Tag: مشہور اشعار

  • احسان دانش: ایک دبستانِ علم و ادب

    احسان دانش: ایک دبستانِ علم و ادب

    احسان دانش اردو ادب کی اُن چند شخصیات میں سے ایک ہیں جن کی فکر اور تخلیقی جوہر کو زندگی کی تلخیوں، مصائب، کڑے حالات اور معاش کے لیے سخت دوڑ دھوپ نے نکھارا تھا۔ وہ شاعرِ مزدور مشہور تھے۔ آج احسان دانش کا یومِ وفات ہے۔

    احسان دانش نے زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ اور اس کے کئی روپ دیکھے۔ کبھی مزدوری کی، یومیہ اجرت پر کام کیا، مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے چپڑاسی اور قاصد کی ذمہ داری تک نبھائی۔ غرض کوئی بھی کام ملا کر لیا۔ اسی کڑی مشقت کے ساتھ انھوں نے اپنا تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔

    کہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے جمعدار بننے تک کا سوچا اور صفائی ستھرائی کے اس کام سے وابستہ لوگوں کی نگرانی اور ان سے کام لینے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہو گئے۔ اردو زبان کے اس خوب صورت شاعر نے محنت سے جی نہ چرایا اور حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے 1982 میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئے۔

    اردو کے صاحبِ‌ اسلوب ادیب اور مشہور خاکہ نگار اعجاز الحق قدوسی نے اپنی کتاب میں مزدو احسان دانش کو درویش صفت، قناعت پسند اور بڑے دل کا مالک لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

    احسان دانش مجموعۂ خوبی ہیں۔ پیکرِ شرافت ہیں۔ پرانی وضع داریوں کا نمونہ ہیں۔ قناعت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ فن کا پندار ان میں بالکل نہیں۔ زندگی محنت کی عظمت سے بھرپور ہے اسی لیے شاعرِ مزدور کہلاتے ہیں۔

    احسان دانش کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔ وہ انشا پرداز بھی تھے اور زبان و بیان پر ان کی گرفت بھی خوب تھی۔ انھوں نے لغت کے علاوہ اردو کے مترادفات اور اردو الفاظ سے متعلق کتب تصنیف کیں۔ احسان دانش کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول ہوا اور بالخصوص ان کے انقلاب آفریں نغمات اور اشعار کو تحریر سے تقریر تک موقع کی مناسبت سے برتا گیا۔ انھوں نے عام آدمی اور مزدور کے جذبات کی ترجمانی کے ساتھ فطرت اور رومان پرور خیالات کو بھی اپنے اشعار میں سمویا۔ احسان دانش کا ایک شعر ہے۔

    احسان اپنا کوئی برے وقت میں نہیں
    احباب بے وفا ہیں، خدا بے نیاز ہے

    احسان دانش مڈل پاس تھے۔ ساری زندگی معمولی نوکری اور مزدوری کرتے گزری تھی، لیکن دل کے بادشاہ تھے۔ حسبِ موقع شگفتہ بیانی اور شوخی سے بھی کام لیتے تھے۔ ان سے متعلق مشہور ایک دل چسپ واقعہ ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔

    کسی مشاعرہ کے منتظم نے احسان دانش سے درخواست کی کہ ہم نے شہر میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا ہے، اس میں شریک ہو کر ممنون فرمائیے۔

    احسان نے دریافت کیا، ’’مشاہرہ کیا ہو گا؟‘‘

    منتظم نے نہایت انکساری سے جواب دیا۔ ’’آپ اس مشاعرہ میں معاوضہ کے بغیر شرکت فرما کر اس ادنیٰ کو شکر گزاری کا موقع دیں۔‘‘

    احسان دانش اس کی انکساری سے قطعاً متاثر نہ ہوئے اور خاصا کاروباری انداز اپناتے ہوئے کہا۔

