Tag: مشہور انڈین فلمیں

  • "شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے!”

    "شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے!”

    عشق میں کیا کیا میرے جنوں کی، کی نہ برائی لوگوں نے
    کچھ تم نے بدنام کیا کچھ آگ لگائی لوگوں نے
    میرے لہو کے رنگ سے چمکی کتنی مہندی ہاتھوں پر
    شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے

    1970 کی دہائی میں یہ کلام بہت مشہور ہوا، آواز تھی محمد رفیع کی جن کے گائے ہوئے فلمی گیت آج بھی نہایت ذوق و شوق سنے جاتے ہیں اور بہت مقبول ہیں۔

    محمد رفیع کی آواز میں ریکارڈ ہونے والی اس غزل کی دھن اس وقت کے معروف موسیقار جے دیو نے تیار کی تھی۔ فلم کے لیے لکھا گیا یہ کلام اور ترتیب دی گئی موسیقی کا تو بہت شہرہ ہوا، لیکن چند وجوہ کی بنا پر فلم ریلیز نہیں ہوسکی۔

    اس غزل کے شاعر تھے ظفر گورکھپوری جو دنیائے سخن میں فلمی گیت نگار اور ادبِ اطفال کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے بچوں‌ کے لیے نظمیں ہی نہیں کہانیاں‌ بھی لکھیں۔

    ظفر گورکھپوری نے جہاں غزل کے میدان میں فکری اور فنی سطح پر اعلیٰ تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا ہے، وہیں بچوں‌ کے لیے ان کی نظموں کا موضوعاتی تنوع اور شعری جوہر قابلِ داد ہے۔ فلمی گیتوں اور دوہوں میں بھی انھوں نے خوبی سے جذبات اور خیالات کا اظہار کیا ہے۔

    ظفر گورکھپوری کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ انھیں فلمی دنیا کی چکاچوند اور مال و زر سے کوئی رغبت نہ تھی بلکہ ان کی زندگی کا اصل مقصد ادب اور درس و تدریس کے ذریعے نئی نسل کی تربیت کرنا اور کردار سازی تھا۔

    ظفر گورکھپوری کا نام ظفرالدین اور تخلص ظفرتھا۔ وہ 5 مئی 1935 کو ضلع گورکھپور، یو پی میں پیدا ہوئے، وہ نوعمری میں‌ ممبئی آگئے تھے جہاں‌ علمی اور ادبی سرگرمیوں کے ساتھ فلم کے لیے نغمہ نگاری کا سلسلہ جاری رہا، 2017 میں‌ ان کا انتقال ہو گیا۔

    1996 میں ہندی فلم ’کھلونا‘ ریلیز ہوئی جس کا ایک گانا بہت مقبول ہوا۔

    ہم جانتے ہیں تم ہمیں ناشاد کرو گے
    توڑو گے میرا دل مجھے برباد کرو گے
    دل پھر بھی تمھیں دیتے ہیں کیا یاد کرو گے

    ظفر گورکھپوری کے گیتوں کو اپنے وقت کے نام ور گلوکاروں نے گایا جن میں محمد رفیع، لتا منگیشکر، طلعت عزیز، کشور کمار، کمار سانو وغیرہ شامل ہیں۔

  • مشہور اداکارہ مینا کماری اور مسٹر راز دان

    مشہور اداکارہ مینا کماری اور مسٹر راز دان

    مشہور اداکارہ مینا کماری نے اپنے ایک مضمون میں اردو کے فلمی اخبار نویسوں کے بارے میں اپنے خیالات اور تجربات بڑے دل چسپ انداز میں بیان کیے تھے۔

    ویکلی ’فلم آرٹ‘ دلّی اور ماہنامہ ’شمع‘ کے بمبئی میں مقیم خصوصی نمائندے مسٹر راز دان ایم اے، کے بارے میں اس نے لکھا کہ وہ ایک گھریلو قسم کے شریف انسان ہیں جو دورانِ گفتگو اِس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ بیگانگی کا احساس تک نہیں رہتا، عام فلم جرنلسٹ جن کم زوریوں کا شکار ہیں وہ اُن سے بہت دور ہیں۔

    راز دان صاحب نے مینا کماری سے ہفت روزہ ’فلم آرٹ ‘ کے لیے ایک مضمون لکھنے کی فرمائش کی تو مینا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس عنوان سے، کس نوعیت کا مضمون تحریر کرے۔

    بہرحال اس نے ایک مضمون ’’اور سپنا پورا ہو گیا‘‘ سپردِ قلم کیا اور راز دان کے حوالے کر دیا۔

    مضمون شائع ہوا تو قارئین نے اُسے بہت پسند کیا اور بڑی تعداد میں تعریفی خطوط مینا کماری کے پاس پہنچے جن سے حوصلہ پا کر اُس نے بعد میں اردو میں کئی مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں اشاعت کی غرض سے بھیجے۔

    (وشو ناتھ طاؤس کے قلم سے)

  • "گلنار” میں خامی کیا تھی؟

    "گلنار” میں خامی کیا تھی؟

    ہنستے کھیلتے ماحول میں بننے والی فلم ’گُلنار‘ پر سب نے بڑی جان ماری کی۔ میوزک ماسٹر غلام حیدر کا تھا جنھوں نے بڑی مدھر دُھنیں تیار کی تھیں اور موسیقی کا جادو بکھیرا تھا۔

    ’خاندان‘ اور ’شہید‘ کے بعد وہ ایک بار پھر معراج پر پہنچے تھے۔ نغمے فلم کی نمائش سے قبل ہی زبان زدِ عام ہو گئے۔

    خاص طور سے یہ نغمہ بہت پسند کیا گیا، ’چاندنی راتیں تاروں سے کریں باتیں…..‘

    باقی سبھی گانے بھی ہٹ ہوئے اور غلام حیدر کا نام ایک بار پھر انڈسٹری میں گونجنے لگا۔

    ’نور جہاں‘(ملکہ ترنم) پہلے ہی ٹاپ پر تھی، اب وہ اور اونچی اڑانیں بھرنے لگی۔ فلم سے سب کو بڑی توقعات تھیں مگر جب مارکیٹ میں اُتاری گئی تو سوائے ہٹ میوزک کے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔

    کئی خوبیوں کے باوجود سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ فلم میں حقیقی ماحول اور پس منظر عنقا تھا جس نے تماش بینوں کو مایوس کیا اور تبصرہ نگاروں (ناقدین) نے بھی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا۔

    (البتہ) شوکت تھانوی کی ایکٹنگ سب کو اچھی لگی اور اُنھوں نے اداکاری کو اپنا مستقل پیشہ بنا لیا۔ کئی فلموں میں کام کیا۔

    (ہندوستانی فلم انڈسٹری سے متعلق ایک کتاب سے انتخاب)