Tag: مشہور اردو شاعر

  • دو سو کے بجائے چار سو روپے!

    دو سو کے بجائے چار سو روپے!

    اردو کے نام ور مرثیہ گو شاعر مرزا سلامت علی دبیر بہت حلیم الطبع، منکسر مزاج اور صلح کل انسان تھے اور یہ ان کی شخضیت کے وہ پہلو تھے جن کا اعتراف ان کے حامیوں اور مخالفوں سب کو تھا۔

    انیسؔ کی طبیعت میں ایک بانکپن اور اشتعال پزیری تھی اور ان کی آن بان اور نازک مزاجی مشہور تھی۔

    مزاجوں کا یہ فرق اپنی مخالف جماعت والوں کے ساتھ دونوں استادوں کے سلوک میں بھی نمایاں تھا۔ دبیر کا ایک واقعہ اس طرح ملتا ہے۔

    ایک سید صاحب کو کربلائے معلیٰ جانے کے لیے دو سو روپے درکار تھے۔

    انھوں نے دبیر سے درخواست کی کہ وہ ایک رئیس سے سفارش کرکے جو انیس سے خصوصیت رکھتے تھے انھیں مطلوبہ رقم دلوا دیں۔

    دبیر نے انھیں ساتھ لیا اور رئیس کے یہاں جاکر سفارش کی۔ رئیس نے دو سو کے بہ جائے چار سو روپے سید کو دیے اور کہا، ”میر صاحب! یہ دو سو روپے تو آپ کے مطلوبہ ہیں اور دو سو روپے اس شکریے میں نذرِ سادات کرتا ہوں کہ مرزا صاحب قبلہ کفش خانے پر تشریف لائے۔“

    (ڈاکٹر نیّر مسعود کی کتاب معرکہ انیس و دبیر سے)

  • رضی اختر شوق نے کہا تھا، کل کسی اور نام سے آجائیں‌ گے!

    رضی اختر شوق نے کہا تھا، کل کسی اور نام سے آجائیں‌ گے!

    خواجہ رضی الحسن انصاری کو دنیائے ادب رضی اختر شوقؔ کے نام سے جانتی ہے۔

    انھیں جدید لب و لہجے کا شاعر مانا جاتا ہے۔ رضی اختر شوق نے اردو شاعری میں اپنے تخیل کو کچھ اس سلیقے سے برتا کہ ہم عصروں نے انھیں سراہا اور ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ شائقین نے ان کے کلام کو پسند کیا اور ان کے متعدد اشعار زباں‌ زد عام ہوئے۔

    22 جنوری 1999 کو کراچی میں اردو زبان کے اس معروف شاعر کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ سہارن پور کے رضی الحسن انصاری نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد دکن سے حاصل کی۔ جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کے بعد وہ پاکستان چلے آئے جہاں کراچی میں قیام و قرار کیا۔ اس شہر میں ایم اے کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جامعہ کراچی کا رخ کیا اور امتحان پاس کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔ اسٹوڈیو نمبر نو کے نام سے ریڈیو پر ان کے کئی ڈرامے سامعین کے لیے یادگار ثابت ہوئے۔

    رضی اختر شوق کا شمار ان شعرا میں کیا جاتا ہے جن کا کلام خوب صورت جذبوں اور لطیف احساسات سے آراستہ ہونے کے ساتھ بلند خیالی کا نمونہ ہے۔ ان کے شعری مجموعوں میں مرے موسم مرے خواب اور جست شامل ہیں۔

    رضی اختر شوق کا یہ شعر تو سبھی کو یاد ہے۔

    ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
    کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ

    ان کی ایک غزل دیکھیے۔

    اے خدا صبر دے مجھ کو نہ شکیبائی دے
    زخم وہ دے جو مری روح کو گہرائی دے

    خلقتِ شہر یونہی خوش ہے تو پھر یوں ہی سہی
    ان کو پتّھر دے، مجھے ظرفِ پذیرائی دے

    جو نگاہوں میں ہے کچھ اس سے سوا بھی دیکھوں
    یا اِن آنکھوں کو بجھا یا انہیں بینائی دے

    تہمتِ عشق تو اس شہر میں کیا دے گا کوئی
    کوئی اتنا بھی نہیں طعنہَ رسوائی دے

    مجھ کو اس شہر کی درماندہ خرامی سے الگ
    پھر مرے خواب دے اور پھر مری تنہائی دے