Tag: مشہور افسانہ نگار

  • "فوت ہونا کوئی آسان کام نہیں!”

    "فوت ہونا کوئی آسان کام نہیں!”

    حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے ادیب اور ذہین فن کار اور شو بزنس کے ایک کام یاب آرٹسٹ کی موت کے باوجود لاہور کا سارا کاروبار نارمل طریق پر چلتا رہے گا۔

    شاہ عالمی چوک سے لے کر میو اسپتال کے چوک تک ٹریفک اسی طرح پھنسا رہے گا، کوچوان گھوڑوں کو اونچے اور قریبی کوچوان کو نیچے لہجے میں گالیاں دیتے رہیں گے۔ اسپتال کے اندر مریضوں کو کھانا جاتا رہے گا۔ ٹیلی فون بجتا رہے گا، بجلی کا بل آتا رہے گا، فقیر سوتا رہے گا، چوڑھے ٹاکی مارتے رہیں گے، استاد پڑھاتے رہیں گے، ریکارڈنگ ہوتی رہے گی، قوال گاتے رہیں گے، فاحشہ ناچتی رہے گی، ڈاکیا چلتا رہے گا، سوئی گیس نکلتی رہے گی، تقریریں ہوتی رہیں گی، غزلیں لکھی جاتی رہیں گی، سوئی میں دھاگہ پڑتا رہے گا، قتل ہوتا رہے گا، زچہ مسکراتی رہے گی، بچہ پیدا ہوتا رہے گا۔

    شادمان کی لڑکی ٹیلی فون پر اپنے محبوب سے گفتگو کر رہی ہو گی اور آپریٹر درمیان میں سن رہا ہو گا، موچی کے باہر بڈھے گھوڑوں کے نعل لگ رہے ہوں گے اور گھوڑا اسپتال میں نو عمر بچھڑے آختہ کیے جا رہے ہوں گے۔

    چلّہ کاٹنے والے دعائے حزب البحر پر داہنے ہاتھ کی انگلیاں کھول کر اوپر کی طرف اٹھا رہے ہوں گے۔ لڈو بناتا ہوا حلوائی اٹھ کر سامنے والی نالی پر پیشاب کر رہا ہو گا۔ لبرٹی مارکیٹ میں دو نوجوان ایک لڑکی کے پیچھے گھوم رہے ہوں گے، دلہنوں کے جسموں سے آج ایک اجنبی مہک ابھی اٹھ رہی ہو گی۔ بچے گلی میں کیڑی کاڑا کھیل رہے ہوں گے اور قریبی مکان میں ایک ماں اپنے بیٹے کو پیٹ رہی ہو گی جس کا خاوند ایک اور عورت کے ساتھ جہانگیر کے مقبرے کی سیر کر رہا ہو گا۔ یونیورسٹی میں لڑکیاں کھلے پائنچوں کی شلواریں پہن کر لڑکوں سے یونین کی باتوں میں مصروف ہوں گی اور ہیلتھ سیکریٹری لاٹ صاحب کے دفتر میں اپنی ریٹائرمنٹ کے خوف سے یرقانی ہو رہا ہو گا۔

    کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ایک ادیب اور فن کار نے ساری عمر پھوئی پھوئی کر کے اپنی شہرت اور نیک نامی کا تالاب بھرا ہو گا اور دن رات ایک کر کے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا ہو گا اور اس ایک چھوٹے سے حادثے سے وہ سارے دلوں سے نکل گیا ہو گا۔ ہر یاد سے محو ہو گیا ہو گا۔ اس دل سے بھی جس نے اسے جنم دیا ہو گا۔ اس دل سے بھی جس نے اسے سچ مچ یاد کیا تھا اور اس دل سے بھی جس نے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے دلی محبّت کی تھی۔

