Tag: مشہور امریکی ناول نگار

  • فاکنر اور امریکی روح کی پنہاں کشمکش

    فاکنر اور امریکی روح کی پنہاں کشمکش

    فاکنر کا فن امریکی ادب کی ٹیڑھی کھیر ہے۔ فاکنر کو پڑھنا اور سمجھنا دونوں محنت طلب کام ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ 1946ء میں فاکنر کی ایک بھی کتاب ناشروں سے دست یاب نہ ہو سکتی تھی۔ اگر فرانسیسی اوّل اوّل اس کا جوہر نہ پہچانتے اور بعد ازاں اسے نوبل انعام نہ ملتا تو شاید آج بھی اس کی تصنیفات عام طور پر دست یاب نہ ہوتیں اور ہیرمین میلول کی طرح وہ بھی گمنامی کی زندگی بسر کرتا، حالاں کہ فاکنر ہیمنگوے سے کہیں زیادہ امریکی ہے اور اس کی اچھی تحریروں سے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے جنوبی علاقے کی مٹی کی مہک صاف آتی ہے، لیکن اس کی مشکل پسندی اور اضطراب نے اسے مقبول نہ ہونے دیا۔ اُس کے بجائے ہیمنگوے امریکی ادب کا بین الاقوامی نمائندہ قرار پایا۔

    مندرجہ بالا سطور محمد سلیم الرّحمٰن کے مضمون سے نقل کی گئی ہیں جو انھوں نے امریکا کے نام وَر ادیب اور ناول نگار ولیم فاکنر پر لکھا تھا۔

    1897ء میں‌ پیدا ہونے والے ولیم فاکنر نے 1962ء میں‌ سانس لینے کی مشقت سے نجات پائی۔ اس نے قلم اور اپنے تخیل سے ادب نگری کو مالا مال کر دیا، اس کی ناول نگاری اور مختصر کہانیوں کے علاوہ شاعر اور مضمون نویس کے طور پر پہچان بنائی۔ اسے ادبی جینیئس کہا جاتا ہے جو بعد میں نوبیل انعام کا مستحق قرار پایا۔

    محمد سلیم الرحمٰن نے اپنے ایک مضمون میں اس امریکی تخلیق کار کے بارے میں لکھا:

    "فاکنر نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں دراصل یہ دکھایا ہے کہ خانہ جنگی ابھی ختم نہیں ہوئی، اسی شد و مد سے جاری ہے۔ صرف پیکار کی سطحیں بدل گئی ہیں اور یہ کہ امریکی سرزمین پر کالوں کا وجود اور ان کے ساتھ بدسلوکیاں، جو مسیحی تعلیمات کے صریحاً منافی ہیں، پھانسوں کی طرح ہیں جو سفید فام باشندوں کے ضمیر میں کھٹکتی رہتی ہیں اور شاید ضمیر تو نام ہی ایسی چیز کا ہے جس میں کچھ نہ کچھ پھانس کی طرح کھٹکتا رہے۔

    فاکنر ان فن کاروں میں نہیں جو کسی نقطہ نظر کو زندگی پر مسلط کر دیتے ہیں۔ اس کا وژن تو ایک جہان ہے، جس میں جنگل اور دریا اور جانوروں کی صورت میں فطرت بھی موجود ہے، شکاری بھی ہیں۔ جانوروں کے بھی، کالوں کے بھی اور اپنے ضمیر کے شکار بھی، اور جہاں زندگی، ہومر کے پیر مردِ بحری کی طرح، شکلیں بدل کر سامنے آتی رہتی ہے، یہاں تک کہ اس کی بدلتی ہوئی شکلوں میں ہمیں اپنے سوالوں کے جوابوں کی جھلکیاں نظر آنے لگتی ہیں۔

    فاکنر کو پڑھے بغیر امریکی روح کی پنہاں کشمکش کے بارے میں رائے قائم کر لینا ایسا ہی ہے جیسے ساحل پر کھڑے ہو کر سمندر کی گہرائی کا اندازہ لگانا۔”

  • ’ٹو کِل اے ماکنگ برڈ‘ کی خالق ہارپر لی آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوئی تھیں

    ’ٹو کِل اے ماکنگ برڈ‘ کی خالق ہارپر لی آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوئی تھیں

    ’ٹو کل اے ماکنگ برڈ‘ وہ مشہور ناول ہے جس کی مصنف ہارپر لی 55 سال تک دنیائے ادب میں اپنے اسی ناول کے سبب پہچانی جاتی رہیں اور خوب پذیرائی حاصل کی۔ 19 فروری 2016ء کو اس امریکی ناول نگار نے 89 سال کی عمر میں‌ یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ’ٹو کِل اے موکنگ برڈ‘ جدید ادب میں کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ اسے 1961ء میں ادب کا پلٹزر پرائز بھی ملا اور اس کے اب تک چار کروڑ سے زیادہ نسخے فروخت ہو چکے ہیں۔ ہارپر لی کے اس ناول پر فلم بنائی گئی جس نے 1962ء میں تین آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے۔

