Tag: مشہور ایجادات

  • الیس ہووے: سلائی مشین کا موجد جسے خواب میں اپنی ایک مشکل کا حل ملا

    الیس ہووے: سلائی مشین کا موجد جسے خواب میں اپنی ایک مشکل کا حل ملا

    جدید دنیا میں ہم نے کئی ایسی شخصیات کا تذکرہ پڑھا ہے جو علم و ادب، ہنر و فنون میں اپنے کام اور کار ہائے نمایاں‌ کی بدولت مشہور ہوئے۔ گزشتہ چند صدیوں کے دوران اور خاص طور پر انیسویں صدی میں انسان نے بے پناہ ترقی کی اور کئی ایجادات انقلاب آفریں ثابت ہوئیں۔ سلائی مشین بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    آج اگرچہ کپڑے سینے کی اس مشین کو دیکھ ہم نہ تو حیرت کا اظہار کرتے ہیں اور نہ ہی یہ ہمارے لیے بظاہر کوئی اہمیت رکھتی ہے، مگر لگ بھگ دو صدی قبل جب دنیا اس سے متعارف ہوئی تھی تو یہ ایک بڑی ایجاد اور قابلِ‌ ذکر مشین تھی۔ یہاں ہم معروف بھارتی مصنّف، دانش ور اور عالمِ دین مولانا وحید الدین کی زبانی اس مشین کے موجد الیس ہووے (Elias Howe) کے بارے میں جانیں گے۔ مولانا کی یہ مختصر تحریر دل چسپ انداز میں ہمیں انسانی سوچ اور عقل کے استعمال سے آگاہ کرتے ہوئے ایک ایسا سبق دیتی ہے جس میں ہماری ترقی پوشیدہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:‌

    الیس ہووے امریکا کے مشہور شہر مساچوچسٹ کا ایک معمولی کا ریگر تھا۔ وہ 1819 میں پیدا ہو ااور صرف 48 سال کی عمر میں 1867 میں اس کا انتقال ہوگیا۔ مگر اس نے دنیا کو ایک ایسی چیز دی جس نے کپڑے کی تیاری میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ یہ سلائی کی مشین تھی جو اس نے 1845 میں ایجاد کی۔

    الیس ہووے نے جو مشین بنائی اس کی سوئی میں دھاگہ ڈالنے کے لیے ابتداً سوئی کی جڑ کی طرف چھید ہوتا تھا جیسا کہ عام طور پر ہاتھ کی سوئیوں میں ہوتا ہے۔ ہزاروں برس سے انسان سوئی کی جڑ میں چھید کرتا آرہا تھا۔ اس لیے الیس ہووے نے جب سلائی مشین تیار کی تو اس میں بھی عام رواج کے مطابق اس نے جڑ کی طرف چھید بنایا۔ اس کی وجہ سے اس کی مشین ٹھیک کام نہیں کرتی۔ شروع میں وہ اپنی مشین سے صرف جوتا سی سکتا تھا۔ کپڑے کی سلائی اس مشین پر ممکن نہ تھی۔

    الیس ہووے ایک عرصہ تک اسی ادھیڑ بن میں رہا مگر اس کی سمجھ میں اس کا کوئی حل نہ آتا تھا۔ آخر کار اس نے ایک خواب دیکھا، اس خواب نے اس کا مسئلہ حل کردیا۔

    اس نے خواب میں دیکھا کہ کسی وحشی قبیلہ کے آدمیوں نے اس کو پکڑلیا ہے اور اس کو حکم دیا ہے کہ وہ 24 گھنٹہ کے اندر سلائی کی مشین بنا کر تیار کرے۔ ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اس نے کوشش کی مگر مقررہ مدت میں وہ مشین تیار نہ کر سکا۔ جب وقت پورا ہوگیا تو قبیلہ کے لوگ اس کو مارنے کے لیے دوڑ پڑے۔ ان کے ہاتھ میں برچھا تھا— ہووے نے غور سے دیکھا تو ہر برچھے کی نوک پر ایک سوراخ تھا یہی دیکھتے ہوئے اس کی نیند کھل گئی۔

    ہووے کو آغاز مل گیا۔ اس نے برچھے کی طرح اپنی سوئی میں بھی نوک کی طرف چھید بنایا اور اس میں دھاگا ڈالا۔ اب مسئلہ حل تھا۔ دھاگے کا چھید اوپر ہونے کی وجہ سے جو مشین کام نہیں کر رہی تھی وہ نیچے کی طرف چھید بنانے کے بعد بخوبی کام کرنے لگی۔

    ہووے کی مشکل یہ تھی کہ وہ رواجی ذہن سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ جو چیز ہزاروں سال سے چلی آرہی ہے، وہ صحیح ہے۔ جب اس کے لاشعور نے اس کو تصویر کا دوسرا رخ دکھایا اس وقت وہ معاملہ کو سمجھا اور فوراً حل کرلیا۔ جب آدمی اپنے آپ کو ہمہ تن کسی کام میں لگا دے۔ تو وہ اسی طرح اس کے رازوں کو پا لیتا ہے جس طرح مذکورہ شخص نے پالیا۔

  • گراہم بیل: ایجادات کی دنیا کا بڑا نام، ایک ناقابلِ فراموش شخصیت

    گراہم بیل: ایجادات کی دنیا کا بڑا نام، ایک ناقابلِ فراموش شخصیت

    گراہم بیل کا نام اُس وقت سے ہمارے ذہنوں میں‌ محفوظ ہے جب ہم نے اسکول جانا شروع کیا تھا۔ آج بھی معلوماتِ عامّہ پر مشتمل سوالات ہوں یا انقلابی ایجادات کا تذکرہ کیا جائے، ٹیلی فون اور اس کے موجد گراہم بیل کا نام ضرور لیا جاتا ہے۔

