Tag: مشہور اردو کہانیاں

  • جواری لڑکا اور بیج

    پرانے وقتوں کی بات ہے۔ ایک گاؤں میں ایک نوجوان رہتا تھا، جس کی عادتیں خراب ہو گئی تھیں۔

    وہ ہر روز جوا کھیلتا اور اکثر ہار جاتا۔ کبھی کبھی تو وہ ہر چیز جوے میں ہار جاتا تھا اور پھر اپنے باپ کی چیزوں پر ہاتھ صاف کرتا تھا۔ اس کے باپ نے کئی مرتبہ ڈانٹا ڈپٹا، مگر لڑکے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ البتہ دو چیزیں اس کو ایسی عزیز تھیں کہ انھیں کبھی داؤ پر نہیں لگاتا تھا۔ یہ اس کا برچھا اور ڈھال تھی۔

    ایک دن وہ بہت دیر تک جوا کھیلتا رہا اور ان دو چیزوں کے علاوہ ہر چیز ہار گیا۔ جب وہ گھر گیا تو باپ نے پوچھا کہ اتنی دیر تک وہ کیا کرتا رہا؟ اس کو جھوٹ بولنے کی عادت نہیں تھی۔ یہ بڑی خوبی تھی، اس نے سچ سچ کہہ دیا کہ وہ جوا کھیل رہا تھا اور آج ہر چیز ہار گیا۔ اس کا باپ تنگ آ چکا تھا، اس لیے اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا: "میرے بیٹے! ایک مدت سے میں دیکھ رہا ہوں کہ تو جوا کھیلتا ہے۔ میں نے کئی مرتبہ سمجھایا، مگر تو باز نہیں آتا۔ اب میں تیری اس حرکت کو برداشت نہیں کر سکتا۔ تو اب میرے گھر میں نہیں رہ سکتا، تو اب کسی اور جگہ چلا جا۔”

    یہ سن کر نوجوان تھوڑی دیر تک سوچتا رہا، اس کے بعد اس نے کہا: "اچھا میں جاتا ہوں۔ اب میں ان شاءاللہ اچھے اچھے کام کروں گا۔”

    یہ کہہ کر اس نے اپنا برچھا اور ڈھال اٹھائی اور گھر سے نکل گیا اور پھر گاؤں سے باہر چلا گیا۔ کچھ دیر تک وہ چلتا رہا۔ اس کے بعد اچانک اس کو ایک شور سا سنائی دیا، جیسے بڑے زور کی آندھی آ رہی ہو۔ یہ آواز اس کے قریب آتی گئی اور ایسا لگا کہ آواز اس کے سر کے اوپر سے آ رہی ہے، مگر تھوڑی دیر میں آواز آنا بند ہو گئی اور کسی نے کہا: "میں تیری تلاش میں آئی ہوں۔ مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے کہ میں تجھے اپنے ساتھ لے جاؤں۔”

    یہ آواز ہوا کی تھی۔ نوجوان ہوا کے ساتھ جانے پر فوراً تیار ہوگیا۔ ہوا نے اس کو اوپر اٹھایا اور مغرب کی طرف روانہ ہو گئی۔ کئی روز تک وہ دونوں مغرب کی طرف اڑتے رہے۔ راستے میں پہاڑ، دریا، سبزہ زار، ریگستان سب گزرتے رہے۔ آخر وہ دنیا کی آخری سرحد پر وہاں پہنچ گئے، جہاں آسمان جھک کر زمین سے مل جاتا ہے۔ وہاں نوجوان نے آسمان کے کنارے پر بڑا سا پھاٹک دیکھا۔ اس پھاٹک پر ایک بہت بڑا بھینسا راستہ روکے کھڑا تھا۔ اس بھینسے کی کھال لمبے لمبے بالوں سے بھری ہوئی تھی۔ ہر سال اس کی کھال سے ایک بال جھڑ جاتا تھا۔ مشہور تھا کہ جب اس کے تمام بال جھڑ جائیں گے تو تمام دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جب ہوا پھاٹک پر پہنچی تو بھینسا ایک طرف ہٹ گیا۔ ہوا نوجوان کو لے کر پھاٹک کے اندر چلی گئی۔ پھاٹک سے گزرنے کے بعد نوجوان کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ دونوں ایک بڑے سمندر پر سے گزر رہے ہیں۔ آسمان اور پانی کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ آخر کار وہ ایک زمین پر اترے۔ یہاں بہت سارے آدمیوں کا ایک مجمع لگا ہوا تھا۔ ہوا نے نوجوان سے کہا: "یہ سب لوگ بابا کے نوکر چاکر ہیں۔”

    اس مجمع سے گزر کر یہ دونوں آگے بڑھے اور بابا کے محل پر پہنچے۔ محل میں داخل ہو کر دونوں ایک جگہ بیٹھ گئے۔ بابا نے نوجوان سے کہا: "میرے بیٹے! میں تجھے ایک مدت سے جانتا ہوں۔ میں تجھے برابر دیکھتا رہتا تھا، میں تجھ سے ملنا چاہتا تھا، اس لیے میں تجھے جوے میں ہرا دیتا تھا۔ میں نے تجھے بلانے کے لیے اپنی ہوا کو بھیجا۔ تیری قوم کے لوگ آج کل فاقوں سے مر رہے ہیں، کیوں کہ انھیں شکار کرنے کے لیے بھینسے نہیں مل رہے ہیں۔ میں تجھے ایسی چیزیں دوں گا کہ اگر کبھی بھینسے نہ ملیں’ تب بھی تیری قوم بھوکی نہیں رہے گی۔”

    یہ کہہ کر بابا نے اسے تین تھیلیاں دیں۔ ایک تھیلی میں کدو کے بیج تھے، جو سرخ، سفید، نیلے اور پیلے رنگوں کے تھے۔

