Tag: مشہور اردو ادیب

  • ’’آنندی‘‘ کے خالق غلام عبّاس کا یومِ وفات

    ’’آنندی‘‘ کے خالق غلام عبّاس کا یومِ وفات

    مشہور افسانہ ’’آنندی‘‘ اردو ادب کے ہر شائق اور قاری نے ضرور پڑھا ہو گا۔ غلام عبّاس نے اپنے اس افسانے میں معاشرے کی زبوں حالی کی تصویر کشی کی ہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل جن افسانہ نگاروں نے نام و پہچان بنائی، ان میں غلام عبّاس بھی شامل ہیں۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    غلام عبّاس 17 نومبر 1909ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ والد کی اچانک موت کے بعد خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اُن کے کاندھوں پر آن پڑی۔ وہ مطالعے کے شوقین تھے اور خود بھی لکھتے تھے۔ جلد ہی لاہور کے ادبی جرائد میں اُن کے تراجم شائع ہونے لگے۔ یوں ان کی آمدنی کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1938ء میں غلام عباس دہلی چلے گئے جہاں وہ آل انڈیا ریڈیو کے جریدے ’’آواز‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انھوں نے افسانہ ’’آنندی‘‘ لکھا۔ بھارت کے مشہور ہدایت کار شیام بینیگل نے اسی افسانے سے متاثر ہو کر فلم ’’منڈی‘‘ بنائی تھی۔

    1948ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ بھی ’’آنندی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں ان کا ایک اور یادگار افسانہ ’’حمام میں‘‘ بھی شامل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد غلام عباس پاکستان آگئے اور ریڈیو پاکستان کا جریدہ ’’آہنگ‘‘ شروع کیا۔ 1949ء میں وہ وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ ہوئے اور بعد میں بی بی سی سے منسلک ہو گئے۔

    1952ء میں لندن سے واپسی پر انھوں نے دوبارہ ریڈیو پاکستان سے ناتا جوڑا اور 1967ء تک وہاں کام کرتے رہے۔ 1960ء میں اُن کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’جاڑے کی چاندنی‘‘ شائع ہوا جس پر انھیں آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ 1969ء میں اُن کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’کن رس‘‘ شائع ہوا۔ ان کا افسانہ ’’دھنک‘‘ بھی اسی سال شائع ہوا۔ 1986ء میں اپنے افسانے ’’گوندنی والا تکیہ‘‘ کو کتابی شکل میں شائع کیا۔

    وہ بچوں کے کئی رسائل کے مدیر بھی رہے۔ بچّوں کے لیے تراجم اور افسانوی ادب کی تخلیق کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

    2 نومبر 1982ء کو غلام عبّاس نے زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے’’ستارہ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • نام وَر افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون ہوا باز حجاب امتیاز علی کی برسی

    نام وَر افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون ہوا باز حجاب امتیاز علی کی برسی

    اردو کی نام وَر افسانہ نگار حجاب امتیاز علی 19 مارچ 1999ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں برصغیر پاک و ہند کی اوّلین خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ علم و ادب کی رسیا اور فنونِ لطیفہ کی شائق حجاب امتیاز علی نے دنیائے ادب کو متعدد خوب صورت افسانے اور کہانیاں‌ دیں جنھیں‌‌ قارئین نے بے حد پسند کیا۔

    وہ 4 نومبر 1908ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد سید محمد اسماعیل نظام دکن کے فرسٹ سیکریٹری تھے اور والدہ عباسی بیگم اپنے دور کی نام ور اہلِ قلم تھیں۔ حجاب امتیاز علی نے عربی، اردو اور موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور پھر افسانے لکھنے کا آغاز کیا جو مختلف ادبی رسالوں میں شایع ہوئے۔ حجاب اسماعیل کے نام سے ان کی تحریریں اس زمانے کے مقبول ترین رسالے تہذیبِ نسواں میں شایع ہوتی تھیں جس کے مدیر مشہور ڈراما و ناول نگار امتیاز علی تاج تھے۔ 1929ء میں امتیاز علی تاج نے اپنا مشہور ڈرامہ انار کلی ان کے نام سے معنون کیا اور 1934ء میں یہ دونوں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے۔

