Tag: مشہور افسانوی کردار

  • مافوقُ الفطرت تصوراتی کردار جو خوف اور دہشت کی علامت ہے

    مافوقُ الفطرت تصوراتی کردار جو خوف اور دہشت کی علامت ہے

    ویروولف ایک مافوقُ الفطرت کردار ہے جس کا تذکرہ قدیم قصّوں یا لوک داستانوں میں بکثرت کیا گیا ہے۔

    ویروولف کے بارے میں مشہور داستانوں کے مطابق دنیا میں ایسے انسان بھی پائے جاتے تھے جو بھیڑیا اور بھیڑیے سے دوبارہ انسانی شکل اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ خاص طور پر پورے چاند کی رات میں ایسی شکل اختیار کرلیتے تھے اور ان کا اس پر کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا۔ چاندنی رات میں ان کی یہ شکل اور اس باعث ان کی طاقت اپنے شباب پر ہوتی ہے۔ چودھویں رات کو ایسا کوئی انسان بھیڑیا بن کر خون پینے کے لیے نکل پڑتا ہے۔ اسے اگر ہم ”آدم بھیڑیا“ کہیں تو اس کا تصور غالباً‌ یورپی لوک داستانوں سے آیا ہے، جس کی مختلف شکلیں ہیں۔

    خیال ہے کہ دنیا بھر میں جب یورپی ممالک نے اپنی کالونیوں کو وسعت دینا شروع کیا تو ان کی یہ داستانیں اور انسان کے روپ بدلنے کا تصوراتی نظریہ بھی پھیلتا چلا گیا۔ اس طرح‌ یہ کردار ایشیائی کے باشندوں‌ میں‌ بھی خوف اور دہشت کی علامت بن گیا۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ توہم پرست اور بھوت پریت کی کہانیوں یا ایسے مافوقُ‌ الفطرت کرداروں پر فوری یقین کرلیتے تھے، کیوں کہ ان کے پاس حقیقت تک پہنچنے کے لیے کوئی راستہ نہیں‌ ہوتا تھا۔ عام لوگوں میں‌ ایسی کہانیاں‌ بہت مقبول تھیں اور سینہ بہ سینہ ایسے واقعات جن میں‌ کوئی انسان پراسرار حالت میں‌ مردہ پایا گیا ہو ایک نسل سے دوسری تک پہنچتے تھے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس تصوراتی کردار کو چڑیلوں کے متوازی پیش کیا گیا تھا۔

    اکثر جنگلات میں‌ یا کسی بھی علاقے میں کسی طاقت ور جانور، بالخصوص درندے جیسے شیر، چیتے وغیرہ کے حملے میں‌ کوئی انسان ہلاک ہوجاتا اور اس کی ادھڑی ہوئی لاش یا اس کے جسم پر کہیں نوکیلے دانتوں یا پنجوں کے نشانات ملتے تو اس سے متعلق کوئی افسانہ اور کہانی گھڑ لی جاتی تھی۔ موقع پرست یا خیالی دنیا میں‌ رہنے کے عادی لوگ کسی نہ کسی سبب اس ہلاکت کو کسی ان دیکھی مخلوق اور حیوان کی کارستانی بتاتے اور اس کے ذریعے اپنے مقصد کی تکمیل کرتے۔

    ویروولف یا وہ انسان جو کسی خاص تاریخ یا آسمانی تغیر کے نتیجے میں‌ بھیڑیے کا روپ دھار لیتا تھا، اسی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کا تذکرہ اور اس کا تصور یورپ میں سترھویں صدی میں اپنے عروج پر تھا، لیکن بیسویں صدی میں اس موضوع پر بہت سے ناول لکھے گئے اور لاتعداد فلمیں بھی بنائی گئیں۔

    سولھویں اور سترھویں صدی کے دوران یورپ میں ”ویئر وولف فکشن“ کا آغاز ہوا۔ اس عرصہ میں اس خیالی کردار پر لا تعداد کہانیاں گھڑی گئیں اور ویروولف کو اس تواتر سے پیش کیا گیا کہ لوگ اس کے تصواتی یا حقیقی ہونے پر ابہام کا شکار ہوگئے۔ آج بھی یہ کردار جہاں‌ بچّوں اور بڑوں‌ میں‌‌ خوف اور دہشت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، وہیں سنسنی خیز واقعات اور مافوق الفطرت داستانوں کے شوقین اس پر بنائی گئی فلمیں‌ اور لکھی جانے والی کہانیاں ضرور پڑھنا پسند کرتے ہیں۔

    اب بات کرتے ہیں لائیکن تھراپی (Lycanthropy) کی جو ایک طبّی اصطلاح ہے اور قدیم یونانی لفظ سے ماخوذ ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ دماغی خلل ہے جس کا شکار فرد خود میں بھیڑیے جیسی بھوک، توانائی اور دیگر خصوصیات محسوس کرسکتا ہے اور اس کے زیرِ اثر وہ خود کو بھیڑیا تصور کرنے لگتا ہے۔ یہ انسانی جسم میں کسی حقیقی تبدیلی کا نام نہیں بلکہ پاگل پن کی ایک خاص قسم ہے۔

