Tag: مشہور ادیب

  • کیا آپ پنڈت برج موہن دتاتریہ کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ پنڈت برج موہن دتاتریہ کو جانتے ہیں؟

    پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی اردو کے عاشقوں میں سے تھے۔

    انجمن ترقی اردو (ہند) کا مرکزی دفتر حیدر آباد دکن سے دہلی منتقل ہوا تو وہ انجمن کے ہمہ وقتی رکن بن گئے اور اردو کی ترقی اور فروغ کی کوششوں میں بابائے اردو کا ہاتھ بٹانے لگے۔

    بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر تو عبور رکھتے ہی تھے، سنسکرت اور ہندی میں بھی خاصی استعداد تھی۔ اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔

    ابتدا میں اپنے کلام پر انھوں نے مولانا حالی سے اصلاح لی تھی۔ تنقید میں بھی حالی کی پیروی کرتے تھے۔ معاش کے لیے پنڈت کیفی نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ عرصہ دراز تک کشمیر میں قیام پذیر رہے۔ کچھ عرصہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں بھی گزارا۔ ان کی شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ جہاں بھی رہے وہاں کے شاعر اور ادیب ان کے پاس آئے اور ان کی صحبت سے فیض اٹھایا۔

    پنڈت کیفی ان بوڑھوں میں سے تھے جن کی صحبت میں بوڑھوں، جوانوں، بچوں سبھی کا دل لگتا۔ میری ان سے خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ دلی تو ان کا گھر ہی تھا۔ اس کے چپے چپے کی تاریخ سے وہ واقف تھے۔ اپنے بچپن اور جوانی کی دلی کے قصے مزے لے لے کے سنایا کرتے تھے۔ کشمیر اور لائل پور کے بھی قصے سناتے اور لائل پور کے اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے۔

    کیفی دہلوی نے ادب و شعر کی مختلف اضاف میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے بعض نصاب میں بھی شامل رہیں۔ وہ 13 دسمبر 1866 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 1955 کو نواسی سال کی عمر میں دہلی کی ایک نواحی بستی غازی آباد میں وفات پائی۔

    (معروف شاعر، افسانہ نگار اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کی یادداشتوں سے ایک ورق)

  • مولوی صاحب اور چمڑے کی جلد والی ایک کتاب

    مولوی صاحب اور چمڑے کی جلد والی ایک کتاب

    شمسُ العلما ڈپٹی مولوی نذیر احمد دہلوی کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہے۔ وہ یہ کہ اُن کے پاس عربی کی ایک نایاب کتاب تھی، جسے دیکھنے کے دلّی کے ایک مولوی صاحب بھی شائق تھے۔

    اُن سے ڈپٹی صاحب کے تعلقات کچھ اس قسم کے تھے کہ ڈپٹی صاحب نہ انکار کرتے تھے اور نہ دینا چاہتے تھے، لیکن ایک روز ڈپٹی صاحب کو یہ کتاب ان کو دیتے ہی بنی۔

    ڈپٹی صاحب کو اللہ نے حسِ مزاح سے پوری طرح نوازا تھا، کتاب مولوی صاحب کی جانب بڑھاتے ہوئے ڈپٹی صاحب نے فرمایا کہ کتاب تو بڑی اچھی ہے، لیکن اس کی جلد سُور کے چمڑے کی ہے۔

    مولوی صاحب نے جو یہ الفاظ سُنے تو لاحول پڑھتے ہوئے فوراً پیچھے ہٹ گئے اور کتاب لینے سے انکار کر دیا۔

    راوی: عبدالمجید قریشی

  • نورِ چشم (فرانسیسی ادب سے ایک کہانی کا انتخاب)

    نورِ چشم (فرانسیسی ادب سے ایک کہانی کا انتخاب)

    سفر کا سب سے دل چسپ پہلو مختلف لوگوں سے ملنا ہوتا ہے۔ یہ اتفاقی ملاقاتیں کبھی کبھی پورا سفر یادگار بنا دیتی ہیں۔

    ماضی کی یادیں ہماری عمر ایک بار پھر برسوں پیچھے دھکیل دیتی ہیں۔ نہ جانے کتنوں نے سفر کی راتیں، رَت جگوں میں بسر کی ہوں گی۔ کسی دور افتادہ گاﺅں میں جہاں ابھی اسٹیم انجن نہیں پہنچا ہے، تمام رات کوچ کا سفر اور کوچ کے سفر میں کسی خوب صورت خاتون کی ہم سفری۔

    کوچ کی مٹیالی روشنی میں اس کی نیند سے بوجھل آنکھیں۔ وہ حُسن جو تمام راستے صرف جھلک دکھاتا رہا ہے، وہ حُسن جو راستے میں کہیں سے دفعتا سوار ہو کے آپ کا ہم سفر بن جاتا ہے اور جب سحر نمودار ہونے لگتی ہے، کتنا اچھا لگتا ہے، اپنی ہم سفر کو نیند سے بیدار ہوتے دیکھنا پھر وہ اپنی نشست پر محتاط ہوکر بیٹھ جاتی ہے اور یہ باور کراتی ہے کہ اس کی توجہ آپ پر نہیں بلکہ راستے کے قدرتی مناظر پر ہے۔

    میری یادداشت میں سفر کے ایسے کئی لمحے محفوظ ہیں جو آج بھی مجھے ایک سرور انگیز بے چینی عطا کرتے ہیں۔

    ان دنوں میں فرانس کے ایک دور دراز پہاڑی سلسلے میں پیدل سفر کر رہا تھا۔ یہ سلسلہ نہ بہت اونچا تھا نہ ہی بنجر، میں نے ابھی ایک مختصر پہاڑی عبور کی تھی اور اب ایک چھوٹے سے ریستوران میں داخل ہو رہا تھا، میری نظر ایک ضعیف عورت پر پڑی۔ ایک اجنبی، کوئی قابلِ ذکر شخصیت بھی نہیں۔ وہ تنہا ایک میز پر بیٹھی لنچ کر رہی تھی۔

    کھانے کا آرڈر دے کے میں نے اسے ذرا غور سے دیکھا۔ اس کی عمر تقریباً ستّر سال ہوگی۔ نکلتا ہوا قد جوانی کی دل کشی کے آثار اب بھی اس کے چہرے پر نظر آرہے تھے، سفید بال سلیقے سے پرانے فیشن کے مطابق بنائے گئے تھے۔ اس کا لباس انگریز سیاح عورتوں جیسا تھا، یہ لباس اس کی شخصیت سے قدرے مختلف تھا جیسے اب لباس کی اس کی نظر میں زیادہ اہمیت نہ رہ گئی ہو۔

    اسے دیکھ کر ایک قدیم روایتی خاتون ذہن میں ابھرتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بے چینی تھی اور چہرے پر حوادثِ زمانہ کے زخم صاف نظر آتے تھے۔ میں نے اسے بہت غور سے دیکھا۔ یہ اکیلی ان تکلیف دہ پہاڑی سلسلوں میں کیوں گھوم رہی ہے؟ میں ابھی اس کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے کھانا ختم کیا اور بل ادا کرکے شال درست کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔

