Tag: مشہور بادشاہ

  • اکبر شاہ ثانی: ”بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آئے”

    اکبر شاہ ثانی: ”بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آئے”

    اٹھارہویں مغل بادشاہ اکبر شاہ ثانی کو برائے نام اختیارات حاصل تھے۔ شاہ عالم ثانی کے بعد تخت پر رونق افروز ہونے والے اکبر شاہ ثانی کا زمانہ ہر لحاظ سے ابتری اور انتشار کا زمانہ تھا اور انگریزوں کی ریشہ دوانیاں بڑھ گئی تھیں۔ بادشاہت دہلی تک محدود ہوگئی تھی جسے اب انگریز مٹانے کے منصوبے بنا رہا تھا۔

    اکبر شاہ ثانی نے 1837ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ شاہ عالم ثانی کے زمانے تک انگریز بظاہر سہی بادشاہت کا احترام اور تخت و تاج کی تعظیم کرتے تھے۔ یہ بات اہم ہے کہ اس وقت تک بادشاہ کے دربار میں دہلی کے ریذیڈنٹ، اسٹین کی حیثیت ایک معمولی امیر سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ شاہی خاندان کے ہر فرد کی بے انتہا عزت کرتا تھا، لیکن اسٹین کا نائب، چارلس مٹکاف، بادشاہ کے اس احترام سے سخت ناخوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم اس طرح بادشاہ کی تعظیم کر کے اس کی غیرت و حمیت کو نہیں سلا سکتے، جو ہمارا اوّلین مقصد ہے۔

    ادیب اور تذکرہ نگار مولوی ذکاءُ اللہ چارلس مٹکاف کے الفاظ میں لکھتے ہیں:’’میں اس پالیسی کے ساتھ موافقت نہیں کرتا جو اسٹین صاحب نے شاہی خاندان کے ساتھ اختیار رکھی ہے۔ جو شخص برٹش گورنمنٹ کی طرف سے دہلی میں حکم رانی کے لیے مقرر ہو، وہ بادشاہ کی تعظیم اس طرح کرتا ہے جس سے بادشاہی قوت کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالاں کہ ہم اس کو ہمیشہ کے لیے سلا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصود نہیں کہ بادشاہ کو بادشاہی کے دوبارہ اختیارات حاصل ہوں۔ اس لیے ہم کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہییں جن سے اس کے دل میں اپنی بادشاہی حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہو، اگر ہم نہیں چاہتے کہ اس کی حکومت کو پھر دوبارہ قائم کریں تو ہم کو چاہیے کہ بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آنے دیں۔‘‘

    اکبر شاہ ثانی کی تخت نشینی کو ایک سال بیت چکا تھا، اور 1807ء تک یہ حالات پیدا ہوچکے تھے جس کی طرف مولوی صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ 1809ء میں بادشاہ نے اپنا وظیفہ بڑھانے کا مطالبہ کیا جسے کورٹ آف ڈائریکٹرز نے منظور کرلیا۔ لیکن اتنی بڑا دربار پنشن اور وظائف پر نہیں چل سکتا تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ انگریزوں کی طرف سے بادشاہ کو جو وظیفہ ملتا تھا وہ ناکافی تھا اور اسی لیے بادشاہ نے اب مزید اضافہ چاہا تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے فرماں روائے اودھ سے بھی مدد چاہی تھی۔

    چناں چہ 1812ء میں بادشاہ کی والدہ قدسیہ بیگم اور صاحب زادے مرزا جہانگیر کسی بہانے لکھنؤ پہنچے اور وہاں پہنچ کر نواب وزیر کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے اس کار گزاری کے جواب میں کہا کہ اس وقت تک اضافہ کی امید نہ رکھی جائے جب تک بادشاہ انگریز کی تمام شرائط کو نہیں‌ مان لیتے۔ بادشاہ کو تمام معاملات سے بے دخل کر دیا گیا، یہاں تک کہ انھیں اپنے ولی عہد یا جانشین کی تقرری کا اختیار بھی نہیں‌ رہا تھا۔

    1814ء میں اکبر شاہ ثانی نے انگریز سرکار سے مطالبہ کیا کہ ان کا مرتبہ گورنر جنرل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے کان پر اس بار جوں تک نہیں رینگی۔ آخرکار اکبر شاہ ثانی نے مشہور برہمو سماج لیڈر رام موہن رائے کو اپنا سفیر بنا کر انگلستان بھیجا تاکہ وہ ان کا مقدمہ لڑ سکیں۔ رام موہن رائے انگلستان تو گئے، لیکن مقصد میں انھیں کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ہندوستان میں انگریز افسر اکبر شاہ ثانی سے اور بدگمان ہوگئے۔ چنانچہ بادشاہ کو باقی ماندہ زندگی لال قلعے میں بے یارو مددگار انسان کی طرح گزارنا پڑی۔