  • مشہورِ زمانہ افسانوی کرداروں کا تذکرہ

    مشہورِ زمانہ افسانوی کرداروں کا تذکرہ

    آپ ٹارزن سے لے کر حاتم طائی تک کئی ایسے افسانوی کرداروں سے واقف ہوں گے جنھیں طاقت ور اور دلیر ہی نہیں‌ ان کے تخلیق کاروں نے انھیں انسان دوست اور سخی بھی بتایا ہے ان کرداروں پر مبنی کہانیاں اور ناول اتنے مشہور ہوئے کہ ٹیلی ویژن ڈرامے ہی نہیں ہالی وڈ سمیت دنیا بھر میں فلمیں‌ بنائی گئیں جنھیں‌ شائقین نے بہت سراہا۔ سپرمین، اسپائڈر مین کے علاوہ حقیقی زندگی میں جرم کا راستہ روکنے کے لیے خطرات مول لینے اور مجرم کو کیفرِ کردار تک پہنچانے والے چند مشہورِ زمانہ کرداروں کے بارے میں‌ یہ تحریر آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گی۔

    دنیا کے مشہور افسانوی کرداروں میں ٹارزن کا نام سرفہرست ہے۔ اس کردار کے خالق ایڈگر رائس بروز کا نام شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے، لیکن ٹارزن کے نام سے پوری دنیا واقف ہے۔ اسی ٹارزن کی طرح رستم اور سہراب بھی دو افسانوی کردار ہیں جو برَّصغیر پاک و ہند سمیت پورے ایشیا میں مشہور ہیں۔ رستم باپ ہے اور اور سہراب بیٹا اور یہ دونوں جنگجو پہلوان ہیں۔ یہ فارسی زبان کے کردار ہیں‌ جن کے خالق مشہورِ زمانہ شاعر فردوسی ہیں۔ ان کی مشہور تصنیف ” شاہ نامہ” کے یہ کردار بہت مقبول ہوئے اور آج بھی ان کی کہانیاں‌ بڑے شوق سے پڑھی اور سنی جاتی ہیں۔ ایسی رزمیہ کہانیاں یورپ میں بھی لکھی گئی ہیں جن میں ہومر کی تخلیق "اوڈیسی” بھی بہت مشہور ہے۔

    برِّصغیر میں الہ دین کا چراغ بھی بہت مشہور ہے۔ سند باد جہازی بھی ایک فرضی کردار ہے۔ اس پر بے شمار فلمیں بن چکی ہیں جب کہ حاتم طائی ایک حقیقی کردار ہے، لیکن اس کردار کو بھی افسانوی رنگ دیا گیا ہے۔ الہ دین کا چراغ، سند باد جہازی اور حاتم طائی کے کرداروں کے تخلیق کاروں کا نام شاید کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔

    شرلاک ہومز بھی دنیا کے مشہور افسانوی کرداروں میں سے ایک ہے۔ اس کردار کے خالق سر آرتھر کانن ڈوئل ہیں۔ جاسوس شرلاک ہومز کی ذہانت پر مبنی کہانیاں پوری دنیا میں پڑھی جاتی ہیں۔ اس حیرت انگیز کردار کے خالق کو انگلینڈ کی حکومت نے "سَر” کا خطاب دیا تھا۔ ڈوئل کے یہ ناول اتنے مقبول تھے کہ جب ڈوئل نے ایک ناول میں شرلاک ہومز کو مار دیا تو پورے یورپ میں ایک کہرام مچ گیا جس کی وجہ سے ناول نگار کو مجبور ہو کر اسے دوبارہ "زندہ” کرنا پڑا۔

    نک ویلوٹ ایک جدید ترین افسانوی کردار ہے جسے امریکا کے ایک نام ور کہانی نویس کارڈی ہاک نے تخلیق کیا ہے۔ نک ویلوٹ کی کہانیاں پوری دنیا میں ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ اس کردار پر امریکا میں متعدد ٹیلی ویژن سیریز بھی چل چکی ہیں۔

    ڈریکولا کا نام بھی پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہ ڈریکولا بھی ایک فرضی کردار ہے۔ یہ ایک ماورائی کردار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس کردار کے خالق کا نام برام اسٹوکر ہے جو اپنی ہیبت ناک کہانیوں کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ڈریکولا ان کا ایک شاہ کار ناول ہے جس پر لاتعداد فلمیں بنائی گئی ہیں۔ آج برام اسٹوکر کو اتنے لوگ نہیں جانتے جتنا کہ ڈریکولا کے کردار سے واقف ہیں۔

    برصغیر پاک و ہند کے لوگ عمرو عیّار کے نام سے اچھی طرح آگاہ ہوں گے۔ یہ کردار ” طلسم ہوش ربا” نامی کتاب کے علاوہ "داستانِ امیر حمزہ ” میں بھی ملتا ہے۔ عمرو عیار کی زنبیل بھی بہت مشہور ہے اور اردو بولنے والے اکثر موقع کی مناسبت سے اس کا حوالہ دے کر بات کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ جادوگر افراسیاب کا تذکرہ بھی ہوتا ہے، جو کہ اس داستان کا ایک مرکزی منفی کردار ہے جو بہت مشہور ہے۔