    باہر ایک گائیڈ اس کا منتظر تھا۔ میں ان دونوں کو دور تک وادی کی جانب جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ دو گھنٹے بعد میں ایک وسیع سبزہ زار میں ٹہل رہا تھا۔ سبزہ زار کے کنارے کنارے شفاف دریا بہہ رہا تھا۔ منظر اتنا خوش نما تھا کہ وہیں بیٹھ جانے کو دل چاہ رہا تھا، معاً میں نے اسی عورت کو دیکھا۔

    وہ دریا کے کنارے نظریں نیچی کیے ایک مجسمے کی طرح ساکت کھڑی تھی۔ وہ دریا کی طرف یوں دیکھ رہی تھی جیسے اس کی گہرائی میں کچھ تلاش کررہی ہو۔ میں اس کے قریب سے گزرا تو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی آنکھوں میں آنسو مچل رہے ہوں۔ مجھے دیکھ کر وہ تیزی سے درختوں کے قریب کھڑے ہوئے گائیڈ کی طرف چلی گئی۔

    دوسرے دن شام کے وقت میں سیورولز کے قلعے کی سیر کررہا تھا۔ یہ قدیم قلعہ وادی کے درمیان ایک اونچے ٹیلے پر ایک دیو ہیکل مینار کی طرح کھڑا تھا۔

    میں اکیلا کھنڈروں میں گھوم رہا تھا۔ اچانک ایک دیوار کے پیچھے مجھے کسی سائے کا گمان ہوا اور کسی ہیولے کی جھلک دکھائی دی جیسے اس ویران قلعے کے کسی مکین کی بے چین روح ہو۔ میں کچھ ڈرا، لیکن پھر ایک دَم میرا ڈر جاتا رہا۔ میں نے اسے پہچان لیا یہ وہی عورت تھی۔

    وہ رو رہی تھی، زار و قطار رو رہی تھی، اس کے ہاتھوں میں رومال تھا جس سے وہ بار بار آنسو پونچھتی۔ میں نے لوٹ جانا مناسب سمجھا، لیکن ابھی میں پلٹنے ہی والا تھا کہ اس نے مجھے مخاطب کیا۔

    ”ہاں موسیو! میں رو رہی ہوں، لیکن ہمیشہ نہیں روتی ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے۔“

    ”معاف کیجیے گا خاتون! میں آپ کی خلوت میں مخل ہوا۔“ میں شرمندگی سے ہکلانے لگا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہوں۔

    ”ہاں…. نہیں۔“ اس نے کہا۔

    وہ رومال آنکھوں پر رکھ کے ہچکیاں لینے لگی۔ میں گھبرا گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں صاف کیں، خود پر قابو پایا اور اپنی روداد سنانے لگی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ جلد از جلد اپنا غم کسی دوسرے کے ساتھ بانٹنا چاہتی ہے جیسے غم کا بوجھ تنہا سہارنا اب اس کے لیے مشکل ہو۔

    ”یادش بخیر، ایک زمانہ تھا کہ میں بہت خوش و خرم تھی، میرا اپنا ایک گھر تھا، میرے اپنے شہر میں، لیکن اب میں وہاں اپنے گھر جانا نہیں چاہتی، وہاں وقت گزارا اتنا کرب ناک ہے کہ اب میں ہمیشہ سفر میں رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔

    وہ آہستہ آہستہ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ میں خاموشی سے سن رہا تھا۔ ”میرا ایک بیٹا تھا، میرے اس حال زار کی وجہ وہی ہے، اسی کے باعث میں اس حالت کو پہنچی ہوں مگر آہ، بچے کچھ نہیں جانتے، کچھ نہیں جان سکتے، انسان کے پاس خوشی کا کتنا مختصر وقت ہوتا ہے، میں اگر اپنے بیٹے کو اب دیکھوں تو شاید ایک نظر میں اسے پہچان بھی نہ سکوں۔

    ”آہ، میں اس سے کتنا پیار کرتی تھی، کتنا چاہتی تھی اسے، ہر وقت اسے سینے سے لگائے رہتی، اسے ہنستاتی، بہلاتی پوری پوری رات جاگ کر اسے سوتے ہوئے دیکھتی رہتی، لوگ مجھے دیوانی سمجھتے، میرا مذاق اڑاتے لیکن میں ایک پل بھی اسے خود سے جدا نہ کرتی، میں نے اس کے بغیر کہیں آنا جانا ترک کر دیا، کیا کرتی اس سے الگ ہو کر مجھے چین ہی نہیں آتا تھا۔

    وہ آٹھ سال کا ہوا تو اس کے باپ نے اسے بورڈنگ میں داخل کرادیا اس کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا، وہ میرا نہیں رہا۔ اوہ میرے خدا! وہ صرف اتوار کو آتا اور بس۔

    ”پھر وہ پیرس چلا گیا، وہاں کالج میں اس کا داخلہ ہوگیا، اب وہ سال میں صرف چار مرتبہ آتا، میں ہر دفعہ اس میں نمایاں تبدیلی دیکھتی ہر بار وہ کچھ زیادہ بڑا ہوجاتا، میں اسے اپنی آنکھوں کے سامنے بڑھتے اور پھلتے پھولتے نہیں دیکھ رہی تھی، ہر بار وہ جب بھی آتا پہلے سے بدلا ہوا لگتا، اب وہ بچہ نہیں تھا لڑکا تھا، میں اس کا بچپنا کھو بیٹھی تھی، یہ دولت مجھ سے لوٹ لی گئی تھی، اگر وہ میرے ساتھ ہی رہتا تو جو محبت اسے مجھ سے ہوتی وہ اتنی آسانی سے نہیں بھلائی جاسکتی تھی۔

    ”میں اسے سال میں صرف چار بار دیکھتی تھی۔ ذرا غور کرو، ہر دفعہ اس کی آمد پر اس کا جسم اس کی آنکھیں، اس کی حرکتیں اس کی آواز، اس کی ہنسی وہ نہیں رہتی تھی جو گزشتہ آمد کے موقع پر ہوتی تھی۔ ہر دفعہ وہ نیا بن کر آتا۔

    ایک سال وہ آیا تو اس کے گالوں پر بال آگئے تھے، میں حیرت زدہ رہ گئی اور تم یقین کرو، غم زدہ بھی ہوئی، کیا یہی میرا ننھا سا منا سا بچہ ہے، میری کوکھ سے جنم لینے والا جس کے سر پر ملائم ملائم گھنگریالے بال تھے۔ میرا پیارا بیٹا، میرے جگر کا ٹکڑا جسے میں ایک کپڑے میں لپیٹ کر اپنے گھٹنوں پر سلاتی تھی، یہ طویل قامت نوجوان نہیں جانتا کہ اپنی ماں کو کیسے پیار کیا جاتا ہے، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ مجھ سے صرف اس لیے محبت کرتا ہے کہ یہ اس کا فرض ہے۔