    عالمی شہرت یافتہ ہارپر لی کی زندگی اکثر لوگوں‌ کے لیے معمہ رہی ہے۔ وہ بہت کم منظرِ عام پر آئیں۔ انھیں‌ ادبی تقریبات میں‌ دیکھا گیا اور نہ ہی انھوں‌ نے ملکی یا غیر ملکی ادبی جرائد یا میڈیا پر ان کا انٹرویو پڑھا گیا۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اس شہرت اور بے حد پذیرائی کے باوجود پہلے کی ناول کی اشاعت کے 55 سال بعد تک ان کی کوئی کتاب سامنے نہیں‌ آئی تھی، اور پھر اپنی وفات سے ایک سال قبل انھوں نے اپنے نئے ناول ’گو سیٹ اے واچ مین‘ کی اشاعت کا اعلان کیا۔

    ہارپر لی کا ناول ’ٹو کل اے ماکنگ برڈ‘ وہ تصنیف ہے جو امریکا میں‌ اسکول میں، ادب کے شعبے میں اور مسلسل ان کتابوں کی فہرست میں شامل رہی ہے جو مطالعے کے لیے لازمی سمجھی جاتی ہیں۔

    ان کا پورا نام نیل ہارپر لی تھا، وہ امریکی ریاست الاباما کے شہر مونروویل میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایک اخبار کے مدیر اور پروپرائٹر تھے۔

    ہارپر لی نے یونیورسٹی آف الاباما سے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی۔ 2006ء میں انھیں ناٹرڈیم یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی جب کہ اس کے ایک سال بعد امریکا میں‌ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں صدراتی ایوراڈ آف فریڈم سے نوازا گیا۔

  • نوبیل انعام یافتہ پرل بَک کی پیاری دنیا کا تذکرہ

    نوبیل انعام یافتہ پرل بَک کی پیاری دنیا کا تذکرہ

    پرل بک (Pearl Sydenstricker Buck) کا تعلق امریکا سے تھا، جن کی عمر کے کئی برس چین میں گزرے اور انھیں وہاں‌ کی زندگی اور سماج کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اپنے انہی مشاہدات اور تجربات کو انھوں نے ایک ناول میں سمیٹ لیا۔ اور ان کی اس ادبی کاوش نے انھیں پلٹزر اور بعد میں نوبیل انعام یافتہ بنایا۔

    پرل بک فکشن رائٹر کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ وہ 1892ء میں امریکا میں پیدا ہوئیں۔ والد مذہب کے پرچارک تھے اور تبلیغی مشن کے ساتھ چین میں کئی سال گزارے جہاں 1934ء تک پرل بک کو بھی رہنے بسنے اور اس دوران خاص طور پر دیہاتی ماحول کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اسی دور کے اپنے مشاہدات اور تجربات ان کے ناول کا حصّہ بنے۔ یہ ناول بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔

    اس ناول کا نام گُڈ ارتھ (Good Earth) ہے جسے ‘پیاری زمین’ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا گیا اور یہ کام ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری جیسے نام ور پاکستانی ترقی پسند افسانہ نگار، نقّاد، ماہرِ لسانیات، محقق اور مترجم نے کیا جن کا یہ ترجمہ انجمن ترقیِ اردو دہلی نے شایع کیا۔

    مصنّفہ نے اپنے ناول میں ایک کسان وانگ لنگ کی زندگی کو دکھایا ہے جس نے انتہائی غربت جھیلی اور اسی دوران ہمّت کرکے اپنا کام شروع کیا۔ ایک باندی سے شادی کے بعد اس کی مستقل مزاجی اور محنت نے اس کی زمینوں کو وسعت دی۔ حالات موافق رہے اور وہ ایک کسان سے زمین دار بنتا گیا۔ ناول میں مصنفہ نے یہ بتایا ہے کہ انسان بالخصوص ایک کسان کا زمین کے ساتھ اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے، وہ اسے کبھی ختم نہیں‌ کرپاتا۔

    اس ناول میں ایک تاریخی قحط کا ذکر بھی کیا گیا ہے جس کے بعد کسان اور اس کا خاندان بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی زمین چھوڑ کر شہر میں آباد ہوتا ہے۔ وہ بھیک اور مانگ تانگ کر بھی گزارہ کرتے ہیں۔

