Tag: مشہور اشعار

  • آ کے ہم کو بھی ”تا” کرے کوئی!

    آ کے ہم کو بھی ”تا” کرے کوئی!

    بابائے ظرافت سید ضمیر جعفری کو ہم سے بچھڑے بیس برس بیت چکے ہیں۔ اردو ادب میں‌ نثر ہو یا نظم طنز و مزاح کے لیے مشہور شخصیات میں‌ ضمیر جعفری‌ کا نام اپنے موضوعات اور شائستہ انداز کی وجہ سے سرِفہرست رہے گا۔

    سماج کے مختلف مسائل، خوبیوں اور خامیوں‌ کو اجاگر کرنے کے ساتھ انھوں نے ہماری تفریحِ طبع کا خوب سامان کیا۔

    سید ضمیر جعفری نے ہمیشہ پُر وقار انداز میں بامقصد تفریح کا موقع دیا۔ ان کی یہ غزل آپ کو ضرور مسکرانے پر مجبور کردے گی۔

    نمکین غزل
    شب کو دلیا دلا کرے کوئی
    صبح کو ناشتہ کرے کوئی

    آدمی سے سلوک دنیا کا
    جیسے انڈا تلا کرے کوئی

    سوچتا ہوں کہ اس زمانے میں
    دادی اماں کو کیا کرے کوئی

    جس سے گھر ہی چلے نہ ملک چلے
    ایسی تعلیم کیا کرے کوئی

    ایسی قسمت کہاں ضمیرؔ اپنی
    آ کے پیچھے سے ”تا” کرے کوئی

  • یاد دریچے: ذکر سبطِ علی صبا کا…

    یاد دریچے: ذکر سبطِ علی صبا کا…

    اردو ادب میں سبط علی صبا کی شناخت اور پہچان غزل گوئی ہے۔ اس صنفِ سخن میں طبع آزمائی کرنے والے دیگر شعرا کے مقابلے میں‌ وہ ایسے خوش نصیب شاعر ہیں جن کا‌ ایک ہی شعر ان کی شہرت کا سبب بن گیا۔

    دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
    لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنالیے

    1935 میں پیدا ہونے والے سبطِ علی صبا نے فوج اور بعد میں پاکستان آرڈیننس فیکٹری میں کام کیا۔ اس دوران مشقِ سخن جاری رکھی اور ادب کی دنیا میں‌ اپنی تخلیقات سے خوب نام پیدا کیا۔ ان کے لہجے میں تازگی اور خیال میں ندرت جھلکتی ہے۔

    زندگی نے سبطِ علی صبا کا زیادہ عرصہ ساتھ نہ دیا اور وہ 44 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 14 مئی 1980 کو انتقال کرجانے والے سبطِ علی کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد شایع ہوا۔

    آج اس خوش فکر شاعر کی برسی ہے۔ سبطِ علی صبا کی یہ غزل آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    غزل
    لبِ اظہار پہ جب حرفِ گواہی آئے
    آہنی ہار لیے در پہ سپاہی آئے

    وہ کرن بھی تو مرے نام سے منسوب کرو
    جس کے لٹنے سے مرے گھر میں سیاہی آئے

    اتنی پُر ہول سیاہی کبھی دیکھی تو نہ تھی
    شب کی دہلیز پہ جلنے کو دیا ہی آئے

    رہ روِ منزلِ مقتل ہوں مرے ساتھ صباؔ
    جو بھی آئے وہ کفن اوڑھ کے راہی آئے

  • آپ زندگی کو کیسے دیکھتے ہیں؟

    آپ زندگی کو کیسے دیکھتے ہیں؟

    انسان شاید اس زمین پر اربوں سال سے آباد ہے، کتنے موسم بدلے، کتنی رُتیں آئیں اور رخصت ہوگئیں، زندگی مخصوص رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ انسان نے کبھی سلطنت، قوموں کا عروج دیکھا، تو کبھی زوال۔ کبھی اسے اپنے ہی جیسے انسانوں کی سفاکی اور شقی القلبی کا ماتم کرنا پڑا تو کہیں‌ اس نے رحم دل اور نہایت مہربان حکم رانوں‌ کی وجہ سے لوگوں کو‌ خوش اور شاد باد پایا۔ غرض کہ انسان نے زندگی کے کتنے ہی روپ دیکھ لیے، لیکن آج بھی یہ اس کے لیے نئی اور پُرکشش ہے۔

    انسان زندگی کے بارے میں سوچتا ہے، اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو یہ اشعار اس معاملے میں آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔

    کیف بھوپالی کا یہ شعر دیکھیے۔

    زندگی شاید اسی کا نام ہے
    دوریاں، مجبوریاں، تنہائیاں

    فراق گورکھپوری نے کہا تھا…

    موت کا بھی علاج ہو شاید
    زندگی کا کوئی علاج نہیں

    اصغر گونڈوی کا یہ شعر دیکھیے۔

    چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
    اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