    بابا نے کہا: "ان تھیلیوں کو تو اپنی ڈھال میں باندھ لے۔ اس کا خیال رکھا کہ کوئی تھیلی گر نہ جائے۔ جب تو اپنی قوم میں پہنچ جائے تو ہر ہر شخص کو ان تھیلیوں کے تھوڑے تھوڑے بیج دے کر کہہ دے کہ وہ انھیں زمین میں گاڑ دیں۔ ان میں سے جو پودے نکلیں گے، ان میں یہی بیج بکثرت پیدا ہو جائیں گے۔ یہ سب کھانے کے قابل اور مزے دار ہوں گے، مگر پہلے سال ان کو کوئی نہ کھائے، بلکہ جو بیج حاصل ہوں، انھیں پھر زمین میں بو دیں۔ اس کے بعد ان پودوں میں جو کچھ بیج لگیں گے، ان کا ایک حصہ کھا لیں اور ایک حصہ پھر بو دیں۔ اس طرح تیری قوم کے پاس ہر وقت کچھ نہ کچھ موجود رہے گا، خواہ بھینسوں کا شکار ملے یا نہ ملے۔”

    یہ کہہ کر بابا نے اس کو بھینسے کی ایک جھول بھی دی اور کہا: "کل جب تو اپنے گاؤں پہنچ جائے تو اپنی قوم کے لوگوں کو اپنے گھر پر جمع کر اور جو کچھ اس جھول میں ہے’ ان لوگوں کو دے دینا اور یہاں کی سب باتیں بتا دینا۔ اچھا اب تو چلا جا۔”

    ہوا اس نوجوان کو پھر اڑا کر لے گئی۔ وہ بہت دیر تک اڑتے رہے۔ اور گاؤں پہنچ گئے۔ وہاں ہوا نے آہستہ سے اس کو زمین پر اتار دیا۔ نوجوان اپنے باپ کے گھر پہنچا اور کہا: "ابا! دیکھو’ میں آگیا ہوں۔”

    باپ کو یقین نہیں آیا۔ اس نے کہا: "تو میرا بیٹا نہیں ہے!”

    نوجوان کو گاؤں سے گئے ہوئے اتنی مدت گزر چکی تھی کہ سب نے یہ سمجھ لیا کہ وہ کہیں مرکھپ گیا ہو گا۔ باپ کا جواب سن کر نوجوان ماں کے پاس گیا اور کہا: "اماں! دیکھو میں آگیا ہوں۔”

    ماں اس کو پہچان گئی اور بہت خوش ہوئی۔ اس زمانے میں گاؤں والے بھینسوں کو تلاش کر رہے تھے، مگر کوئی بھینسا نہیں ملا تھا۔ سب کے سب فاقے کر رہے تھے۔ چھوٹے بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔

    دوسرے دن نوجوان نے ایک بوڑھے آدمی کو قوم کے تمام آدمیوں کے پاس بھیج کر انھیں اپنے باپ کے گھر بلوایا۔ جب سب جمع ہو گئے تو اس نے وہ جھول کھولی۔ جھول کھول کر بچھاتے ہی اس پر بھینسے کے عمدہ، چربی دار گوشت کا ڈھیر نظر آیا۔ نوجوان نے ہر ایک کو اتنا گوشت دیا’ جتنا وہ اٹھا کر لے جا سکتا تھا۔ نوجوان جب گوشت تقسیم کر رہا تھا تو اس کے باپ نے چاہا کہ بھینسے کی دو پچھلی ٹانگیں چپکے سے نکال کر کہیں چھپا دے۔ باپ کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں نوجوان سارا گوشت تقسیم نہ کر دے اور ان کے اپنے لیے کچھ نہ رہے۔ اتفاق سے نوجوان نے اپنے باپ کی یہ حرکت دیکھ لی۔ اس نے اپنے باپ سے چپکے سے کہا: "ابا! اس میں سے کچھ نہ لو۔ اس گوشت کو ہاتھ نہ لگاؤ۔ گوشت سب کو کافی ہو جائے گا۔”

    جب نوجوان سب گوشت تقسیم کر چکا تو اس نے وہ تھیلیاں نکالیں اور سب کو سمجھا دیا کہ وہ بیج بو دیں، مگر پہلے سال اس کی پیدوار میں سے کچھ نہ کھائیں۔ دوسرے سال پھر بو دیں اور پیداوار کا ایک حصہ کھائیں اور ایک حصہ بونے کے لیے رکھ دیں۔

    سب آدمیوں نے اس کی ہدایت غور سے سنی اور ان پر عمل کرنے کا وعدہ کیا۔

    اس کے بعد نوجوان نے کہا: "میں نے سنا ہے تمھیں کئی روز سے شکار نہیں ملا۔ کل تم سب لوگ میرے ساتھ شکار کے لیے چلو، میں تمھیں ایسی جگہ لے جاؤں گا جہاں بھینسے موجود ہیں۔”

    یہ سن کو لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی، کیوں کہ وہ گاؤں کے اطراف کا سارا علاقہ چھان چکے تھے۔

    دوسرے دن سب گاؤں والے اس نوجوان کے ساتھ شکار کو نکلے۔ گاؤں سے کچھ دور جانے کے بعد وہ لوگ ایک پہاڑی کے قریب پہنچے۔ نوجوان نے دو لڑکوں کو پہاڑی پر بھیجا اور کہا: "اس پر چڑھ کر چاروں طرف نظر ڈالیں اور پھر بتائیں کہ کہیں بھینسے نظر آتے ہیں یا نہیں؟ جب وہ لڑکے پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ گئے تو انھوں نے پہاڑی کی دوسری طرف بھینسوں کا ایک بہت بڑا گلہ دیکھا اور گاؤں والوں کو اس کی اطلاع دی۔ گاؤں والے شکار کے لیے تیار ہو گئے اور اپنی کمانیں سنبھال کر شکار کی طرف دوڑے۔ بھینسوں کا گلہ دوڑنے لگا۔ گاؤں والوں نےا پنے تیروں سے کئی بھینسوں کو گرا دیا۔ اب گاؤں میں گوشت کا ڈھیر لگ گیا۔ اس کے چار روز بعد نوجوان نے پھر ان ہی لڑکوں کو بھینسوں کی تلاش میں بھیجا۔ بھینسے پھر مل گئے اور خوب شکار ہوا۔