    تیسرے چوتھے روز اتوار کے دن حلقۂ اربابِ ذوق ادبی میں میرے لیے ایک قرار دادِ تعزیت پاس کی جائے گی۔ عین اسی وقت حلقۂ اربابِ ذوق سیاسی میں بھی ایک قرار داد تعزیت پیش کی جائے گی۔ سب متفقہ طور پر اسے منظور کریں گے، لیکن اس کے آخری فقرے پر بحث کا آغاز ہو گا کہ حلقۂ اربابِ ذوق کا یہ اجلاس حکومت سے پرزور اپیل کرتا ہے کہ مرحوم کے لواحقین کے لیے کسی وظیفے کا بندوبست کیا جائے۔ اس پر حاضرین دو گروہوں میں بٹ جائیں گے۔

    ایک اس کے حق میں ہو گا کہ یہ فقرہ رہنے دیا جائے کیونکہ مرحوم ایک صاحبِ حیثیت ادیب تھا اور اس کی اپنی ذاتی کوٹھی ماڈل ٹاؤن میں موجود ہے۔ پھر کوٹھی کی تفصیلات بیان کی جائیں گی، کچھ اسے دو کنال کی بتائیں گے، کچھ تین کنال کی، کچھ دبی زبان میں کہیں گے کہ اس کی بیوی پڑھی لکھی خاتون ہے وہ نوکری بھی کر سکتی ہے اور لکھنے لکھانے کے فن سے بھی آشنا ہے۔

    ریڈیو آنے جانے والے ایک ادیب سامعین کو بتائیں گے کہ بانو کی ذاتی آمدنی ریڈیو ٹی وی سے دو ہزار سے کم نہیں۔ میرے ایک دور کے رشتہ دار ادیب اعلان کریں گے کہ وہ ایک مال دار گھرانے کا فرد تھا اور اس کا اپنے باپ کی جائیداد میں بڑا حصّہ ہے جو اسے باقاعدگی سے مل رہا ہے۔ پھر کوئی صاحب بتائیں گے کہ ورثا کو بورڈ سے گریجویٹی بھی ملے گی۔ اسٹیٹ لائف انشورنس کے ایک ادب نواز کلرک، جو حلقے کی میٹنگوں میں باقاعدگی سے آتے ہیں بتلائیں گے، اس نے اپنے تینوں بچّوں کی انشورنس بھی کرا رکھی تھی۔ گو ان کی رقم بیس بیس ہزار سے زائد نہیں۔ طویل بحث کے بعد اتفاقِ رائے سے یہ فیصلہ ہو گا کہ آخری فقرہ کاٹ دیا جائے، چنانچہ آخری فقرہ کٹ جائے گا۔

    پھر مجھ پر آٹھ آٹھ منٹ کے تین مقالے پڑھے جائیں گے اور آخری مضمون میں یہ ثابت کیا جائے گا کہ میں دراصل پنجابی زبان کا ایک ادیب اورشاعر تھا اور مجھے پنجاب سے اور اس کی ثقافت سے بے انتہا پیار تھا۔

    یہ سب کچھ ہو جانے کے بعد دن ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں تبدیل ہونے لگیں گے اور میری پہلی برسی آ جائے گی۔ یہ کشور ناہید کے آزمائش کی گھڑی ہو گی، کیونکہ ہال کی ڈیٹس پہلے سے بک ہو چکی ہوں گی اور میری برسی کے روز آل پاکستان ٹیکنیکل اسکولز کے ہنر مند طلبا کا تقریری مقابلہ ہو گا، کشور کو پاکستان سینٹر میں میری برسی نہ منا سکنے کا دلی افسوس ہو گا اور وہ رات گئے تک یوسف کامران کی موجودگی میں کفِ افسوس ملتی رہے گی۔

    لوگ اس کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اس کو ایک ایشو بنا لیں گے اور لوگ جو عمر بھر مجھے جائز طور پر ناپسند کرتے رہے تھے وہ بھی کشور ناہید کے ’برخلاف‘ دھڑے میں شامل ہو جائیں گے۔ مجھ سے محبّت کی بنا پر نہیں کشور کو ذلیل کرنے کی غرض سے، پھر ذوالفقار تابش کی کوششوں سے گلڈ کے بڑے کمرے میں یہ تقریب منائی جائے گی اور عتیق اللہ، شکور بیدل، ریاض محمود، غلام قادر، سلیم افراط مجھ پر مضمون پڑھیں گے۔