    مواصلاتی رابطے کے آغاز کی بات کریں تو لوگوں کو دور بیٹھے ہوئے ایک مشین یا آلے کی بدولت احباب کی آواز سننے کا موقع اسکاٹش موجد، انجینئر اور اختراع ساز الیگزینڈر گراہم بیل کی بدولت ملا اور 2 جون 1875ء کو ٹیلی فون کی ایجاد نے دنیا کو بدل دیا۔ 1885ء میں گراہم بیل نے ٹیلی فون کمپنی کی بنیاد رکھی، جو بعد ازاں امریکن ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گراف (AT&T) کے نام سے معروف ہوئی۔ لینڈ لائن فون سے ٹیلی مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا ہوگیا، جو آج اسمارٹ فون کی ترقی یافتہ شکل میں ہماری جیب میں موجود ہے۔

    الیگزینڈر گراہم بیل نے اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈن برگ میں 3 مارچ 1847ء کو ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی، جہاں لفظ اور آواز کی اہمیت اس لیے بھی تھی کہ ان کے والد پروفیسر میلوِل بیل ماہرِ لسانیات تھے۔ انھوں نے’’فونیٹک الفابیٹ ‘‘ بنائے تھے۔ جب کہ والدہ ایلیزا گریس، سماعت سے محروم تھیں اور ان کے لیے آواز ایک جادوئی شے اور ایسی چیز تھی جس کے لیے وہ متجسس رہتی تھیں۔ ماں کے اسی تجسس نے گراہم بیل کو آواز کی سائنس Acoustics کے مطالعہ پر مائل کیا۔ وہ صرف سائنس میں ہی دل چسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ والدہ کے طفیل شاعری، آرٹ اور موسیقی کا ذوق و شوق بھی ان میں‌ پیدا ہوا۔ اختراع اور نت نئی چیزیں بنانے کا ذوق لڑکپن سے ہی ان کے مزاج کا حصّہ رہا اور والد کی راہ نمائی اور حوصلہ افزائی نے انھیں آگے بڑھنے کا موقع دیا۔

    آج اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ جس ایجاد نے ہوا کے دوش پر ہماری زندگیوں اور مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا کیا، اس کے موجد گراہم بیل نہیں‌ تھے، لیکن ٹیلی فون اور مواصلاتی نظام کو 1887ء میں جب برلن میں‌ عوام کے سامنے متعارف کروایا گیا تھا تو نام گراہم بیل کا ہی لیا گیا تھا۔ بعد میں‌ اس نظام کے تحت تاریں اور ٹیلی فون سیٹ ہر جگہ نظر آنے لگے تھے۔ پھر ایک صدی سے زائد عرصہ بیت گیا ار اچانک لندن میں قائم سائنس میوزیم میں محفوظ فائلوں کی بنیاد پر یہ دعویٰ سامنے آیا کہ گراہم بیل سے 15 سال قبل ایک جرمن سائنس دان نے اسی موصلاتی نظام کے تحت کام کرنے والا ٹیلی فون ایجاد کیا تھا۔ یہ فائل جو سب کی نظروں سے اوجھل تھی، سائنس میوزیم کے اُس وقت کے مہتمم جان لفن کے ہاتھ لگی تو اس کا مطالعہ کرنے کے بعد شواہد کی روشنی میں یہ دعویٰ کیا گیا جو سائنس کی دنیا میں گراہم بیل کی شہرت کو مشکوک بناتا ہے۔

    میوزیم میں موجود کاغذات کی بدولت دو نام سامنے آئے جن میں ایک جرمن سائنس دان فلپ ریئس کا تھا اور اس فائل کے مطالعے کے بعد کہا گیا کہ اس نے 1863ء میں‌ موصلاتی نظام کی مدد سے آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون سیٹ پر وصول کرنے کا کام یاب تجربہ کیا تھا۔ اسی فائل میں دوسرا نام اُس برطانوی بزنس مین کا ہے جس پر فلپ ریئس کے اس کارنامے کو دنیا کی نظروں‌ سے مخفی رکھنے کا الزام ہے۔ اس شخص کو مواصلاتی سائنس اور کاروبار کی تاریخ میں‌ سَر فرینک گِل کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    ان کاغذات کی بنیاد پر یہ کہا گیا کہ اسی کاروباری شخصیت نے گراہم بیل کی شہرت کو برقرار رکھنے کے لیے جرمن سائنس دان کے آلے اور تجربات کے شواہد اور تفصیلات کو عام نہیں ہونے دیا۔ سَر فرینک گِل کی مواصلاتی کمپنی نے اسی جرمن سائنس داں کے تیّار کردہ آلے پر کئی برس بعد تجربات کیے تھے، لیکن اس زمانے میں فرینک گِل کی مواصلاتی کمپنی کاروبار کے لیے ایک ایسا معاہدہ کرنے والی تھی جس کا تعلق بیل کمپنی کی ایک شاخ سے تھا۔ اگر اس وقت جرمن سائنس داں کے ایجاد کردہ آلے کے کام یاب تجربات منظرِ عام پر لائے جاتے تو معاہدے کی توثیق کے امکانات محدود ہوسکتے تھے۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اس سے پہلے بھی کئی محققین ٹیلی فون کی ایجاد کا سہرا جرمن سائنس داں کے سَر باندھنے کی بات کرچکے ہیں اور ان کے دعوؤں کو میوزیم میں موجود فائل سے تقویت ملتی ہے۔