    اب گاؤں کے لوگوں کے ہاں گوشت کا بڑا ذخیرہ ہو گیا۔ بہار کا موسم شروع ہوا اور انھوں نے نوجوان کی ہدایت کے مطابق وہ بیج بو دیے۔ جب ان بیجوں سے پودے نکلے تو انھیں دیکھ کر گاؤں والوں کو بڑی حیرت ہوئی۔ انھوں نے زمین سے اس طرح پودوں کا اگنا نہیں دیکھا تھا۔ یہ سب پودے ایسے تھے کہ اس سے پہلے انھوں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ جب ان پودوں میں سے دانے نکلنے لگے اور وہ پک گئے تو نوجوان نے ان میں سے چند دانے گاؤں والوں کو کھلائے۔ سب نے ان کو چکھ کر مزیدار بتایا، پہلی فصل کے سارے بیج محفوظ رکھ دیے گئے اور پھر دوسرے سال بو دیے گئے۔ اب مکئی کے ڈھیر لگنے لگے۔ گاؤں والے انھیں کھاتے بھی تھے اور اگلے سال کے لیے بیج بچا کر بھی رکھتے تھے۔ نوجوان نے انھیں یہ ترکیب سکھائی کہ جو بیج اگلے سال بونے کے لیے رکھے جاتے ہیں، ان کے اندر چربی کا ایک ٹکڑا بھی رکھ دیا کریں اور ان بیجوں کو نگاہوں سے دور رکھا جائے۔ موسم خزاں میں یہ بیج نکال کر ان پر چربی مل دی جائے اور پھر یہ بیج بو دیے جائیں۔ اس طرح فصل اچھی پیدا ہو گئی اور کبھی فاقوں کی نوبت نہیں‌ آئے گی۔

    (مصنّف: نامعلوم)

  • انسانی کنبہ

    انسانی کنبہ

    جب میں چھوٹی تھی تو مجھے چمکیلی دوپہروں میں باغ میں بیٹھ کر ننھی چڑیوں کے نغمے سننے کا بڑا شوق تھا۔ مجھے اڑتی ہوئی تتلیاں بھی بے حد پسند تھیں، لیکن میں نے کبھی تتلی کو پکڑ کر اس کے پَر نہیں نوچے، مجھے خیال آتا تھا کہ تتلی کی بھی ایسی ہی جان ہے جیسے میری اپنی ہے۔

    اچھا، اب ایک دوپہر کا قصہ بیان کرتی ہوں۔ میں اپنے باغ کی دیوار پر سَر رکھے آنے جانے والوں کا تماشا دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں کیا ہوا کہ میری نظر لڑکوں کی ایک ٹولی پر پڑی جو بغل میں اپنی کتابوں کے بستے لیے اسکول سے گھر واپس آرہے تھے۔

    یہ لڑکے بے حد شوخ و شریر تھے۔ ہنستے کھیلتے اور باتیں کرتے ہوئے آرہے تھے۔ بعض تو چھلانگیں لگا رہے تھے۔ یکایک میں نے دیکھا کہ ان میں سے جو لڑکا سب سے چھوٹا تھا، اسے ایک پتّھر سے ٹھوکر لگی، اور ٹھوکر لگتے ہی وہ بے چارہ بری طرح چت زمین پر آرہا۔ اس کی کتابوں کا بستہ کھل گیا۔ ساری کتابیں زمین پر بکھر گئیں۔

    اس کی جیب میں کھیلنے کی گولیاں تھیں۔ وہ بھی لڑھکتی ہوئی ادھرادھر چلی گئیں۔ اس کی ٹوپی دور جاگری۔

    لڑکوں کا ہنسی سے برا حال ہوگیا، مگر میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا جس کی عمر نو سال کی ہوگی اپنی ہنسی ختم کر کے گرے ہوئے لڑکے کی طرف دوڑا۔ اسے اٹھایا۔ اس کی پیشانی کی چوٹ کو اپنے رومال سے پونچھا۔ اپنے پانی کی تھرمس کھول کر زخمی لڑکے کو پانی پلایا۔ پھر اس کی کتابیں بستے میں بھریں، اس کی گولیاں چن چن کر اس کی جیب میں بھریں اور ننھے لڑکے کی انگلی پکڑ کر اسے اس کے گھر کی راہ پر چھوڑ دیا، اور خود اپنی راہ چلا گیا۔

    میں بے حد متاثر ہوئی۔ سوچنے لگی۔ اے بچے! اگر دنیا کے سارے انسانوں کے سینے میں تجھ سا دل اور اخلاق میں تجھ سا دھیما پن ہو تو آج ہماری دنیا کو فوجوں، ایٹم بموں، ہتھیاروں اور چھرّوں کی کیا ضرورت رہ جائے گی؟ ساری انسانی آبادی ایک کنبہ نہ بن جائے!

    (حجاب امتیاز علی کا شمار اردو کی اوّلین فکشن نگاروں میں ہوتا ہے، ان کے افسانوں اور رومانی انداز کی کہانیاں بہت مشہور ہوئیں۔ بچّوں کے لیے لکھی گئی اپنی اس مختصر کہانی کے ذریعے انھوں نے دنیا بھر کے لیے امن اور سلامتی کا درس اور ایک آفاقی پیغام دیا ہے)

  • مسافر کا لاشہ

    مسافر کا لاشہ

    (صحرا) بیچوں بیچ ایک کنواں جس کے گرد خار دار تار کی باڑ کھنچی ہوئی ہے۔ اس کے سلاخچے کے پاس ایک بڑا سا ڈول رکھا ہوا ہے۔ ڈول پر موٹی رسّی لپٹی ہوئی ہے۔

    (مسافر) تھکا ہارا اور ننگے پاؤں، پتلون قمیص پہنے، پسینے میں تربتر، اسٹیج پر آتا ہے۔ بہت پیاسا ہے، زبان باہر لٹکی پڑ رہی ہے۔ کنویں کی طرف لپکتا ہے۔ باڑ کے گرد کئی چکر کاٹتا ہے اور گردن بڑھا بڑھا کر کنویں کو دیکھتا ہے۔ تاروں کے بیچ سے گزرنا چاہتا ہے۔ نہیں گزر پاتا۔ تاروں کو پکڑتا ہے اور کھینچتا ہے۔ اس کی انگلیاں زخمی ہوجاتی ہیں۔ پھر کنویں کے گرد دوڑ لگاتا ہے اور کنویں کو دیکھتا ہے۔ پھر تاروں کو پکڑتا ہے اور کھینچتا ہے۔ پھر کنویں کے گرد دوڑتا ہے اور ہانپتا ہے۔

