکشاف!

    میٹھی اور سریلی ہنسی کے ساتھ ایک انکشاف!

    1957 میں مشہور امریکی ادارے پی، ای، این نے مخصوص رقم ایشیائی ممالک کی ہر زبان کے لیے، پانچ سال کے بہترین مطبوعہ افسانے پر انعام کے لیے مختص کی اور دو ہزار روپے پاکستان اور ہزار اُردو کے حصے میں پڑے۔

    مقابلے کا اعلان ہوا۔ ججوں کے نام سنے تو بڑے ہی ثقہ تھے۔ مولوی عبدالحق، پروفیسر مرزا محمد عسکری اور مولانا صلاح الدین احمد۔ چنانچہ میں نے بھی اللہ کا نام لے کر اکھاڑے میں اپنا مطبوعہ ناولٹ ”چڑھتا سورج“ اتار دیا۔

    کچھ عرصے بعد اخبارات کے ذریعے پتا چلا کہ بالاتفاق رائے انعام کا حق دار میرا ناولٹ قرار پایا۔ دل میں سوچا کہ مولانا صلاح الدین احمد میرے قدیمی مداحوں اور قدر دانوں میں تھے ہی، یقیناً انھوں نے اپنی رائے تو میرے حق میں دی ہی ہوگی بلکہ ان دونوں بزرگوں کو بھی میرے ناولٹ کے محاسن کی نشان دہی کی ہوگی۔

    تقریباً سال بھر بعد میں لاہور گیا، اور حسبِ معمول مولانا سے ملنے پہنچا، پہلے تو منتظر رہا کہ خود ہی کچھ ذکر چھیڑیں، جب ادھر ادھر کی خاصی باتیں ہوئیں تو پھر میں نے ہی لجائے لجائے انداز اور دبے دبے لہجے میں اس بندہ نوازی کو یاد دلاتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔

    مگر وہ مخصوص میٹھی میٹھی، سریلی سریلی ہنسی ہنستے ہوئے بولے۔

    ”میاں میرا شکریہ مفت میں ادا کررہے ہو، تراشوں کا وہ بنڈل میرے پاس آیا ضرور تھا اور پھر پیہم تقاضے بھی آتے رہے، مگر میں بہت عدیم الفرصت تھا، کھولنے کی بھی نوبت نہ آئی۔

    آخر تابکے، ایک مراسلے کے ذریعے اطلاع ملی کہ مولوی عبدالحق اور پروفیسر مرزا محمد عسکری نے بالاتفاق رائے فیصلہ آپ کے حق میں دے دیا تو پھر جب کثرتِ رائے کا اظہار ہوگیا تو میری رائے اگر ان سے متفق ہوتی تو بھی کارِ فضول تھی اور مخالف ہوتی تو بھی تحصیل لاحاصل۔

    ہاں البتہ آپ کے اس مفت کے شکریے کا شکریہ۔

    (ممتاز ادیب، مترجم اور محقق ابوالفضل صدیقی کی کتاب ”عہد ساز لوگ“ سے ایک ورق)

  • طبیب کا نسخہ اور علامہ اقبال کا بھولپن

    طبیب کا نسخہ اور علامہ اقبال کا بھولپن

    میاں مصطفیٰ باقر کے مرنے کے بعد ان کے اسکول کا رزلٹ آیا۔

    آٹھویں کلاس میں فرسٹ پاس ہوئے تھے۔ ہیضے کی وبا میں ابھی کمی نہیں آئی تھی۔

    بھتیجے ممتاز حیدر تو اللہ کے فضل سے اچھے ہوگئے، لیکن اب بھانجے عثمان حیدر کو کالرا ہوگیا۔ ماموں ممانی نے متوحش ہوکر بار بار اُن کے ناخن دیکھنا شروع کیے۔ فوراً گاڑی بھیج کر جھوائی ٹولے کے نامی طبیب حکیم عبدالوالی کو بلوایا۔

    حکیم صاحب نے کہا حالت تشویش ناک نہیں۔ ان کا نسخہ بندھوایا گیا۔ دوا ماموں ممانی وقت پر خود کھلاتے رہے۔

    اسی ہفتے علامہ اقبال مصطفیٰ باقر کی تعزیت کے لیے لاہور سے تشریف لائے۔ رات کو اس ہوا دار برآمدے میں ان کا پلنگ بچھتا جہاں عثمان حیدر سوتے تھے۔ دن میں دو چار بار عثمان حیدر کے کمرے میں جاکر علامہ ان کی مزاج پرسی کرتے۔

    ڈاکٹر اقبال کو لکھنؤ آئے دو تین روز ہوئے تھے کہ علی محمد خاں راجا محمود آباد نے اُن کی زبردست دعوت کی۔

    وہاں خوب ڈٹ کر شاعرِ مشرق نے لکھنؤ کا مرغّن نوابی ماحضر تناول فرمایا۔ رات کے گیارہ بجے ہلٹن لین واپس آئے۔ کپڑے تبدیل کیے۔ برآمدے میں جاکر اپنے پلنگ پر سو رہے۔

