Tag: مشہور اردو شاعر

  • یومِ وفات: کاروانِ علم و ادب سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والے محسن احسان کا تذکرہ

    یومِ وفات: کاروانِ علم و ادب سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والے محسن احسان کا تذکرہ

    محسن احسان اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور ماہرِ تعلیم تھے، جنھوں‌ نے زندگی کی 77 بہاریں دیکھیں اور 2010ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے دنیا سے ناتا توڑ لیا۔

    محسن احسان کا تعلق پاکستان کے صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) سے تھا جہاں رہتے ہوئے انھوں نے اردو ادب کی آب یاری کی اور زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ اسی زمین کی فارغ بخاری، رضا ہمدانی، خاطر غزنوی، شوکت واسطی اور احمد فراز جیسی قد آور شخصیات کے ہم عصروں میں سے ایک تھے۔

    پشاور کے محسن احسان نے لندن میں اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں سرطان کا مرض لاحق تھا۔

    محسن احسان نے انگریزی ادب میں‌ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پشاور کے اسلامیہ کالج سے استاد اور پھر بحیثیت سربراہِ شعبہ انگریزی وابستگی اختیار کی۔ تدریس کے ساتھ وہ علمی و ادبی سرگرمیاں بھی انجام دیتے رہے اور شاعری کا سفر جاری رکھا۔

    ان کا اصل نام احسان الٰہی تھا۔ وہ 15 اکتوبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے 35 سال تک تدریس کے شعبے میں‌ خدمات انجام دیں۔

    انھوں نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان نظموں اور غزلوں کے مجموعے ناتمام، ناگزیر، ناشنیدہ، نارسیدہ اور سخن سخن مہتاب کے نام سے شایع ہوئے جب کہ نعتیہ شاعری کا مجموعہ اجمل و اکمل کے نام سے اشاعت پزیر ہوا تھا۔

    محسن احسان نے قومی و ملّی نغمات بھی لکھے۔ ان کا یہ کلام مٹی کی مہکار کے نام سے منظر عام پر آیا۔

    ادبِ‌ اطفال کی بات کی جائے تو انھوں نے پھول پھول چہرے کے نام سے خوب صورت نظموں کا مجموعہ بچّوں کے لیے پیش کیا۔

    ان کا ایک کارنامہ خوش حال خان خٹک اور رحمٰن بابا کی شاعری کو اردو کے قالب میں‌ ڈھالنا ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    یہاں ہم محسن احسان کی ایک غزل باذوق کی نذر کررہے ہیں۔

    میں ایک عمر کے بعد آج خود کو سمجھا ہوں
    اگر رکوں تو کنارا، چلوں تو دریا ہوں

    جو لب کشا ہوں تو ہنگامۂ بہار ہوں میں
    اگر خموش رہوں تو سکوتِ صحرا ہوں

    تجھے خبر بھی ہے کچھ اے مسرتوں کے نقیب
    میں کب سے سایۂ دیوارِ غم میں بیٹھا ہوں

    مری خودی میں نہاں ہے مرے خدا کا وجود
    خدا کو بھول گیا جب سے خود کو سمجھا ہوں

    میں اپنے پاؤں کا کانٹا، میں اپنے غم کا اسیر
    مثالِ سنگِ گراں راستے میں بیٹھا ہوں

    بلندیوں سے مری سمت دیکھنے والے
    مرے قریب تو آ میں بھی ایک دنیا ہوں

    اگر ہے مقتلِ جاناں کا رخ تو اے محسنؔ
    ذرا ٹھہر کہ ترے ساتھ میں بھی چلتا ہوں

  • نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    مجروح سلطان پوری کا شمار اردو کے ممتاز ترقّی پسند غزل گو شعرا میں ہوتا ہے جو 24 مئی 2000ء کو ممبئی میں‌ وفات پاگئے تھے۔

    مجروح سلطان پوری کا تعلق بھارت سے تھا۔ وہ 1919ء میں اتّر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ خاندانی نام اسرار حسن خان تھا اور مجروح تخلّص۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ والد محکمہ پولیس میں‌ ملازم تھے۔ اس زمانے میں تحریکِ خلافت زوروں پر تھی۔ وہ انگریزوں اور ان کی زبان سے نفرت کا دور تھا۔ والد نے انھیں‌ بھی کسی اسکول میں بھیجنے اور انگریزی کی تعلیم دینے کے بجائے ایک مدرسہ میں داخل کروا دیا جہاں مجروح نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ تاہم مدرسے کے ماحول میں خود کو نہ ڈھال سکے اور تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ 1933ء میں لکھنؤ کے ایک کالج سے حکمت میں سند حاصل کی اور مطب کرلیا، لیکن یہ تجربہ ناکام رہا۔ اسی زمانے میں مجروح موسیقی میں دل چسپی لینے لگے تھے اور پھر 1935 ء میں شاعری شروع کردی۔ مشاعروں میں ان کا ترنم بھی مشہور تھا۔