    (وہ) رک جاتا ہے اور کچھ سوچنے لگتا ہے۔ ایک سلاخچے کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور ناخنوں سے سلاخچے کے اردگرد کی مٹی کھودتا ہے۔ سلاخچے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتا ہے اور زور لگاتا ہے۔ سلاخچہ اکھڑ جاتا ہے۔ دوسرے اور تیسرے سلاخچے کو بھی اکھاڑ لیتا ہے۔ تار زمین پر گر جاتے ہیں۔ ایک طرف سے کنویں کا راستہ کھل جاتا ہے۔

    خالی ڈول کو اٹھاتا ہے اور کنویں میں ڈالتا ہے۔ کنواں گہرا ہے۔ مسافر کے ہاتھ میں رسّی کا سرا رہ جاتا ہے۔ بھاری ڈول کو اوپر کھینچتا ہے۔ بھری ہوئی بڑی سی مشک ڈول میں رکھی ہے۔ مشک کو تعجب سے دیکھتا ہے، ڈول میں سے نکالتا اور ہلاتا ہے۔ پانی کی آواز آتی ہے۔ جلدی جلدی مشک کا دہانہ کھولتا اور اسے ڈول میں انڈیلتا ہے۔ مشک ہوا سے پھولی ہوئی ہے۔

    کنویں کی تہ میں قہقہے لگتے ہیں۔ مسافر ڈر جاتا ہے اور مشک کو کنویں میں پھینک دیتا ہے۔ مشک اوپر اچھال دی جاتی ہے۔

    ڈول کنویں میں ڈالتا ہے اور رسّی کو جھٹکے دیتا ہے اور اوپر کھینچتا ہے۔ ایک بڑی سی پرانی کتاب باہر آتی ہے۔ کتاب کو اٹھا لیتا ہے اور اس کے ورق پلٹتا ہے۔ بڑے شوق سے اس کی تصویریں دیکھنے لگتا ہے۔ کنویں کی تہ میں رونا ہوتا ہے۔ کتاب مسافر کے ہاتھ سے نکل کر کنویں میں گر جاتی ہے۔ انتظار کرتا ہے۔ کتاب اوپر نہیں آتی۔

    پھر ڈول کنویں میں ڈالتا ہے، رسّی کو جھٹکے دیتا ہے، اوپر کھینچتا ہے۔ کٹا ہوا ایک ہاتھ اور ایک پیر ڈول میں رکھ دیا گیا ہے۔ دہشت زدہ ہو جاتا ہے۔ کنویں کے اندر قہقہے لگتے ہیں۔ مسافر ڈول کو کنویں میں الٹ دیتا ہے۔ کٹے ہوئے ہاتھ اور پیر کو پھر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔

    کنویں میں ڈول کو ڈالتا ہے اور رسّی کو جھٹکے دیتا ہے۔ اوپر کھینچتا ہے اور دیکھتا ہے۔ ایک بہت بڑا ہیرا ڈول میں سے نکالتا ہے۔ خوشی خوشی ہیرے کو انگلیوں میں گھماتا ہے۔ کنویں کے اندر رونا ہوتا ہے۔ مسافر کچھ سوچتا ہے اور ہیرے سے کھیلتا رہتا ہے۔ ہیرا اس کی انگلیوں سے چھوٹتا ہے اور کنویں میں گر جاتا ہے۔ ہیرے کو دوبارہ اوپر نہیں پھینکا جاتا۔

    جِھلّا کر ڈول کو کنویں میں ڈالتا ہے، رسّی کو جھٹکے دیتا ہے اور اوپر کھینچتا ہے۔ ایک گلا ہوا مردہ سانپ ڈول میں رکھ دیا گیا ہے۔ دہل جاتا ہے۔ کنویں کے اندر قہقہے لگتے ہیں۔ ڈول کو کنویں میں پلٹ دیتا ہے۔ مردہ سانپ کو پھر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔

    مسافر زمین پر بیٹھ جاتا ہے اور کچھ سوچنے لگتا ہے۔ مردہ سانپ اور کٹے ہوئے ہاتھ پیر اور خالی مشک کو برابر برابر رکھتا اور دیکھتا ہے۔ کٹے ہوئے ہاتھ پیر کو اپنے ہاتھ پاؤں سے ملا کر دیکھتا ہے۔ اٹھتا ہے اور ڈول کنویں میں ڈالتا ہے۔ رسی کو جھٹکے دیتا ہے اور اوپر کھینچتا ہے۔ ایک بڑا انار باہر آتا ہے۔ کنویں کے پاس سے ہٹ جاتا ہے اور انار پر منھ مارتا ہے۔ انار پلپلا ہوچکا ہے۔ کنویں کی تہ میں رونا ہوتا ہے۔ مسافر طیش کھا کر قریب جاتا ہے اور انار کو کنویں میں پھینک دیتا ہے۔

    رونے کی آواز یک دم رک جاتی ہے۔ مسافر پچھتاتا ہے۔ انتظار کرتا ہے۔ لجاجت کے ساتھ کنویں کو دیکھتا ہے۔ اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے۔ انار کو باہر نہیں پھینکا جاتا۔

    مسافر ڈول کو ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے سر تھامے ہوئے کئی مرتبہ کنویں کے گرد دوڑ لگاتا ہے۔ آسمان کو اور افق کو دیکھتا ہے۔ کچھ نہیں ہوتا۔

