Tag: مشہور بحری جنگیں

  • بحری سفر کے دوران پُراسرار بیماری سے اموات

    بحری سفر کے دوران پُراسرار بیماری سے اموات

    آج دنیائے طبّ و سائنس میں‌ ترقّی اور علوم و تحقیق کی بدولت ماہرین جن عام بیماریوں اور مہلک امراض کا بھی علاج کرنے کے قابل ہوچکے ہیں، وہیں‌ ان کی جانب سے صحّت بخش اور متوازن غذا کی اہمیت پر بھی زور دیا جا رہا ہے، لیکن صدیوں پہلے اس لاعلمی کے سبب انسان مختلف بیماریوں کا آسانی سے شکار ہو جاتے اور موت کے منہ میں‌ چلے جاتے تھے۔ کوئی نہیں‌ جان پاتا تھا کہ کسی کی موت کا سبب کیا ہے۔

    خاص طور پر کئی روزہ بحری سفر اور سمندری مہمّات کے دوران لوگ ایسی مصیبت میں گرفتار ہوجاتے جس میں‌ ان کے مسوڑھوں سے خون رِستا، دانت گرنے لگتے، بخار اور یرقان ہوجاتا، وہ حرکت کرنے سے محروم ہوجاتے اور یوں اپنی جان سے جاتے۔ ایک اندازے کے مطابق سولہویں اور اٹھارہویں صدی کے درمیان بحری سفر میں‌ اس حالت میں لگ بھگ بیس لاکھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

    1747ء میں ایک طبّی محقق جو ڈاکٹر جیمز کے نام سے مشہور تھا، اس نے دریافت کیا کہ بحری سفر کے دوران چوں کہ باقاعدہ اور مناسب و ضروری غذا میّسر نہیں‌ آتی، اس لیے لوگوں میں‌ یہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ تازہ پھل اور سبزیاں مسافروں کی خوراک میں شامل نہ ہونا انھیں جسمانی تکالیف میں مبتلا کر دیتا ہے اور بعد میں‌ ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    ڈاکٹر جیمز کی اس تحقیق اور دریافت کو کئی برس بعد اسی کے ایک ہم نام، کیپٹن جیمز کُک نے اپنے تجربے سے درست ثابت کردیا۔ وہ ایک مہم جو اور جہاز راں تھا جس نے برطانوی بحریہ میں کپتان کے عہدے پر رہتے ہوئے متعدد بحری سفر کیے۔

    اس برطانوی کپتان نے اپنی تاہیتی اور آسٹریلیا کی سمندری مہم کے دوران عملے کے اراکین اور دیگر سواروں کے لیے کھانے میں تازہ پھلوں‌ اور سبزیوں کا استعمال یقینی بنایا اور جب یہ مشن واپس پہنچا تو ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جو کسی ایسی پُراسرار بیماری کا شکار ہوا ہو۔

    برطانوی تاریخ میں‌ جیمر کُک کا نام ایک قابل اور باصلاحیت شخص کے طور پر درج ہے جس نے کپتان کی حیثیت سے مہمات کو کام یاب ہی نہیں‌ بنایا بلکہ بحری سفر کی اُس پُراسرار بیماری پر قابو پانے کے ساتھ‌ اس وقت کے لوگوں کے لیے اہم طبّی معلومات بھی فراہم کیں جس کے بعد برطانیہ نے مزید اور کئی روزہ سمندری مہمّات کے ذریعے مختلف نوعیت کی کام یابیاں اپنے نام کیں۔

  • طاقت اور شان و شوکت جو 20 منٹ میں ماضی بن گئی

    طاقت اور شان و شوکت جو 20 منٹ میں ماضی بن گئی

    اگر آپ سوئیڈن کی تاریخ پڑھیں تو اس میں گستاف دوم ایڈولف کے باب میں آپ "واسا” کے بارے میں بھی پڑھیں‌ گے جو خلیج اسٹاک ہوم میں‌ غرقاب بحری جنگی جہاز ہے۔ یہ 1628ء کی بات ہے۔

    تین صدی قبل سوئیڈن پر گستاف دوم ایڈولف کی بادشاہت قائم تھی۔ وہ 17 سال کا تھا جب تخت سنبھالا اور تاج اپنے سَر پر سجایا۔

    واسا، وہ بحری جنگی جہاز ہے جسے اس بادشاہ کے حکم پر تیّار کیا گیا تھا۔ اس وقت کے دست یاب وسائل کے ساتھ انجینئر اور کاری گروں نے یہ کام انجام کو پہنچایا۔ تاریخی کتب میں‌ لکھا ہے کہ واسا اس زمانے میں دنیا کا جدید جنگی بحری جہاز تھا۔

    خلیج اسٹاک ہوم پر آخری بار اس جہاز کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والو‌ں کو اس کے بارے میں‌ جو معلومات تھیں، ان کے مطابق بحری جہاز کی لمبائی 68 میٹر ہے، اس پر 64 توپیں نصب ہیں اور یہ دو عرشوں والا ایسا بحری جہاز ہے جس کے دونوں عرشوں پر توپیں نصب کی گئی ہیں۔