    ’’بندہ نواز! آپ کو ممنون فرمانے میں مجھے کوئی اعتراض نہ تھا اور میں بغیر معاوضہ کے آپ کے مشاعرہ میں چلا آتا، لیکن اُس وقت جب میرے شعروں سے میرے بچّوں کا پیٹ بھر سکتا۔ آپ خود ہی غور فرمائیے قبلہ کہ گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کیا آپ کے شکریہ پر زندہ رہ سکے گا؟‘‘

    احسان دانش کے اس جواب نے یقیناً منتظم کو ناراض اور ان سے متعلق بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہو گا، لیکن جو لوگ ان سے واقف تھے، وہ جانتے تھے کہ احسان دانش نے ایسا جواب کیوں‌ دیا‌۔

    مرحوم کا یہ شعر بہت مشہور ہے

    یہ اڑی اڑی سی رنگت، یہ کھلے کھلے سے گیسو
    تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

    قاضی احسان الحق ان کا نام اور احسان تخلص تھا۔ ان کے والد قاضی دانش علی باغ پت ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے، لیکن بعد میں کاندھلا میں سکونت اختیار کر لی۔ احسان یہیں 1913ء میں پیدا ہوئے۔ احسان کے والد کے پاس اچھی خاصی جائیداد بھی تھی لیکن آہستہ آہستہ سب کچھ ختم ہوگیا۔ یوں احسان دانش نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور تعلیم بھی مڈل سے آگے نہ بڑھ سکی۔ حالات کچھ ایسے ہوئے کہ وہ اپنی چپڑاسی کی نوکری چھوڑ کر لاہور چلے آئے اور یہاں محنت مشقت اور مزدوری کرنے لگے۔ ان حالات میں بھی انھوں نے کتابوں سے اپنا رشتہ نہیں توڑا اور جو وقت بھی ملتا کتب بینی میں صرف کرتے۔ جو بھی شعری صلاحیت ان میں پیدا ہوئی وہ کتب بینی ہی سے ہوئی۔

    وہ طبقاتی کشمکش سے بیزار، مروجہ نظامِ حکومت سے متنفر اور عدم مساوات نالاں اور اس کے خلاف آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں‌ مزدوروں کو متحد ہوجانے کی تلقین، برابری اور بھائی چارگی کا درس بھی ملتا ہے۔ ان کی نظر میں شعر و ادب زندگی کا آئینہ ہے۔ فطرت سے انھیں پیار تھا اور رومان بھی ان کے اشعار میں بہت بے ساختہ ہے۔

    ان کے مجموعہ ہائے کلام اور دیگر کتب میں ابلاغ دانش، تشریح غالب، آواز سے الفاظ تک، اردو مترادفات شامل ہیں جب کہ ان کی خودنوشت بھی جہانِ دانش کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

    احسان دانش کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے

    یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
    ساتھ چل موج صبا ہو جیسے

    لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
    تو مجھے بھول گیا ہو جیسے

    عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا
    یوں نہ مل ہم سے خدا ہو جیسے

    موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ
    مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے

    زندگی بیت رہی ہے دانشؔ
    ایک بے جرم سزا ہو جیسے

    ان کی خود نوشت سوانح عمری جہانِ دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہے اس کتاب کو نہ صرف پاکستان رائٹرز گلڈ نے آدم جی ادبی انعام کا مستحق قرار دیا بلکہ اس پر حکومت پاکستان نے بھی پانچ ہزار روپے کا انعام عطا کیا۔ حکومت پاکستان نے آپ کی علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر آپ کو ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز بھی عطا کیے تھے۔

  • ایک مشہور شعر کے فراموش کردہ خالق کا تذکرہ

    ایک مشہور شعر کے فراموش کردہ خالق کا تذکرہ

    آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
    سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

