Tag: مشہور امریکی

  • بنجمن فرینکلن کی وہ عادت جس نے اس کا احساسِ شرمندگی دور کیا

    بنجمن فرینکلن کی وہ عادت جس نے اس کا احساسِ شرمندگی دور کیا

    غربت اور مفلسی کو اپنے ارادے کی پختگی، محنت اور لگن سے شکست دے کر غیرمعمولی اور مثالی کام یابیاں سمیٹنے والے بنجمن فرینکلن نے آج ہی کے دن یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    بنجمن فرینکلن کی خود نوشت سے یہ اقتباس پڑھیے جو اس کی زندگی کی وضاحت کرتا ہے۔

    "میں اپنی کام یابیوں اور کارناموں سے بہت خوش تھا، کام یابی میرے قدم چوم رہی تھی مگر اس کے باوجود مجھے یہ سب خوشیاں خالی خولی نظر آتیں۔ مجھے سب کچھ کھوکھلا سا دکھائی دیتا۔ ایک بار میں نے تنہائی میں بیٹھ کر اس چیز کا جائزہ لیا تو مجھے پتہ چلا کہ میں ایک اچھا دوست یا ساتھی نہیں تھا۔ میں صرف لوگوں سے اسی بات کی توقع رکھتا تھا کہ وہ میری عزّت کریں، میری تعریف کریں، خود میں کبھی بھی کسی کے لیے مدد گار ثابت نہیں ہوا تھا۔ مختصر یہ کہ میں صرف حاصل کرنے پر یقین رکھتا تھا نہ کہ دینے پر۔

    اس روز میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے آپ کو یکسر بدل ڈالوں گا اور میں نے 12 نیکیوں کا انتخاب کرلیا اور فیصلہ کیا کہ ہر روز ان میں سے ایک میں کروں گا اور ہوسکے تو پوری کی پوری نیکیاں ایک دن میں کر کے دکھاؤں گا اپنے آپ کو۔ اب میرا یہ اصول ہوگیا تھا کہ میں جس روز ایسا نہ کرتا اپنے روزنامچے میں ان نیکیوں یا خوبیوں کے آگے صفر لکھ دیتا۔ صفر دیکھ کر مجھے بہت شرمندگی ہوتی۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں اس بارے میں بڑا پکا اور مضبوط ہو گیا۔ اب میرے روزنامچے میں صفر نہیں ہوتا تھا۔”

    بنجمن فرینکلن 17 جنوری 1706ء کو امریکا کے شہر بوسٹن میں پیدا ہوا تھا۔ اسے ایک سیاست دان، تاجر، ناشر، سائنس دان اور سفارت کار کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بنجمن فرینکلن کو چار زبانیں آتی تھیں۔

    بوسٹن میں اس کا خاندان مفلسی کی زندگی بسر کررہا تھا بنجمن نے جب سنِ شعور میں قدم رکھا تو بوسٹن سے نکل کر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ وہ فلاڈیلفیا چلا آیا۔ تہی دامن بنجمن فرینکلن نے یہاں پہنچ کر چھوٹے موٹے کام کرکے گزر بسر شروع کی۔ جلد ہی کسی طرح‌ اسے اشاعت و طباعت کا کام مل گیا اور وہ ناشر بن کر اس کام سے خوش حال ہو گیا۔ اسے پڑھنے لکھنے کا شوق شروع ہی سے تھا۔ سائنس میں‌ اس کی دل چسپی پڑھنے کی حد تک ہی نہیں تھی بلکہ وہ تجربات بھی کرتا رہتا تھا۔ فارغ وقت میں سائنسی کتب پڑھ کر ان کی مدد سے مختلف بنیادی سائنسی فارمولوں، اشیا اور مشینوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا اور سادہ تجربات بھی کرتا جس نے ایک دن اسے موجد بنا دیا۔

    اس نے برقیات اور روشنی کے حوالے سے تحقیقی کام بھی کیا اور بطور سائنس دان بائی فوکل عدسہ، چولھا (اسٹوو) ایجاد کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ یہ ایجادات اس کی وجہِ شہرت بنیں۔ لیکن اس کی کام یابیوں کا سفر یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ بحیثیت صحافی اور قلم کار بھی اس نے امریکا میں بڑی شہرت پائی۔

    اشاعت و طباعت تو اس کا کام تھا ہی، اس نے بعد میں poor richard’s almanack کے عنوان سے ایک مقالہ بھی تحریر کردیا جس کا طرزِ تحریر بہت پسند کیا گیا۔ اس کے کئی برس بعد بنجمن فرینکلن کی خود نوشت سوانح منظرِ عام پر آئی اور یہ بہت مقبول ہوئی۔ آج بھی امریکی اسے رغبت سے پڑھتے ہیں۔ اس کتاب میں‌ بنجمن فرینکلن نے اپنی زندگی کے کئی اہم اور دل چسپ واقعات رقم کیے ہیں جو غربت سے اس کی امارت اور کام یابیوں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    اسی عرصے میں اس نے سیاست اور سفارت کاری کے میدان میں بھی امریکا میں‌ پہچان بنائی۔ اسے ایک قابل منتظم قرار دیا جاتا ہے جس نے نوآبادیاتی نظام کے تحت کام کیا۔ بعد میں وہ قانون ساز کے طور پر پنسلوانیا کی مجلس میں منتخب ہوا اور فرانس میں امریکا کا سفیر رہا۔ بنجمن امریکی آئین ساز مجلس کا بھی رکن تھا اور ان شخصیات میں‌ شامل ہے جنھوں‌ نے امریکا کے اعلانِ آزادی پر دستخط کیے تھے۔