    عالمی شہرت یافتہ موجد الیگزینڈر گراہم بیل 1922ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ اسکاٹ لینڈ سے ہجرت کرکے امریکا جانے والے گراہم بیل باصلاحیت اور قابل طالبِ علم تھے اور صرف 14 سال کی عمر میں انھوں نے گندم صاف کرنے والی ایک سادہ مشین بنا کر خود کو انجینیئر اور موجد ثابت کردیا تھا۔ وہ ایڈن برگ کے رائل ہائی اسکول اور بعد میں ایڈن برگ یونیورسٹی اور یونیورسٹی کالج آف لندن میں‌ داخل ہوئے اور اپنی تعلیم مکمل کی۔ گراہم بیل 23 برس کے تھے جب انھیں تپِ دق کا مرض لاحق ہوا اور معالج کے مشورے پر والدین انھیں کینیڈا کے ایک صحّت افزا مقام پر لے گئے۔ وہاں بھی گراہم بیل سائنسی تجربات میں‌ مگن رہے۔ اس وقت انھوں نے بالخصوص ٹیلی گراف کے تصوّر کو عملی شکل دینے کے لیے کام کیا اور کام یاب ہوئے۔

    متعدد اہم اور نمایاں سائنسی ایجادات کے ساتھ الیگزینڈر گراہم بیل نے 1881ء میں میٹل ڈیٹیکٹر کی ابتدائی شکل متعارف کروائی۔ 1898ء میں ٹیٹرا ہیڈرل باکس کائٹس اور بعد میں‌ سلور ڈاٹ طیارہ بنایا، جس کی آزمائش 1909ء میں کی گئی اور یہ پرواز کام یاب رہی۔ اسی طرح‌ کئی مشینیں اور کام یاب سائنسی تجربات پر انھیں اس زمانے میں جامعات کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں اور ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

    گراہم بیل ایک درد مند انسان تھے اور وہ جذبۂ خدمت سے سرشار رہے۔ انھوں‌ نے تاعمر سماعت سے محروم افراد کی خوشی اور ان کے معمولاتِ زندگی کو اپنی ایجادات کے ذریعے آسان بنانے کی کوشش کی۔ گراہم بیل نے ایسے اسکول قائم کیے جہاں سماعت سے محروم بچّوں کو تعلیم دی جاتی تھی جب کہ اساتذہ کی تربیت کا بھی اہتمام کیا اور ہر قسم کی اعانت کا سلسلہ آخری دم تک جاری رکھا۔ یہاں‌ یہ بات بھی قابلِ‌ ذکر ہے کہ اس سائنس داں نے اپنی شریکِ‌ سفر جس خاتون کو بنایا، وہ قوّتِ گویائی سے محروم تھی۔

  • خلائی پرواز کا عالمی دن اور عظیم موجد گوڈارڈ کا تذکرہ

    خلائی پرواز کا عالمی دن اور عظیم موجد گوڈارڈ کا تذکرہ

    اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 7 اپریل 2011ء کو ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کے تحت ہر سال 12 اپریل کو دنیا ’’انسانی خلائی پرواز کا دن‘‘ مناتی ہے۔ اس کا مقصد روئے زمین سے انسان کی اوّلین خلائی پرواز اور دنیا کے لیے اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

    اسی دن کی مناسبت سے آج ہم آپ کو اس سائنس داں کے بارے میں بتارہے ہیں جس نے آسمان کی وسعتوں میں‌ انسان کی آمد و رفت کو آسان بنایا اور اسے تسخیر کرنے کا راستہ بتایا یہی نہیں بلکہ سائنس داں نے اپنی ایک ایجاد کے ذریعے خلا میں گویا پہلا قدم بھی رکھا۔ یہ سائنس داں رابرٹ ایچ گوڈارڈ تھا جسے اس روز خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے اور دنیا اس کے کارنامے کی یاد تازہ کرتی ہے۔

    پہلے خلائی سفر کے بعد، امریکہ اور روس میں خلائی دوڑ شروع ہوئی اور اسی دوڑ نے خلائی سائنس کی ترقّی کی رفتار بھی بڑھا دی۔ 1969 کو امریکی خلا نورد نیل آرمسٹرانگ چاند پر پہنچنے والا پہلا انسان بنا۔ آج دنیا کے مال دار اور طاقت ور خلائی راکٹ اور خلائی جہاز بنانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور سیّاروں‌ کو آباد کرنے کی دوڑ جاری ہے۔ اب تک کم و بیش 44 ممالک اپنے خلائی مشن بھیج چکے ہیں۔ امریکہ کا مشہور خلائی ادارہ ناسا ہے جب کہ روس نے روسکوسموس، چین نے سی این ایس اے کے ذریعے خلا میں قدم رکھنے کی کوششیں‌ شروع کررکھی ہیں جب کہ 22 یورپی ملکوں کا مشترکہ ادارہ یورپین سپیس ایجنسی کہلاتا ہے۔

    انسان بردار خلائی پرواز آج بھی نہ صرف بے حد مشکل بلکہ ایک خطیر رقم کی متقاضی ہے۔ انسان کو خلا تک بہ حفاظت پہنچانے اور طویل مدّت تک وہاں زندہ رہنے کے قابل بنانے کے لیے کئی خصوصی اقدامات کرنا پڑیں گے جس میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ غذائی ضروریات اور کسی حادثے یا بیماری سے نمٹنے کے قابل بنانا بھی شامل ہے۔

    اس تاریخ کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
    12 اپریل کو پہلی مرتبہ انسان نے چاند کی جانب اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس سے قبل خلا میں جانے کا تصوّر سائنس داں گوڈارڈ نے 1899 میں پیش کیا تھا اور یہ بھی بتایا تھاکہ خلا میں جانے کے لیے راکٹ کی ضرورت ہوگی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ مشین کس طرح کی ہوگی اور اسے کیسے بنایا جائے گا۔ ان کے اسی خواب کی اوّلین کام یاب شکل 60 سال بعد دیکھی گئی اور اسی کی مناسبت سے انسانی خلائی پرواز کا عالمی دن 12 اپریل کو منایا جاتا ہے۔