    یہ شعر کتنے ہی مواقع پر کتنی ہی بار پڑھا گیا۔ تحریر سے تقریر تک مشاہیر نے اسے برتا، ہر خاص و عام نے پڑھا اور اپنی ہستی اور دنیا کی بے ثباتی پر گفتگو کو سمیٹنا چاہا تو اسی شعر کا سہارا لیا، لیکن اس زباں زدِ عام اور یادگار شعر کے خالق کا نام بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہ حیرت الٰہ آبادی کا شعر ہے جو 1892ء میں‌ اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ تاہم ان کا درست سنِ وفات کسی کو معلوم نہیں اور جس طرح ان کے حالاتِ زندگی اور فن پر مفصل تحریر نہیں ملتی، اسی طرح اس معاملے میں بھی قیاس سے کام لیا گیا ہے۔

    حیرت الہ آبادی کی وفات کو ایک صدی سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے، لیکن یہ شعر ان کے نام کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ستم ظریفی کہیے کہ اس شعر کی شہرت اور مقبولیت کا یہ تمام عرصہ ہی شاعر کے احوال و ادبی آثار پر تحقیق اور کسی تفصیلی اور جامع مضمون سے محروم رہا ہے۔

    انیسویں صدی عیسوی کے مشہور ادبی مؤرخین، معروف تذکرہ نگاروں اور محققین نے بھی ان کے حالاتِ‌ زندگی اور فنِ شاعری پر کچھ نہ لکھا اور ناقدوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ جہاں بھی ان کا ذکر کیا گیا، وہ اسی شعر کے ذیل میں آیا ہے اور یہ فقط ان کے نام اور وطن، جائے پیدائش اور وفات تک محدود ہے۔

    دیوانِ حیرت اور کلیاتِ‌ حیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ نام ان کا محمد جان خاں تھا اور حیرت تخلص۔ ان کا وطن الہ آباد تھا۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھیں مرزا اعظم علی اعظم سے تلمذ رہا جو اپنے وقت کے مشہور اور استاد شاعر خواجہ حیدر علی آتش کے شاگرد تھے۔ حیرت کے دادا جہانگیر خاں فوج میں رسال دار رہے تھے جب کہ ان کے والد کا نام بازید خاں تھا جن کی عرفیت باز خاں تھی۔ حیرت جس خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، اس میں‌ کوئی شاعر نہیں تھا۔ حیرت الہ آبادی ایک صاحبِ دیوان شاعر تھے۔

    حیرت کی وہ غزل ملاحظہ کیجیے جس میں ان کا مشہور شعر شامل ہے۔

    آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
    سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

    آ جائیں رعب غیر میں ہم وہ بشر نہیں
    کچھ آپ کی طرح ہمیں لوگوں کا ڈر نہیں

    اک تو شب فراق کے صدمے ہیں جاں گداز
    اندھیر اس پہ یہ ہے کہ ہوتی سحر نہیں

    کیا کہیے اس طرح کے تلون مزاج کو
    وعدے کا ہے یہ حال ادھر ہاں ادھر نہیں

    رکھتے قدم جو وادئ الفت میں بے دھڑک
    حیرتؔ سوا تمہارے کسی کا جگر نہیں

  • ندا فاضلی: پاک و ہند کے مقبول شاعر کا تذکرہ

    ندا فاضلی: پاک و ہند کے مقبول شاعر کا تذکرہ

    ندا فاضلی نے اردو شاعری کو ایک نیا لہجہ اور اسلوب دیا جس نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ ان کے اشعار کو نوجوانوں‌ نے اپنی بیاض‌ میں‌ شامل کیا، انھیں شوق سے پڑھا اور خوب سنا۔ وہ ایک مقبول شاعر تھے جن کے اشعار سادہ اور دل میں‌ اتر جاتے تھے۔ آج ندا فاضلی کی برسی ہے۔