    ذرا غور کرو، وہ اپنی ماں سے محبت ایک ڈیوٹی سمجھ کر کرتا تھا، وہ مجھے ماں کہہ کر صرف اس لیے پکارتا تھا کہ یہی روایت تھی۔

    میرے شوہر کا انتقال ہوگیا، پھر میرے ماں باپ کی باری آئی، پھر میں اپنی دو بہنوں سے ہاتھ دھو بیٹھی، موت کسی گھر میں داخل ہوتی ہے تو کوشش کرتی ہے کہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ کام ختم کرلے تاکہ پھر ایک طویل مدت تک اسے دوبارہ نہ آنا پڑے۔ پورے خاندان میں وہ صرف ایک یا دو افراد اس لیے زندہ چھوڑ جاتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی یاد میں زندگی بھر روتے رہیں۔

    ”میں بھی تنہا زندہ رہی، میرا جوان بیٹا بہت فرض شناس تھا۔ میں اس کے پاس چلی گئی، لیکن اب وہ ایک نوجوان مرد تھا، اس کے اپنے مشاغل تھے، اپنی مصروفیات تھیں، اس نے مجھے یہ احساس دلانا شروع کردیا کہ میں اس کے ساتھ رہ کر اس کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہوں۔ آخر میں وہاں سے لوٹ آئی۔ اس کے بعد میں نے اسے زیادہ نہیں دیکھا، نہ دیکھنے کے برابر دیکھا۔

    ”اس نے شادی کرلی، میں بہت خوش تھی۔ ماں بھی عجیب ہوتی ہے۔ اولاد کی طرف سے ہمیشہ خوش فہمی میں مبتلا رہتی ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ اب ہم پھر ایک ساتھ رہ سکیں گے، میں اپنے پوتے، پوتیوں کے ساتھ کھیلوں گی، ننھے ننھے گلابی گلابی روئی کے گالے اپنی گود میں پروان چڑھاﺅں گی۔

    میں وہاں پہنچی اس کی بیوی ایک انگریز لڑکی تھی، وہ روز اول سے مجھے ناپسند کرتی تھی۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ وہ سمجھتی تھی کہ میں اس کے شوہر کو اس سے زیادہ چاہتی ہوں اس طرح ایک دفعہ پھر مجھے اس کے گھر سے نکلنا پڑا، میں ایک بار پھر تنہا رہ گئی، ہاں موسیو! میں ایک بار پھر بالکل تنہا رہ گئی تھی۔

    پھر وہ انگلستان چلا گیا، اپنی بیوی کے والدین کے پاس، وہ ان لوگوں کے ساتھ رہنے لگا۔ میں نے حسرت سے سوچا اب وہ ان کا ہو کر رہے گا جیسے وہ میرا نہیں ان کا بیٹا ہو، انھوں نے اسے مجھ سے چھین لیا، چرا لیا، وہ وہاں سے ہر ماہ مجھے خط لکھتا، شروع شروع میں کبھی کبھی وہ مجھ سے ملنے بھی آتا، لیکن اب اس نے آنا بالکل چھوڑ دیا ہے۔

    ”اب مجھے اپنے بیٹے کو دیکھے ہوئے چار سال ہوچکے ہیں۔ آخری بار جب میں نے اسے دیکھا تھا تو اس کے چہرے پر جھریاں سی پڑنے لگی تھیں اور بالوں میں کہیں کہیں سفیدی جھلکنے لگی تھی، میں اسے اس حال میں دیکھ کر حیران رہ گئی تھی، کیا یہ ممکن ہے؟ کیا یہ آدمی، یہ تقریباً بوڑھا آدمی میرا بیٹا ہے! ماضی کا چھوٹا سا گلابی گلابی گل گوتھنا سا۔

    ”اب میں شاید اسے کبھی نہ دیکھ سکوں۔ اب میں اپنا تمام وقت سفر میں گزارتی ہوں، کبھی مشرق میں، کبھی مغرب میں، بالکل تنہا جیسے تم دیکھ رہے ہو۔“

    اس نے مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ ”گڈ بائی موسیو!“ مجھے رخصت کر کے وہ وہیں راستے میں کھڑی رہ گئی، میں خاموشی سے آگے بڑھ گیا، کچھ دور جانے کے بعد میں نے مڑ کر دیکھا وہ ایک ٹیلے پر کھڑی دور افق میں دیکھ رہی تھی، جیسے کچھ تلاش کررہی ہو، تیز ہوا سے اس کے کندھے پر پڑی ہوئی شال کا ایک سرا اور اس کا اسکرٹ کسی جھنڈے کی طرح لہرا رہا تھا۔

    ( فرانسیسی ادیب موپساں‌ کی کہانی کا اردو ترجمہ)

  • "تیسری دفعہ کا ذکر ہے”

    "تیسری دفعہ کا ذکر ہے”

    تیسری دفعہ کا ذکر ہے کہ تیسری دنیا کے ایک ملک کے تیسرے کنارے پر ایک جنگل تھا۔

    اس جنگل میں ظاہر ہے کہ جنگل ہی کا قانون نافذ تھا۔ جو جانور نہ تین میں ہوتا نہ تیرہ میں اس جنگل میں گلچھرے اڑاتا۔ دوسرے جنگلوں کی طرح اس جنگل میں بھی ایک بادشاہ موجود تھا۔ جو بھی اس کے سامنے تین پانچ کرتا، یہ بادشاہ اس کا تیا پانچا کر دیتا۔

    ہر طرف زاغ و زغن منڈلاتے پھرتے تھے۔ ہر شاخ پر بوم و شپر کا آشیاں تھا۔ تمام جانور اپنی اپنی دھن میں مگن مستقبل سے بے خبر سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کررہے تھے۔ سب سے زیادہ مست توتے تھے جو جی بھر کر چُوری کھاتے اور ٹیں ٹیں کر کے اس درندے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے، دوسرے طیور آوارہ، حشرات اور جانوروں کو سبز باغ دکھاتے اور بہتی گنگا میں چونچ دھو کر خوشی سے پروں میں پھولے نہ سماتے۔

    وقت سدا ایک جیسا نہیں رہتا۔ ایک رات موسلادھار بارش ہوئی۔ آسمانی بجلی گرنے سے شیر کا غار جل گیا۔ یہ خون آشام درندہ مرنے سے تو بچ گیا، مگر آگ سے بچ نکلنے کی کوشش میں اس کی چاروں ٹانگیں بری طرح جھلس گئیں اور وہ مکمل طور پر اپاہج ہو کر رہ گیا۔ اب وہ چلنے سے معذور تھا۔ اس عذاب میں بھی وہ اپنی عیاری، شقاوت اور لذت ایذا سے باز نہ آیا، اس نے کچھ ایسے گماشتے تلاش کر لیے جس اس کے لیے راتب بھاڑا فراہم کرتے، اس کے بدلے کچھ بچا کھچا مال انھیں بھی مل جاتا جس سے وہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھر لیتے، لیکن اندر ہی اندر انھیں یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ انھیں شیر کا بچا کھچا گوشت، اوجھڑی، ہڈیاں، پسلیاں، گردن اور سری پائے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