    کنویں کے کنارے بیٹھ جاتا ہے اور سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔ ایک مذہبی مرقع آہستہ آہستہ کنویں سے ابھرتا ہے۔ مسافر ہاتھ پھیلا کر مرقع کو پکڑ لیتا ہے اور سینے سے لگاتا ہے، بھنچی بھنچی آواز میں روتا ہے۔ کنویں کے اندر بہت سے لوگوں کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ مسافر کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبانے لگتے ہیں۔ چند لمحے گزرتے ہیں۔ کنویں کے اندر رونے کا انداز دھمکانے کا سا ہوجاتا ہے۔ مسافر مرقع کو کنویں کے حوالے کردیتا ہے۔ انتظار کرتا ہے۔

    مرقع دوبارہ اوپر نہیں آتا۔ کچھ دیر سوچتا رہتا ہے۔

    وہ پھر ڈول کو اٹھاتا ہے اور سوچتا ہے۔ پھر اس کو کنویں میں ڈالتا ہے اور سوچتا ہے۔ اوپر کھینچتا ہے۔ ڈول میں ایک پستول رکھ دیا گیا ہے۔ پستول کو اٹھا لیتا ہے۔ کنویں میں سے ہنسنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ پستول کو کنویں میں ڈال دیتا ہے۔ اسے دوبارہ اوپر اچھال دیا جاتا ہے اور قہقہے لگتے ہیں۔ پھر پستول کو ٹھوکر مار کر کنویں میں گرا دیتا ہے۔ تیسری بار قہقہے لگتے ہیں اور پستول اوپر اچھال دیا جاتا ہے۔

    مسافر پستول ہاتھ میں لیتا ہے اور کنویں کے پاس بیٹھ جاتا ہے۔ پستول کو اور کنویں کو دیکھتا ہے۔ زبان سے پستول کے فولاد کی ٹھنڈک کو محسوس کرتا ہے۔ اس کی نال کو منھ میں لیتا ہے اور بے خیالی میں لبلبی دبا دیتا ہے۔

    گولی کا ٹراقا اسٹیج پر گونجتا ہے۔ مسافر کا جسد کنویں میں گر جاتا ہے۔ کنویں میں سے زور دار قہقہوں کی آواز بلند ہوتی ہے۔

    کچھ دیر تک خاموشی رہتی ہے۔ مسافر کا لاشہ اوپر اچھال دیا جاتا ہے۔

    (اس کہانی کا اصل عنوان ‘گدا’ ہے جس کے مصنّف غلام حسین ساعدی (ایران) اور مترجم نیّر مسعود ہیں)

  • گُم شدہ رجمنٹ

    گُم شدہ رجمنٹ

    ایک طاقت وَر فوج کی ایک رجمنٹ کو شہر کی گلیوں میں پریڈ کرنا تھی۔ دستے صبح ہی سے بیرک کے احاطے میں پریڈ کی ترتیب میں کھڑے ہونا شروع ہو گئے۔

    سورج بلند ہوتا گیا اور اب سائے احاطے میں اگنے والے نوخیز پودوں کے قدموں تلے مختصر ہونے لگے۔ اپنے تازہ پالش کردہ ہیلمٹوں کے اندر فوجی اور حکام پسینے سے شرابور ہونے لگے۔ سفید گھوڑے پر سوار کرنل نے اشارہ کیا، نقاروں پر ضربیں پڑیں، بینڈ نے مل کر ساز بجانا شروع کر دیے اور بیرک کے دروازے اپنی چُولوں پر آہستگی سے ہلنے لگے۔

    اب آپ دور کہیں کہیں نرم بادلوں کی دھاریوں والےنیلے آسمان کے تلے شہر دیکھ سکتے تھے جس کی چمنیاں دھویں کے لچھے چھوڑ رہی تھیں، اس کی بالکونیاں جہاں کپڑے سکھانے والی چٹکیوں سے اٹی تاریں، سنگھار میزوں کے آئینوں میں منعکس ہوتی سورج کی جگمگ کرنیں، مکھیاں دور رکھنے والے جالی دار پردوں میں خریداری کے سامان سے لدی خواتین کی الجھتی بالیاں، ایک چھتری والی آئس کریم گاڑی کے اندر کون رکھنے والا شیشے کا بکس، اور ایک لمبی ڈور کے سرے پر بچوں کا ایک گروہ سرخ کاغذی چھلوں پر مشتمل دُم والی پتنگ کھینچتے ہوئے جو زمین کو چھوتے ہوئے ڈگمگاتی ہے، پھر جھٹکوں جھٹکوں میں اٹھ کر آسمان کے نرم بادلوں کے مقابل بلند ہو جاتی ہے۔

    رجمنٹ نے نقاروں کی تھاپ میں پیش قدمی شروع کی، سڑکوں پر بوٹ بجنے لگے اور توپ خانے کی گھرگھراہٹ گونجنے لگی، لیکن اپنے سامنے خاموش، شریف طبع اور اپنے کام سے کام رکھنے والا شہر دیکھ کر فوجی خود کو تھوڑا بدلحاظ اور دخل انداز محسوس کرنے لگے، اور دفعتاً پریڈ بےمحل لگنے لگی۔ جیسے کوئی ساز کا غلط تار چھیڑ دے۔ جیسے اس کے بغیر بھی کام چل سکتا تھا۔

    پری جیو باتا نامی ایک نقارچی نے ظاہر کیا جیسے وہ اسی تاب سے نقارہ بجا رہا ہے حالانکہ وہ صرف نقارے کی سطح کو چھو رہا تھا۔ اس سے جو آواز نکل رہی تھی وہ ایک مغلوب سی دھم دھم تھی، لیکن وہ اکیلا نہیں تھا۔ کیوں کہ عین اسی لمحے دوسرے تمام نقارچی اسی کی پیروی کررہے تھے۔ پھر بگل والے گزرے لیکن ان کے بگلوں سے محض ایک آہ نکل رہی تھی کیوں کہ کوئی بھی ان میں زور سے نہیں پھونک رہا تھا۔ سپاہی اور حکام بے چینی سے ادھر ادھر دیکھ کر ایک ٹانگ ہوا میں اٹھاتے، پھر اسے بہت نرمی سے نیچے رکھ دیتے اور یہ پریڈ گویا پنجوں کے بل آگے بڑھتی گئی۔