    کس قدر دکھ کی بات ہے کہ زمانہ ہم جیسے عظیم لوگوں سے مشورہ کیے بغیر ہم کو بھلا دے گا۔ میں ہُوا… نپولین ہوا، شہنشاہ جہانگیر ہوا، الفرج رونی ہوا، ماورا النّہر کے علما ہوئے، مصر کا ناصر ہوا، عبدالرحمٰن چغتائی ہوا، کسی کو بھی ہماری ضرورت نہ رہے گی اور اتنے بڑے خلا پانی میں پھینکے ہوئے پتھر کی طرح بھر جائیں گے۔ ہماری اتنی بڑی قربانیوں کا کہ ہم فوت ہوئے اور فوت ہونا کوئی آسان کام نہیں، لوگ یہ صلہ دیں گے۔

    افسوس زمانہ کس قدر بے وفا ہے اور کس درجہ فراموش کار ہے۔

    (کتاب "سفر در سفر” از اشفاق احمد سے اقتباسات، اردو کے نام ور ادیب اور افسانہ نگار نے اپنی موت کے پس منظر میں‌ یہ تحریر سپردِ قلم کی تھی)

  • بات بات پر اڑنے اور لڑنے والا ادیب

    بات بات پر اڑنے اور لڑنے والا ادیب

    منٹو کی باتیں بڑی دل چسپ ہوتی تھیں۔ انھیں ہمیشہ یہ احساس رہتا تھا کہ میں ہی سب سے اچھا لکھنے والا ہوں، اس لیے وہ اپنے آگے کسی کو گردانتے نہ تھے۔

    ذرا کسی نے دُون کی لی اور منٹو نے اڑ لگایا، خرابیِ صحّت کی وجہ سے منٹو کی طبیعت کچھ چڑچڑی ہو گئی تھی۔ مزاج میں سہار بالکل نہیں رہی تھی۔ بات بات پر اڑنے اور لڑنے لگتے تھے جو لوگ ان کے مزاج کو سمجھ گئے تھے، وہ ان سے بات کرنے میں احتیاط برتا کرتے تھے۔

    اُن کا مرض بقول ان کے کسی ڈاکٹر سے تشخیص نہ ہو سکا۔ کوئی کہتا دق ہے، کوئی کہتا معدے کی خرابی ہے، کوئی کہتا جگر کا فعل کم ہو گیا ہے، اور ایک ستم ظریف نے کہا کہ تمہارا پیٹ چھوٹا ہے اور انتٹریاں بڑی ہیں، مگر منٹو ان سب بیماریوں سے بے پروا ہو کر ساری بد پرہیزیاں کرتا رہا۔

    منٹو کی زبان پر ’’فراڈ‘‘ کا لفظ بہت چڑھا ہوا تھا۔ میرا جی کے ہاتھ میں دو لوہے کے گولے رہتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا، ان کا مصرف کیا ہے؟ منٹو نے کہا، فراڈ ہے۔ میرا جی نے سیویوں کے مزعفر میں سالن ڈال کر کھانا شروع کر دیا۔ میں نے کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ منٹو نے کہا ’’فراڈ‘‘۔ اوپندر ناتھ اشکؔ نے کوئی چیز لکھی، منٹو نے کہا فراڈ ہے۔ اُس نے کچھ چیں چیں کی تو کہا ’’تُو خود ایک فراڈ ہے۔‘‘

    ("سعادت حسن منٹو کی یاد میں” از شاہد احمد دہلوی)

  • اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ نگار  ابوالفضل صدیقی کی برسی

    اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ نگار ابوالفضل صدیقی کی برسی

    ابوالفضل صدیقی اردو کے ممتاز ادیب، منفرد اور صاحبِ اسلوب افسانہ نگار ہیں۔ انھیں اردو ادب میں صفِ اوّل کا افسانہ نگار مانا جاتا ہے۔ آج ابوالفضل صدیقی کی برسی ہے۔