    ان گماشتوں میں بجو، لومڑی اور بھیڑیا شامل تھے۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس جنگل میں نافذ جنگل کے قانون کے خلاف جو بھی صدائے احتجاج بلند کرتا اس کی ہڈی پسلی ایک کر دی جاتی تھی۔

    سیانے کہتے ہیں کبھی کبھی کوڑے کے ڈھیر کو بھی اپنی اہمیت کا احساس ہو جاتا ہے۔ بجو، لومڑی اور بھیڑیا ایک شام شیر کے پاس گئے اور احتجاج پیش کیا۔ بجو نے اپنی مکروہ آواز میں کہا۔

    ’’مجھے قبروں سے تازہ دفن ہونے والے مردوں کا گوشت بہت پسند ہے، مگر کیا کروں آج کل جو بھی مردے دفن کیے جاتے ہیں وہ محض ڈھانچے ہوتے ہیں۔ ان کے جسم سے تمام گوشت تو دنیا والے پہلے ہی نوچ لیتے ہیں۔ یہ مظلوم زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ میں تو اس آس پر فربہ جانوروں کو بہلا پھسلا کر یہاں لاتا ہوں کہ مجھے کچھ چربیلا گوشت ملے گا، مگر یہاں بھی سوائے ہڈیوں کے کچھ نہیں ملتا، یہ ہمارا استحصال ہے۔ اپنے جائز حقوق کی بحالی تک ہم مزید شکار نہیں لا سکتے۔ تمام جانور ہماری فریب کاری، غداری اور ضمیر فروشی کی وجہ سے ہم سے بیزار ہیں۔ ہماری غداری کا مناسب صلہ ملنا چاہیے۔‘‘

    بھیڑیا جو اپنی لاف زنی کے لیے مشہور تھا، اس نے بجو کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔ ’’میں علی الصبح ایک ننھا بھیڑیا آپ کے پاس ورغلا کر لاتا جس کا آپ خون پی جاتے اور تمام گوشت ہڑپ کر جاتے۔ میں نے اب تک ساٹھ بھیڑیے آپ کے ناشتے کے لیے پیش کیے، مگر کبھی مجھے نرم گوشت آپ نے نہیں دیا۔ میں اپنے ساتھیوں کا غدار ضرور ہوں، مگر احمق نہیں۔ مناسب معاوضے کے بغیر میں اب مزید اپنے ساتھی پکڑ کر آپ کے حوالے نہیں کرسکتا۔‘‘

    وقت کی بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر جاندار کو کبھی نہ کبھی بے بسی کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ جنگل کے بادشاہ شیر پر بھی ایسا ہی کٹھن وقت آ گیا تھا۔ درندوں کی زندگی میں جب سخت مقام آتے ہیں تو وہ حکمتِ عملی کے تحت شتر گربہ کی پالیسی اپناتے ہیں اور نرم رویہ اپنا کر نہ صرف اپنا الو سیدھا کرتے ہیں بلکہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے گدھے کو بھی اپنا باپ کہنے میں تامل نہیں کرتے۔ شیر نے بڑی خند ہ پیشانی سے یہ سب باتیں خاموشی سے سنیں اور آنکھیں بند کر لیں۔ اب اس نے لومڑی سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ بھی اپنا موقف بیان کرے۔لومڑی نے اپنی قبیح عادت کے مطابق چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے جنگل کے بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا۔

    ’’انسانوں کو اپنے ابنائے جنس سے غداری کرنے پر ہر دور میں بھاری انعام ملتے رہے ہیں۔ ہماری ضمیر فروشی کا مناسب معاوضہ ہمیں آج تک کبھی نہیں مل سکا۔ اب ہم مزید یہ شقاوت آمیز ناانصافی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم شکار میں سے اپنا مساوی حصہ لیے بغیر اب کبھی جانوروں کے بے گنا ہ قتلِ عام میں شریکِ جرم نہیں رہ سکتے۔‘‘

    شیر یہ سب باتیں سن کر دہاڑا۔ ’’مجھے تمھارے تمام خیالات سے اتفاق ہے۔ آئندہ تم جو بھی شکار لاؤ گے اس کے چار برابر حصے کیے جائیں گے۔ اب جلدی جاؤ اور ایک نرم و نازک ہرن کو گھیر کر لاؤ ظل تباہی آج کا ناشتہ ہرن کے گوشت سے کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

    جنگل کے بادشاہ کا فیصلہ سن کر تینوں جانوروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور ان کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک پیدا ہو گئی۔ وہ اسی وقت ایک جھیل پر پہنچے، ایک کم سن ہرن پانی پی رہا تھا۔ لومڑی نے اس سے کہا،

    ’’اے میرے چاند ادھر میرے ساتھ آ، میں تمھیں آج جنگل کے بادشاہ کی زیارت کے لیے لے جاؤں گی۔‘‘

    ’’نہیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔‘‘ چھوٹا ہرن بولا۔’’تم نے وہ مثل نہیں سنی کہ ’’اس ہرنی کی خیر نہیں جو شیر کی جانب جائے گی۔‘‘

    بجو بولا۔ ’’ہرن چاند تم کس قدر خوب صورت ہو؟ میرا دل چاہتا ہے کہ تم ہی ہمارے بادشاہ بن جاؤ۔‘‘

    ’’ واہ کیا اچھی بات کہی ہے۔‘‘ بھیڑیا بولا۔

    ’’اگر ہرن جنگل کا بادشاہ بن جائے تو انقلاب آ جائے گا۔ ہرن راج آج وقت کی ضرورت ہے۔ اس طرح جنگل کے جانور تیزی سے آگے بڑھ سکیں گے۔‘‘

    ’’میں کیسے بادشاہ بن سکتا ہوں؟‘‘ہرن نے فرطَ اشتیاق سے کہا۔ ’’اس وقت جنگل کا بادشاہ تو شیر ہے۔ اسے کون ہٹائے گا؟‘‘

    لومڑی نے برف پگھلتی دیکھی تو بولی۔ ’’جنگل کا بادشاہ شیر اس وقت قریب المرگ ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنا جانشیں تمھیں بنا دے، اس نے ہمیں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے۔ آج ہی تمھاری تاج پوشی کر دی جائے گی۔ اس کے بعد جنگل میں ہرن راج کا آغاز ہو جائے گا۔‘‘

    ہرن اسی وقت آمادہ ہو گیا اور لومڑی، بجو اور بھیڑیے کے ہمراہ لولے لنگڑے جنگل کے بادشاہ کے غار میں داخل ہو گیا۔ لومڑی، بھیڑیے اور بجو نے شیر کو ہرن کے ساتھ طے پانے والی تمام شرائط سے آگاہ کر دیا۔