    اردو کے اس شاعر اور نغمہ نگار کو ایک ادیب اور صحافی کی حیثیت سے بھی پہچان ملی۔ وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں، لیکن ان کے نثری اسلوب نے بھی اپنی راہ بنائی۔ وہ 12 اکتوبر 1938ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے، ان کا اصل نام مقتدیٰ حسن تھا۔ والد بھی شاعری کرتے تھے، اس لیے گھر میں شعر و شاعری کا چرچا تھا اور اسی ماحول میں‌ ندا فاضلی نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ ابتدائی تعلیم گوالیار میں ہوئی۔ جامعہ تک پہنچے تو اردو اور ہندی میں ایم ۔اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے کچھ دنوں تک دہلی اور دوسرے مقامات پر ملازمت کی تلاش میں ٹھوکریں کھائیں اور پھر 1964 میں بمبئی چلے گئے۔ بمبئی میں شروع میں انھیں خاصی جدو جہد کرنی پڑی۔ انھوں نے صحافت کی دنیا میں‌ قدم رکھا۔ اس کے ساتھ ہی ادبی حلقوں میں متعارف ہوئے۔ ان کی تخلیقات کتابی صورت میں‌ سامنے آئیں تو ان کی مقبولیت کا سفر شروع ہوگیا۔ وہ مشاعروں کے بھی مقبول شاعر بن گئے تھے۔

    فلم نگری سے ندا فاضلی نے کمال امروہی کی بدولت ناتا جوڑا۔ انھوں نے اپنی فلم رضیہ سلطان کے لیے ان سے دو گیت لکھوائے تھے۔ اس کے بعد وہ مکالمہ نویسی طرف متوجہ ہوئے اور معاش کی طرف سے بے فکری ہوئی۔ ندا فاضلی کے شعری مجموعے لفظوں کا پل کے بعد مور ناچ، آنکھ اور خواب کے درمیان، شہر تو میرے ساتھ چل، زندگی کی طرف، شہر میں گاؤں اور کھویا ہوا سا کچھ شائع ہوئے۔ انھوں‌ نے دو سوانحی ناول "دیواروں کے بیچ” اور "دیواروں کے باہر ” کے علاوہ مشہور شعرائے کرام کے خاکے بھی تحریر کیے۔ندا فاضلی کی شادی ان کی تنگدستی کے زمانہ میں عشرت نام کی اک ٹیچر سے ہوئی تھی لیکن نباہ نہیں ہو سکا ۔پھر مالتی جوشی ان کی رفیقۂ حیات بنیں۔ انھیں‌ ساہتیہ ایوارڈ کے علاوہ سرکاری اور فلمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    ندا فاضلی نے 8 فروری 2016ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

    گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
    کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

    ان کی غزلیں‌ جگجیت سنگھ کے علاوہ ہندوستان کے نام ور گلوکاروں‌ نے گائی ہیں۔ ان کا یہ کلام بھی بہت مشہور ہے۔

    ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
    عشق کیجے پھر سمجھیے زندگی کیا چیز ہے

    دنیا جسے کہتے ہیں، جادو کا کھلونا ہے
    مل جائے تو مٹی ہے، کھو جائے تو سونا ہے

  • امید فاضلی: غزل گوئی اور مرثیہ ان کی پہچان ہے

    امید فاضلی: غزل گوئی اور مرثیہ ان کی پہچان ہے

    امید فاضلی کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    وہ 17 نومبر 1923ء کو ڈبائی، ضلع بلند شہر(ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام ارشاد احمد فاضلی اور تخلّص امید تھا۔

    انھوں نے ابتدائی تعلیم ڈبائی اور میرٹھ سے حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ 1944ء میں وہ کنٹرولر آف ملٹری اکائونٹس کے محکمے سے وابستہ ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی اور اسی محکمے سے وابستہ رہے۔

    امید فاضلی اردو کے اہم غزل اور مرثیہ گو شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی غزلیات کا پہلا مجموعہ دریا آخر دریا کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا جسے 1979ء میں شائع ہونے والے بہترین شعری مجموعے کا آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ ان کے مرثیوں کا مجموعہ سر نینوا، نعتوں کا مجموعہ میرے آقا، منقبت کا مناقب اور قومی شاعری پر مشتمل کلام پاکستان زندہ باد کے نام سے جب کہ مراثی کی ایک اور کتاب تب و تابِ جاودانہ کے عنوان سے شایع ہوئی۔