    حجاب اسماعیل نے شادی کے بعد حجاب امتیاز علی کے نام سے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے متعدد افسانوی مجموعے اور ناولٹ یادگار چھوڑے جن میں میری نا تمام محبت اور دوسرے رومانی افسانے، لاش اور ہیبت ناک افسانے، خلوت کی انجمن، نغماتِ موت، ظالم محبّت، وہ بہاریں یہ خزائیں شامل ہیں۔ حجاب امتیاز علی نے تہذیب نسواں کی ادارت بھی کی۔

    ہوا بازی کا شوق رکھنے والی حجاب امتیاز علی نے ایک فلائنگ کلب کی رکنیت اختیار کرکے برصغیر پاک و ہند کی پہلی خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ وفات کے بعد انھیں لاہور کے مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔

  • نام وَر مترجم، افسانہ اور ناول نگار مظہر الحق علوی کا تذکرہ

    نام وَر مترجم، افسانہ اور ناول نگار مظہر الحق علوی کا تذکرہ

    اردو کے نام ور مترجم، افسانہ نگار اور عالمی ادبیات کے نباض مظہر الحق علوی نے 17 دسمبر 2013ء کو اپنی زندگی فرشتہ اجل کے ہاتھوں‌ میں‌ دے دی تھی۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے سات عشروں تک اپنے فن اور جوہرِ تخلیق سے اردو ادب کی آب یاری کی۔

    مظہر الحق علوی کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ انھیں زیادہ شہرت عالمی ادب کی شاہ کار کہانیوں کے تراجم کی بدولت ملی۔ تاہم افسانہ و ڈراما نگاری اور ادبِ اطفال بھی ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا نمونہ ہیں۔ انھوں نے انگریزی ادب کے تقریباً 100 ناولوں کو اردو کے قالب میں نہایت خوبی سے ڈھالا۔

    مظہر الحق علوی نے انگریزی زبان کے علاوہ گجراتی کے مقبول ادب پاروں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ انھوں نے ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے ساتھ فروغِ ادب کے لیے فعال کردار ادا کیا۔

    فرانس کے مشہور زمانہ ناول نگار الیگزنڈر ڈوما کے ناول "دی کاؤنٹ آف مونٹے کرسٹو” کا ترجمہ "ظلِّ ہما” کے نام سے، برام اسٹوکر کے "ڈریکولا” کا ترجمہ، میری شیلے کے ناول "فرنکنسٹائن” اور سر رائڈر ہیگرڈ کے متعدد ناولوں کے نہایت عمدہ اردو تراجم مظہر الحق علوی کے اس فن میں‌ مہارت اور ان کی قابلیت و اسلوب کے یادگار ہیں۔

    وہ احمد آباد میں‌ مقیم تھے جہاں ایک لائبریرین کی حیثیت سے ملازمت کی اور اس دوران لکھنے پڑھنے اور مطالعے کا شوق پورا کرنے کے ساتھ ساتھ تخلیقی کام کی طرف راغب ہوئے۔ مظہر الحق علوی 90 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

  • سندھ کی ممتاز روحانی شخصیت اور اردو کے محسن، ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان کا یومِ وفات

    سندھ کی ممتاز روحانی شخصیت اور اردو کے محسن، ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان کا یومِ وفات

    آج ممتاز روحانی شخصیت اور اردو کے نام وَر ماہر لسانیات، محقق، مترجم اور ماہر تعلیم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی برسی ہے۔ 25 ستمبر 2005 کو وفات پانے والے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے اردو زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے اور تصنیف و تالیف، تحقیق و تنقید کے کئی موضوعات کو اپنی کتب میں‌ سمیٹا۔ اردو کی ترویج و ترقی کے لیے انھوں نے گراں‌ قدر خدمات انجام دیں۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان یکم جولائی 1912 کو جبل پور (سی پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی اور اردو میں ایم اے اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 1947 میں پی ایچ ڈی کیا۔ 1936 سے 1948 تک ناگپور یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ رہے۔