    معین احسن جذبی نے کہا…

    مختصر یہ ہے ہماری داستانِ زندگی
    اک سکون دل کی خاطر عمر بھر تڑپا کیے

    شاہد کبیر کا شعر ہے…

    زندگی اک آنسوؤں کا جام تھا
    پی گئے کچھ اور کچھ چھلکا گئے

  • فاصلے، دوریاں اور تنہائی….(خوب صورت اشعار)

    فاصلے، دوریاں اور تنہائی….(خوب صورت اشعار)

    کہتے ہیں تنہائی خوف کو جنم دیتی ہے اور خوف پر قابو پانے میں مدد بھی۔ اسی طرح کبھی ایسا موقع بھی آتا ہے جب اپنوں سے دوری اختیار کرنا اور مصلحت کے تحت میل جول نہ رکھنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

    کرونا نے ہمیں ایک دوسرے سے دُور، اور ہم سے بعض افراد کو تنہا رہنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن یاد رہے کہ یہ دوری، فاصلے اور تنہائی ہماری زندگی اور صحت کو محفوظ بنا سکتی ہے۔ یہ سماجی فاصلہ وقتی ہے اور اسی میں ہماری بہتری ہے۔

    آئیے، فاصلے، دوری اور تنہائی پر جذبات اور احساسات سے گندھے اشعار پڑھتے ہیں۔

    قربتیں لاکھ خوب صورت ہوں
    دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی
    ***
    فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
    سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
    ***
    محبت کی تو کوئی حد، کوئی سرحد نہیں ہوتی
    ہمارے درمیاں یہ فاصلے، کیسے نکل آئے
    ***
    ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
    تنہائی كے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
    ***
    مجھے تنہائی کی عادت ہے میری بات چھوڑیں
    یہ لیجے آپ کا گھر آ گیا ہے ہات چھوڑیں
    ***
    خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
    ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
    ***
    بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے
    نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجک گئی
    ***
    جس کی ایما پہ کیا ترکِ تعلق سب سے
    اب وہی شخص مجھے طعنۂ تنہائی دے
    ***
    ہم تم میں کل دوری بھی ہو سکتی ہے
    وجہ کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے
    ***
    ہم نے تمام رات جلائی ہیں خواہشیں
    دل ڈر گیا تھا برف سی تنہائی دیکھ کر
    ***
    ہمارا ربط کہاں بستیوں کی رونق سے
    ہمارا تم پہ بھی کب اختیار تنہائی
    ***
    تیرا پہلو تیرے دِل کے طرح آباد رہے
    تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
    ***
    کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا
    تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا

  • مشہور شاعر داغ دہلوی کی "دولت” سے بھری ہوئی 5 الماریاں!

    مشہور شاعر داغ دہلوی کی "دولت” سے بھری ہوئی 5 الماریاں!

    حضرت مرزا داغ دہلوی کو بھی مطالعے کا بڑا شوق تھا۔ جو نئی کتاب بھی شایع ہوتی، وہ فوراً اسے خرید لیتے اور اس کے مطالعے میں مصروف ہو جاتے۔

    مطالعہ وقفے وقفے سے کرتے، لیکن کتاب کو پوری پڑھ کر چھوڑتے۔ انھوں نے اپنے دولت کدے کا ایک بڑا کمرا کتب خانے کے لیے وقف کر رکھا تھا جس میں چار پانچ الماریاں کتابوں سے پُر تھیں اور ہر الماری میں دو دو ڈھائی ڈھائی سو کتابیں ہوتی تھیں۔

    وہ کتابوں کی جلدیں قیمتی بندھواتے اور ہر کتاب پر مالکِ کتاب کی حیثیت سے اپنا نام بھی ڈلواتے۔ اساتذۂ اردو اور فارسی کے پورے کلیّات اور دواوین ان کے کتب خانے میں موجود تھے۔

    کتب خانے کی فہرست مجلّد تھی۔ مرزا صاحب اپنے احباب اور شاگردوں کو کتابیں مستعار بھی دیتے رہتے، لیکن اُن کا اندراج ایک علاحدہ رجسٹر میں کر دیتے۔

    اس رجسٹر کی تنقیح ہر دوسرے تیسرے مہینے ہوتی رہتی اور اگر کوئی کتاب کسی کے پاس رہ جاتی تو تقاضا کر کے منگوا لیتے۔

    (علم و ادب کے شائق، مختلف ادبی واقعات، یادوں اور تذکروں کو کتابی شکل میں‌ محفوظ کرنے والے عبدالمجید قریشی کی ایک خوب صورت کاوش "کتابیں‌ ہیں‌ چمن اپنا” بھی ہے، جس میں‌ استاد شاعر داغ دہلوی کے کتب خانے کا ذکر بھی ہے اور یہ سطور اسی کتاب سے لی گئی ہیں)