    سو کسی کے حکم دیے بغیر ایک لمبی، بہت لمبی قطار پھونک پھونک کر قدم رکھتی، پنجوں کے بل دبی دبی چال سے چلی۔ شہر کے اندر توپیں اس قدر بےجوڑ لگنے لگیں کہ ان کے ساتھ چلنے والے توپچیوں پر یکایک خجالت طاری ہو گئی۔

    بعض نے بےاعتنائی کا وطیرہ اپنایا اور توپوں کی طرف دیکھے بغیر چلتے گئے، جیسے وہ وہاں محض اتفاق سے آ گئی ہوں۔ دوسرے توپوں سے لگ کر چلنے لگے، جیسے وہ انھیں چھپانا چاہتے ہوں، تاکہ لوگوں کے ان کے اکھڑ اور ناگوار نظارے سے بچایا جا سکے۔ کچھ نے ان پر غلاف ڈال دیے تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے، یا کم از کم وہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف نہ کھینچیں۔

    کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے توپوں کی نال یا توپ گاڑی پر ہاتھ مار کر یا ہونٹوں پر نیم مسکراہٹ لا کر کچھ ایسے شفقت آمیز تمسخر کا رویہ اختیار کیا گویا یہ دکھانا چاہتے ہوں کہ ان کا ان چیزوں کو مہلک مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، بس ذرا ہوا لگانا مقصود ہے۔

    یہ پریشان کُن احساس کرنل کلیلیو لیون تومینی کے دماغ میں بھی سرایت کر نے لگا جنھوں نے بےاختیار سر اپنے گھوڑے کی طرف جھکا دیا، جب کہ خود گھوڑے نے بھی ہر قدم کے درمیان وقفہ ڈالنا شروع کر دیا اور اب وہ کسی ریڑھے والے گھوڑے کی سی احتیاط سے چل رہا تھا۔ لیکن کرنل اور ان کے گھوڑے کو دوبارہ جنگی چال اختیار کرنے میں بس ایک لمحے کا غور و فکر ہی کافی تھا۔ صورتِ حال کا تیزی سے جائزہ لے چکنے کے بعد کرنل نے تیز حکم دیا: ’پریڈ چال!‘

    نقارے متوازن تال پر بجنا شروع ہوئے۔ رجمنٹ نے تیزی سے اپنی دل جمعی دوبارہ حاصل کی اور اب وہ جارحانہ خوداعتمادی سے آگے قدم بڑھانے لگی۔

    ’یہ ہوئی نا بات،‘ کرنل نے صفوں پر تیزی سے نظریں دوڑاتے ہوئے خود سے کہا، ’اس کو کہتے ہیں مارچ کرتی ہوئی اصل رجمنٹ۔‘

    چند راہ گیر سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر قطار بنا کر کھڑے ہو گئے اور ایسے لوگوں کے انداز سے پریڈ دیکھنے لگے جو اس قدر طاقت کی صف آرائی میں دل چسپی رکھتے ہوں اور شاید انھیں اس میں مزہ بھی آتا ہو، لیکن کوئی ناقابلِ تفہیم احساس انھیں ستا رہا ہو۔ ایک مبہم خطرے کا احساس۔ اور ویسے بھی ان کے ذہنوں میں پہلے ہی سے کئی اہم چیزیں گردش کر رہی تھی کہ وہ تلواروں اور توپوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے۔

    خود پر نظریں جمی دیکھ کر سپاہی اور حکام ایک بار پھر ناقابلِ توجیہہ گھبراہٹ کا شکار ہونے لگے۔ وہ پریڈ چال کے بےلچک قدموں سے چلتے تو گئے، لیکن انھیں اس خیال سے دامن چھڑا پانا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ ان بھلے شہریوں کے ساتھ کوئی زیادتی کر رہے ہیں۔ ان کی موجودگی کے باعث بدحواسی سے بچنے کے لیے سپاہی مارانگون ریمیگیو نے نظریں جھکائے رکھیں۔ جب آپ صفوں میں مارچ کرتے ہیں تو آپ کو صرف سیدھی لکیر میں رہنے اور قدم ملانے کی فکر ہوتی ہے، دستہ باقی ہر چیز کا خیال خود رکھتا ہے۔ لیکن سیکڑوں سپاہی وہی کچھ کر رہے تھے جو سپاہی مارانگون کر رہا تھا۔

    درحقیقت آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سب، حکام، پرچم بردار، خود کرنل اپنی نظریں زمین سے اٹھائے بغیر، صف کا پیچھا کرتے چلے جا رہے تھے۔ بینڈ کے پیچھے پریڈ چال چلتے چلتے رجمنٹ ایک طرف کو کنی کھا گئی اور پارک کے اندر پھولوں کے تختے میں جا گھسی، اور پھر استقامت سے گلِ اشرفی اور بنفشے کے پھول روندتی چلی گئی۔

    باغبان گھاس کو پانی دے رہے تھے اور انھوں نے کیا دیکھا؟ ایک رجمنٹ آنکھیں بند کیے، نازک گھاس میں ایڑیاں پٹختے ان پر چڑھی چلی آ رہی ہے۔ ان بے چاروں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اپنے فوارے کس طرح تھامیں کہ پانی کہیں سپاہیوں پر چھڑکاؤ نہ کر دے۔ آخرکار ہوا یہ کہ انھوں نے اپنے فوارے سیدھے اوپر کر لیے، لیکن طویل دھاریں دوبارہ بے قابو سمتوں میں آ، آ کر نیچے گرنے لگیں۔ ایک نے آنکھیں میچے کمر سیدھی رکھے مارچ کرتے ہوئے کرنل کلیلیو لیون تومینی کو سر سے پاؤں تک شرابور کر دیا۔
    پانی سے نچڑ کر کرنل اچھل کر پکارے:

    ’سیلاب! سیلاب! بچاؤ کی کارروائی شروع کی جائے!‘ پھر انھوں نے فوری طور پر خود پر قابو پایا اور رجمنٹ کی کمان سنبھال کر اسے باغات سے باہر لے گئے۔ تاہم وہ تھوڑے سے بے دل ہو گئے تھے۔

