Tag: مشہور بالی ووڈ اداکار

  • فلمی ستارے جو موافق پتھر پہننے پر یقین رکھتے ہیں

    فلمی ستارے جو موافق پتھر پہننے پر یقین رکھتے ہیں

    صدیوں سے انسان ایسے پُراسرار، خوف زدہ کر دینے والے، عجیب و غریب اور انوکھے واقعات کا سامنا کرتا آیا ہے جو ماورائے عقل اور اس کے لیے ناقابلِ فہم ثابت ہوئے۔

    انسانوں نے اپنے علم، طاقت اور وسائل کے زور پر ان واقعات کی حقیقت جاننے کی جستجو اور کوشش کی، لیکن ناکام رہے اور تب انھوں نے مختلف روحانی قوتوں اور اشیا پر بھروسا کرنا شروع کیا اور ان کا یہ خیال اور عقیدہ رہا کہ وہ ان کی حفاظت کریں گی۔

    قیمتی اور خوش رنگ پتھروں کو جہاں انسان نے سجاوٹ اور تزئین و آرائش کے لیے استعمال کیا، وہیں انسان یہ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ بعض پتھر عزت، دولت، شہرت، محبت اور کام یاب زندگی کے حصول میں مدد دیتے ہیں، یہ پتھر روحانی سکون اور صحت و تن درستی برقرار رکھنے کے لیے پہنے جاتے ہیں۔ مشہور ہے کہ بعض پتھر انسان کی زندگی پر روحانی اور طبیعی اثرات مرتب کرتے ہیں اور یہ کسی کی خوش بختی کی علامت ہوسکتے ہیں۔

    پتھروں اور نگینوں کی خاصیت اور انسانی زندگی اور شخصیت پر ان کے اثرات پر عام لوگ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مشہور اور نہایت قابل و باصلاحیت لوگ بھی یقین رکھتے ہیں۔ ان میں بالی وڈ اسٹارز بھی شامل ہیں۔

    یہاں‌ ہم ہندی فلموں کے ان سپراسٹارز کا ذکر کررہے ہیں جن کی نظر میں موافق پتھر پہننا خوش قسمتی اور کام یابی کی ضمانت ہے۔

    بولی وڈ فلموں کے سپر اسٹار سلمان خان قیمتی فیروزی پتھر پہنتے ہیں جو ایک بریسلٹ کی شکل میں ان کے والد نے انھیں تحفے میں دیا تھا۔ سلمان خان کو یقین ہے کہ یہ پتھر انھیں نظرِبد سے محفوظ رکھتا ہے۔

    بگ باس امیتابھ بچن بھی قیمتی پتھر پہننے پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے لیے نیلم موافق پتھر ہے، وہ اسے اپنا ’لکی چارم‘ تصور کرتے ہیں۔ نام ور موسیقار اے آر رحمان اور اداکارہ ایشوریہ رائے بھی نیلم پتھر پہنتے ہیں۔

    کرینہ کپور نے ہندی سنیما کو کئی کام یاب فلمیں دی ہیں اور شاید ان کی ان کام یابیوں کے پیچھے یہ قیمتی پتھر ہیں‌ جو اکثر ان کی انگوٹھی یا بریسلٹ میں جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کرینا مونگا یا ساحلی مرجان اور اکثر موتی پہنتی ہیں۔

    اجے دیوگن کا نام بھی بالی وڈ کے ان اداکاروں میں شامل ہے جنھیں قیمتی پتھر پہننے کا شوق ہے، وہ اکثر پکھراج اور موتی پہنتے ہیں۔

    ایکتا کپور چھوٹی اسکرین پر راج کرنے والی پروڈیوسر اور رائٹر ہیں اور فلمی صنعت میں انھیں ان کے کام کی وجہ سے بہت شہرت اور پہچان ملی اور شاید اس کا سبب وہ پتھر ہیں‌ جنھیں ایکتا کپور نے اپنی انگلیوں میں خوش بختی اور کام یابی کے حصول کی نیّت سے سجایا تھا۔ ایکتا کپور کوئی ایک پتھر نہیں پہنتیں بلکہ‌ ان کی انگلیوں‌ میں‌ بیک وقت ہیرا، مونگا، زمرد اور پکھراج دیکھا جاسکتا ہے۔