    رابرٹ ایچ گوڈارڈ کے سفرِ زیست اور سائنسی کارناموں پر ایک نظر
    20 ویں صدی عیسوی کے اس باصلاحیت انسان اور عظیم موجد کو آج دنیا میں "فادر آف ماڈرن راکٹری” کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ آج جب دنیا مریخ کے بعد نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں پر کمند ڈالنے کا سوچ رہی ہے تو اس کا سہرا بھی اسی سائنس داں کے سَر جاتا ہے۔ یہ گوڈارڈ ہی تھے جنھوں نے ایک ایسے راکٹ کا تصور پیش کیا تھا جو چاند تک پہنچ سکے۔ انھوں نے اس تصور اور اپنی ایجاد کے ساتھ کئی کام یاب تجربات بھی کیے مگر اس زمانے میں اکثریت کے نزدیک یہ ایک کارِ‌ محض اور بے سود کوشش تھی جب کہ اس طرح‌ کے کسی بھی کام کو کسی شخص کا جنون اور دیوانگی تو کہا جاسکتا تھا، لیکن اسے اہمیت دینے کو لوگ تیار نہ تھے۔ یہی کچھ گوڈراڈ کے ساتھ بھی ہوا اور انھیں تضحیک کا نشانہ بننا پڑا، لیکن اس سائنس داں نے اپنی کوششیں‌ ترک نہ کیں‌ اور جدید راکٹ کے ڈیزائن پر کام کرتے رہے۔

    ان کے والد نے فلکیات میں ان کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے انھیں دوربین خرید کر دی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کو اکثر ایسے دور دراز مقامات پر لے کر جاتے تھے جہاں وہ رات گئے اپنی دوربین کی مدد سے چاند ستاروں کا مشاہدہ کرتے اور نتائج اخذ کرنے کے ساتھ اپنے ذہن میں‌ آنے والے سوالات اور مشاہدے کے نتائج کو نوٹ کرتے جاتے۔ انھوں نے ایک روز اپنی ڈائری میں لکھا کہ "آج پہلی دفعہ مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ میں دوسرے لوگوں سے کچھ مختلف ہوں، مجھے کچھ غیر معمولی کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔” وہ تاعمر ایسا راکٹ بنانے میں جٹے رہے جس کی مدد سے انسان خلا میں آسان اور محفوظ سفر کرسکے۔

    گوڈارڈ نے میسا چوسٹس سے گریجویشن کے بعد کلارک یونیورسٹی سے فزکس میں پی ایچ ڈی کیا تھا اور وہیں‌ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ یہ 1914ء کی بات ہے جب اس موجد نے کئی حصوں پر مشتمل ملٹی اسٹیج راکٹ کا تصور پیش کیا اور پھر 1916 میں اسے لانچ کیا گیا۔

    گواڈرڈ 1882 میں‌ پیدا ہوئے اور دس اگست 1945 کو امریکہ، میری لینڈ میں‌ وفات پائی۔ بعد از مرگ ان کے کام کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا گیا اور امریکہ نے متعدد اعزازات اس موجد کے نام کیے۔

  • سائنس کا ایک کرشمہ

    کلیم الدّین احمد اردو زبان و ادب کی ایک مشہور مگر مشاہیر اور ہم عصروں میں متنازع بھی تھے جنھوں نے تنقید لکھی، شاعری کی اور مختلف موضوعات اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مضامین سپردِ قلم کیے۔

    ان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اردو کی ہر چیز کو انگریزی کے مخصوص چشمے سے دیکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھیں‌ اردو ادب میں کوئی چیز کام کی نظر نہیں آتی۔ کبھی وہ غزل جیسی مقبول اور ہر دور میں‌ لائقِ ستائش اور معتبر صنف کو نیم وحشی کہہ کر مسترد کرتے ہیں تو کبھی لکھتے ہیں کہ اردو میں‌ تنقید کا وجود محض فرضی ہے۔ الغرض کلیم الدّین احمد اپنے خیالات اور نظریات کی وجہ سے ہمیشہ متنازع رہے۔ انھوں نے فنونِ لطیفہ، ثقافت اور اصنافِ‌ ادب کو جس طرح دیکھا اور سمجھا، اسے رقم کر دیا اور اپنی مخالفت کی پروا نہ کی۔

    کلیم الدّین احمد 1908ء میں‌ پیدا ہوئے تھے اور اسّی کی دہائی کے آغاز تک بقیدِ‌ حیات رہے۔ انھوں نے وہ دور دیکھا جب ہندوستان میں‌ ریڈیو تیزی سے مقبول ہوا اور معلومات کی فراہمی اور تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا گیا۔ آج کے دور میں‌ ریڈیو سیٹ تو گھروں‌ میں‌ رہا ہی نہیں اور ٹیلی ویژن کی اہمیت بھی موبائل فون اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر دن گھٹ رہی ہے، لیکن دہائیوں‌ پہلے لوگ ریڈیو کو کیسی جادوئی اور نہایت اثرانگیز ایجاد تصور کرتے تھے اور ہندوستان میں اس کی کیا اہمیت تھی، یہ بتانے کے لیے کلیم الدّین احمد کے مضمون سے چند پارے حاضرِ‌ خدمت ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ریڈیو بھی سائنس کا ایک کرشمہ ہے اور دوسری سائنٹفک ایجادوں کی طرح ہم اس کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں اور غیرناقدانہ طور پر اس کی تعریف میں رطبُ اللّسان ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس چیزوں کی ایجاد کرتا ہے، لیکن ان چیزوں سے کام لینا ہمارا کام ہے۔”