    ’سیلاب! سیلاب!‘ کی پکار نے ایک راز اور ایک لاشعوری تمنا کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا کہ قدرتی آفت اچانک آ سکتی ہے، اور کسی کو ہلاک کیے بغیر اس قدر خطرناک ہو سکتی ہے کہ پریڈ منسوخ کرا دے اور رجمنٹ کو لوگوں کے لیے ہر قسم کے مفید کام کرنے کا موقع مل سکے، مثلاً پلوں کی تعمیر یا بچاؤ کی کارروائیوں میں حصہ لینا۔ صرف اسی بات سے ان کا ضمیر مطمئن ہو سکتا تھا۔

    پارک سے نکلنے کے بعد رجمنٹ شہر کے ایک مختلف حصے میں داخل ہو گئی تھی۔ یہ وہ کھلی سڑکیں نہیں تھیں جہاں انھیں پریڈ کرنا تھی، بلکہ یہ علاقہ تنگ، خاموش اور بل کھاتی ہوئی گلیوں پر مشتمل تھا۔ کرنل نے فیصلہ کیا کہ وہ ان گلیوں کو عبور کر کے سیدھا چوک تک جا پہنچیں گے تاکہ مزید وقت ضائع نہ ہو۔

    اس علاقے میں ایک انوکھا جوش و خروش بیدار ہو گیا۔ الیکٹریشن لمبی سیڑھیوں پر چڑھے گلی کے بلب ٹھیک کر رہے تھے اور ٹیلی فون کی تاریں اوپر نیچے کر رہے تھے۔ سول انجینیئرنگ کے سرویئر آلات اور فیتوں سے سڑکیں ناپ رہے تھے۔ گیس والے فٹ پاتھ پر بڑے گڑھے کھود رہے تھے۔ اسکول کے بچے ایک طرف قطار میں چلے جا رہے تھے۔ راج مزدور کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف ’یہ لو! یہ لو!‘ کہتے ہوئے اینٹیں اچھال رہے تھے۔ سائیکل سوار اپنے کندھوں پر لکڑی کی گھوڑیاں اٹھائے، تیز آواز میں سیٹیاں بجاتے گزرے۔ ہر کھڑکی میں ایک ایک لڑکی برتن دھو رہی تھی اور بڑی بالٹیوں میں کپڑے نچوڑ رہی تھی۔

    چنانچہ رجمنٹ کو ان بَل کھاتی گلیوں میں ٹیلی فون کی تاروں کے گچھوں، فیتوں، لکڑی کی گھوڑیوں، سڑک میں گڑھوں، پُر شباب لڑکیوں اور ہوا میں اڑتی اینٹیں– ’یہ لو! یہ لو!‘ – پکڑ کر اور ہیجان زدہ لڑکیوں کے چوتھی منزل سے گرائے ہوئے بھیگے کپڑوں اور بالٹیوں سے بچ بچا کر اپنی پریڈ جاری رکھنا پڑی۔

    کرنل کلیلیو لیون تومینی کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہ بھٹک گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے گھوڑے سے نیچے جھک کر ایک راہ گیر سے پوچھا: ’معاف کیجیے گا، کیا آپ جانتے ہیں کہ مرکزی چوک کو جانے والا سب سے مختصر راستہ کون سا ہے؟‘

    راہ گیر، جو ایک معنک اور دبلا پتلا شخص تھا، تھوڑی دیر سوچتا رہا۔ ’راستہ پیچیدہ ہے۔ لیکن اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کو ایک احاطے سے ایک اور گلی کے راستے لے جاؤں گا جس سے آپ کا کم از کم چوتھائی گھنٹہ بچ جائے گا۔‘

    ’کیا تمام رجمنٹ اس احاطے سے گزر پائے گی؟‘ کرنل نے پوچھا۔

    آدمی نے رجمنٹ پر ایک نظر دوڑائی اور ہچکچاتے ہوئے کہا: ’خیر، کوشش کی جا سکتی ہے،‘ اور انھیں ایک بڑے دروازے سے گزرنے کا اشارہ کیا۔

    عمارت کے تمام خاندان بالکونیوں کے زنگ آلود جنگلوں کے پیچھے کھڑے ہو کر احاطے میں سے توپ خانے اور گھوڑوں سمیت گزرنے کی کوشش کرتی رجمنٹ کو دیکھنے کے لیے جھک گئے۔

    ’باہر نکلنے کا دروازہ کہاں ہے؟‘ کرنل سے دبلے آدمی سے پوچھا۔

    ’دروازہ؟‘ آدمی نے کہا۔ ’شاید میں اپنی بات واضح نہیں کر سکا۔ آپ کو اوپری منزل تک چڑھنا پڑے گا، وہاں سے آپ سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے دوسری عمارت میں داخل ہو جائیں گے اور اُس عمارت کا دروازہ گلی میں کھلتا ہے۔‘

    کرنل ان تنگ سیڑھیوں میں بھی اپنے گھوڑے پر سوار رہنا چاہتے تھے لیکن دو تین منزلوں کے بعد انھوں نے گھوڑے کو جنگلے سے باندھ کر پیدل آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ توپوں کو بھی احاطے میں چھوڑ دیا جائے جہاں ایک موچی نے وعدہ کیا کہ وہ ان پر نظر رکھے گا۔ سپاہی ایک قطار میں چلتے گئے اور ہر منزل پر دروازے کھلتے اور بچے چلاتے:’اماں، جلدی آؤ، دیکھو۔ سپاہی گزر رہے ہیں۔ فوج پریڈ کر رہی ہے!‘

    پانچویں منزل پر ان سیڑھیوں سے بالاخانے کو جانے والی سیڑھیوں تک پہنچنے کے لیے انھیں باہر کی طرف بالکونی کے اوپر چلنا پڑا۔ ہر کھلی کھڑکی میں سے سادہ کمرے نظر آتے جن میں جھلنگا چارپائیاں بچھی ہوتیں جہاں بچوں سے بھرے خاندان مقیم تھے۔

    ’اندر آؤ، اندر آؤ،‘ باپ اور مائیں سپاہیوں سے کہتے۔ ’تھوڑا آرام کرو، تم لوگ بہت تھکے ہوئے ہو گے!‘ ادھر سے آؤ، یہ راستہ چھوٹا ہے! لیکن اپنی بندوقیں باہر رکھ دو۔ اندر بچے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں نا۔۔۔‘