    قیام پاکستان کے بعد انھوں‌ نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور 1950 میں بابائے اردو کی درخواست پر اردو کالج میں صدرِ شعبہ اردو کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بعدازاں سندھ یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے اور 1976 تک وہاں اردو کے لیے خدمات انجام دیں۔ 1988 میں سندھ یونیورسٹی میں آپ کی علمی، ادبی اور تحقیقی خدمات پر آپ کو پروفیسر ایمریطس کے درجے پر فائز کیا گیا۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان سو سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کی تصانیف میں ادبی جائزے، فارسی پر اردو کا اثر، علمی نقوش، اردو سندھی لغت، سندھی اردو لغت، حالی کا ذہنی ارتقا، تحریر و تقریر، حضرت مجدد الف ثانی، گلشنِ وحدت، مکتوبات سیفیہ، خزینۃ المعارف، مکتوباتِ مظہریہ، مکتوبات معصومیہ، اقبال اور قرآن، معارفِ اقبال اردو میں قرآن و حدیث کے محاورات، فکر و نظر اور ہمہ قرآن در شان محمدﷺ شامل ہیں۔

    انھوں‌ نے اردو سے متعلق ’’اردو صرف و نحو‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں غلط املا اور زبان و بیان کے ساتھ تحریر کی متعدد خرابیوں کی نشان دہی کی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان کی علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں‌ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

  • "بجلی بچانے کے طریقے”

    "بجلی بچانے کے طریقے”

    وفاقی وزیرِ "قلتِ آب و بند بجلی” پرویز اشرف نے کچھ دنوں پہلے عوام کو، بہ الفاظِ دیگر، یہ کہتے ہوئے ڈانٹا تھا، ”اوئے! رولا نہ پاؤ، بجلی بچاؤ۔“ اب انھوں نے یہی بات بڑے پیار سے کہی ہے۔ ساتھ ہی عوام کو یہ کہتے ہوئے ڈرانے کی کوشش بھی کی ہے کہ تین ہفتوں تک بجلی کی صورتِ حال بدترین رہے گی۔

    اس جملے سے یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ وزیر موصوف موجودہ صورتِ حال کو محض بد یا بدتر سجھتے ہیں۔ ایسا نہیں، مسئلہ دراصل اردو کی تنگ دامنی کا ہے۔ اس بیچاری کے پاس وہ لفظ ہی نہیں جو ”بد ترین“ سے آگے کی صورتِ حال کا نقشہ دکھا سکے۔ بس یہی ہو سکتا ہے کہ ”بد“ کے آگے بہت سارے ”تر“ لگا کر آخر میں ”ترین“ لگا دیا جائے۔

    وزیرِ محترم کا حکم سر آنکھوں پر، مگر انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ عوام کس وقت بجلی بچائیں؟ کہ بجلی نے تو خود ہی اپنے آپ کو عوام سے بچا کر رکھا ہوا ہے۔ آئی، جھلک دکھائی اور یہ جا وہ جا۔

    بہ ہر حال، جمہوری حکم رانوں کا حکم ہے، سو ماننا تو ہوگا، ورنہ نافرمانی جمہوریت کے خلاف سازش گردانی جائے گی، چناں چہ عوام کی آسانی کے لیے ہم بچی کُھچی بجلی بچانے کے کچھ نسخے پیش کردیتے ہیں:

    ٭ ٹی وی ہمیشہ بند کر کے دیکھیں۔ یوں بجلی کے ساتھ آئینے کا خرچ بھی بچے گا۔

    ٭ استری ہندی کی ہو یا اردو کی، بیکار چیز ہے۔ البتہ ہندی والی استری بجلی سے نہیں چلتی، ویسے ہی کرنٹ مارتی ہے، اس لیے اسے گھر میں پڑا رہنے دیں۔ لیکن اردو والی استری فی الفور کباڑیے کو بیچ دیں اور ان پیسوں سے موم بتیاں خرید لیں۔

    ٭ استری بِک گئی! اب کپڑے نہ استری ہوں گے نہ ہینگر میں ٹنگیں گے۔ تو اب فریج کو الماری بنالیں اور کپڑے اس میں تہ کر کے رکھ دیں۔