    "سائنس نے بہت سی چیزیں ایجاد کی ہیں۔ جن چیزوں کا ہمیں کبھی وہم و گمان بھی نہ تھا وہ واقعہ بنی ہوئی ہیں۔ جو باتیں ہم خیالی داستانوں میں پڑھا یا سنا کرتے تھے وہ اب خیالی نہیں رہیں، زندہ حقیقت کی طرح چلتی پھرتی نظرآتی ہیں۔”

    "داستانوں میں ہم جادو کے گھوڑے پر بیٹھ کر ہوا میں اڑتے پھرتے تھے، آج نئے نئے قسم کے ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر ہم دور دراز کا سفر قلیل مدت میں طے کر سکتے ہیں۔ زمین اور سمندر میں سفر کر سکتے ہیں۔ دور کی خبریں سن سکتے ہیں۔ دور کی چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ غرض بہت سے ایسے کام کر سکتے ہیں جن کے تصور سے پہلے ہمارے دل کی تسکین ہوتی تھی۔ یہ چیزیں اچھی بھی ہیں اور بری بھی۔ اور ان کی اچھائی اور برائی استعمال پر منحصر ہے۔”

    "ہوائی جہاز کو لیجیے۔ اس سے کتنی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ خط کتابت اور سفر کی آسانی ہے۔ اسی سے مسٹر چرچل کی بیماری میں ضروری دوائیں جلد سے جلد پہنچائی جا سکتی ہیں، لیکن آج یہی ایک ایسے وسیع پیمانہ پر، جس کے تصور سے دل دھڑکنے لگتا ہے، قتل و خون، تباہی و بربادی، انسان کی خوف ناک مصیبتوں کا آلہ بنا ہوا ہے۔ سائنس نے ہوائی جہاز تو ایجاد کر دیا لیکن اس سے اچھا یا برا کام لینا تو انسان پر منحصر ہے۔ سائنس ہمیں یہ نہیں بتاتا اور نہ بتاسکتا ہے کہ ہم اس ایجاد سے کیا مصرف لیں۔ سائنس کو انسانی قدروں سے کوئی خاص سروکار نہیں۔ اس کی ایجادوں کی مدد سے انسانیت ترقی کر سکتی ہے اور انہی سے انسانیت تباہ و برباد بھی ہو سکتی ہے۔”

    "آج کے خونیں مناظر کے تصور سے دل بے اختیار ہو کر کہہ اٹھتا ہے کاش سائنس نے یہ ترقیاں نہ کی ہوتیں۔ پھر انسانیت کو اس خون کے غسل سے سابقہ نہ پڑتا۔ سائنس کی ترقی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ پہلے سالہا سال کی جنگ میں جتنی جانیں تلف ہوتی تھیں اس قدر آج ایک روز میں ضائع ہو سکتی ہیں۔ توپیں، بم کے گولے، ٹینک، آبدوز کشتیاں، زہریلی گیس، مہلک امراض کے جراثیم، غرض ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت خودکشی پر آمادہ ہے اور اس جرم میں سائنس اس کا معین و مددگار ہے۔”

    "ظاہر ہے کہ کسی چیز کی صرف اس لیے کہ وہ سائنس کی حیرت انگیز ایجاد ہے، ہم بے سوچے سمجھے تعریف نہیں کر سکتے۔ اس قسم کی تعریف ہماری بے صبری کی دلیل ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ سائنس کی کسی ایجاد سے ناجائز مصرف لینے کا ذمہ دار انسان ہے سائنس نہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس تو ہمیں قتل و غارت کی تلقین نہیں کرتا، انسان کو خود کشی پر نہیں ابھارتا، اس لیے سائنس موردِ الزام نہیں۔ یہ بات ایک حد تک صحیح ہے لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ سائنس پر سماجی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہ انسانی بہبود کے لیے عالمِ وجود میں آیا اور اسے مقصد کو کبھی نہ بھولنا چاہیے۔ سائنس تباہی و بربادی کے سامان مہیا کر کے علیحدگی اختیار نہیں کرسکتا اور یہ کہہ کر الزام سے بری نہیں ہو سکتا کہ چیزیں تو ایجاد ہو گئیں، اب ان سے کام لینا میرا کام نہیں۔ سائنس اور سائنس داں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی ایجاد کی ہوئی چیزوں کو انسانیت کی تباہی کا ذریعہ نہ بننے دیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سائنس کو اپنے مقام سے واقف ہونا چاہیے۔ اگر یہ اپنے حد سے نہ بڑھے، اپنی خامیوں اور حدود سے واقف ہو اور خدائی کا دعویٰ نہ کرے تو بہت سے الزام جو اس پر عائد ہوتے ہیں ان سے محفوظ رہے گا۔”