    سو راہداریوں اور گزرگاہوں میں رجمنٹ کی ترتیب ٹوٹ گئی۔ اور اس افراتفری میں وہ دبلا شخص کہیں ادھر ادھر ہو گیا جس نے کہا تھا کہ وہ راستہ جانتا ہے۔

    شام پڑ گئی اور رسالے اور پلٹنیں اب بھی سیڑھیوں اور بالکونیوں میں بھٹکتی پھر رہی تھیں۔ سب سے اوپر، چھت کے چھجے پر کرنل لیون تومینی بیٹھے تھے۔ انھیں نیچے بکھرا ہوا شہر دکھائی دے رہا تھا، وسیع و عریض اور تند و تیز، سڑکیں شطرنج کی بساط کی مانند اور خالی چوک۔ ان کے ساتھ ہی رنگین جھنڈیوں، پیغام رسانی والے پستولوں اور رنگ برنگے پردوں سے مسلح دستہ کھپریل پر ہاتھ اور گھٹنے ٹکائے بیٹھا تھا۔

    ’پیغام بھیجو،‘ کرنل نے کہا۔ ’جلدی، پیغام بھیجو: علاقہ ناقابلِ عبور۔۔۔ آگے بڑھنے سے قاصر۔۔۔ حکم کا انتظار۔۔۔‘


    (اٹلی کے معروف ناول نگار اور صحافی اٹالو کالوینو کی اس کہانی کو ظفر سیّد نے انگریزی سے اردو زبان میں‌ ترجمہ کیا ہے)

  • انصاف (ایتھوپیا کی ایک دل چسپ کہانی)

    انصاف (ایتھوپیا کی ایک دل چسپ کہانی)

    ایک دن ایک عورت بکریوں کی تلاش میں نکلی جو اپنے ریوڑ سے بچھڑ گئی تھیں۔ وہ ان کی کھوج میں کھیتوں میں اِدھر اُدھر پھرتی رہی، لیکن بے سود۔

    آخر کار وہ سڑک کے قریب پہنچی۔ یہاں ایک بہرا آدمی اپنے لیے کافی بنارہا تھا۔ عورت کو معلوم نہیں تھا کہ وہ بہرا ہے۔ اس نے اس سے پوچھ لیا، ”تم نے ادھر میری بکریاں دیکھی ہیں؟“

    بہرا آدمی سمجھا، وہ پانی کا پوچھ رہی ہے۔ اس نے دریا کی طرف اشارہ کردیا۔ عورت نے اس کا شکریہ ادا کیا اور دریا کی جانب چل پڑی۔

    یہ محض اتفاق تھا کہ اسے وہاں بکریاں مل گئیں۔ بس ایک میمنا چٹان سے گر کر اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھا تھا۔ اس نے اسے اٹھا لیا۔ جب وہ بہرے آدمی کے قریب سے گزری تو اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے رک گئی اور اس کی مدد کے عوض اسے میمنا پیش کردیا۔

    بہرا آدمی اس کی بات نہ سمجھ سکا۔ جب اس نے میمنا اس کی طرف کیا تو وہ سمجھا عورت اسے میمنے کی بدقسمتی کا ذمے دار قرار دے رہی ہے۔ وہ ناراض ہوگیا۔

    ”میں اس کا ذمے دار نہیں۔“ اس نے واویلا کیا۔

    ”لیکن آپ نے مجھے راستہ دکھایا تھا۔“عورت بولی۔

    ”بکریوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔“ آدمی بولا۔

    ”لیکن یہ مجھے ادھر ہی ملیں، جہاں آپ نے بتایا تھا۔“

    آدمی غصے سے بولا ”چلی جاؤ اور مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ یہ میمنا میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔“

    لوگ اکھٹے ہوگئے اور ان کے دلائل سننے لگے۔ عورت نے انھیں بتایا، ”میں بکریوں کی تلاش میں تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ دریا کے قریب ہیں۔ اب میں اسے یہ میمنا دینا چاہتی ہوں۔“

    آدمی غصے سے چیخا۔ ”تم میری توہین نہ کرو۔ میں نے اس کی ٹانگ نہیں توڑی۔“ اور ساتھ عورت کو تھپڑ رسید کردیا۔

    ”آپ دیکھ رہے ہیں، اس نے مجھے مارا ہے۔ عورت مجمع سے مخاطب ہوئی۔ میں اسے منصف کے پاس لے کر جاؤں گی۔“

    اس طرح اپنے بازوؤں میں میمنا اٹھائے عورت، بہرا آدمی اور تماش بین منصف کی طرف چل پڑے۔

    منصف ان کی شکایت سننے گھر سے باہر آگیا۔ پہلے عورت نے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ پھر آدمی نے اپنی داستان سنائی۔ آخر میں مجمع نے منصف کو صورت حال بتائی۔ منصف اپنا سَر ہلاتا رہا۔

    بہرے آدمی کی طرح وہ بھی کچھ نہ سمجھ سکا۔ اس کی نظر بھی کم زور تھی۔ آخر اس نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا۔ لوگ چپ ہوگئے۔

    اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔”اس طرح کے گھریلو جھگڑے بادشاہ اور کلیسا کے لیے بے عزتی کا باعث ہیں۔ پھر اس نے اپنا رخ آدمی کی طرف کیا، ”اپنی بیوی سے برا سلوک چھوڑ دو۔“

    اب وہ عورت سے مخاطب ہوا۔ ”تم سست ہوگئی ہو۔ اپنے میاں کو وقت پر کھانا دیا کرو۔“

    اس نے پیار سے میمنے کی طرف دیکھا۔”خدا اسے لمبی عمر دے اور یہ آپ دونوں کے لیے خوشی کا باعث ہو۔“

    مجمع تربتر ہوگیا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے،

    ”واہ کیا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں کتنا فاصلہ طے کرنا پڑا۔“

    ( اس کہانی کے مصنف کا نام حماتوما ہے اور اس کے مترجم حمید رازی ہیں)