    شیر نے کہا۔ ’’میرا جانشین ہرن ہی ہو گا، ہرن مینار کے بعد اب ہرن کی لاٹھ تعمیر ہو گی، ہر طرف ہرن کے نعرے بلند ہوں گے۔ آؤ میرے عزیز ہرن، میں تمھاری تاج پوشی کی رسم ادا کر کے اپنی ذمہ داری پوری کروں۔آؤ جنگل کے مستقبل کے حکمران میں اپنی بادشاہت تمھیں منتقل کروں۔‘‘

    یہ سنتے ہی ہرن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ شیر کی آغوش میں جا بیٹھا۔ پلک جھپکتے میں شیر کے دانت ہرن کی شہ رگ میں پیوست ہو گئے۔ ہرن کی شہ رگ کا خون پینے کے بعد شیر نے ہرن کی کھال اپنے نوکیلے پنجوں سے ادھیڑ دی۔ اور تمام گوشت کے چار برابر حصے کر دیے۔ لومڑی، بجو اور بھڑیے کے منہ میں پانی بھر آیا۔ انھیں یقین تھا کہ آج شیر اپنا وعدہ وفا کرے گا۔ وہ سب دل ہی دل میں متاسف تھے کہ اب تک ناحق شیر کی نیت پر شک کرتے تھے۔

    اچانک شیر زور سے دہاڑا۔ شیر کی آواز سن کر سارا جنگل گونج اٹھا۔ شیر نے کہا۔

    ’’میں نے حسبِ وعدہ شکار کے چار حصے کر دیے ہیں۔‘‘

    لومڑی بولی، ’’ اب ہمارے حصے ہمیں دیں۔ کل سے کچھ کھانے کو نہیں ملا۔ اس کم بخت ہرن کو بڑی مشکل سے فریب دے کر یہاں لائے ہیں۔‘‘

    ’’چار حصے تو میں نے کر دیے۔‘‘ شیر نے گرج کر کہا۔

    ’’اب تقسیم اس طرح سے ہو گی کہ پہلا حصہ میں لوں گا کیوں کہ میں علیل ہوں اور مجھے غذا کی ضرورت ہے۔دوسرا حصہ بھی میرا ہے کیوں کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں، تیسرا حصہ مجھے جنگل کے قانون کی شق آٹھ کے تحت ملے گا، جسے کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اور رہ گیا آخری اور چوتھا حصہ وہ یہ میری ناک کے نیچے پڑا ہے جس کو ضرورت ہے وہ آگے آئے اور اسے اٹھا کر لے جائے۔‘‘

    یہ سن کر لومڑی، بجو اور بھیڑیا وہاں سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدے کے سر سے سینگ۔

    انتخاب از حکایات اور کہانیاں

  • طاقت کا امتحان

    طاقت کا امتحان

    کھیل خوب تھا، کاش تم بھی وہاں موجود ہوتے۔ مجھے کل کچھ ضروری کام تھا مگر اس کھیل میں کون سی چیز ایسی قابلِ دید تھی جس کی تم اتنی تعریف کر رہے ہو؟

    ایک صاحب نے چند جسمانی ورزشوں کے کرتب دکھلائے کہ ہوش گم ہوگیا۔
    مثلاً….!
    مثلاً کلائی پر ایک انچ موٹی آہنی سلاخ کو خم دینا۔
    یہ تو آج کل بچے بھی کر سکتے ہیں۔
    چھاتی پر چکی کا پتھر رکھوا کر آہنی ہتھوڑوں سے پاش پاش کرانا۔
    میں نے ایسے بیسیوں شخص دیکھے ہیں۔
    مگر وہ وزن جو اس نے دو ہاتھوں سے اٹھا کر ایک تنکے کی طرح پرے پھینک دیا کسی اور شخص کی بات نہیں، یہ تمہیں بھی ماننا پڑے گا۔
    بھلے آدمی یہ کون سا اہم کام ہے، وزن کتنا تھا آخر۔
    کوئی چار من کے قریب ہوگا، کیوں؟
    اتنا وزن تو شہر کا فاقہ زدہ مزدور گھنٹوں پشت پر اٹھائے رہتا ہے۔
    بالکل غلط ۔
    وہ کیوں؟
    غلیظ ٹکڑوں پر پلے ہوئے مزدور میں اتنی قوت نہیں ہوسکتی۔ طاقت کے لیے اچھی غذا کا ہونا لازم ہے۔ شہر کا مزدور… کیسی باتیں کر رہے ہو۔
    غذا والے معاملے کے متعلق میں تم سے متفق ہوں، مگر یہ حقیقت ہے۔ یہاں ایسے بہتیرے مزدور ہیں جو دو پیسے کی خاطر چار من بل کہ اس سے کچھ زیادہ وزن اٹھا کر تمھارے گھر کی دوسری منزل پر چھوڑ آ سکتے ہیں، کہو تو اسے ثابت کر دوں؟

    یہ گفت گو دو نوجوان طلبہ میں ہو رہی تھی جو ایک پُر تکلف کمرے کی گدی دار کرسیوں پر بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔

    میں اسے ہرگز نہیں مان سکتا اور باور آئے بھی کس طرح قاسم چوب فروش کے مزدور ہی کو لو۔ کم بخت سے ایک من لکڑیاں بھی تو اٹھائی نہیں جاتیں۔ ہزاروں میں ایک ایسا طاقت ور ہو تو اچنبھا نہیں ہے۔

    چھوڑو یار اس قصے کو، بھاڑ میں جائیں یہ سب مزدور اور چولھے میں جائے ان کی طاقت۔ سنائو آج تاش کی بازی لگ رہی ہے؟

    تاش کی بازیاں تو لگتی ہیں رہیں گی، پہلے اس بحث کا فیصلہ ہونا چاہیے۔

    سامنے والی دیوار پر آویزاں کلاک ہر روز اسی قسم کی لا یعنی گفت گو سے تنگ آکر برابر اپنی ٹک ٹک کیے جا رہا تھا۔ سگریٹ کا دھواں ان کے منہ سے آزاد ہوکر بڑی بے پروائی سے چکر لگاتا ہوا کھڑکی کے راستے باہر نکل رہا تھا۔

    دیواروں پر لٹکی ہوئی تصاویر کے چہروں پر بے فکری و بے اعتنائی کی جھلکیاں نظر آتی تھیں۔ کمرے کا فرنیچر سال ہا سال سے ایک ہی جگہ پر جما ہوا کسی تغیر سے ناامید ہو کر بے حس پڑا سوتا تھا۔ آتش دان کے طاق پر رکھا ہوا کسی یونانی مفکر کا مجسمہ اپنی سنگین نگاہوں سے آدم کے ان دو فرزندوں کی بے معنی گفت گو سن کر تعجب سے اپنا سر کھجلا رہا تھا۔ کمرے کی فضا ان بھدی اور فضول باتوں سے کثیف ہو رہی تھی۔