    "غرض ریڈیو یا سائنس کی کوئی دوسری ایجاد اپنی جگہ پر اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔ اس ریڈیو سے بہت سے اچھے کام لیے جا سکتے ہیں۔ جلد ضروری خبریں بھیجی جاسکتی ہیں۔ ضرورت کے وقت مدد طلب کی جا سکتی ہے۔ ایسی جگہوں میں جو ایک دوسرے سے کافی فاصلہ پر واقع ہوئی ہیں، براہ راست ربط قائم رکھا جا سکتا ہے۔ دوری کا مسئلہ ریڈیو اور ہوائی جہاز کی وجہ سے حل ہو گیا ہے، دنیا مختصر اور سمٹی ہوئی ہو گئی ہے۔ سماجی اور بین الاقوامی تعلقات میں آسانیاں ہیں اور مختلف کلچر ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ سب آپس میں مل رہے ہیں اور مل کر ایک اعلیٰ انسانیت کا نمونہ قائم کر سکتے ہیں۔ یہ سب سہی لیکن اسی ریڈیو سے ناجائز مصرف لیا جا سکتا ہے۔ غلط خبریں نشر کی جا سکتی ہیں۔ جنگ میں اس سے اسی قدر مہلک کام لیا جا سکتا ہے جتنا بری و بحری اور ہوائی فوجوں سے۔ اسی سے انسان کے ذہن کوغلام بنایا جا سکتا ہے، اس کی روح کو جراثیم کا شکار بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم ان باتوں پر زیادہ غور و فکر نہیں کرتے اور جو چیز رائج ہو جاتی ہے اسے قبول کر لیتے ہیں۔”

    "ریڈیو کا رواج مغربی ملکوں میں عام ہے اور اب ہندوستان میں بھی عام ہو چکا ہے۔ مختلف ریڈیو اسٹیشن قائم ہوئے ہیں اور صبح سے رات تک پروگرام جاری رہتا ہے جیسے سنیما کا رواج عام ہے اور اسے عموماً زندگی کی ضروریات میں شمار کیا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو سنیما کی اچھائی برائی کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں۔ اسے تفریح کا ایک اچھا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔ سنیما اور کلچر میں کیا تعلق ہے، اس مسئلہ پر ہم سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح اخباروں کا مسئلہ ہے۔ اخباری اشتہاروں کا مسئلہ ہے۔ بازاری رسالوں، افسانوں اور ناولوں کا مسئلہ ہے۔ غرض ایسے کتنے مسائل ہیں جن پر غور و فکر کی ضرورت ہے کہ یہ چیزیں انسانیت کی ذہنی خودکشی کا ذریعہ نہ بن جائیں۔ ہم ہیں کہ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔”

    "ہاں تو ریڈیو کا مسئلہ کوئی الگ مسئلہ نہیں لیکن اتنی فرصت نہیں کہ ان سب مسئلوں پر ایک نظر ڈالی جائے اور شاید اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ ریڈیو نے اخباروں، اشتہاروں، تصویروں، بازاری رسالوں اور افسانوں کو گویا اپنی وسیع آغوش میں لے لیا ہے۔ اس لیے جو کچھ ریڈیو کے بارے میں کہا جائے وہ اور چیزوں پر بھی منطبق ہوگا۔”

  • دنیا گاٹن برگ کو فراموش نہیں‌ کرسکتی

    دنیا گاٹن برگ کو فراموش نہیں‌ کرسکتی

    1400ء میں جرمنی کے قصبہ مینز میں ایک شخص گاٹن برگ پیدا ہوا۔ اس نے پہلے پہل ٹائپ سے کتابیں چھاپنے کا فن دریافت کیا۔ وہ ایک مشہور جوہری تھا۔ جرمنی میں جوہریوں کو خاص عزّت حاصل تھی، لیکن گاٹن برگ کی عزّت اس لیے بھی تھی کہ وہ تصویر کشی میں ماہر تھا اور پتھّر پر نہایت عمدہ تصویریں بناتا تھا۔

    ایک روز گاٹن برگ اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا ہوا ایک تصویر کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ بیوی نے دریافت کیا۔ اس تصویر میں کیا خصوصّیت ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اس کا جواب کل دوں گا۔

    اگلے دن اس نے ایک لکڑی پر خطوط کھینچ کر ایک تصویر بنائی اور ان خطوط کو چھوڑ کر ساری لکڑی کھود دی۔ اس نے ان خطوط پر سیاہی لگا کر کاغذ پر دبایا۔ اسے یہ دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ کاغذ پر تصویر آگئی ہے۔ خاوند کی اس کام یابی پر بیوی بہت ہی خوش تھی۔ اب گاٹن برگ تصویریں چھاپنے لگا۔ لوگوں نے اس کی بہت عزّت کی، لیکن اسے اس کام سے کوئی مالی فائدہ نہ ہوا جس کے باعث کئی دفعہ اس نے یہ کام چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا، لیکن ہر موقعے پر اس کی بیوی نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔

    تصویروں کی چھپائی کے ساتھ ہی اسے حروف کی چھپائی کا خیال آیا۔ اب وہ بعض تصویروں کے نیچے ان کے نام بھی چھاپنے لگا۔ کچھ مدّت کے بعد اس نے چوبی حروف سے کتابیں چھاپنے کا ارادہ کیا اور اس کام کے لیے اس نے ایک مال دار آدمی کو اپنا شریک بنا لیا اور سب سے پہلے اس نے انجیل چھاپی۔ اس کے بعد نے بائبل چھاپنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس نے لکڑی کا ایک بلاک تیار کیا مگر وہ اتفاقاً گر کر ٹوٹ گیا۔ اس سے اگرچہ گاٹن برگ کو افسوس تو بہت ہوا، لیکن فوراً اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اگر کھدے ہوئے حروف کو کاٹ کر اکٹھا کرلیا جائے تو چھپائی بڑی آسان ہوجائے گی۔ چناں چہ اس نے ایسا ہی کیا۔

    وہ ایک ڈکشنری چھاپ رہا تھاکہ اس کے دولت مند شریک کا انتقال ہوگیا۔ اس کے وارثوں نے گاٹن برگ کو بہت تنگ کیا۔ اس پر اس نے تمام حروف توڑ پھوڑ ڈالے اور بد دل ہو کر وہاں سے چلا گیا۔