    ٭ فریج الماری بن گیا، اب خالی الماری کیا یوں ہی بھائیں بھائیں کرتی رہے گی؟ اسے استعمال میں لائیں۔ کمپیوٹر ڈبے میں بند کریں اور اسے الماری کو سونپ دیں۔

    ٭ کمپیوٹر ٹرالی خالی خالی کتنی بُری لگ رہی ہے۔ چلیے! ایئر کنڈینشر اُکھاڑیے اور لاکر اس پر رکھ دیجیے۔

    ٭ اب گھر میں نہ کوئی شور ہے نہ مشغولیت، لہٰذا آپ با آسانی دستک سُن سکتے ہیں۔ پھر ڈور بیل کیوں لگا رکھی ہے؟ نکال پھینکیے۔

    ٭ ان بَلبوں اور ٹیوب لائٹوں کا آخر فائدہ کیا ہے؟ آپ نہ اپنا گھر پہلی بار دیکھ رہے ہیں اور نہ گھر والوں کو۔ یہ روشنی خواہ مخواہ ہی ہوئی نا۔ تو یہ تمام روشنیاں گُل کردیجیے۔

    (معروف صحافی، مزاح نگار اور شاعر محمد عثمان جامعی کی کتاب "کہے بغیر” سے انتخاب، مصنف نے پاکستان پیپلز پارٹی کے اُس وقت کے وزیرِ‌اعظم کے ایک بیان پر یہ شگفتہ تبصرہ سپردِ قلم کیا تھا)

  • جب تک گھٹنے سلامت ہیں!

    جب تک گھٹنے سلامت ہیں!

    "سر سید کے گھٹنوں میں جو تکلیف تھی، اسے آرتھرائٹس کہتے ہیں۔

    میں نیویارک کے بازار نما بھنڈار (store) سے خریدی ہوئی خانگی صحت اور طب کی نئی کتاب کھولتا ہوں۔ لکھا ہے کہ انسان کے جسم میں 187 جوڑ ہیں۔ گھٹنے کے جوڑ کو عمر بھر جتنا بوجھ اٹھانا اور کام کرنا پڑتا ہے، اتنی مشقت کسی اور جوڑ کی قسمت میں نہیں لکھی۔ اس جوڑ کے بنانے میں قدرت سے ذرا سی چوک ہو گئی اور یہ اتنا مضبوط نہ بن سکا، جتنا اس کو ہونا چاہیے تھا۔

    صرف امریکا میں تقریباً پچاس ملین افراد ایسے ہیں، جو گھٹنے کے درد میں مبتلا ہیں۔ اگر علم کی دولت سے مالا مال ملک کا یہ حال ہے تو ہمارے پسماندہ ملک میں اس کی تباہ کاریوں کا کیا عالم ہو گا۔

    میں گھبرا کر دوسری کتاب اٹھا لیتا ہوں۔ یہ عالمی ادب کی رفتار اور ترقی کے بارے میں ہے۔ 250 سال قبل مسیح وفات پانے والے یونانی شاعر تھیوک رے ٹس (Theocritius) کے اس قول پر نظر ٹھہر گئی:

    "Men must do somewhat while their knees are yet nimble”

    ہر شخص کا فرض ہے کہ جب تک اس کے گھٹنوں کا پھرتیلا پن سلامت ہے، وہ جو کچھ بھی کر سکتا ہے وہ کر دکھائے۔

    اس شاعر پر آفرین ہو جس نے سوا دو ہزار سال پہلے جوڑوں کے درد کو عالمی ادب میں جگہ دی۔ اہلِ روم بھی اس سلسلہ میں زیادہ پیچھے نہیں رہے۔ ایک بہت پرانی کہانی میں نوجوان لڑکی باپ کو جو گرمیوں کے موسم میں درخت کے نیچے لیٹا ہوا ہے، ایک کتاب پڑھ کر سنا رہی ہے۔ جملہ معترضہ کے طور پر مصنف نے یہ اضافہ کیا کہ باپ ریشمی غالیچہ پر لیٹا ہوا ہے، تا کہ وہ گنٹھیا کے درد سے محفوظ رہے۔