    تھوڑی دیر تک دونوں دوست تاش کی مختلف کھیلوں، برج کے اصولوں اور روپیہ جیتنے کے طریقوں پر اظہارِ خیالات کرتے رہے۔ دفعتاً ان میں وہ جسے مزدور کی طاقت کے متعلق پورا یقین تھا اپنے دوست سے مخاطب ہوا۔
    باہر بازار میں لوہے کا جو گارڈر پڑا ہے وہ تمہارے خیال میں کتنا وزن رکھتا ہوگا۔

    پھر وہی بحث۔
    تم بتائو تو سہی۔
    پانچ چھے من کے قریب ہوگا۔
    یہ وزن تو تمہاری نظر میں کافی ہے نا؟
    یعنی تمہارا یہ مطلب ہے کہ لوہے کی یہ بھاری بھر کم لاٹھ تمہارا مزدور پہلوان اٹھائے گا۔ گدھے والی گاڑی ضرور ہوگی اس کے ساتھ ۔

    یہاں کے مزدور بھی گدھوں سے کیا کم ہیں۔ گیہوں کی دو تین بوریاں اٹھانا تو ان کے نزدیک معمولی کام ہے۔ مگر تمہیں کیا پتا ہوسکتا ہے۔ کہو تو، تمہارے کل والے کھیل سے کہیں حیرت انگیز اور بہت سستے داموں ایک نیا تماشا دکھائوں۔
    اگر تمہارا مزدور لوہے کا وہ وزنی ٹکڑا اٹھائے گا تو میں تیار ہوں۔
    تمہاری آنکھوں کے سامنے اور بغیر کسی چالاکی کے۔

    دونوں دوست اپنے اپنے سگریٹ کی خاک دان میں گردن دبا کر اٹھے اور باہر بازار کی طرف مزدور کی طاقت کا امتحان کرنے چل دیے۔ کمرے کی تمام اشیا کسی گہری فکر میں غرق ہوگئیں، جیسے انہیں کسی غیر معمولی حادثے کا خوف ہو، کلاک اپنی انگلیوں پر کسی متعینہ وقت کی گھڑیاں شمار کرنے لگا۔ دیواروں پر آویزاں تصویریں حیرت میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔ کمرے کی فضا خاموش آہیں بھرنے لگ گئی۔

    لوہے کا وہ بھاری بھر کم ٹکڑا لاش کا سا سرد اور کسی وحشت ناک خواب کی طرح تاریک، بازار کے ایک کونے میں بھیانک دیو کی مانند اکڑا ہوا تھا۔ دونوں دوست لوہے کے اس ٹکڑے کے پاس آ کر کھڑے ہوگئے اور کسی مزدور کا انتظار کرنے لگے۔

    بازار بارش کی وجہ سے کیچڑ میں لت پت تھا، جو راہ گزروں کے جوتوں کے ساتھ اچھل اچھل کر ان کا مضحکہ اڑا رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا گویا وہ اپنے روندنے والوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ اسی آب و گل کی تخلیق ہیں جسے وہ اس وقت پائوں سے گوندھ رہے ہیں۔ مگر وہ اس حقیقت سے غافل اپنے دنیاوی کام دھندوں کی دھن میں مصروف کیچڑ کے سینے کو مسلتے ہوئے ادھر ادھر جلد جلد قدم اٹھاتے ہوئے جا رہے تھے۔

    کچھ دکان دار اپنے گاہکوں کے ساتھ سودا طے کرنے میں مصروف تھے اور کچھ سجی ہوئی دکانوں میں تکیہ لگائے اپنے حریف ہم پیشہ دکان داروں کی طرف حاسدانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور اس وقت کے منتظر تھے کہ کوئی گاہک وہاں سے ہٹے اور وہ اسے کم قیمت کا جھانسا دیکر گھٹیا مال فروخت کردیں۔

    ان منیاری کی دکانوں کے ساتھ ہی ایک دوا فروش اپنے مریض گاہکوں کا انتظار کر رہا تھا۔ بازار میں سب لوگ اپنے اپنے خیال میں مست تھے اور یہ دو دوست کسی دنیاوی فکر سے بے پروا ایک ایسے مزدور کی راہ دیکھ رہے تھے جو ان کی دلچسپی کا سامان مہیا کر سکے۔

    دور بازار کے آخری سرے پر ایک مزدور کمر کے گرد رسی لپیٹے اور پشت پر ٹاٹ کا ایک موٹا سا ٹکڑا لٹکائے کیچڑ کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھتا ہوا چلا آ رہا تھا۔

    نان بائی کی دکان کے قریب پہنچ کر وہ دفعتاً ٹھٹکا، سالن کی دیگچیوں اور تنور سے تازہ نکلی ہوئی روٹیوں نے اس کے پیٹ میں نوک دار خنجروں کا کام کیا۔

    مزدور نے اپنی پھٹی ہوئی جیب کی طرف نگاہ کی اور گرسنہ دانتوں سے اپنے خشک لبوں کو کاٹ کر خاموش رہ گیا، سرد آہ بھری اور اسی رفتار سے چلنا شروع کر دیا۔ چلتے وقت اس کے کان بڑی بے صبری سے کسی کی دل خوش کن آواز ”مزدور“ کا انتظار کر رہے تھے مگر اس کے دل میں نہ معلوم کیا کیا خیالات چکر لگا رہے تھے۔

    دو تین دن سے روٹی بہ مشکل نصیب ہوئی ہے اب چار بجنے کو آئے ہیں مگر ایک کوڑی تک نہیں ملی۔ کاش آج صرف ایک روٹی کے لئے ہی کچھ نصیب ہو جائے بھیک؟ نہیں خدا کارساز ہے۔

    اس نے بھوک سے تنگ آ کر بھیک مانگنے کا خیال کیا مگر اسے ایک مزدور کی شان کے خلاف سمجھتے ہوئے خدا کا دامن تھام لیا اور اس خیال سے مطمئن ہو کر جلدی جلدی اس بازار کو طے کرنے لگا، اس خیال سے کہ شاید دوسرے بازار میں اسے کچھ نصیب ہو جائے۔

    دونوں دوستوں نے بیک وقت ایک مزدور کو تیزی سے اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھا، مزدور دبلا پتلا نہ تھا چناں چہ انہوں نے فوراً آواز دی۔

    مزدور…. یہ سنتے ہی گویا مزدور کے سوکھے دھانوں میں پانی مل گیا، بھاگا ہوا آیا اور نہایت ادب سے پوچھنے لگا۔

    جی حضور؟
    دیکھو، لوہے کا یہ ٹکڑا اٹھا کر ہمارے ساتھ چلو، کتنے پیسے لو گے؟
    مزدور نے جھک کر لوہے کے بھاری بھر کم ٹکڑے کی طرف دیکھا اور دیکھتے ہی اس کی آنکھوں کی وہ چمک جو مزدور کا لفظ سن کر پیدا ہوئی تھی، غائب ہوگئی۔