    مجروح کو جگر مراد آبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی کی رفاقت نصیب ہوئی۔ اس وقت کے دیگر شعرا نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی، جگر صاحب انھیں اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے لگے تھے جہاں‌ اپنے کلام کی بدولت مجروح سلطان پوری نے اپنی منفرد پہچان بنائی، ممبئی کے ایک مشاعرے میں ایک نام وَر فلم ڈائریکٹر نے ان کا کلام سنا تو فلموں کے لیے گیت لکھنے پر آمادہ کر لیا اور ان کا یہ سفر نہایت کام یاب رہا۔

    مجروح نے کئی برس ہندوستان کی فلم نگری کے لیے گیت تحریر کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1965ء میں انھیں فلم دوستی کے سپر ہت گیت "چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے” پر بہترین نغمہ نگار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ 1993ء میں بھارت کی فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا "دادا صاحب پھالکے ایوارڈ” بھی ان کے نام ہوا۔

    جگن ناتھ آزاد کے مطابق مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔

    ان کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول تھا، مجروح کے کئی اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہے اور تقریر سے تحریر تک یہ اشعار موضوع کا حصّہ ہوتے ہیں۔ ان کے چند مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
    جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے

    جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
    تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی

    ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
    جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

  • بُوئے کباب، بلبل کا دل اور جگرؔ

    بُوئے کباب، بلبل کا دل اور جگرؔ

    کسی مشاعرے میں ایک استاد اٹھے اور انھوں نے طرح کا ایک مصرع دیا۔

    ’’چمن سے آرہی ہے بوئے کباب‘‘

    بڑے بڑے شاعروں نے طبع آزمائی کی، لیکن کوئی کمال گرہ نہ لگا سکا۔ ان میں سے ایک شاعر نے قسم کھالی کہ جب تک گرہ نہ لگائیں گے، چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اس کا طریقہ انھوں نے یہ نکالا کہ ہر صبح دریا کے کنارے چلے جاتے اور وہاں بیٹھ کر اونچی آواز سے الاپتے،’’چمن سے آرہی ہے بوئے کباب‘‘

    ایک روز وہ دریا کنارے اسی مصرع میں الجھے ہوئے بیٹھے تھے۔ قریب سے ایک نوعمر لڑکا گزر رہا تھا جس کے کان میں یہ مصرع پڑا۔ اس لڑکے نے فوراً گرہ لگائی:

    ’’کسی بلبل کا دل جلا ہوگا‘‘

    شاعر نے پلٹ کر دیکھا اور ان سے رہا نہ گیا، دوڑے اور اس لڑکے کو سینے سے لگالیا۔ معلوم ہوا اس کا نام علی سکندر ہے۔ یہی لڑکا بعد میں جہانِ سخن میں اپنے تخلّص، جگر سے مشہور ہوا۔ جگر نے اپنے تخلّص میں آبائی علاقے کی نسبت مراد آبادی کا اضافہ کیا اور جگر مراد آبادی کے نام سے استاد شاعر مشہور ہوئے۔

    (ادیبوں اور شعرا کے مشہور لطائف اور تذکروں سے انتخاب)

  • نام وَر شاعر، نظمانے کے موجد محسن بھوپالی کی برسی

    نام وَر شاعر، نظمانے کے موجد محسن بھوپالی کی برسی

    معروف شاعر محسن بھوپالی 17 جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا جن کا خاندان تقسیمِ ہند کے بعد بھوپال سے ہجرت کرکے پاکستان کے شہر لاڑکانہ میں سکونت پذیر ہوا۔

    29 ستمبر 1932ء میں پیدا ہونے والے محسن بھوپالی نے کراچی کے این ای ڈی انجینئرنگ کالج سے سول انجینئرنگ میں ڈپلوما کورس کے بعد حکومتِ‌ سندھ کے محکمہ تعمیرات میں‌ ملازمت حاصل کی۔ اسی دوران جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔

    محسن بھوپالی نے 1948ء میں شاعری کا آغاز کیا۔ وہ اپنے ہم عصر شعرا میں اپنی فکر اور شعری اسلوب کے سبب پہچان بناتے چلے گئے۔ انھوں نے اردو ادب کو اپنی تخلیقات کے علاوہ ایک صنفِ سخن نظمانے بھی دی۔ ان کے شعری مجموعوں میں‌ شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت شامل ہیں‌جب کہ قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، جاپان کے چار عظیم شاعر بھی ان کی تصانیف ہیں۔

    محسن بھوپالی کے اوّلین شعری مجموعے کی تقریبِ رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے جن کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    ان کا یہ شعر آج بھی تحریر سے تقریر تک خیالاتِ پریشاں کو سمیٹنے اور حالاتِ سیاست پر تبصرہ کرنے کے لیے لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔

    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    محسن بھوپالی کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • کتب خانہ رام پور اور مومن کی تصویر

    کتب خانہ رام پور اور مومن کی تصویر

    کسی فن کار یا شاعر کی صلاحیتوں اور تخلیقی عوامل کو سمجھنے کے لیے اس کے حالاتِ زندگی اور ان کے توسط سے اس کی شخصیت اور سیرت کا مطالعہ اور تجزیہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ حکیم مومن خاں مومن دہلوی کے زندگی کے تفصیلی حالات معلوم نہیں۔

    ضمیرالدین احمد عرش گیاوی المعروف عرش گیاوی نے مومن کی سوانح عمری لکھنے کی ٹھانی، لیکن حیاتِ مومن کی کڑیاں غائب تھیں۔ انھیں ملانے کے لیے انھوں نے دن رات ایک کیے۔ نجانے کتنے لوگوں کی چوکھٹ پر حاضری دی۔ نجانے کتنے دروازوں پر دستکیں دیں۔ شہروں کی خاک چھانی، دہلی کی دھول پھانکی۔

    عرش، مومن کی تصویر کے حصول کے لیے امیراللہ تسلیم لکھنوی کے پاس پہنچے، لیکن ان کی پیری(بڑھاپے اور ضعف) نے مایوس کیا۔ علی گڑھ کے راستے رام پور گئے۔ دورانِ سفر حسرت موہانی مل گئے۔ انھوں نے بتایا کہ مومن کی ایک تصویر کتب خانہ رام پور کی ملک ہے اور وہاں موجود ہے۔ پرانے لوگوں سے معلوم ہوا کہ مومن غدر سے بہت پہلے رام پور آئے تھے۔ اسی زمانے میں ان کی تصویر کھینچی گئی تھی۔ عرش لکھتے ہیں:

    اس کے علاوہ میرے اک دیرینہ کرم فرما مولانا شاہ مبارک حسین مرحوم متوطن بہبوہ ضلع شاہ آباد کے فقیر، حکیم اور منجم بھی تھے اور عرصہ تک رام پور میں مقیم رہے تھے۔ مجھ سے آنکھوں کی دیکھی کہتے تھے کہ کتب خانے میں مومن کی وہ تصویر میں نے خود دیکھی تھی اور اس پر مومن کے قلم سے لکھے ہوئے کچھ شعر بھی دیکھے تھے۔چناں چہ شاہ صاحب نے بھی اپنی حیات میں بڑی کوشش کی مگر اخیر میں یہ سنا گیا کہ پرانے چوکھٹے سب ہٹا دیے گئے۔ غرض ان کے علاوہ ایک کیا صدہا کوششیں اس تصویر کے لیے کیں، اخبارات اور رسالوں میں تحریک کی، مگر وہ نہ ملی۔

    مومن کی جو تصویر آج ہم تک پہنچی ہے، وہ مرزا فرحت اللہ بیگ دہلوی کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔

    (معید رشیدی کی کتاب سے ایک ورق، مرزا غالب کے ہم عصر اور اردو زبان کے مشہور شاعر حکیم مومن خاں مومن کے اس تذکرے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں‌ کسی شخصیت کے حالاتِ‌ زندگی معلوم کرنے اور کسی دوسرے شہر کے بسنے والے کی تحریر و تصویر کا حصول کس قدر مشکل تھا اور محقق کو سفر کی صعوبت کے ساتھ مال بھی خرچ کرنا پڑتا تھا)