    گاٹن برگ اگرچہ مایوس ہوچکا تھا، لیکن اب کے پھر اس کی بیوی نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔ اس مرتبہ اس نے ایک اور امیر شخص فِسٹ کو شریک بنایا اور ایک ہوشیار اور عقل مند شخص پیٹر کو ملازم رکھ لیا جس سے اسے بڑی مدد ملی۔

    ایک مدّت تک گاٹن برگ لکڑی کے حروف سے کام لیتا رہا، لیکن اس میں یہ دقّت تھی کہ حروف جلدی گھس جاتے تھے۔ پیٹر نے دھات کے حروف ڈھال کر اس دقّت کو دور کردیا۔ اس نے چھپائی کے لیے اچّھی سیاہی بھی بنائی، لیکن اس موقع پر فِسٹ، گاٹن برگ سے ناراض ہو گیا اور پیٹر کی تعریفیں کرکے اسے بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔

    فِسٹ نے گاٹن برگ پر دعویٰ کردیا اور چھاپہ خانہ اور چھپی ہوئی کتابیں قرق کرا لیں۔ اس پر گاٹن برگ نے اپنا الگ چھاپہ خانہ قائم کر لیا۔

    پیٹر نے فرانس جاکر اپنا چھاپہ خانہ کھولا اور کتابیں چھاپنی شروع کردیں۔ فرانس کے لوگوں کو اس کام سے بڑی حیرانی ہوئی۔ انھوں نے سمجھا، یہ کوئی جادوگر ہے۔ انھوں نے اس کے خلاف دعویٰ دائر کردیا۔ لیکن عدالت نے اُسے بری کردیا۔ اس سے اس کی شہرت ہوگئی اور جو عزّت گاٹن برگ کو ملنی چاہیے تھی وہ پیٹر کو ملی۔

    کچھ مدّت کے بعد پیٹر نے گاٹن برگ سے معافی مانگی۔ گاٹن برگ نے اس کو تو معاف کردیا، لیکن اس کے کام میں شرکت سے انکار کردیا۔ اب اسے یہ امّید نظر آنے لگی تھی کہ اس کی مالی حالت اچّھی ہوجائے گی، لیکن عین اس وقت اس کی بیوی کا انتقال ہو گیا جس سے اس کو شدید صدمہ پہنچا۔ آخر کار جرمنی کی حکومت نے اس کی خدمات کے صلے میں اس کی پنشن مقرر کردی اور اس طرح گاٹن برگ نے دنیا پر وہ احسان کیا جس کو دنیا والے قیامت تک نہ بھول سکیں گے۔

    (1961 کی مطبوعہ کتاب "ایجادوں‌ کی کہانیاں‌ سے انتخاب، جس پر اس کے مصنف یا مؤلف کا نام درج نہیں‌)

  • "کرسپر” کی موجد دو خواتین سائنس دانوں‌ نے کیمیا کا نوبیل انعام اپنے نام کرلیا

    "کرسپر” کی موجد دو خواتین سائنس دانوں‌ نے کیمیا کا نوبیل انعام اپنے نام کرلیا

    جین ایڈیٹنگ کی انقلابی تکنیک ’’کرسپر‘‘ ایجاد کرنے والی سائنس داں ایمانوئل کارپنٹیئر اور جنیفر اے ڈوڈنا نے 2020 کا کیمسٹری کا نوبیل انعام اپنے نام کرلیا۔

    یہ پہلا موقع ہے جب سائنس کے شعبے کا مشترکہ نوبل انعام خواتین کو دیا گیا ہے۔

    یہ اعلان رائل سوئیڈش اکیڈمی آف سائنسز کے سیکریٹری جنرل پروفیسر گوران کے ہینسون نے کیا۔ انھوں نے بتایا کہ دونوں خواتین کو جینوم ایڈیٹنگ تکینیک دریافت کرنے پر انعام دیا گیا ہے، اس تکنیک کے ذریعے جانوروں، درختوں اور مائیکرو آرگینزم کے ڈی این اے تبدیل کیے جاسکتے ہیں۔

    کیمیا کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی ایمانوئل کارپینٹیئر کا تعلق فرانس سے ہے جب کہ جینیفر ڈوڈنا امریکی سائنس داں ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان خواتین سائنس دانوں‌ کی یہ ایجاد انقلابی اثرات کی حامل ہے اور یہ کینسر جیسے مرض کے علاج کے نئے طریقے سامنے لانے کا باعث بنے گی جب کہ مستقبل میں اس تیکنیک کے سبب کئی موروثی بیماریوں کا علاج بھی ممکن ہوسکے گا۔

  • سائنسی تجربات کے دوران ہونے والے وہ حادثات جو دریافتوں کا سبب بنے

    سائنسی تجربات کے دوران ہونے والے وہ حادثات جو دریافتوں کا سبب بنے

    سیب کے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے نیوٹن کے سَر پر پھل گرنا ایک اتفاق تھا جس نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کوئی بھی وزنی شے تیزی سے زمین کی طرف ہی کیوں آتی ہے اور یوں‌ کششِ ثقل کا نظریہ اور ایک اہم ترین دریافت سامنے آئی۔

    اسی طرح‌ سائنس کی دنیا میں‌ کئی ایجادات اور دریافتیں ایسی جن کی بنیاد کوئی حادثہ تھا۔ انیسویں صدی میں‌ مختلف سائنسی تجربات کے دوران ایسے اتفاقی اور حادثاتی واقعات پیش آئے جنھوں‌ نے دریافتوں‌ اور انکشافات کا راستہ ہموار کیا۔

    انیسویں صدی تک نائٹرو گلیسرین کا استعمال عام تھا۔ یہ 1833 کی بات ہے جب الفریڈ نوبل اُن ممکنہ طریقوں‌ پر غور کررہا تھا جن کی مدد سے نائٹرو گلیسرین کو حادثاتی طور پر پھٹنے سے روکا جاسکے۔