    میں عالمی ادب کی تاریخ ایک طرف رکھ دیتا ہوں اور تہذیبِ عالم کی تاریخ اٹھا لیتا ہوں۔ داستان کا تعلق ملکہ میری اسکاتلندی سے ہے۔ اسے پرستان کی ملکہ کہتے ہیں۔ پیدائش کے ایک ہفتہ بعد وہ اسکاٹ لینڈ کی ملکہ اور سولہ سال کی عمر میں فرانس کی ملکہ بن گئی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی۔ قسمت کا پھیر اسے فرانس سے واپس اسکاٹ لینڈ لے گیا۔

    ہر روز بغاوت، ہر شب سازش، اکثر شکست، گاہے قید، بار بار فرار، کبھی میدانِ جنگ سے اور کبھی قید خانے سے۔ سالہا سال حراست میں رہنے کی وجہ سے اس کی صحت خراب ہو گئی۔ پینتیس برس کی عمر میں بال سفید ہو گئے اور گنٹھیا سے ٹانگیں اتنی سوج گئیں کہ دو چار قدم چلنا بھی دشوار ہو گیا۔

    چوالیس سال کی عمر میں اس نے چہرے پر نقاب ڈالا، روتی ہوئی وابستہ دامن خواتین کو صبر کی تلقین کی اور اپنا وبالِ دوش سر شاہانہ وقار کے ساتھ مشینِ گردن زنی کے کندھے پر رکھ دیا۔ مشین چلی۔ سر اُچھل کر دُور جا گرا۔ بے حس ٹانگیں جہاں تھیں وہیں پڑی رہیں۔”

    (مختار مسعود کی کتاب حرفِ شوق سے اقتباس)

  • "موئے کبوتر باز”

    "موئے کبوتر باز”

    میں ایک میاں ہوں۔ مطیع و فرماں بردار، اپنی بیوی روشن آرا کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ رکھنا اصولِ زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیر کرے۔

    چناں چہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات و خصائل سے واقف ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اتنے ہی روشن آرا کو برے لگتے ہیں۔ میرے احباب کی جن اداؤں نے مجھے مسحور کر رکھا ہے انہیں میری اہلیہ ایک شریف انسان کے ليے باعثِ ذلّت سمجھتی ہیں۔

    آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدانخواستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں، جن کا ذکر کسی معزز مجمع نہ کیا جاسکے۔ کچھ اپنے ہنر کے طفیل اور کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں۔ لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔

    مثلاً مرزا صاحب ہی کو لیجیے، اچھے خاصے اور بھلے آدمی ہیں۔ گو محکمہ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن شکل و صورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جوا وہ نہیں کھیلتے، گلی ڈنڈے کا ان کو شوق نہیں۔ جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں پکڑے گئے۔ البتہ کبوتر پال رکھے ہیں، ان ہی سے جی بہلاتے ہیں۔

    ہماری اہلیہ کی یہ کیفیت ہے کہ محلے کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہوجائے تو اس کی ماں کے پاس ماتم پرسی تک کو چلی جاتی ہیں۔ گلی ڈنڈے میں کی آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔ کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو گھنٹوں آنسو بہاتی رہتی ہیں، لیکن وہ بزرگ جن کو دنیا بھر کی زبان میں مرزا صاحب کہتے تھکتی ہے وہ ہمارے گھر میں "موئے کبوتر باز” کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔

    کبھی بھولے سے بھی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی چیل، کوئے، گدھ، شکرے کو دیکھنے لگ جاؤں تو روشن آرا کو فوراً خیال ہوجاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوتر باز بننے لگا۔

    اس کے بعد مرزا صاحب کی شان میں ایک قصیدہ شروع ہو جاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بحر میں، کبھی چھوٹی بحر میں۔

    ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا، تو میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس مرزا کم بخت کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دوں گا، آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ بیوی کے باہمی اخلاص کے مقابلے میں دوستوں کی خوش نودی کیا چیز ہے؟