    وزن بلا شک و شبہ زیادہ تھا مگر روٹی کے قحط اور پیٹ پوجا کے لیے سامان پیدا کرنے کا سوال اس سے کہیں وزنی تھا۔

    مزدور نے ایک بار پھر اس آہنی لاٹھ کی طرف دیکھا اور دل میں عزم کرنے کے بعد کہ وہ اسے ضرور اٹھائے گا، ان سے بولا۔

    جو حضور فرمائیں؟
    یعنی تم یہ وزن اکیلے اٹھا لوگے؟ ان دو لڑکوں میں سے اس نے مزدور کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا جو کل شب جسمانی کرتب دیکھ کر آیا تھا۔
    بولو کیا لو گے؟ یہ وزن بھلا کہاں سے زیادہ ہوا؟ دوسرے نے بات کا رخ پلٹ دیا۔
    کہاں تک جانا ہوگا حضور؟
    بہت قریب، دوسرے بازار کے نکڑ تک۔
    وزن زیادہ ہے، آپ تین آنے دے دیجیے۔
    تین آنے؟
    جی ہاں، تین آنے کچھ زیادہ تو نہیں ہیں۔
    دو آنے مناسب ہے بھئی۔
    دو آنے آٹھ پیسے، یعنی دو وقت کے لیے سامانِ خورد و نوش، یہ سوچتے ہی مزدور راضی ہوگیا۔ اس نے اپنی کمر سے رسی اتاری اور اسے لوہے کے ٹکڑے کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا، دو تین جھٹکوں کے بعد وہ آہنی سلاخ اس کی کمر پر تھی۔

    گو وزن واقعی ناقابلِ برداشت تھا مگر تھوڑے عرصے کے بعد ملنے والی روٹی نے مزدور کے جسم میں عارضی طور پر ایک غیر معمولی طاقت پیدا کر دی تھی، اب ان کاندھوں میں جو بھوک کی وجہ سے مردہ ہو رہے تھے، روٹی کا نام سن کر طاقت عود کر آئی۔

    گرسنہ انسان بڑی سے بڑی مشقت فراموش کر دیتا ہے، جب اسے اپنے پیٹ کے لیے کچھ سامان نظر آتا ہے۔

    آئیے۔ مزدور نے بڑی ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا۔

    دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور زیرِ لب مسکرا دیے، وہ بہت مسرور تھے۔

    چلو، مگر ذرا جلدی قدم بڑھائو، ہمیں کچھ اور بھی کام کرنا ہے۔
    مزدور ان دو لڑکوں کے پیچھے ہو لیا، وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ موت اس کے کاندھوں پر سوار ہے۔

    کیوں میاں، کہاں ہے وہ تمہارا کل والا سینڈو؟
    کمال کردیا ہے اس مزدور نے، واقعی سخت تعجب ہے۔
    تعجب؟ اگر کہو تو اس لوہے کے ٹکڑے کو تمھارے گھر کی بالائی چھت پر رکھوا دوں۔
    مگر سوال ہے کہ ہم لوگ اچھی غذا ملنے پر بھی اتنے طاقت ور نہیں ہیں۔
    ہماری غذا تو کتابوں اور دیگر علمی چیزوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ انہیں اس قسم کی سر دردی سے کیا تعلق؟ بے فکری، کھانا اور سو جانا۔
    واقعی درست ہے۔
    لڑکے مزدور پر لدے ہوئے بوجھ اور اس کی خمیدہ کمر سے غافل آپس میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔

    وہاں سے سو قدم کے فاصلے پر مزدور کی قضا کیلے کے چھلکے میں چھپی ہوئی اپنے شکار کا انتظار کر رہی تھی۔ گو مزدور کیچڑ میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا مگر تقدیر کے آگے تدبیر کی ایک بھی پیش نہ چلی۔ اس کا قدم چھلکے پر پڑا، پھسلا اور چشم زدن میں لوہے کی اس بھاری لاٹھ نے اسے کیچڑ میں پیوست کر دیا۔
    مزدور نے مترحم نگاہوں سے کیچڑ اور لوہے کے سرد ٹکڑے کی طرف دیکھا، تڑپا اور ہمیشہ کے لیے بھوک کی گرفت سے آزاد ہوگیا۔

    دھماکے کی آواز سن کر دونوں لڑکوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مزدور کا سر آہنی سلاخ کے نیچے کچلا ہوا تھا، آنکھیں باہر نکلی ہوئی نہ معلوم کس سمت ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھیں۔ خون کی ایک موٹی سی تہ کیچڑ کے ساتھ ہم آغوش ہو رہی تھی۔

    چلو آئو چلیں، ہمیں خواہ مخواہ اس حادثے کا گواہ بننا پڑے گا۔
    میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ وزن اس سے نہیں اٹھایا جائے گا لالچ!

    یہ کہتے ہوئے دونوں لڑکے مزدور کی لاش کے گرد جمع ہوتی ہوئی بھیڑ کو کاٹتے ہوئے اپنے گھر روانہ ہو گئے۔
    سامنے والی دکان پر ایک بڑی توند والا شخص ٹیلی فون کا چونگا ہاتھ میں لیے غالباً گندم کا بھائو طے کرنے والا تھا کہ اس نے مزدور کو موت کا شکار ہوتے دیکھا اور اس حادثے کو منحوس خیال کرتے ہوئے بڑبڑا کر ٹیلی فون کا سلسلہ گفت گو منقطع کردیا۔

    کم بخت کو مرنا بھی تھا تو میری دکان کے سامنے۔ بھلا ان لوگوں کو اس قدر وزن اٹھانے پر کون مجبور کرتا ہے!
    تھوڑی دیر کے بعد اسپتال کی آہنی گاڑی آئی اور مزدور کی لاش اٹھا کر عمل جراحی کے لیے ڈاکٹروں کے سپرد کر دی۔

    دھندلے آسمان پر ابر کے ایک ٹکڑے نے مزدور کے خون کو کیچڑ میں ملتے ہوئے دیکھا، اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے۔ ان آنسوئوں نے سڑک کے سینے پر اس خون کے دھبوں کو دھو دیا۔

    آہنی لاٹھ ابھی تک بازار کے ایک کنارے پڑی ہوئی ہے، مزدور کے خون کا صرف ایک قطرہ باقی ہے جو دیوار کے ساتھ چمٹا ہوا نہیں معلوم کس چیز کا اپنی خونیں آنکھوں سے انتظار کر رہا ہے۔

    مصنف: سعادت حسن منٹو

  • دہلی کے سنگم تھیٹر سے متصل اردو منزل والے بھیا احسان الحق

    دہلی کے سنگم تھیٹر سے متصل اردو منزل والے بھیا احسان الحق

    بھیا احسان الحق سے، جن کے ہاں میں بستی نظام الدین (دہلی) میں مقیم تھا، میرے بزرگوں کے پرانے مراسم تھے۔ ان کا لقب فقیر عشقی نظامی تھا اور عرف عام میں انھیں‌ بھیا جی کہتے تھے۔