    کہانی جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے کسان وانگ لنگ کی زندگی میں‌ اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اور مصنفہ انسانی فطرت، غربت اور اس کے پیٹ سے جنم لینے والے مسائل، مال و دولت کے بعد پیدا ہونے والی خرابیوں کے ساتھ سماجی نفسیات کے پہلوؤں کو بھی بیان کرتی چلی جاتی ہیں۔ یہ چند بہترین اور یادگار ناولوں میں سے ایک ہے جس کا اردو ترجمہ بھی نہایت شان دار ہے۔

    نوبیل انعام یافتہ ناول نگار پرل بک 1973ء کو 80 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

  • Gone  with  the Wind کی ریلیز میں دو سال تاخیر کیوں‌ ہوئی؟

    Gone with the Wind کی ریلیز میں دو سال تاخیر کیوں‌ ہوئی؟

    1939ء میں ہالی وڈ کی فلم Gone with the Wind (گون وِد دا وِنڈ) ریلیز ہوئی جس نے شائقین اور ناقدین سبھی کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اس فلم نے مختلف زمروں‌ میں اکیڈمی ایوارڈ حاصل کرنے کا ریکارڈ بنایا اور شان دار آرٹ فلم قرار پائی۔ اسے ہالی وڈ میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔

    ہدایت کار وکٹر فلیمنگ کی یہ شاہ کار بعد میں آنے والوں کے لیے مثال بنی جس کا سبب ان کی محنت اور کسی موقع پر سمجھوتا نہ کرنا تھا۔ اس کی تفصیل میں‌ جانے سے پہلے جان لیں‌ کہ فلم میں مرکزی کردار کس نے نبھایا۔ کلارک گیبل اور ویوین لیہہ وہ اداکار ہیں‌ جنھوں نے اپنی پرفارمنس سے اس کہانی میں‌ رنگ بھردیے، جب کہ لیزلی ہارورڈ اور اولیویا نے بھی مرکزی کردار نبھاتے ہوئے شان دار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا اور شائقین کی توجہ کا مرکز بنے۔

    اس فلم کی کہانی ایک ایسی بُری عورت کے گرد گھومتی ہے جو مختلف حالات کا سامنا کرتی ہے اور پھر اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے، تب وہ ایک وفادار بیوی بن جاتی ہے۔ یہ رومان پرور کہانی مارگریٹ مِچل کے ناول سے ماخوذ تھی۔ یہ ناول 1936 میں‌ منظرِ‌عام پر آیا تھا۔

    اس فلم میں‌ رومانس کے ساتھ انسانی نفسیات کے پہلوؤں کو نہایت خوب صورتی کے عکس بند کیا گیا تھا جسے ناقدین اس فلم کی بڑی خصوصیت قرار دیتے ہیں۔

    اہم اور دل چسپ بات یہ ہے کہ فلم کے ڈائریکٹر نے اس کے اسکرپٹ پر کوئی سمجھوتا نہیں‌ کیا اور فلم کی کہانی متعدد بار لکھوائی گئی۔ کہانی کاروں‌ میں‌ سڈنی ہاورڈ ، جوسوارلنگ اور ربین ہیچ شامل تھے۔ انھوں نے ڈائریکٹر کے کہنے پر کئی بار اسکرپٹ میں‌ ترامیم کیں۔

    آرٹ ڈیزائنر ولیم کیمرون نے بھی اس فلم کے لیے بہت محنت کی تھی جسے بہت سراہا گیا اور انھوں‌ نے اکیڈمی ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ اس فلم کی تکمیل میں‌ دو سال کی تاخیر بھی ہوئی جس کا سبب کرداروں اور اسکرپٹ کے حوالے سے ڈائریکٹر کا مطمئن نہ ہونا تھا۔

    مارگریٹ مِچل کا ناول بھی جس سے اس فلم کی کہانی ماخوذ تھی، 1936ء میں‌ اپنی اشاعت کے بعد خاصا مقبول ہوا۔ مارگریٹ مِچل کا تعلق امریکا سے تھا جہاں‌ وہ صحافت سے منسلک تھیں۔ یہ ناول ان کی واحد ادبی تخلیق تھی جس پر انھیں‌ اس سال نیشنل بک ایوارڈ دیا گیا اور اگلے برس پلٹزر پرائز کی حق دار قرار پائیں۔

    فلم کی بات کی جائے تو اسے زبردست کام یابی ملی اور متعدد زمروں میں‌ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئی۔ شان دار فلم، بہترین اداکارہ اور معاون اداکارہ، بہترین ڈائریکٹر، بیسٹ آرٹ ڈائریکشن اور ایڈٹنگ کے اعزازات اس فلم نے اپنے نام کیے۔