    چناں چہ ہم غصّے میں بھرے ہوئے مرزا صاحب کے گھر گئے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے لگے اندر آجاؤ۔ ہم نے کہا، نہیں آتے، تم باہر آؤ۔ خیر اندر گیا۔ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر کی چونچ منہ میں لیے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے بیٹھ جاؤ ہم نے کہا، بیٹھیں گے نہیں، آخر بیٹھ گئے۔ مرزا بولے کیوں بھئی؟ خیر باشد! میں نے کہا کچھ نہیں۔ کہنے لگے اس وقت کیسے آنا ہوا؟

    اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو، پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا اس ليے کسی ڈھنگ سے بات شروع کرو۔ لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں، آخر ہم نے کہا۔

    "مرزا، بھئی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں؟” یہ سنتے ہی مرزا صاحب نے چین سے لے کر امریکا تک کے تمام کبوتروں کو ایک ایک کرکے گنوانا شروع کیا۔ اس کے بعد دانے کی مہنگائی کے متعلق گل افشانی کرتے رہے اور پھر محض مہنگائی پر تقریر کرنے لگے۔ اس دن تو ہم یوں ہی چلے آئے لیکن ابھی کھٹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔

    خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شام کو گھر میں ہماری صلح ہوگئی۔ ہم نے کہا، چلو اب مرزا کے ساتھ بگاڑنے سے کیا حاصل؟ چناں چہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلح صفائی ہوگئی لیکن میری زندگی تلخ کرنے کے ليے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔

    ( ممتاز ادیب اور مزاح نگار پطرس بخاری کے مضمون "میں ایک میاں‌ ہوں” سے اقتباس)

  • نہ مرغا امّاں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا

    نہ مرغا امّاں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا

    میں نے اپنے بابا جی کو بہت ہی فخرسے بتایا کہ میرے پاس دو گاڑیاں ہیں اور بہت اچھا بینک بیلنس ہے، میرے بچے اچھے انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں، عزت شہرت سب کچھ ہے، دنیا کی ہر آسائش ہمیں میسر ہے اس کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی ہے۔

    میری یہ بات سننی تھی کہ انھوں نے جواب میں مجھے کہا کہ یہ کرم اس لیے ہوا کے تُو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں۔ میں نے جب اس بات کی وضاحت چاہی۔ بابا نے کہا:

    اشفاق احمد، میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے س خصوصی محبت تھی۔ اماں اپنی بک (مٹھی) بھر کے مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں اور ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ میں پیٹ بھر کے مستیوں میں لگ جاتا۔ میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے بنا محنت کیے اس کو اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔

    ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا، حسبِ معمول اماں آئی اور دانوں کی بک بھری کہ مرغے کو رزق دے، اماں نے جیسے ہی مٹھی آگے کی مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی۔

    اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا تو دانے پورے صحن میں بکھر گئے۔ اماں ہاتھ سہلاتی اندر چلی گئی اور ککڑ (مرغا) جو ایک جگہ کھڑا ہو کر آرام سے پیٹ بھرا کرتا تھا اب وہ پورے صحن میں بھاگتا پھر رہا تھا۔ کبھی دائیں جاتا کبھی بائیں کبھی شمال کبھی جنوب۔ سارا دن مرغا بھاگ بھاگ کے دانے چگتا رہا۔ تھک بھی گیا اور اس کا پیٹ بھی نہیں بھرا۔

    بابا دین مُحمد نے کچھ توقف کے بعد پوچھا بتاؤ مرغے کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ میں نے فٹ سے جواب دیا نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا، بابا بولا بالکل ٹھیک۔ یاد رکھنا اگر اللہ کے بندوں کو حسد، گمان، تکبر، تجسس، غیبت اور احساسِ برتری کی ٹھونگیں مارو گے تو اللہ تمھارا رزق مشکل کر دے گا اور اس اصیل ککڑ کی طرح مارے مارے پھرو گے۔

    تُو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑیں، رب نے تیرا رزق آسان کر دیا۔ بابا عجیب سی ترنگ میں بولا:

    پیسہ، عزت، شہرت، آسودگی حاصل کرنے اور دکھوں سے نجات کا آسان راستہ سن لے۔ اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والا، ان کی تعریف کرنے والا ان سے مسکرا کے بات کرنے والا اور دوسروں کو معاف کرنے والا کبھی مفلس نہیں رہتا۔ آزما کر دیکھ لو۔

    (اردو کے مشہور و معروف ادیب اور ڈراما نویس اشفاق احمد کا تحریر کردہ سبق آموز پارہ)

  • اسرار احمد کے یومِ پیدائش پر ابنِ صفی کی برسی!