    دہلی کے تخت پر ان کا ‘راج’ 31 برس رہا اور مرضِ اسہال کے سبب ان کی زندگی تمام ہوئی۔ وہ درگاہ خواجہ قطب الدّین بختیار کاکی کے ساتھ مہراؤلی (دہلی) میں پیوندِ خاک ہوئے۔

  • سعادت علی خاں کے دربار کا آنکھوں دیکھا حال

    سعادت علی خاں کے دربار کا آنکھوں دیکھا حال

    نواب سعادت علی خاں قبل طلوعِ آفتاب کے دربار سواری کا فرماتے تھے، عرب اور جنگل کے تال میل سے خانہ زاد گھوڑے تھے۔ محل سے بوچہ پر سوار ہوکر برآمد ہوئے اور گھوڑے پر سوار ہوئے۔ اس وقت آپ لباس انگریزی، ولایتی ڈاب زیرِ کمر کیے ہوئے اور سیاہ مغلی ٹوپے دیے ہوتے تھے۔

    پہلے سلام مرشد زادوں کا ہوتا تھا، اس کے بعد امرائے خاص کا۔ دو گھڑی میں ہوا خوری سے فراغت کرکے ہاتھی پر مع جلوس سوار ہوتے تھے۔ سواری مع جلوس مع ڈنکا و نشان ہوتی تھی۔ امرائے دولت ہاتھیوں پر سوار ہمراہ ہوتے تھے۔

    خاص بردار چنور لیے ہوئے، چوب دار سواری کے داہنے بائیں ساتھ ہوتے تھے۔ مرزا کریم بیگ، محمد غلامی سوار انگریزی پوشاک میں آگے آگے ہوتے تھے۔ بیس سوار اور بیس پیدل روزانہ اہتمام سواری کرتے تھے اور کُل اہتمام نواب انتظامُ الدّولہ مظفر علی خاں کے سپرد تھا۔ نواب اشرفُ الدّولہ رمضان علی خاں، مرزا اشرف علی بھی ہمراہ ہوتے تھے۔

    روزانہ پہرہ چوکی پر بائیس سوار آدمی مختلف فرقے کے ملازم تھے، ان میں دو سوار بھی تھے۔

    دربار سواری کی بھی شان تھی۔ امرا درِ دولت سے رخصت ہوجاتے تھے۔ نو بجے صبح کو چائے پانی ہوتا تھا۔ کرسی نشین امرا، مقربانِ خاص، صمصام الدولہ مرزا ہجّو، مرزا محمد تقی خاں ہوس پہلو میں، مکلوڈ صاحب، ڈاکٹر لا صاحب خاص کرسی کی پشت پر بیٹھتے تھے۔ میر انشاء اللہ خاں، میر ابوالقاسم خاں، سراج الدّولہ، معززین، خواجہ سرا باریابِ سلام ہوتے تھے۔

    سلام کا قاعدہ یہ تھا کہ مِردھا پہلے عرض خدمت کرتا تھا۔ پھر عرض بیگی اپنے سامنے پیش کرکے ادب قاعدے سے سلام کراتا تھا۔ اس میں بہت دیر موقع محل دیکھنے میں ہوجاتی تھی۔ ایک دربار وقت خاصے کے ہوتا تھا، جس میں مقربانِ خاص، اردلی و نواب جلال الدّولہ، مہدی علی خاں، رُکن الدّولہ، نواب محمد حسن خاں شریکِ خاصہ ہوتے تھے۔ اس کے بعد حضور محل میں تشریف لے جاتے تھے۔

    بارہ بجے برآمد ہوتے، کچہری فرماتے تھے۔ کاغذات ملاحظہ ہوتے تھے۔ نواب نصیر الدّولہ تمام رپورٹیں ایک بند لفافے میں رکھ کر پیش کرتے تھے۔ نواب شمس الدّولہ بھی کاغذات بند لفافے میں پیش کرتے تھے اور آپ علاحدہ کمرے میں حاضر رہتے تھے۔ اِسی طرح نواب منتظمُ الدّولہ مہدی علی خاں، وزیر راجا دیا کرشن رائے رتن چند صاحب، اخبار رائے رام اخبار نویس، خفیہ منشی رونق علی، منشی دانش علی اپنے اپنے لفافے میز پر رکھ کر علاحدہ کمرے میں بیٹھتے تھے۔ استفسار کے لیے بلائے جاتے تھے۔