    16 ستمبر 1987 کو ابوالفضل صدیقی کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق بدایوں‌ سے تھا۔ وہ 4 ستمبر 1908 کو پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے آئے۔

    ابوالفضل صدیقی نے 1932 میں افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کے ہم عصروں میں سجاد حیدر یلدرم، اختر حسین رائے پوری، غلام عباس، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی شامل تھے اور ان کے درمیان ابوالفضل صدیقی نے خود کو منوایا۔ ان کے افسانوں کے موضوعات اور طرزِ نگارش اسلوب سب سے جدا تھا جس نے انھیں ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز کیا۔

    ابوالفضل صدیقی کے افسانوی مجموعوں میں ستاروں کی چال، احرام، آئینہ، انصاف، زخم دل جب کہ ناولوں میں سرور اور ترنگ اور ناولٹ کے مجموعوں میں دن ڈھلے، گلاب خاص اور دفینہ شامل ہیں۔

    ابوالفضل صدیقی نے خاکہ نگاری میں‌ بھی اپنا کمال دکھایا اور ’’عہد ساز لوگ‘‘ کے نام سے ان کے تحریر کردہ شخصی خاکوں کا مجموعہ منظرِ عام پر آیا اور ’’کہاں کے دیر و حرم‘‘ ان کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔

  • "تیسری دفعہ کا ذکر ہے”

    "تیسری دفعہ کا ذکر ہے”

    تیسری دفعہ کا ذکر ہے کہ تیسری دنیا کے ایک ملک کے تیسرے کنارے پر ایک جنگل تھا۔

    اس جنگل میں ظاہر ہے کہ جنگل ہی کا قانون نافذ تھا۔ جو جانور نہ تین میں ہوتا نہ تیرہ میں اس جنگل میں گلچھرے اڑاتا۔ دوسرے جنگلوں کی طرح اس جنگل میں بھی ایک بادشاہ موجود تھا۔ جو بھی اس کے سامنے تین پانچ کرتا، یہ بادشاہ اس کا تیا پانچا کر دیتا۔

    ہر طرف زاغ و زغن منڈلاتے پھرتے تھے۔ ہر شاخ پر بوم و شپر کا آشیاں تھا۔ تمام جانور اپنی اپنی دھن میں مگن مستقبل سے بے خبر سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کررہے تھے۔ سب سے زیادہ مست توتے تھے جو جی بھر کر چُوری کھاتے اور ٹیں ٹیں کر کے اس درندے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے، دوسرے طیور آوارہ، حشرات اور جانوروں کو سبز باغ دکھاتے اور بہتی گنگا میں چونچ دھو کر خوشی سے پروں میں پھولے نہ سماتے۔

    وقت سدا ایک جیسا نہیں رہتا۔ ایک رات موسلادھار بارش ہوئی۔ آسمانی بجلی گرنے سے شیر کا غار جل گیا۔ یہ خون آشام درندہ مرنے سے تو بچ گیا، مگر آگ سے بچ نکلنے کی کوشش میں اس کی چاروں ٹانگیں بری طرح جھلس گئیں اور وہ مکمل طور پر اپاہج ہو کر رہ گیا۔ اب وہ چلنے سے معذور تھا۔ اس عذاب میں بھی وہ اپنی عیاری، شقاوت اور لذت ایذا سے باز نہ آیا، اس نے کچھ ایسے گماشتے تلاش کر لیے جس اس کے لیے راتب بھاڑا فراہم کرتے، اس کے بدلے کچھ بچا کھچا مال انھیں بھی مل جاتا جس سے وہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھر لیتے، لیکن اندر ہی اندر انھیں یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ انھیں شیر کا بچا کھچا گوشت، اوجھڑی، ہڈیاں، پسلیاں، گردن اور سری پائے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