    امید فاضلی کے نعتیہ مجموعہ کلام میرے آقا پر بھی انھیں رائٹرز گلڈ کا انعام عطا ہوا تھا۔ وہ 28 اور29 ستمبر 2005ء کی درمیانی شب کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    امید فاضلی کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

    کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
    خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے

  • اردو اور ہندکو کے ممتاز شاعر اور مصنّف خاطر غزنوی کی برسی

    اردو اور ہندکو کے ممتاز شاعر اور مصنّف خاطر غزنوی کی برسی

    گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
    لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

    یہ شعر آپ نے بھی پڑھا اور سنا ہو گا۔ اس کے خالق کا نام خاطر غزنوی ہے جن کی آج برسی ہے۔ وہ اردو اور ہندکو کے ممتاز شاعر اور متعدد کتب کے مصنّف تھے۔ خاطر غزنوی 7 جولائی 2008ء کو وفات پاگئے تھے۔

    خاطر غزنوی کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا۔ انھوں نے 25 نومبر 1925ء کو پشاور کے ایک گھرانے میں جنم لیا۔ ریڈیو پاکستان، پشاور سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے خاطر غزنوی نے اردو کے علاوہ ہندکو زبان میں لکھنا شروع کیا اور پہچان بناتے چلے گئے۔ انھوں نے چینی زبان سیکھی اور اس کی تعلیم بھی دی، پشاور کی جامعہ سے اردو زبان میں ایم اے کے بعد انھوں نے باقاعدہ تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ اس عرصے میں وہ ادبی جرائد سے بھی منسلک رہے اور علمی و ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔

    خاطر غزنوی 1984ء میں اکادمی ادبیات پاکستان میں ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ ان کے شعری مجموعوں میں روپ رنگ، خواب در خواب، شام کی چھتری اور نثر پر مشتمل کتابوں میں زندگی کے لیے، پھول اور پتّھر، چٹانیں اور رومان، سرحد کے رومان، پشتو متلونہ، دستار نامہ، پٹھان اور جذباتِ لطیف، خوش حال نامہ اور چین نامہ شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے نظمیں بھی لکھیں جب کہ ہندکو اور پشتو ادب سے متعلق متعدد کتب کے مصنّف اور مؤلف بھی تھے۔ ان کی یہ کتب لوک کہانیوں، قصّوں اور مقامی ادب، اصناف اور تخلیق کاروں کا احاطہ کرتے ہوئے ان موضوعات پر سند و حوالہ ہیں۔ یہ ان کا علمی و تحقیقی کام تھا جس کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    خاطر غزنوی پشاور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ایک ایک کرکے لوگ نکل آئے دھوپ میں
    جلنے لگے تھے جیسے سبھی گھر کی چھاؤں میں

  • ایک مشہور شعر جس کے خالق کا نام بہت کم لوگ جانتے ہیں

    ایک مشہور شعر جس کے خالق کا نام بہت کم لوگ جانتے ہیں

    بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
    اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

    یہ شعر آپ نے بھی ضرور سنا یا پڑھا ہو گا۔ مشاہیرِ عالم یا کسی معروف ہستی کے سانحۂ ارتحال کی خبر یا مضمون کا آغاز اکثر اس شعر سے کیا جاتا ہے جس کے بعد افسوس ناک واقعے سے متعلق ضروری تفصیل بیان کی جاتی ہے۔

    اہلِ زبان خاص طور پر باذوق لوگ کسی خاص موقع پر جب اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرتے ہیں تو ان اشعار کا سہارا لیتے ہیں جو ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں یا زبان زدِ عام ہوں۔

    کیا آپ شعر کے خالق کا نام جانتے ہیں؟ یہ شعر خالد شریف کا ہے جو ایک ادیب، مدیر اور ناشر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ یہاں ہم اپنے باذوق اور شعر و ادب کے رسیا قارئین کے لیے خالد شریف کا مختصر تعارف اور وہ غزل نقل کررہے ہیں جس کا یہ مشہور شعر ہماری سماعتوں میں محفوظ ہے۔