    جنابِ عالی لفافے ملاحظہ فرماکر ضروری کاغذات پر دستخط فرماتے تھے اور جو ناقابلِ داخلِ دفتر ہوتے تھے وہ طشتِ آب میں ڈال دیے جاتے تھے، اِن کا ایک ایک حرف دھو ڈالا جاتا تھا۔ جس کاغذ پر مہرِ خاص کرنا ہوتی تھی، ظفر الدّولہ سامنے حضور کے مہر کرتے تھے۔ جو کاغذ باقی رہ جاتے تھے، رات کو ملاحظہ فرماتے تھے۔ پرچہ اخبار ہر وقت گزر سکتا تھا۔ بعد دستخط تمام کاغذ ہر دفتر میں بھجوادیے جاتے تھے۔ اُسی روز تمام احکام جاری ہوتے تھے۔

    وقت شام دو اسپہ گاڑی پر سوار ہوکر ہوا خوری کو نکلتے تھے۔ جلوس سواری میں راجا بختاور سنگھ کا رسالہ تُرک سواران ہمراہ ہوتا تھا۔ کبھی تامدان پر تشریف فرما ہوتے تھے۔ اکثر گنج میں جاکر نرخ غلّہ کا دریافت کرتے تھے کہ رعایا کو گرانیِ غلّہ سے تکلیف نہ ہو۔ بقّال اس خوف سے اناج مہنگا نہیں کرسکتے تھے۔ اُس وقت دو پیسے سیر آٹا بکتا تھا۔

    (خواجہ عبدالرؤوف عشرتؔ لکھنوی کے مضمون لکھنؤ کا عہد شاہی سے لیا گیا)

  • چین کے مشہور شاہی خاندان

    چین کے مشہور شاہی خاندان

    دنیا کے بعض خطّے جہاں اپنی قدیم تہذیب اور ثقافت کے لیے مشہور ہیں، وہیں کئی سلطنتوں کے شاہی خاندان اور ان کا طرزِ حکومت بھی تاریخ کے صفحات میں زندہ ہے۔

    اگر ہم اپنے پڑوسی ملک چین کی بات کریں تو ہمیں یہاں بادشاہت کے مختلف ادوار اور تمدن و ثقافت کی طویل تاریخ پڑھنے کو ملے گی۔ موجودہ نظام اور مخصوص طرزِ حکومت سے پہلے چین پر مختلف ادوار میں‌ بادشاہت قائم رہی ہے۔

    صدیوں تک یہاں کے باشندوں اور ان کی نسلوں نے شاہانِ وقت سے وفاداری نبھائی، اور شاہی خاندانوں سے وابستہ معززین، امرائے سلطنت اور خاص درباریوں کی تعظیم و تکریم کی۔ انہی شاہی ادوار میں چین نے ترقی بھی کی اور مختلف شعبوں میں یہاں کے باشندوں نے ہنرمندی اور فن کاری کے نقش بھی یادگار چھوڑے۔

    چین کی تاریخ نہ صرف بہت پرانی ہے بلکہ کئی لحاظ سے منفرد بھی ہے۔یہاں کے ہر شاہی خاندان کی اپنی منفرد خصوصیات اور الگ پہچان رہی ہے۔ ان شاہی ادوار میں چین میں طب و صحت سے لے کر تعمیرات، اور مختلف دیگر شعبوں میں خوب کام ہوا۔

    یہاں ہم چین کی چند اہم اور مشہور بادشاہتوں کا تذکرہ کررہے ہیں جو آپ کی معلومات میں اضافہ اور دل چسپی کا باعث ہوگا۔

    تھانگ شاہی خاندان
    اس بادشاہت کا آغاز 618ء سے ہوتا ہے اور یہ 907ء تک قائم رہتی ہے۔ تھانگ شاہی خاندان کے زمانے کو چین کی جاگیردارانہ تاریخ کا سب سے ترقی یافتہ دور بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ اس دور کی ایک خاص بات چین میں فنِ تعمیر کا فروغ ہے۔

    سونگ شاہی خاندان
    چین کی تاریخ میں سونگ شاہی خاندان کا تذکرہ بھی ملتا ہے جن کا دور 960ء سے 1279ء تک رہا۔ تہذیب و ثقافت سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شاہی خاندان سیاسی اور عسکری لحاظ سے نسبتاً کم زور تھا۔ تاہم اس دور چینی معیشت کے علاوہ ہنر و فنون میں خاصی ترقی ہوئی۔

    یوان بادشاہت
    یہ منگول قوم سے تعلق رکھنے والا خاندان تھا جس نے چین پر حکم رانی کی۔ اس کی بادشاہت 1206ء سے 1368ء تک قائم رہی۔

    مینگ شاہی دور
    مینگ شاہی دور کو فنِ تعمیر کے لحاظ سے قابلِ ذکر سمجھا جاتا ہے۔ مینگ بادشاہت 1368ء سے 1644ء تک قائم رہی۔

    چھینگ شاہی خاندان
    1644ء سے 1911ء تک چین پر چھینگ شاہی خاندان نے راج کیا۔ اس خاندان کو چین کی تاریخ کا آخری جاگیردار خاندان کہا جاتا ہے۔