    ان گماشتوں میں بجو، لومڑی اور بھیڑیا شامل تھے۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس جنگل میں نافذ جنگل کے قانون کے خلاف جو بھی صدائے احتجاج بلند کرتا اس کی ہڈی پسلی ایک کر دی جاتی تھی۔

    سیانے کہتے ہیں کبھی کبھی کوڑے کے ڈھیر کو بھی اپنی اہمیت کا احساس ہو جاتا ہے۔ بجو، لومڑی اور بھیڑیا ایک شام شیر کے پاس گئے اور احتجاج پیش کیا۔ بجو نے اپنی مکروہ آواز میں کہا۔

    ’’مجھے قبروں سے تازہ دفن ہونے والے مردوں کا گوشت بہت پسند ہے، مگر کیا کروں آج کل جو بھی مردے دفن کیے جاتے ہیں وہ محض ڈھانچے ہوتے ہیں۔ ان کے جسم سے تمام گوشت تو دنیا والے پہلے ہی نوچ لیتے ہیں۔ یہ مظلوم زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ میں تو اس آس پر فربہ جانوروں کو بہلا پھسلا کر یہاں لاتا ہوں کہ مجھے کچھ چربیلا گوشت ملے گا، مگر یہاں بھی سوائے ہڈیوں کے کچھ نہیں ملتا، یہ ہمارا استحصال ہے۔ اپنے جائز حقوق کی بحالی تک ہم مزید شکار نہیں لا سکتے۔ تمام جانور ہماری فریب کاری، غداری اور ضمیر فروشی کی وجہ سے ہم سے بیزار ہیں۔ ہماری غداری کا مناسب صلہ ملنا چاہیے۔‘‘

    بھیڑیا جو اپنی لاف زنی کے لیے مشہور تھا، اس نے بجو کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔ ’’میں علی الصبح ایک ننھا بھیڑیا آپ کے پاس ورغلا کر لاتا جس کا آپ خون پی جاتے اور تمام گوشت ہڑپ کر جاتے۔ میں نے اب تک ساٹھ بھیڑیے آپ کے ناشتے کے لیے پیش کیے، مگر کبھی مجھے نرم گوشت آپ نے نہیں دیا۔ میں اپنے ساتھیوں کا غدار ضرور ہوں، مگر احمق نہیں۔ مناسب معاوضے کے بغیر میں اب مزید اپنے ساتھی پکڑ کر آپ کے حوالے نہیں کرسکتا۔‘‘

    وقت کی بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر جاندار کو کبھی نہ کبھی بے بسی کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ جنگل کے بادشاہ شیر پر بھی ایسا ہی کٹھن وقت آ گیا تھا۔ درندوں کی زندگی میں جب سخت مقام آتے ہیں تو وہ حکمتِ عملی کے تحت شتر گربہ کی پالیسی اپناتے ہیں اور نرم رویہ اپنا کر نہ صرف اپنا الو سیدھا کرتے ہیں بلکہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے گدھے کو بھی اپنا باپ کہنے میں تامل نہیں کرتے۔ شیر نے بڑی خند ہ پیشانی سے یہ سب باتیں خاموشی سے سنیں اور آنکھیں بند کر لیں۔ اب اس نے لومڑی سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ بھی اپنا موقف بیان کرے۔لومڑی نے اپنی قبیح عادت کے مطابق چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے جنگل کے بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا۔

    ’’انسانوں کو اپنے ابنائے جنس سے غداری کرنے پر ہر دور میں بھاری انعام ملتے رہے ہیں۔ ہماری ضمیر فروشی کا مناسب معاوضہ ہمیں آج تک کبھی نہیں مل سکا۔ اب ہم مزید یہ شقاوت آمیز ناانصافی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم شکار میں سے اپنا مساوی حصہ لیے بغیر اب کبھی جانوروں کے بے گنا ہ قتلِ عام میں شریکِ جرم نہیں رہ سکتے۔‘‘