    خالد شریف کا تعلق انبالہ (ہندوستان) سے ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے راولپنڈی آگیا جہاں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے خالد شریف اردو اور فارسی میں دل چسپی لینے لگے اور پھر شاعری کی طرف مائل ہوگئے اور آج شعروسخن کی دنیا میں الگ پہچان رکھتے ہیں۔

    خالد شریف کی مشہور غزل ملاحظہ کیجیے۔

    رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا
    جو اس کے پاس تھا وہ مجھے دان کر گیا

    بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
    اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

    دل چسپ واقعہ ہے کہ کل اک عزیز دوست
    اپنے مفاد پر مجھے قربان کر گیا

    کتنی سدھر گئی ہے جدائی میں زندگی
    ہاں وہ جفا سے مجھ پہ تو احسان کر گیا

    خالدؔ میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان
    وہ شخص آخرش مجھے بے جان کر گیا

  • کسی کا سکّہ یہاں دیر تک نہیں چلتا….

    کسی کا سکّہ یہاں دیر تک نہیں چلتا….

    غزل
    دماغ پھیر رہا ہے یہ تاج تیرا بھی
    بگاڑ دے گی حکومت مزاج تیرا بھی

    عروجِ بام سے اترا تو جان جائے گا
    مِرا نہیں تو نہیں ہے سماج تیرا بھی

    کسی کا سکّہ یہاں دیر تک نہیں چلتا
    ہمیشہ رہنا نہیں ہے رواج تیرا بھی

    بس ایک نام محبّت کے گوشوارے میں
    بیاضِ دل میں ہوا اندراج تیرا بھی

    مجھے غرور سے معزول کرنے والے سن
    نہ رہنے دوں گا ترے دل پہ راج تیرا بھی

    تو کیوں یہ روح کی باتیں سنائے جاتا ہے
    جو مسئلہ ہے فقط احتیاج تیرا بھی

    وہ خوش گمان مجھے کہہ گیا دمِ رخصت
    مرض نہیں ہے بہت لاعلاج تیرا بھی

    اڑایا جیسے برس کر عتاب میں مرا رنگ
    ملمع ایسے ہی اترا ہے آج تیرا بھی


    (پیشِ نظر کلام منڈی بہاءُ الدین سے تعلق رکھنے والے خوش فکر شاعر اکرم جاذب کا ہے، وہ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کرتے ہیں اور ملک کے مختلف ادبی رسائل اور قومی سطح کے روزناموں میں ان کا کلام شایع ہوتا رہتا ہے، اکرم جاذب کے دو شعری مجموعے بھی منظرِ عام پر آچکے ہیں جنھیں قارئین سے داد اور ناقدین سے حسنِ معیار کی سند مل چکی ہے)

  • نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی

    نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی

    آج اردو زبان کے نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی ہے۔ وہ 22 جنوری 1999ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔

    رضی اختر شوق کا اصل نام خواجہ رضی الحسن انصاری تھا۔ 23 اپریل 1933ء کو سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حیدر آباد دکن سے حاصل کی اور اردو زبان میں‌ تعلیم و تدریس کے لیے دنیا بھر میں‌ مشہور جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد رضی اختر شوق کراچی آگئے جہاں جامعہ کراچی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ یہاں انھوں نے ادبی حلقوں میں اپنے جدید اور منفرد لب و لہجے کے سبب پہچان بنائی۔ وہ ایک اچّھے ڈراما نگار بھی تھے اور ان کے ڈرامے ریڈیو پر پسند کیے گئے۔

    رضی اختر شوق کے شعری مجموعوں میں مرے موسم، مرے خواب اور جست شامل ہیں۔ ان کے متعدد اشعار میں سے چند یہ ہیں۔

    ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
    کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ

    ایک پتھر، اِدھر آیا ہے تو اس سوچ میں ہوں
    میری اس شہر میں کس کس سے شناسائی ہے

  • چاند شب کو شاہ، دن کو بے نوا دیکھا گیا!