  • شکیبؔ جلالی: وہ نام وَر جس نے صفحۂ زیست سے اپنا نام کھرچ دیا

    شکیبؔ جلالی: وہ نام وَر جس نے صفحۂ زیست سے اپنا نام کھرچ دیا

    بیسویں صدی کے نصف اوّل میں برصغیر میں شاعری کے میدان چند ایسے تخلیق کار سامنے آئے جنھوں نے غزل میں اپنے تخیّل اور خیالات و تجربات کو نہایت منفرد اور جداگانہ انداز سے ڈھالا اور جہانِ‌ سخن میں ممتاز ہوئے۔ شکیب جلالی انہی شعرا میں‌ شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے 12 نومبر 1966 کو یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    ان کا اصل نام سید حسن رضوی تھا اور شکیب تخلص۔ وہ یکم اکتوبر 1934ء کو اتر پردیش کے شہر علی گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ شکیب تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے تھے جہاں 32 برس کی عمر میں انھوں‌ نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

    برصغیر کی تقسیم کے بعد پاک و ہند میں جن غزل گو شعرا نے اپنے منفرد لب و لہجے اور فکرِ تازہ کے ساتھ ہم عصروں سے ہٹ کر اظہار کا سلیقہ اپنایا، ان میں یہ جواں‌ مرگ شاعر بھی شامل ہے۔

    اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر شکیب جلالی نے بلاشبہ غزل کو ایک نیا لہجہ اور نیا آہنگ دیا۔ ان کا شعری مجموعہ روشنی اے روشنی 1972ء میں شائع ہوا جب کہ 2004ء میں ان کا کلیات بھی منظرِ‌ عام پر آیا۔

    شکیب جلالی کی غزلوں‌ نے جہاں‌ انھیں ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز کیا، وہیں شعروسخن کا عمدہ ذوق رکھنے والا ہر قاری ان سے متاثر نظر آیا اور ان کے اشعار زباں زدِ‌ عام ہوئے۔ اردو غزل کے حوالے سے شکیب کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کا کلام ندرتِ خیال اور منفرد اسلوب کے سبب ہمیشہ تازہ رہے گا۔

    شکیب جلالی کے یہ اشعار پڑھیے۔

    شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
    ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

    جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
    مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
    نہ اتنی تیز چلے، سَر پھری ہوا سے کہو
    شجر پہ ایک ہی پتّہ دکھائی دیتا ہے

  • جَل پریوں کے ساتھ رہنے والا ثروت حسین

    جَل پریوں کے ساتھ رہنے والا ثروت حسین

    موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ
    لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خود کُشی کے بارے میں

    9 ستمبر 1996 کو کراچی میں اردو کے معروف شاعر ثروت حسین ٹرین کے ایک حادثے میں زندگی سے محروم ہوگئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں‌ نے خود کُشی کی تھی۔ ثروت حسین 9 نومبر 1949 کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد بدایوں‌ سے ہجرت کرکے کراچی میں‌ آبسے جہاں‌ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ثروت حسین نے شعبہ تدریس سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ زندگی کے آخری دنوں‌ میں‌ وہ گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج ملیر میں اپنے فرائض‌ انجام دے رہے تھے۔

    ثروت حسین کو اردو زبان میں‌ ان کے جداگانہ اسلوب اور غزل جیسی صنفِ سخن کو ایک نئے مزاج، خوب صورت طرز اور لفظیات سے روشناس کرانے والا شاعر مانا جاتا ہے۔ انھوں‌ نے نثری نظم کو بھی اعتبار بخشا۔

    ثروت حسین کا پہلا مجموعہ آدھے سیارے پر 1989 میں شائع ہوا تھا جسے ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی تھی۔ دوسرا مجموعہ کلام خاک دان ان کی موت کے بعد 1998 میں شایع ہوا۔

    ثروت حسین کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    غزل
    لہر لہر آوارگیوں کے ساتھ رہا
    بادل تھا اور جَل پریوں کے ساتھ رہا
    کون تھا میں، یہ تو مجھ کو معلوم نہیں
    پُھولوں، پتّوں اور دِیوں کے ساتھ رہا
    مِلنا اور بچھڑ جانا کِسی رستے پر
    اک یہی قصّہ آدمیوں کے ساتھ رہا
    وہ اک سُورج صبح تلک مرے پہلو میں
    اپنی سب ناراضگیوں کے ساتھ رہا
    سب نے جانا بہت سبک، بے حد شفّاف
    دریا تو آلودگیوں کے ساتھ رہا

  • مشرقی تہذیب کا دلدادہ شاعر جسے اردو رسمُ الخط سے چڑ تھی

    مشرقی تہذیب کا دلدادہ شاعر جسے اردو رسمُ الخط سے چڑ تھی

    فانیؔ بدایونی یوں تو مشرقی تہذیب کے بڑے دلدادہ تھے، لیکن انھیں اردو رسمُ الخط سے سخت چڑ تھی۔