  • "کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا؟”

    "کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا؟”

    غلام علی ہمدانی نے شاعری شروع کی تو تخلص مصحفیؔ کیا اور غزل گو شعرا میں اپنے جداگانہ انداز سے نام و مقام بنایا۔

    کہتے ہیں امروہہ کے تھے، لیکن چند تذکرہ نویسوں نے انھیں دہلی کے نواحی علاقے کا رہائشی لکھا ہے۔ ان کا سن پیدائش 1751 ہے جب کہ 1824 کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ ہندوستان میں سلطنت کا زوال اور ابتری پھیلی تو ان کا خاندان بھی خوش حال نہ رہا اور مصحفیؔ کو بھی مالی مشکلات کے ساتھ روزگار کی تلاش میں بھٹکنا پڑا۔ اس سلسلے میں دہلی آئے اور یہاں تلاشِ معاش کے ساتھ ساتھ اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا تو شعری ذوق بھی نکھرا۔ مصحفی کے کلام سے یہ غزل آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔

    جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا
    اس دل کے تئیں ہرگز آرام نہیں ہوتا

    کب وعدہ نہیں کرتیں ملنے کا تری آنکھیں
    کس روز نگاہوں میں پیغام نہیں ہوتا

    بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے
    کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا

    ساقی کے تلطف نے عالم کو چھکایا ہے
    لبریز ہمارا ہی اک جام نہیں ہوتا

    کیوں تیرگئ طالع کچھ تُو بھی نہیں کرتی
    یہ روز مصیبت کا کیوں شام نہیں ہوتا

    پھر میری کمند اس نے ڈالے ہی تڑائی ہے
    وہ آہوئے رَم خوردہ پھر رام نہیں ہوتا

    نے عشق کے قابل ہیں، نے زہد کے درخور ہیں
    اے مصحفیؔ اب ہم سے کچھ کام نہیں ہوتا

  • ّابو العلا معریٰ کون تھے؟

    ّابو العلا معریٰ کون تھے؟

    علامہ اقبال کا ایک مشہور شعر ہے۔

    تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
    ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!

    یہ شعر، خاص طور پر مصرعِ ثانی ضرور آپ نے سماعت کیا ہو گا اور ممکن ہے یہ آپ کے حافظے میں بھی محفوظ ہو۔

    یہ اقبالؔ کی ایک نظم کا آخری شعر ہے جو "ابو العلا معریٰ” کے عنوان سے اُن کے دیوان میں‌ شامل ہے۔

    یہ نظم ایک فلسفی، مدبّر، دانا و حکیم اور مشہور شاعر کی یاد تازہ کرتی ہے اور اس کی بنیاد اس فسلفی کی ایک خاص عادت ہے۔ مشہور ہے کہ وہ ساری زندگی گوشت اور انڈے سے پرہیز کرتے رہے اور صرف دالیں اور سبزیاں ان کی خوراک میں شامل رہیں۔

    تاریخ کے اوراق الٹیے تو معلوم ہو گا کہ ان کا نام احمد بن عبداللہ بن سلیمان معرۃ النعمان تھا۔ کہتے ہیں کہ ان کا وطن قدیم شام کا علاقہ معریٰ تھا جہاں انھوں نے 973 عیسوی میں آنکھ کھولی۔ آپ کو ابو العلا المعری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    آپ محض چار برس کے تھے جب چیچک کا شکار ہوئے اور بینائی جاتی رہی۔ حافظہ غضب کا تھا اور جو بات ایک بار سنتے، ذہن نشین ہوجاتی۔

    کہتے ہیں‌ ابتدائی تعلیم حلب، طرابلس اور انطاکیہ کے علمی مراکز سے حاصل کی اور جلد ہی شاعری کی طرف مائل ہوئے۔

    انھوں‌ نے کچھ وقت بغداد میں بھی گزارا، لیکن بیماری کے بعد معریٰ لوٹ گئے تھے اور وہاں‌ گوشہ نشیں ہو رہے۔1058 ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔

    یہاں‌ ہم علامہ اقبال کی وہ نظم نقل کررہے ہیں‌ جس کا مشہور شعر آپ نے ابتدا میں‌ پڑھا تھا۔

    کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معریٰ
    پھل پھول پہ کرتا تھا ہمیشہ گزر اوقات

    اک دوست نے بھونا ہوا تیتر اسے بھیجا
    شاید کہ وہ شاطر اسی ترکیب سے ہو مات

    یہ خوانِ تَر و تازہ معریٰ نے جو دیکھا
    کہنے لگا وہ صاحبِ غفران و لزومات

    اے مرغک بیچارہ، ذرا یہ تو بتا تُو
    تیرا وہ گنہ کیا تھا یہ ہے جس کی مکافات؟

    افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تُو
    دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات!

    تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
    ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!