    چاند شب کو شاہ، دن کو بے نوا دیکھا گیا!

    خوابوں پر نشان لگا کے رکھ دینے والے نوجوان شاعر عزم الحسنین عزمی کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے۔

    شاعر‌ کا تعلق پنجاب کے شہر گجرات کے ایک گاؤں ڈوڈے سے ہے۔

    عزمی بتاتے ہیں، "میں شعبہ تدریس سے منسلک ہوں۔ کتب بینی کا شوق ہے، مطالعے کو میرا مشغلہ کہہ سکتے ہیں۔ بچپن ہی سے شاعری پسند تھی، اور گھر میں کتابیں، اخبار پڑھنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔

    اسی پڑھنے پڑھانے نے مجھے شعر گوئی کی طرف مائل کیا اور یوں‌ میں‌ نے شاعری کا سفر شروع کیا۔ ”

    محسن نقوی کو اپنا پسندیدہ شاعر بتانے والے عزم الحسنین عزمی کا کلام پیش ہے۔

    غزل

    کہکشاؤں میں کبھی تنہا کھڑا دیکھا گیا
    چاند شب کو شاہ، دن کو بے نوا دیکھا گیا

    رکھتا جاتا ہوں میں خوابوں پر لگا کر اک نشان
    کون سا باقی ہے اب بھی کون سا دیکھا گیا

    آدمی ہی آدمی کو ڈھونڈتا آیا نظر
    آدمی ہی آدمی سے بھاگتا دیکھا گیا

    رات کو پھر دیر تک سب بول رکھ کے سامنے
    کب کہاں کس سے بھلا، کیا کیا کہا، دیکھا گیا

    روشنی دن کو سنبھالی تھی ذرا سی جو حضور
    ڈال کر شب کو دیے میں راستہ دیکھا گیا

    یہ نہیں کہ رک گئے پہلے یا تیرے بعد عشق
    ہاں مگر کچھ روز تجھ پر اکتفا دیکھا گیا

    اس قدر عادت ہوئی اس کی، کہ پہلے درد سے
    ہاتھ چھڑوانے سے پہلے دوسرا دیکھا گیا

    شاعر: عزم الحسنین عزمی

  • "موڈ ہو جیسا ویسا منظر ہوتا ہے!”

    "موڈ ہو جیسا ویسا منظر ہوتا ہے!”

    موسمِ گرما کی شدت اور کرونا کی قید کاٹتے ہوئے ملک کے مختلف شہروں میں بوندا باندی اور بارش کی اطلاع ہم تک پہنچی، اور آج کراچی میں بھی بادل برس ہی گئے۔

    کرونا کے خوف کے ساتھ سانس لیتے ہوئے کراچی کے شہریوں کو شدید گرمی اور اس پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے جیسے ادھ موا کر دیا تھا اور ان حالات میں‌ جب بوندیں برسیں تو سب نے شکر ادا کیا۔ ایک شعر دیکھیے۔

    موڈ ہو جیسا ویسا منظر ہوتا ہے
    موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے

    موسم اور بارش سے متعلق چند مزید اشعار پیش ہیں جو باذوق قارئین کو ضرور پسند آئیں گے۔

    دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
    اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا

    شہر کی گلیوں میں گہری تیرگی گریاں رہی
    رات بادل اس طرح آئے کہ میں تو ڈر گیا

    تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
    وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

    برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی
    بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی

    کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
    تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو

    برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانے
    کس راہ سے بچنا ہے کس چھت کو بھگونا ہے

    گنگناتی ہوئی آتی ہیں فلک سے بوندیں
    کوئی بدلی تری پازیب سے ٹکرائی ہے

    اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا
    اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا

    دوسروں کو بھی مزا سننے میں آئے باصر
    اپنے آنسو کی نہیں، کیجیے برسات پہ بات