    اس کے برعکس وہ رومن رسمُ الخط کے بڑے حامی تھے چنانچہ اپنی غزلیں انگریزی ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کرتے تھے۔ اس موضوع پر ان میں اور مولوی صاحب (مولانا ابوالخیر مودودی) میں خوب خوب بحثیں ہوتی تھیں۔ مولوی صاحب سے فانی کی دلیلوں کو جواب نہ بن پڑتا تو غصہ میں آپے سے باہر ہو جاتے اور فانی کو جی بھر کر برا بھلا کہتے مگر فانی ہنستے رہتے تھے۔

    فانی کو مولوی صاحب کو چھیڑنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ چناں چہ مولوی صاحب سے ملنے جاتے تو تین چار غزلیں رومن رسم الخط میں ٹائپ کر کے ضرور ساتھ لے جاتے تھے۔

    مولوی صاحب فانی سے بڑی محبت سے ملتے۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد تان لامحالہ فانی کی شاعری پر ٹوٹتی۔ مولوی صاحب کہتے کوئی نئی چیز لکھی ہو تو سناؤ۔ فانی مسکرا کر ٹائپ شدہ غزلیں جیب سے نکالتے اور مولوی صاحب کی طرف بڑھا دیتے اور مولی صاحب ان کاغذوں کو یوں اٹھا کر پھینک دیتے گویا اچانک بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔

    فانی ہنستے ہوئے تمام کاغذ فرش سے اٹھا لیتے اور غزلیں سنانے لگتے۔ غزلیں سن کر مولوی صاحب کا غصہ فرو ہو جاتا تھا۔

    (اقتباس از شہرِ نگاراں مصنف سبطِ حسن)

  • سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں

    سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں

    احمد فراز اپنے عہد کے مقبول ترین شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    احمد فراز کا رومانوی کلام اور مزاحمتی شاعری ان کی وجہِ شہرت ہے۔ ان کے مقبولِ عام کلام سے چند اشعار باذوق قارئین کی نذر ہیں۔

    سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
    سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
    سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
    سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
    سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
    یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
    ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
    سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
    سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
    سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
    سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی
    جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
    کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

    بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
    سو رہروانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
    مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں

    رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
    چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

    کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
    اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

    اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
    فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

  • اسرار الحق کو گھر میں "جگن” کیوں‌ کہا جاتا تھا؟

    اسرار الحق کو گھر میں "جگن” کیوں‌ کہا جاتا تھا؟

    اسرار الحق مجاز کی شاعری میں‌ انقلاب کی دھمک، رومان کی ترنگ، کیف و مستی، درد و غم، رنج و الم سبھی کچھ ملتا ہے۔

    اردو زبان کے اس مشہور شاعر نے جہاں‌ زندگی کی رعنائیوں‌ کو اپنے کلام میں‌ سمیٹ کر داد وصول کی، وہیں اس رندِ بلا خیر کے جنون اور رومان نے اسے‌ "آوارہ” اور "رات اور ریل” جیسی نظموں کا خالق بھی بنایا جنھوں‌ نے اس دور میں‌ ہر خاص و عام کو متاثر کیا۔ اپنی نظموں‌ سے شہرت پانے والے مجاز اپنی چند عادات کی وجہ سے بھی اپنے حلقہ احباب میں‌ خوب یاد کیے جاتے تھے۔

    مشہور ہے کہ اسرار الحق مجاز رات گئے گھر جاتے تھے اور اسی لیے انھیں گھر میں "جگن” کہا جاتا تھا۔

    وہ ہاکی کے اچھے کھلاڑی مانے جاتے تھے۔ پڑھائی کی بات کی جائے تو اکثر امتحانی کاپی سادہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔ زود رنج اور حساس ایسے کہ ایک فساد کے دوران کسی آدمی کو مرتا دیکھا اور تین دن تک کھانا نہ کھا سکے۔

    زمانہ طالبِ علمی میں جہا‌ں کالج کی لڑکیوں میں‌ ان کی شاعری کو بہت پسند کیا جاتا تھا، وہیں ان کے عشق کی سچی جھوٹی کہانیاں، ان کے جنون اور کثرتِ شراب نوشی کا بھی بہت چرچا تھا۔

    اردو زبان کے اس مشہور شاعر کی زندگی پر تین فلمیں بھی بن چکی ہیں۔