    17 اپریل 1790ء کو بنجمن فرینکلن نے پھیپھڑوں کے ایک مرض کے سبب زندگی کی بازی ہار دی تھی۔

  • بابائے ایجادات کا تذکرہ تھامس ایلو ایڈیسن جنھیں مخالفت اور لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا

    بابائے ایجادات کا تذکرہ تھامس ایلو ایڈیسن جنھیں مخالفت اور لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا

    تھامس ایلوا ایڈیسن کو عموماً بابائے ایجادات کہا جاتا ہے۔ اس عظیم امریکی سائنس دان کا سنِ پیدائش 1847ء ہے جو زندگی کی 84 بہاریں دیکھنے کے بعد 1931ء آج ہی کے دن اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا تھا۔

    آج کی طرح ایڈیسن کے زمانے میں نہ تو خبر رسانی کے ذرایع ایسے تھے کہ کسی کارنامے کی سیکنڈوں میں دنیا کو خبر ہوجائے اور نہ ہی مستند معلومات کا حصول سہل تھا۔ کوئی خبر، اطلاع، اعلان یا کسی بھی واقعے کے بارے میں‌ لوگ سنی سنائی باتوں پر یقین کرلیتے۔ اس طرح مبالغہ آرائی، جھوٹ یا غلط فہمی بھی پیدا ہوجاتی تھی۔ ایسا ہی کچھ ایڈیسن کے ساتھ بھی ہوا اور اس کی ایجادات، سائنسی تھیوری یا اکثر کارناموں پر اسے حاسدین کی مخالفت کے ساتھ لعن طعن بھی برداشت کرنا پڑا۔ اس پر الزام لگا کہ وہ دوسروں کی سائنسی نظریات اور ان کی تحقیق و تجربات سے فائدہ اٹھا رہا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلب ایڈیسن کی ایجاد نہیں تھا بلکہ اس نے ہمفرے ڈیوی کے خیالات اور آئیڈیا پر کام کر کے ایک تجربہ کیا اور بلب ایجاد کرلیا۔ تاہم اسے اوّلین برقی قمقمے کا موجد مانا جاتا ہے۔

    تھامس ایڈیسن ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اس خاندان کے آمدنی کے ذرائع محدود تھے جس میں تھامس اور اس کے 8 بہن بھائیوں کی پرورش مشکل تھی۔ اس کے باوجود اس کی والدہ نے جو ایک اسکول میں استانی تھیں، اپنے بچّوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔

    یہ عجیب بات ہے، مگر اس زمانے کے اکثر سائنس داں اور اہم اشیا اور قابلِ ذکر ایجادات کے لیے مشہور شخصیات کسی نہ کسی بیماری یا جسمانی معذوری کا شکار رہی ہیں۔ ایڈیسن کو بھی 8 برس کی عمر میں تیز بخار ہوا جس سے ان کے دونوں کانوں کی سماعت متاثر ہوئی اور چند برس میں وہ کچھ بھی سننے کے قابل نہیں رہا۔ ایڈیسن کو بچپن سے سائنسی تجربات کا بہت شوق تھا۔

    وہ بارہ سال کا ہوا تو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ریل گاڑی میں کتابیں بیچنے کا کام کرنے لگا۔ اس نے کچھ عرصہ بعد اسی ڈبے میں ایک چھوٹا سا کیبن بنا لیا، اور بعد میں اسی جگہ کو ایک لیبارٹری میں تبدیل کرکے برقی کام شروع کردیا۔ اس نے اپنی ذہانت اور شوق و لگن سے کچھ ایسے تجربات کیے جنھوں نے اسے موجد بنا دیا۔

    ایڈیسن نے آٹومیٹک ٹیلگراف کے لیے ٹرانسمیٹر ریسور ایجاد کیا اور اس اثنا میں چند مزید چھوٹی ایجادات کیں جن سے اسے خاصی آمدنی ہوئی۔ بعد میں وہ ایک ذاتی تجربہ گاہ بنا کر سائنسی تجربات اور ایجادات میں‌ مصروف ہوگیا جن میں فونو گراف (جس نے آگے چل کر گرامو فون کی شکل اختیار کی) بلب، میگا فون، سنیما مشین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

    اس امریکی موجد کو 1915ء میں نوبل پرائز بھی ملا۔ بچپن سے تنگی اور عسرت دیکھنے کے علاوہ بیماری کا شکار ہوجانے کے باوجود ایڈیسن نے ہمّت نہ ہاری اور آج اس کا شمار انیسویں صدی کے بہترین موجد کے طور پر کیا جاتا ہے۔