    رات کے ڈھائی بجے جو اُن کے نالہ ہائے نیم شبی کا وقت تھا، افلاک سے جواب آنے کے بجائے پیٹ میں اٹھا زور کا درد۔ شدت کی مروڑ۔ سوئیٹ نے گھبرا کر رونا شروع کردیا۔

    سارا گھر سورہا تھا۔ میزبانوں کو زحمت نہ دینے کے خیال سے چپکے لیٹے رہے۔ نزدیک پلنگ پر نو عمر عثمان حیدر بے خبر سورہے تھے۔ اقبال نے آہستہ سے اٹھ کر غسل خانے کا رخ کیا، وہاں سے تیسری بار لوٹ کر آئے۔

    برآمدے کی لائٹ جلائی۔ عثمان حیدر کے سرہانے میز پر حکیم عبدالوالی کی دوا کا قدّح رکھا تھا۔ آپ اس کی چوگنی خوراک پی گئے۔ پھر لیٹ رہے۔ پھر غسل خانے گئے۔ واپس آکر مزید دو خوراکیں نوشِ جان کیں۔

    کھٹر پٹر سے عثمان حیدر کی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے بستر کے کنارے بیٹھے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو جاری اور اپنے ناخنوں کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔

    مصطفیٰ باقر مرحوم کے ناخن نیلے پڑنے کا قصہ انھیں بتایا جا چکا تھا۔

    عثمان حیدر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ ادب سے دریافت کیا۔ ”ڈاکٹر صاحب خیریت؟“
    بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

    ”مجھے بھی کالرا ہوگیا۔ جاکر سجّاد کو جگا دو۔“

    اس وقت پو پھٹ رہی تھی۔ باغ میں چڑیوں نے گنجارنا شروع کردیا تھا۔ بڑی خوش گوار ہوا چل رہی تھی اور بارش کی آمد آمد تھی۔ عثمان حیدر نے تیر کی طرح جاکر دوسرے برآمدے میں ماموں جان کو جگایا۔ اس وقت ڈاکٹر اقبال نیم جاں سے اپنے پلنگ پر لیٹ چکے تھے۔

    ماموں نے فوراً آکر منفردِ روزگار مہمان کی یہ حالت دیکھی۔ حواس باختہ سرپٹ پھاٹک کی طرف بھاگے۔

    لکھنؤ کا انگریز کرنل سول سرجن نزدیک ہی ایبٹ روڈ پر رہتا تھا۔ اس کو جاکر جگایا۔ کرنل بھاگم بھاگ ہلٹن لین پہنچا۔ انجکشن لگایا۔ مریض کی تسلی تشفی کی۔

    آدھ گھنٹے بعد علاّمہ پر غنودگی طاری ہوئی۔ کرنل نے نسخہ لکھا۔ مشتاق بیرہ حضرت گنج سے دوا بنوا کر لایا۔ دو گھنٹے بعد علامہ کو پھر اسہال شروع ہوگیا۔ اس وقت تک ڈرائیور آچکا تھا۔ وہ حکیم عبدالوالی کو لینے جھوائی ٹولہ گیا۔

    حکیم صاحب بوکھلائے ہوئے ہلٹن لین پہنچے۔ کرنل کی شیشی دیکھی۔ پھر نسخہ لکھنے بیٹھے۔

    علامہ نے تکیہ سے سَر اٹھا کر نسخہ ملاحظہ فرمایا۔ بولے، ”حکیم صاحب یہ دوائی تو میں پہلے ہی آدھی بوتل پی چکا ہوں۔“

    حکیم صاحب ہکّا بکّا اقبال کو دیکھنے لگے۔ عثمان حیدر والی بوتل اٹھائی۔ اس میں پوری چھے خوراکیں کم تھیں۔

    شاعر مشرق نے بھولپن سے فرمایا، ”حکیم صاحب بات یہ ہوئی کہ میں نے سوچا یہ لڑکا کم عمر ہے۔ اس کی خوراک سے چار گنا زیادہ مجھے کھانی چاہیے، جبھی فائدہ ہوگا۔“

    حکیم عبدالوالی نے زور دار قہقہہ لگایا۔ ”ڈاکٹر صاحب آپ واقعی فلسفی ہیں۔ خدا نے بڑی خیریت کی۔ اگر دو ایک خوراکیں اور پی ہوتیں، لینے کے دینے پڑجاتے۔“

    شام تک علّامہ کی حالت سنبھل گئی، لیکن ان کی علالت کی خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ ہلٹن لین میں لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ راجہ صاحب محمود آباد، مشیر حسین قدوائی، جسٹس سمیع اللہ بیگ، سید وزیر حسن صبح شام آکر مزاج پرسی کرتے۔ حکیم عبدالوالی اور کرنل روزانہ آیا کرتے۔

    پانچویں دن راجہ محمود آباد نے فرسٹ کلاس کا درجہ ریزور کروا کے دو ملازموں کے ساتھ علامہ اقبال کو لاہور روانہ کیا۔