    اسرار احمد کے یومِ پیدائش پر ابنِ صفی کی برسی!

    26 جولائی شہرۂ آفاق جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی تاریخِ پیدائش ہی نہیں‌ یومِ وفات بھی ہے۔ 1928 کو قصبہ نارہ، ضلع الہ آباد میں‌ پیدا ہونے والے اسرار احمد کی زندگی کا سفر 1980 میں تمام ہوا۔ اس سفر کے دوران اسرار احمد نے دنیا بھر میں‌ اپنے قلمی نام ابنِ صفی سے پہچان بنائی اور آج بھی ان کا نام جاسوسی ادب میں‌ سرِفہرست اور معتبر ہے۔

    ابنِ صفی نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز غزل گوئی سے کیا اور اسرار ناروی تخلص اختیار کیا۔ بعد میں‌ وہ نثر کی طرف متوجہ ہوئے اور طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے۔ 1952 میں ابنِ صفی نے جاسوسی کہانیاں‌ اور پھر باقاعدہ ناول لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جس نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    ان کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ 1952 میں شایع ہوا اور اسی سال وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ یہاں انھوں نے’’عمران سیریز‘‘ کے عنوان سے ایک اور سلسلہ شروع کیا جس کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ 1955 میں شایع ہوا۔

    ابن صفی کے دو ناولوں پر فلم بھی بنائی گئی۔ اپنی زندگی کی 52 ویں سال گرہ کے روز وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے ناولوں کے کردار آج بھی قارئین کو یاد ہیں‌۔ جاسوسی ادب میں ابنِ صفی کی تخلیقات کو دنیا بھر میں‌ سراہا گیا اور اپنے دور کے کئی اہم اور نام ور غیر ملکی ادیبوں اور نقادوں نے بھی ان کے فن اور تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔

  • وہ نام وَر ادیب جنھوں نے ریڈیو کے لیے کہانیاں لکھیں

    وہ نام وَر ادیب جنھوں نے ریڈیو کے لیے کہانیاں لکھیں

    ریڈیو پر کہانی یا افسانہ پیش کرنے اور سننے سنانے کا رواج کئی دہائیوں پر محیط ہے۔

    متحدہ ہندوستان میں آل انڈیا ریڈیو مختلف اسٹیشنوں سے مختلف زبانوں میں کہانیاں نشر کرتا رہا ہے۔ آل انڈیا ریڈیو سے دنیا کی مختلف زبانوں کی تخلیقات ترجمہ ہو کر اور کئی قسط وار ناول بھی پیش کیے گئے جن کا خوب شہرہ ہوا اور انھیں بے حد سراہا گیا۔

    اردو کے عظیم ناول نویس مرزا ہادی رسوا جن کا ناول امراﺅ جان ادا، پریم چند کا ناول گئو دان اور رتن ناتھ سرشارکا ناول فسانۂ آزاد وغیرہ قسط وار نشر ہوئے اور انھیں بے حد پسند گیا۔

    اسی طرح اردو کے کئی نام ور اور اہم ادیبوں نے باضابطہ ریڈیو سے وابستہ ہوکر کہانیاں اور ڈرامے لکھے۔

    ریڈیو کے سامعین کو اپنی تخلیقات سے محظوظ کرنے والوں میں سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر اور اوپندر ناتھ اشک شامل ہیں۔ یہ اردو کے وہ ادیب ہیں جنھوں نے باقاعدہ ریڈیو میں ملازمت اختیار کی، اس میڈیم کے لیے لکھا اور ان کے ریڈیائی ڈرامے ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد یہ سلسلہ آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان کی صورت میں جاری رہا اور سرحد کے دونوں پار بسنے والے ادیبوں اور تخلیق کاروں نے ریڈیو کے سامعین کے لیے معیاری کہانیاں اور افسانے پیش کیے۔