    مشہور ہے کہ اس سے متعلق سوچ بچار اور تجربات کے دوران ہی ایک روز نائٹرو گلیسرین کا ایک کنستر لیک ہو گیا اور اس سے خارج ہونے والا مادّہ بغیر جلے لکڑی کے برادے میں جذب ہونے لگا۔ جب برادہ خشک ہو گیا تو الفریڈ نوبیل نے اسے آگ دکھائی اور وہ اپنی خاصیت کے مطابق پھٹ گیا۔

    یہ معمولی حادثہ نائٹرو گلیسرین کی جگہ مقامی اداروں‌ اور فوجی ضرورت کے لیے محفوظ اور کنٹرولڈ ڈائنا مائیٹ ایجاد کرنے کا سبب بنا۔

    1839 کی بات ہے جب کیمسٹ چارلس گڈ ائیر نے تجربہ گاہ میں ربڑ، سلفر اور سیسے کا آمیزہ تیار کیا اور وہ اچانک ان کے ہاتھ سے پھسل کر فائر اسٹوو پر جا گرا۔ اس معمولی حادثے نے دریافت اور ایجاد کا نیا راستہ کھول دیا۔

    کیمسٹ چارلس گڈ ائیر نے مشاہدہ کیا کہ آمیزہ پگھلنے کے بجائے ٹھوس شکل اختیار کر گیا ہے جس کی بیرونی سطح سخت اور اندرونی سطح نرم تھی۔ یوں حادثاتی طور پر دنیا کا پہلا ویلنکنائزنگ ٹائر بنا اور یہ آٹو موبائل کی صنعت کے لیے نہایت کارآمد اور مفید ثابت ہوا۔

    الیگزینڈر فلیمنگ نے 1928 میں انفلوئنزا وائرس کو کنٹرول کرنے کے لیے کام شروع کیا اور اس دوران اسے دو ہفتے کی رخصت پر جانا پڑا۔ وہ چھٹیوں‌ کے بعد واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ لیبارٹری کی جس ٹرے میں اس نے بیکٹیریا کلچر کیے تھے، اس پر پھپوند جم گئی ہے اور اس کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوا کہ پھپوند نے بیکٹیریا کی افزائش روک دی تھی۔

    الیگزینڈر فلیمنگ نے اس مشاہدے اور تجربے کے بعد پھپوند کی ماہیت پر مزید کام کیا اور پنسلین جیسی دریافت ہوئی اور اینٹی بائیوٹک کا دور شروع ہوا۔

  • ڈاکٹر ہیملچ جنھوں‌ نے سانس بحال کرنے کی تکنیک متعارف کروائی

    ڈاکٹر ہیملچ جنھوں‌ نے سانس بحال کرنے کی تکنیک متعارف کروائی

    کسی انسان کے گلے میں نوالہ یا کسی چیز کے اٹک جانے کی وجہ سے سانس بند ہو جائے تو ماہر ڈاکٹر جس معروف تکنیک کو استعمال کرکے سانس بحال کرتے ہیں، اس کے موجد ڈاکٹر ہنری ہیملچ ہیں۔

    سانس بحال کرنے کی اس تکنیک سے پہلے 1962 میں ہینری ہیملچ نے چھاتی سے مواد نکالنے کے لیے جھلی بھی تیار کی تھی، جس کی مدد سے ویتنام کی جنگ کے متاثرہ کئی فوجیوں کی زندگیاں بچائی گئی تھیں۔ یوں یہ ان کا پہلا کارنامہ نہیں‌ تھا اور وہ طب کی دنیا میں ایک موجد اور ماہر معالج کے طور پر خود کو منوا چکے تھے۔

    ڈاکٹر ہیملچ کا تعلق امریکا سے تھا، جہاں انھوں نے ولمنگٹن شہر میں‌ 1920 میں آنکھ کھولی۔ ہیملچ نے مختلف طبی مراکز میں‌ اور امریکی بحریہ سے وابستگی کے دوران جنگی میدان میں بھی خدمات انجام دیں‌۔ ہیملچ نے نیو یارک سے اپنے میڈیکل کریئر کا آغاز کیا تھا اور بنیادی طور پر ان کا شعبہ سرجری تھا۔

    2016 میں انھیں دل کا دورہ پڑا جس کے نتیجے میں وہ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

    سانس بحال کرنے اور سانس کی نالی میں‌ رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے 1974 میں انھوں نے جو تکنیک متعارف کروائی تھی اس میں متاثرہ فرد کے پیٹ کو زور سے دبایا جاتا ہے۔

    ان کی یہ تکنیک زیادہ تر کیسز میں نہایت کارگر ثابت ہوئی۔ ڈاکٹر ہنری ہیملچ کو خود بھی اپنی تکنیک کو اس 87 سالہ عورت پر آزمانے کا موقع ملا تھا جس کے گلے میں ہڈی پھنس گئی تھی اور انھوں‌ نے اپنی اس تکینک کی مدد سے اس کی زندگی بچائی تھی۔

    ہنری ہیملچ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران خدمات انجام دیتے ہوئے ہر قسم کے زخمیوں‌ کو قریب سے دیکھا اور خاص طور پر ان کا علاج کیا جنھیں‌ سرجری کی ضرورت تھی۔ ان میں‌ بارود سے زخمی ایسے فوجی بھی شامل تھے جنھیں‌ سانس لینے میں شدید دشواری محسوس ہورہی تھی اور انہی تجربات اور مشاہدوں کے سبب وہ اس تکنیک تک پہنچے تھے۔