    (قرۃ العین حیدر کی کتاب ”کارِ جہاں دراز ہے“ سے انتخاب)

  • گدھوں کی خوبیاں

    گدھوں کی خوبیاں

    میں گدھوں کی خوبیاں نہیں گنواؤں گا، اگر آپ خود بال بچوں والے ہیں تو آپ کو یقینا یاد ہو گا کہ آپ اپنے بیٹے سے لاڈ کرتے ہوئے، اسے مخاطب کرتے ہوئے ہمیشہ کہا کرتے تھے:

    ”اوئے گدھے“ بلکہ جب بہت ہی پیار آتا تھا تو اسے گدھے کا بچہ بھی کہہ دیتے تھے۔

    یہ سوچنے کی بات ہے کہ آپ اپنے چھوٹے بچوں کو لاڈ پیار سے یہ کبھی نہیں کہتے کہ اوئے مگرمچھ یا اوئے گھوڑے کے بچے۔ صرف گدھے کے بچے کہتے ہیں تو اس سے گدھے کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

    ایک بار لاہور کے ڈیفنس میں مَیں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک گدھا گاڑی والا سنگِ مَرمَر کی ٹائلیں گاڑی پر لاد رہا ہے اور ان کا وزن اتنا ہے کہ پورے کا پورا گدھا ہوا میں معلق ہو چکا ہے اور بے بسی سے ٹانگیں چلا رہا ہے۔

    باقاعدہ گدھا بھی نہیں تھا، گدھے کا بچہ تھا۔ تو مجھے بہت ترس آیا اور میں نے اس کے مالک سے کہا کہ بھائی یہ بے زبان جانور ہے۔ ریڑھی پر اتنا وزن تو نہ لوڈ کرو کہ یہ بے چارہ ہوا میں معلق ہو کر ٹانگیں چلانے لگے تو وہ ہنس کر بولا۔

    ”صاحب آپ نہیں جانتے کہ یہ اس لمحے زندگی سے بہت لطف اندوز ہو رہا ہے بلکہ ہوا میں ریلیکس کر رہا ہے اور یوں ٹانگیں چلانے سے اس کی تھکن دور ہو رہی ہے۔“

    ٹائلیں لوڈ کرنے کے بعد گاڑی والے نے ہوا میں معلق گدھے کو کان سے پکڑ کر نیچے کیا، اس کے پاؤں زمین تک نہیں لایا اور اس سے پیشتر کہ وہ گاڑی کے بوجھ سے پھر بلند ہو جاتا، اُچک کر گاڑی کے اگلے حصے پر بیٹھ گیا اور یوں اس کے وزن سے گاڑی بیلنس میں آ گئی اور گدھا نہایت مزے سے کان ہلاتا سڑک پر رواں ہو گیا۔

    (طنز و مزاح، مستنصر حسین تارڑ کے قلم سے)

  • فرد اور معاشرے کا تصادم

    فرد اور معاشرے کا تصادم

    فرد اور معاشرے کا تصادم، درخت کی نئی اور پرانی چھال کا تصادم ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تصادم کوئی نہیں ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ زندگی مائل بہ ارتقا ہے۔

    وہ ہر سال اپنی پرانی کینچلی اتار کر ایک نئی کینچلی پہن لیتی ہے۔ ہمارا واہمہ ہے کہ ہمیں پرانی اور نئی کینچلی کے رشتے میں فرد اور معاشرے کا تصادم نظر آتا ہے۔

    زندگی کا اصل مقصد، تسلسل ہے اور یہ تسلسل زیر و بم کے اس انداز کے تابع ہے، جو ساری کائنات میں جاری و ساری ہے، یعنی آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کا عمل، جس کے تسلسل اور تواتر میں کبھی کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔

    جب زندگی آگے بڑھتی ہے تو اس کام کے لیے فرد کو بروئے کار لاتی ہے۔ جب وہ پیچھے ہٹتی ہے، تاکہ نئی فتح یا نئے قدم کے آثار بہرہ اندوز ہوسکیں تو سوسائٹی کی قدروں سے کام لیتی ہے۔

    مطلب یہ ہے کہ پچھلے برس کی چھال ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس کا ایک حصہ، روایت کی صورت میں زندگی کے تنے سے چپک جاتا ہے اور اس کی جسامت میں اضافہ کردیتا ہے، جیسے درخت کی نئی اور پرانی چھال میں لپکنے اور سمٹنے کا عمل جاری رہتا ہے، لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ درخت کے اندر سے ایک تخلیقی جہت وجود میں آتی ہے، جو درخت کی نسل ہی کو بدل دیتی ہے۔

    فرد اور سوسائٹی کے رشتے میں بھی یہ بات عام ہے۔ کبھی کبھی کوئی ایسا فرد پیدا ہوجاتا ہے، جو سوسائٹی کو اٹھا کر ایک نئی سطح اور ایک نئے مدار میں لے آتا ہے اور یہ بات ایک تخلیقی جست کے تابع ہے۔

    (ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ”فرد، معاشرے اور تخلیقی جست“ سے محسن علی کا انتخاب)