    شیر یہ سب باتیں سن کر دہاڑا۔ ’’مجھے تمھارے تمام خیالات سے اتفاق ہے۔ آئندہ تم جو بھی شکار لاؤ گے اس کے چار برابر حصے کیے جائیں گے۔ اب جلدی جاؤ اور ایک نرم و نازک ہرن کو گھیر کر لاؤ ظل تباہی آج کا ناشتہ ہرن کے گوشت سے کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

    جنگل کے بادشاہ کا فیصلہ سن کر تینوں جانوروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور ان کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک پیدا ہو گئی۔ وہ اسی وقت ایک جھیل پر پہنچے، ایک کم سن ہرن پانی پی رہا تھا۔ لومڑی نے اس سے کہا،

    ’’اے میرے چاند ادھر میرے ساتھ آ، میں تمھیں آج جنگل کے بادشاہ کی زیارت کے لیے لے جاؤں گی۔‘‘

    ’’نہیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔‘‘ چھوٹا ہرن بولا۔’’تم نے وہ مثل نہیں سنی کہ ’’اس ہرنی کی خیر نہیں جو شیر کی جانب جائے گی۔‘‘

    بجو بولا۔ ’’ہرن چاند تم کس قدر خوب صورت ہو؟ میرا دل چاہتا ہے کہ تم ہی ہمارے بادشاہ بن جاؤ۔‘‘

    ’’ واہ کیا اچھی بات کہی ہے۔‘‘ بھیڑیا بولا۔

    ’’اگر ہرن جنگل کا بادشاہ بن جائے تو انقلاب آ جائے گا۔ ہرن راج آج وقت کی ضرورت ہے۔ اس طرح جنگل کے جانور تیزی سے آگے بڑھ سکیں گے۔‘‘

    ’’میں کیسے بادشاہ بن سکتا ہوں؟‘‘ہرن نے فرطَ اشتیاق سے کہا۔ ’’اس وقت جنگل کا بادشاہ تو شیر ہے۔ اسے کون ہٹائے گا؟‘‘

    لومڑی نے برف پگھلتی دیکھی تو بولی۔ ’’جنگل کا بادشاہ شیر اس وقت قریب المرگ ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنا جانشیں تمھیں بنا دے، اس نے ہمیں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے۔ آج ہی تمھاری تاج پوشی کر دی جائے گی۔ اس کے بعد جنگل میں ہرن راج کا آغاز ہو جائے گا۔‘‘

    ہرن اسی وقت آمادہ ہو گیا اور لومڑی، بجو اور بھیڑیے کے ہمراہ لولے لنگڑے جنگل کے بادشاہ کے غار میں داخل ہو گیا۔ لومڑی، بھیڑیے اور بجو نے شیر کو ہرن کے ساتھ طے پانے والی تمام شرائط سے آگاہ کر دیا۔

    شیر نے کہا۔ ’’میرا جانشین ہرن ہی ہو گا، ہرن مینار کے بعد اب ہرن کی لاٹھ تعمیر ہو گی، ہر طرف ہرن کے نعرے بلند ہوں گے۔ آؤ میرے عزیز ہرن، میں تمھاری تاج پوشی کی رسم ادا کر کے اپنی ذمہ داری پوری کروں۔آؤ جنگل کے مستقبل کے حکمران میں اپنی بادشاہت تمھیں منتقل کروں۔‘‘

    یہ سنتے ہی ہرن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ شیر کی آغوش میں جا بیٹھا۔ پلک جھپکتے میں شیر کے دانت ہرن کی شہ رگ میں پیوست ہو گئے۔ ہرن کی شہ رگ کا خون پینے کے بعد شیر نے ہرن کی کھال اپنے نوکیلے پنجوں سے ادھیڑ دی۔ اور تمام گوشت کے چار برابر حصے کر دیے۔ لومڑی، بجو اور بھڑیے کے منہ میں پانی بھر آیا۔ انھیں یقین تھا کہ آج شیر اپنا وعدہ وفا کرے گا۔ وہ سب دل ہی دل میں متاسف تھے کہ اب تک ناحق شیر کی نیت پر شک کرتے تھے۔