    ایک زمانے میں شعر بھی کہتے تھے اور فلسفی تخلص کرتے تھے۔ وہ میرٹھ کے مشہور بھیا خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے تمول اور امارت کا بہت شہرہ تھا۔ اپنے والد کی زندگی میں بھیا احسان الحق میرٹھ میں رہتے تھے، مگر 1918ءمیں ان کے انتقال کے بعد جائیداد اور بعض دوسرے امور کی دیکھ بھال کے سلسلے میں انھیں دہلی میں مستقل سکونت اختیار کرنا پڑی۔

    میرٹھ سے دہلی آکر وہ اس مکان میں قیام پذیر ہوئے جو جامع مسجد کے سامنے اردو بازار میں سنگم تھیٹر سے متصل تھا اور انھیں اپنے والد کے ترکے میں ملا تھا۔ اس مکان کو بھیا احسان الحق نے ”اردو منزل “ کا نام دیا اور اس کا ایک حصہ دس پندرہ سال تک خواجہ حسن نظامی کے لیے وقف رہا۔

    خواجہ صاحب بستی نظام الدین میں اپنے گھر سے روزانہ صبح یہاں آجاتے، دن بھر اپنا دفتر جماتے اور کام کرتے اور رات کو اپنے گھر واپس جاتے۔ ان سے ملنے جلنے والے بھی یہیں آتے۔ اردو منزل میں اکثر و بیش تر علمی و ادبی صحبتیں جمتیں اور نشستیں برپا ہوتیں جن کے باعث اسے دہلی کے ایک اہم ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔

    سردار دیوان سنگھ مفتون نے 1960 میں بھیا احسان الحق کی وفات کے بعد اپنے تعزیتی مضمون میں اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دوپہر کے کھانے، شام کی چائے اور رات کے کھانے پر دس پندرہ افراد کا ہونا روز کا معمول تھا اور سارے اخراجات بھیا احسان الحق اٹھاتے تھے۔

    خواجہ حسن نظامی سے بھیا احسان الحق کی پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی تھی جب وہ کالج کے طالب علم تھے۔ یہ ملاقات تاحیات رفاقت کی بنیاد بن گئی اور بہت جلد خواجہ صاحب کے مقربین خاص میں ملا واحدی کے ساتھ بھیا احسان الحق سرفہرست ہوگئے۔

    بھیا احسان الحق کو شروع ہی سے تصوف، ادب اور صحافت سے بہت دل چسپی تھی۔ وہ وحدتُ الوجود کے قائل اور قول و فعل میں صوفیائے کرام کی انسان دوست تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا تھے۔ شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے اور صحافت کے ذریعے قوم کے سماجی شعور کو نکھارنے اور سنوارنے کے خواہش مند تھے۔

    خواجہ حسن نظامی کی شخصیت سے متاثر تھے اور ان کے طرزِ تحریر کو پسند کرتے تھے۔ چنانچہ 1913میں انھوں نے خواجہ غلام الثقلین کی معیت میں ہفت روزہ ”توحید“ نکالا تو اس کی ادارت کے لیے خواجہ حسن نظامی کو میرٹھ بلایا۔ مسجد مچھلی بازار کانپور کی تحریک کے سلسلے میں جو اثر انگیز مضامین اس پرچے میں شائع ہوئے ان کی بنا پر حکومت نے اسے بند کردیا جب تک یہ پرچہ نکلتا رہا، خواجہ حسن نظامی میرٹھ میں بھیا احسان الحق کے مہمان رہے۔


    (معروف افسانہ نگار، شاعر اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے، یہ سطور ان کے دہلی میں قیام کے دوران اہلِ علم اور صاحبانِ کمال سے ملاقاتوں کے ایک تذکرے سے لی گئی ہیں)

  • جادوئی اسلوب کے حامل ہرمن ہیسے کا تذکرہ

    جادوئی اسلوب کے حامل ہرمن ہیسے کا تذکرہ

    اس کی دل چسپی جادوئی کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں میں تھی۔

    جب وہ بچہ اس قابل ہوا کہ ذہن کے پردے پر کوئی تصویر بنا سکے یا کچھ سوچ سکے تو انوکھی اور انجانی دنیا آباد کر لی جس میں عجیب و غریب کردار سامنے آتے، جادوئی اور پُراسرار واقعات رونما ہوتے اور وہ چشمِ تصور سے ان کا نظارہ کرتا۔

    اس بچے نے شعور اور آگاہی کی مسافت طے کی تو خود اُس پر کھلا کہ قلم کی طاقت سے وہ اپنے بچپن کے اُن خوابوں کو تعبیر دے سکتا ہے۔ تب اس نے اپنے تخیل کا سہارا لیا اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، یہ ہرمن ہیسے کا تذکرہ ہے جو اپنے جادوئی اسلوب کی بدولت دنیا بھر کے ادبیوں میں سب سے ممتاز اور مقبول ترین ہے۔

    ہرمن ہیسے کی تاریخِ پیدائش 20 جولائی 1877 ہے۔ اس نے جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے کے کٹر مذہبی اور روایات کے پابند گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والدین تبلیغ کی غرض سے زیادہ تر وقت گھر سے باہر اور اکثر دور دراز کے علاقوں میں گزار دیتے اور وہ گھر میں تنہا رہ جاتا اور پھر مَن پسند دنیا آباد کرلیتا۔

    نوعمری میں اس نے کتابوں کی خریدوفروخت کا کام شروع کیا جس کے سبب مطالعے کا شوق پروان چڑھا۔

    ہرمن ہیسے نے شاعری بھی کی، مگر نام وری اور وجہ شہرت فکشن کا میدان ہے۔ وہ 25 سال کے تھے جب ان کا شعری مجموعہ منظرِ عام پر آیا، مگر اسے توجہ نہ ملی. 1905 میں ان کا ناول Beneath the Wheel شایع ہوا اور ادبی حلقوں کی توجہ سمیٹی۔ ہرمن ہیسے نے افسانوی کہانیاں‌ بھی تخلیق کیں جن میں یورپ کے معاشرتی رویوں اور اخلاقی قدروں کو موضوع بنایا اور ان کو کھوکھلا اور بگڑتا ہوا پیش کیا۔

    The Glass Bead Game، Steppenwolf اور Siddhartha ہرمن کے مشہور ناول ہیں۔ فکشن کے میدان میں یہ ناول اپنے تخلیقی جوہر اور اسلوب کے باعث ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    سدھارتھ 1922 میں شایع ہوا تھا جسے دنیا بھر میں سراہا گیا اور یہ مقبول ترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ اردو زبان میں بھی اس کا ترجمہ دست یاب ہے۔ 1946 میں اس عظیم تخلیق کار کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔

    آخری عمر میں ہرمن ہیسے گوشہ نشیں ہو گئے۔ مشہور ہے کہ انھوں نے اپنے گھر کے صدر دروازے پر لکھوا دیا تھا کہ ملاقات کی زحمت نہ فرمائیں۔