  • الف سے ایکسٹرا

    الف سے ایکسٹرا

    الف سے ایکسٹرا ہوتا ہے اور ہوتی بھی ہے۔ یعنی ایکسٹرا مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی۔

    فلم میں جب کسی گلی محلے یا بازار کا سین دکھایا جاتا ہے تو اس میں چلنے پھرنے والے لوگوں کی اکثریت ایکسٹرا ہوتی ہے۔ وہ پان بیچنے والا ایکسٹرا ہے اور وہ جو دکان پر کھڑا ہو کر "ایک پونا کالا کانڈی” پان کی فرمائش کر رہا ہے وہ بھی ایکسٹرا ہے۔

    بادشاہ کے درباری ایکسٹرا ہوتے ہیں۔ وہ دربان جو لال رنگ کا چوغا پہنے سنہرے رنگ کی موٹھ والی چھتری ہاتھ میں لیے بادشاہ کے آگے چل رہا ہے اور بلند بانگ لہجے میں چلا رہا ہے: "باادب باملاحظہ ہوشیار” وہ بھی ایکسٹرا ہے۔

    کبھی کبھی بادشاہ بھی ایکسٹرا ہوتے ہیں۔ جیسے وہ آج کل اکثر ملکوں میں ہوتے ہیں۔ یعنی سنہری وردی پہنے تخت پر بیٹھے ہیں۔ مگر مجال نہیں کہ اپنی مرضی سے اپنے جوتے کا تسمہ بھی کھول سکیں۔

    مجھے آج کل کے بادشاہوں اور فلم کے ایکسٹرا لوگوں کو دیکھ کر بڑی ہم دردی ہوتی ہے مگر دراصل یہ لوگ کسی ہم دردی کے محتاج نہیں ہیں۔

    فلم کے ایکسٹرا فلمی دنیا میں سب سے کم کماتے ہیں۔ مہینے میں کسی کو پانچ دن تو کسی کو دس دن کام ملتا ہے۔ باقی دن یہ مانگے تانگے سے کس طرح چلاتے ہیں، بھگوان ہی بہتر جانتا ہے مگر پھر بھی یہ فلمی دنیا سے الگ نہیں ہو سکتے۔ کسی قیمت پر الگ نہیں ہو سکتے۔ اگر یقین نہ آئے تو کسی فلمی ایکسٹرا کو جو مہینے میں بڑی مشکل سے پچیس روپے کماتا ہے، پچاس روپے کی دربانی پیش کر کے دیکھ لیجیے۔ وہ ٹھوکر مار دے گا۔ کام کو بھی اور آپ کو بھی۔

    اسے فلمی دنیا میں پانچ دن کام کر کے باقی پچیس دن بھوکا مرنا منظور ہے، مگر وہ کوئی اور کام نہیں کر سکتا۔

    دراصل یہ ایکسٹرا وہ لوگ ہوتے ہیں، جو ہیرو یا ہیروئین بننے کی خواہش میں ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھر چھوڑ کر اپنے ماں باپ، بھائی بہن، خاوند، بیوی بچے سب چھوڑ کر بمبئی چلے آتے ہیں اور بھیڑوں کی طرح ایک سیٹ سے دوسرے سیٹ پر دھکیلے جاتے ہیں۔

    ان میں سے ہر مرد یا عورت کی آنکھوں میں ایک خواب بستا ہے۔ کبھی وہ ہیرو یا ہیروئین بن جائیں گے۔ اور بدقسمتی سے فلمی دنیا میں چند ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کبھی ایک ایکسٹرا دو سال تک ایکسٹرا رہا پھر اچانک ہیرو بن گیا۔ ایک لڑکی جو پانچ سال تک ایکسٹرا رہی اچانک ہیروئین بن گئی۔ اور امپالا میں بیٹھ گئی۔ اس لیے یہ خواب کسی ایکسٹرا کی آنکھوں سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔

    (ممتاز ادیب اور افسانہ نگار کرشن چندر کے مضمون الف سے ایکٹر، ایکٹریس، اشتہار: فلمی قاعدہ سے انتخاب)