    اچانک شیر زور سے دہاڑا۔ شیر کی آواز سن کر سارا جنگل گونج اٹھا۔ شیر نے کہا۔

    ’’میں نے حسبِ وعدہ شکار کے چار حصے کر دیے ہیں۔‘‘

    لومڑی بولی، ’’ اب ہمارے حصے ہمیں دیں۔ کل سے کچھ کھانے کو نہیں ملا۔ اس کم بخت ہرن کو بڑی مشکل سے فریب دے کر یہاں لائے ہیں۔‘‘

    ’’چار حصے تو میں نے کر دیے۔‘‘ شیر نے گرج کر کہا۔

    ’’اب تقسیم اس طرح سے ہو گی کہ پہلا حصہ میں لوں گا کیوں کہ میں علیل ہوں اور مجھے غذا کی ضرورت ہے۔دوسرا حصہ بھی میرا ہے کیوں کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں، تیسرا حصہ مجھے جنگل کے قانون کی شق آٹھ کے تحت ملے گا، جسے کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اور رہ گیا آخری اور چوتھا حصہ وہ یہ میری ناک کے نیچے پڑا ہے جس کو ضرورت ہے وہ آگے آئے اور اسے اٹھا کر لے جائے۔‘‘

    یہ سن کر لومڑی، بجو اور بھیڑیا وہاں سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدے کے سر سے سینگ۔

    انتخاب از حکایات اور کہانیاں

  • اردو کے کلاسک ادیب سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ

    اردو کے کلاسک ادیب سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ

    آج اردو کے کلاسک ادیب اور صاحب اسلوب افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ ہے۔

    منٹو نے معاشرے کی ننگی سچائیوں کو افسانوں کا موضوع بنایا تو اخلاقیات کے نام نہاد علم بردار پریشانی کا شکار ہو گئے اور ان کے خلاف محاذ بنا لیا۔

    اس منفرد اور بے مثال افسانہ نگار کے قلم کی کاٹ کے سامنے منافقانہ روش رکھنے والے سماج کے اخلاق کے نام نہاد محافظ نہیں ٹک سکے، منٹو کی اس روش کے خلاف یہی بغاوت ان کی شہرت کا باعث بنی۔

    مختصر اور جدید افسانے لکھنے والے یہ بے باک مصنف 11 مئی 1912 کو پنجاب ہندوستان کے ضلع لدھیانہ کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری نسل کا یہ خوب صورت، فیشن ایبل، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والا مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والا یہ افسانہ نگار ہم عصر ادیبوں میں نمایاں شخصیت کا مالک تھا لیکن پھر انتہائی کسمپرسی کی حالت میں، دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گِھر کر محض تینتالیس سال کی عمرمیں اس دارِفانی سے کوچ کر گیا۔

    منٹو اپنی بیوی صفیہ کے ساتھ

    منٹو کا قلم مخصوص طور پر تحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنے والا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انھیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی سے بھی دوچار کیا۔ معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پر جو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک ناقابل فراموش داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی سرجری کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر، دلالوں پر اور انسانی فطرت پر قلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جا سکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پر ابھارا جو ہند و پاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پر گناہ تصوّر کیے جاتے تھے۔

    منٹو اپنی بیٹیوں نزہت، نگہت اور نصرت کے ساتھ

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل انسانی حقوق کی پامالی رہا اور مزید متنازع فیہ موضوعات پر کھل کر قلم طراز ہوتا رہا جن پر کئی بار انھیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگر قانون انھیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریر گھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں۔‘‘

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد، لاؤڈ اسپیکر، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، گنجے فرشتے، شکاری عورتیں، نمرود کی خدائی، کالی شلوار، بلاؤز اور یزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    اپنی عمر کے آخری سات برسوں میں منٹو دی مال لاہور پر واقع بلڈنگ دیال سنگھ منشن میں مقیم رہے، جہاں اپنی زندگی کا آخری دور انھوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثر ہو چکا تھا اور آخر کار 18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کو تاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ بن گیا۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پر حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شایع کیا تھا۔