    یقیناً یہ مضبوط اور پائیدار بھی ہو گا اور اس کی تیّاری میں‌ خاص لکڑی اور دھات استعمال کی گئی ہو گی تاکہ کئی سال تک یہ سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے دفاع و فتوحات میں مدد دے سکے، لیکن واسا اپنے پہلے سفر کے اوّلین 20 منٹوں ہی میں ڈوب گیا۔ اس جنگی جہاز پر 30 افراد سوار تھے۔ 1961ء میں‌ جب اس کے ملبے تک انسان پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کی 98 فی صد لکڑی اچھی حالت میں‌ تھی۔ یعنی سیکڑوں سال بعد بھی جہاز کی لکڑی خراب نہیں‌ ہوئی تھی۔

    واسا کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ وہ تہِ آب جا سویا۔ کہتے ہیں اس حوالے سے ابتدائی تحقیق اور حالیہ برسوں کے دوران جو سمجھا جاسکا وہ یہ ہے کہ اسے تیز ہوا نے ایک طرف جھکا دیا تھا اور اس پر نصب توپوں کا منہ باہر نکالنے کے لیے جو خانے بنائے گئے تھے، ان سے جہاز کے مسلسل جھکے رہنے سے پانی تیزی سے اندر داخل ہوگیا اور یوں‌ جہاز کا توازن بری طرح بگڑ گیا۔ یوں واسا اپنے عرشے پر سوار افراد کو بھی ساتھ لے ڈوبا۔

    اس بدقسمت جہاز کا پہلا سفر اور اسے ساحل سے شان و شوکت کے ساتھ بڑھتا ہوا دیکھنے کے لیے جو لوگ بندرگاہ پر جمع تھے، ابھی ان کی اکثریت اپنی جگہ سے ہٹی بھی نہ‌ تھی کہ اسے یہ حادثہ پیش آگیا۔

    بعض مؤرخین نے بحری جہاز کے ڈیزائن کی خرابی کو اس کے ڈوبنے کا سبب بتایا ہے جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ اس پر توپیں‌ نصب کرنے میں‌ انجینئروں سے غلطی ہوئی تھی اور سفر کے دوران انہی توپوں کی وجہ سے جہاز ایک جانب جھک گیا تھا۔

  • کنستانس دوم کا خواب اور تھیسالونیکی

    کنستانس دوم کا خواب اور تھیسالونیکی

    جنگِ مستول (Battle of the Masts) وہ بحری جنگ تھی جس میں‌ مسلمانوں نے رومیوں کو بدترین شکست دی۔

    اس جنگ میں‌ مسلمانوں کی قیادت مصر کے صوبہ دار حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح‎ جب کہ بازنطینی سلطنت کے بحری بیڑے کی قیادت خود حاکمِ وقت کنستانس دوم کررہا تھا۔

    655 عیسوی میں ایک جانب مسلمانوں‌ نے زمین کے راستے بازنطینی سلطنت کی طرف پیش قدمی شروع کی اور دوسری جانب حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح‎ بحیرہ روم کے راستے بحری فوج کو لے کر روانہ ہوئے۔

    کنستانس دوم نے اپنے عسکری ماہرین اور مشیروں سے صلاح مشورے کے بعد حکم دیا کہ پہلے سمندر کے راستے آنے والے مسلمانوں سے جنگ کی جائے اور بازنطینی بحری فوج کی قیادت وہ خود کرے گا۔

    تاریخ کے اوراق میں‌ اس حوالے سے ایک قصّہ محفوظ ہے جس کے مطابق اس جنگ سے قبل کنستانس دوم نے ایک خواب دیکھا تھا جس میں اس نے خود کو تھیسالونیکی (Thessaloniki) میں پایا جو یونان کا حصّہ ہے۔ بیدار ہونے پر جب اسے وہ خواب یاد آیا تو اس نے اس کی تعبیر جاننا ضروری سمجھا اور مختلف سماوی علوم اور نجوم کے ماہر کو طلب کیا۔ اس نے اپنے بادشاہ کو عجیب بات کہی اور ایک ایسے خدشے کا اظہار کیا جو گویا کنستانس دوم کے اعصاب پر سوار ہوگیا۔

    بادشاہ کا خواب سن کر تعبیر بتانے والے نے سب سے پہلے کہا، "اے شہنشاہ! کاش کہ آپ اس رات سوئے ہی نہ ہوتے تو یہ خواب بھی نہ دیکھتے۔” بادشاہ کے استفسار پر اس نے بتایا کہ جیت مسلمانوں کی ہو گی۔ دراصل لفظ تھیسالونیکی کو جب توڑ کر لکھا جائے یعنی "تھیس-الو- نیکی” تو اس کا مطلب "دوسرے کو جیت دینا” بنتا تھا۔

    مسلمان اور بازنطینی بحریہ کے مابین یہ جنگ ليكيا کے ساحل پر ہوئی اور کہتے ہیں کہ جنگ کے آغاز پر دونوں کے بحری بیڑے اتنے قریب تھے کہ ان کے مستول آپس میں ٹکرا رہے تھے۔ رومیوں کو مسلمانوں‌ کی فوج نے بھاری نقصان پہنچایا اور سمندری جہاز پر موجود قیصر کنستانس دوم کو اپنی جان بچانا مشکل نظر آنے لگا۔

    مشہور ہے کہ کنستانس دوم نے اپنے کسی افسر سے وردی کا تبادلہ کیا اور وہاں سے نکل گیا۔

    جنگِ مستول میں‌ جہاں‌ رومیوں‌ کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا اور شکست ان کا مقدر بنی، وہیں‌ سمندری حدود پر مسلمانوں کی برتری بھی قائم ہوگئی۔